عبید اللہ شمیم قاسمی
قوتو ں، صلاحیتوں، حوصلوں، اُمنگوں، جفا کشی، بلند پروازی اور عزائم کا دوسرا نام نوجوانی ہے۔ کسی بھی قوم وملک کی کامیابی وناکامی، فتح و شکست، ترقی وتنزلى اور عروج وزوال میں نوجوانوں کا اہم کردار ہوتا ہے۔ ہر انقلاب چاہے وہ سیاسی ہو یا اقتصادی، معاشرتی سطح کا ہو یا ملکی سطح کا، سائنسی میدان ہو یا اطلاعاتی ونشریاتی میدان، غرض سبھی میدانوں میں نوجوانوں کا کردار نہایت ہی اہم اور کلیدی ہوتا ہے۔ ماضی میں بھی جیسا کہ تاریخ سے ثابت ہے ہر چھوٹی بڑی تبدیلی نوجوانوں ہی کے ذریعے آئی ہے۔ زمانہ حال میں بھی نوجوان ہی پیش پیش ہیں۔ مستقبل میں بھی ہر قوم وملک انھی پر اپنی نگاہیں اور توجہ مرکوز کیے ہوئے ہے۔
نوجوان كسى بھى قوم کا قیمتی سرمایہ ہوتے ہیں، معاشرے میں نوجوانوں کا کردار انتہائی اہم ہوتا ہے، اپنے معاشرے کا مغز ہوتے ہیں۔اپنے سماج کا آئینہ ہوتے ہیں اور سوسائٹی کا عظیم اثاثہ ہوتے ہیں۔ معاشرے کی نشونما، معاشرے کی بقا اس کی صلاح و فلاح، اس کا مستقبل انہیں کے دامن سے وابستہ ہوتا ہے۔ نوجوان ايک اچھے اور طاقتور معاشرے کے معمار بھی بن سکتے ہیں اور اس کو مسمار بھی کرسکتے ہیں۔ اگر نوجوان کا ذہن گمراہ ہوگیا تو سارا معاشرہ گمراہ ہوجائے گا۔اگر نوجوان کا ذہن روشن نہ ہوا تو معاشرے کا دماغ کبھی روشن نہ ہوسکے گا۔ اگر نوجوان کا کردار غلط ہوا تو قوم کا کردار بھی صحیح نہیں ہوسکتا، معاشرے کی ذہنی نشونما اور فکری ارتقا کا دارومدار نوجوانوں پر ہے۔
قرآن مجید اصحاب کہف کے حوالے سے نوجوانوں کا کردر اس طرح سے بیان کرتا ہے: {نَحْنُ نَقُصُّ عَلَيْكَ نَبَأَهُمْ بِالْحَقِّ إِنَّهُمْ فِتْيَةٌ آمَنُوا بِرَبِّهِمْ وَزِدْنَاهُمْ هُدًى} [الكهف: 13] ’’ہم ان کا اصل قصہ تمھیں سناتے ہیں، وہ چند نوجوان تھے جو اپنے رب پر ایمان لے آئے تھے اور ہم نے ان کو ہدایت میں ترقی بخشی تھی‘‘۔
یہ وہ نوجوان تھے جنھوں نے وقت کے ظالم حکمراں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر رب العالمین پر ایمان لا کر حق پرستی کاا علان کیا۔
اللہ تعالیٰ ان کے عزائم وحوصلے اور غیر متزلزل ایمان اور ان کے عالم گیر اعلان کے بارے میں اس طرح فرماتا ہے: {وَرَبَطْنَا عَلَى قُلُوبِهِمْ إِذْ قَامُوا فَقَالُوا رَبُّنَا رَبُّ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ لَنْ نَدْعُوَ مِنْ دُونِهِ إِلَهًا لَقَدْ قُلْنَا إِذًا شَطَطًا} [الكهف: 14]’’ہم نے ان کے دل اس وقت مضبوط کر دیے جب وہ اٹھے اور انھوں نے یہ اعلان کر دیا کہ ہمارا رب بس وہی ہے جو آسمانوں ور زمین کا رب ہے، ہم اسے چھوڑ کر کسی دوسرے معبود کو نہ پکاریں گے۔ اگر ہم ایسا کریں تو بالکل بے جا بات کریں گے‘‘۔
ان چند نوجوانوں نے اپنے زمانے میں جو کردار ادا کیا وہ تمام نوجوانوں کے لیے نمونۂ عمل ہے۔ اسی طرح سے قرآن مجید نے حضرت موسٰی علیہ السلام پر ایمان لانے والے چند نوجوانوں کا تذکرہ کیا۔ حضرت موسٰی ؑ کو قوم نے ہر طرح سے جھٹلایا لیکن وہ چند نوجوان ہی تھے جنھوں نے کٹھن حالات میں حضرت موسٰی علیہ السلام کی نبوت پر ایمان کا اعلان کیا۔ اللہ تعا لیٰ کا ارشاد ہے: {فَمَا آمَنَ لِمُوسَى إِلَّا ذُرِّيَّةٌ مِنْ قَوْمِهِ عَلَى خَوْفٍ مِنْ فِرْعَوْنَ وَمَلَئِهِمْ أَنْ يَفْتِنَهُمْ وَإِنَّ فِرْعَوْنَ لَعَالٍ فِي الْأَرْضِ وَإِنَّهُ لَمِنَ الْمُسْرِفِينَ} [يونس: 83]’’موسٰی علیہ السلام کو اسی قوم میں سے چند نوجوانوں کے سوا کسی نے نہ مانا، فرعون کے ڈر سے اور خود اپنی قوم کے سربراہ لوگوں کے ڈر سے کہ فرعون ان کو عذاب میں مبتلا کرے گا، بلا شبہ فرعون زمين ميں تكبر كرنے والا اور حد سے تجاوز كرنے والا تھا‘‘ ۔
"ذُرِّيَّةٌ مِنْ قَوْمِه" كی تفسيرعلامہ آلوسى وغيره نے شباب سے كى ہے، يعنى چند نوجوان ايمان لے آئے۔
ہر جماعت اپنے خوابوں کو شرمندہ تعبیر کرنے کے لیے نوجوانوں کے تعاون کی محتاج ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر جماعت کی کوشش ہوتی ہے کہ اسے نوجوانوں کی زیادہ سے زیادہ حمایت حاصل ہو، کیوں کہ کسی بھی ملک، قوم یا معاشرے میں حقیقی اور مثبت تبدیلی نوجوان ہی لاسکتے ہیں، جب نوجوان مخلص ہوکر اپنے ملک و قوم کے لیے محنت اور جدوجہد کرنے لگتے ہیں تو مثبت تبدیلی، ترقی اور بہتری کو کوئی نہیں روک سکتا، کامیابی ان کے قدموں کی دھول ضرور بنتی ہے۔ نوجوان ہی وہ قوت ہیں، جو اگر ارادہ کرلیں تو ملک کی باگ ڈور سنبھال کر ملک کو اوج ثریا پر پہنچا کر دم لیتے ہیں۔ کامرانی ان اقوام کی قدم بوسی کرتی ہے جن کے نوجوان مشکلات سے لڑنے کا ہنر جانتے ہیں۔ خوش حالی ان اقوام کے گلے لگتی ہے، جن کے نوجوانوں کے عزائم آسمان کو چھوتے ہیں۔
ترقی ان اقوام کا مقدر بنتی ہے،جن کے نوجوانوں میں آگے بڑھنے کی لگن اور تڑپ ہوتی ہے۔ اگر نسل نو قومی مفادات کو ذاتی مفادات پر ترجیح دیتے ہوئے تعمیر ملت کی راہ میں آنے والی ہر رکاوٹ کے سامنے سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن جائیں اور ملک میں ہر برائی کو اچھائی میں تبدیل کرنے کی ٹھان لیں، تو یقین کیجیے کہ تعمیر قوم کی راہ میں آنے والی ہر رکاوٹ دریا میں تنکے کی طرح بہہ جائے۔ اس بات میں شک کی گنجائش نہیں کہ نسل نو ہی خواہ کوئی بھی میدان ہو اس میں مثبت تبدیلی لانے کی بھرپور صلاحیت رکھتی ہے۔
دورِ حاضر ميں نوجوانوں كو كئى دشوارياں پيش آئى ہيں، ان مسائل كا حل كرنا بہت ضرورى ہے، تعليم وتربيت ان مسائل ميں سرفہرست ہے، نوجوانوں كى تعليم وتربيت ميں تعليمى ادارے نہايت اہم كردار ادا كرتے ہيں، تعليمى اداروں کی انتظامیہ کو یہ بات ذہن نشین رکھ لینی چاہیے کہ جب نوجوان نظریاتی انتشار و خلل کا شکار ہوتے ہیں تو یہ تباہی و بدنامی صرف اداروں کے ماتھے پر کلنک کا ٹیکہ نہیں بنتی بلکہ جب نوجوان اس چھوٹے معاشرے سے نکل کر بڑے معاشرے میں قدم رکھتے ہیں تو غلام ذہن ابھر کر سامنے آتے ہیں۔ جب ذہن ایک بار غلامی قبول کر لے تو ملک و قوم کو تباہی سے کوئی نہیں بچا سکتا اور ایسی ہی قومیں زوال کا جلد شکار ہوتی ہیں جن میں تعمیری ذہن تخریب کی اساس بننے لگیں۔ علمی احیا اور آزادانہ فکری ماحول ہی تعلیمی اداروں کی بقا کا ضامن ہے۔
اس حوالے سے سب سے بنیادی چیز بہترین تعلیم کا حصول ہے، بہترین تعلیم کا مطلب مہنگے اور مشہور تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل کرنا نہیں ہے بلکہ اپنے وسائل اور استعداد کے مطابق آپ جہاں بھی تعلیم حاصل کررہے ہوں آپ کا ایک ایک لمحہ سیکھنے کے عمل میں استعمال ہو۔ اس لئے اس وقت کو ضائع نہ ہونے دیں۔ زیادہ سے زیادہ علم حاصل کرنے کی کوشش کریں۔ ایسا علم جو آپ کو بہترین مسلمان اور اچھا انسان بناۓ اور آپ کی صلاحیتوں کو ابھارنے میں معاون ثابت ہو۔ اگر آپ میں لکھنے، پڑھنے، بولنے اور سمجھنے کی بہترین استعداد ہوگی تب ہی آپ مختلف اداروں یا معاملات میں اپنا کردار بہتر طور پہ ادا کر سکیں گے۔
تعلیم ایک ایسا ہتھیار ہے جس كے ذريعے بے روز گارى، جہالت،ناانصافی اور ظلم کا خاتمہ کر کے دنیا کو امن کا گہوارہ بنايا جاسكتا ہے. دنیا کی ترقی یافتہ قومیں اپنے ملک و معاشرے کی ترقی، استحکام اور امن کے قیام کےلئے اپنے نوجوانوں کی تعلیم و تربیت پر خاص توجہ دیتی ہیں، اور ان کے مسائل کے حل کے لئے خصوصی اقدامات کرتى ہے، کیونکہ اگر نوجوان صحيح راستہ سے ہٹ جائیں تو معاشرہ عدم استحکام کا شکار ہو جاتا ہے۔
وحی الٰہی سے دُوری اور نوجوان
اس وقت امت کے نوجوانوں میں سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ وہ تعلیماتِ الہی سے نابلد اور دوری اختیار کیے ہوئے ہیں۔نوجوان طبقہ عموماً قرآن مجید کو ایک رسمی اور مذہبی کتاب سمجھتا ہے۔ اس کتاب کے متعلق ان کا تصور یہ ہے کہ اس کے ساتھ اگر تعلق قائم بھی کر لیا جائے تو زیادہ سے زیادہ تلاوت ہی تک محدود رہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ یہ کتاب زمانہ حال کے چیلنجوں کا مقابلہ کرنے کی اہلیت اور صلاحیت نہیں رکھتی ہے ۔حقیقت یہ ہے کہ قرآن مجید کتاب انقلا ب ہے۔ یہ عصر حاضر کے چیلنجوں کا نہ صرف مقابلہ کرنے کی اہلیت رکھتی ہے بلکہ تمام مسائل کاحل بھی فراہم کرتی ہے۔ قرآن جہاں انسان کو آفاق کی سیر کراتا ہے وہیں یہ ہمیں انفس کی ماہیئت وحقیقت سے بھی روشناس کراتا ہے۔ جہاں عبادت کے بارے میں رہنمائی کرتا ہے وہیں سیاسی معاملات کے لیے بھی رہنما اصول بیان کرتا ہے۔ جہاں اخلاقی تعلیمات کے بارے میں ہدایات دیتا ہے وہیں یہ اقتصادی نظام کے لیے بھی ٹھوس بنیادیں فراہم کرتا ہے۔ یہ جہاں حلال وحرام کے درمیان تمیز سکھاتا ہے وہیں یہ حق وباطل کے در میان فرق کرنے کی صلاحیت بھی پیدا کرتا ہے۔ نوجوان اس کتاب انقلاب کے بغیر حقیقی کامیابی حاصل نہیں کر سکتے۔ لہٰذا اسی کتاب کو کا میابی اور نجات کا واحد ذریعہ سمجھنا چاہیے۔
مسلم نوجوان ذاتی کردار کے حوالے سے بے داغ، عفیف وپاک دامن ہونا چاہیے، ان کا یقین و ایمان پختہ اور اس کے اخلاق و اعمال کا معیار اعلی ہو، وہ عزم بلند اور فکر ارجمند کا مالک ہو، وہ گھر میں محبت کی زبان اور معاشرے میں اخوت کا بیان ہو، اس کا جذبہ وارادہ، اس کا عزم وحوصلہ اور اس کا ولولہ و ہمت بہت عظیم ہو۔ وہ بیک وقت جلال وجمال، محبت و ہیبت کا جامع ہو، اس کے مقاصد جلیل اور اس کی امیدیں قلیل ہوں، اس کا ماضی درخشاں، حال روشن اور مستقبل پُر امید ہو اور اس کی دمکتی ہوئی پیشانی پر ستارہ اقبال و ہوش مندی ہویدا ہو۔
مسلم نوجوان کے لیے یہ امر نہایت ضروری ہے کہ وہ "چلو ادھر کو ہوا ہو جدھر کو" یعنی زمانہ کے حالات کے مطابق عملی تصویر بننے اور جوش وعاقبت نااندیشی کے گرداب میں محصور ہونے کے بجائے ہوش وتدبر، غور وفکر سے کام لے کر بزرگوں کے تجربات اور مسلم اصولوں کی روشنی میں اپنے اسلامی جذبے کے لیے درست اور صحیح میدانِ عمل متعین کرے۔
صلح حدیبیہ کا واقعہ تو آپ کو یاد ہوگا جب سن سات ہجری میں آپ ﷺ اپنے جانثار صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو لے کر عمرہ کرنے کی نیت سے مکہ مکرمہ سے روانہ ہوئے، مقام حدیبیہ تک پہنچ کر آپ رک گئے، کفار مکہ نے آگے جانے کی اجازت نہیں دی اور ان شرطوں پر صلح کی کہ اس سال عمرے کی اجازت نہ ہوگی، آئندہ سال عمرہ کرسکتے ہیں، نیز اہل مکہ میں سے کوئی مسلمان ہوکر مدینہ چلا جائے تو اس کو واپس کریں گے، لیکن مسلمانوں میں سے کوئی اگر اہل مکہ سے آملے تو کفار اسے واپس نہیں کریں گے، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی تمام شرائط مان کر صلح کرلی۔
آپ ﷺ کے صلح کرنے کے بعد صحابہ کرام کے جذبات کا کیا عالم ہوا ہوگا جو ایمان ونصرت خداوندی پر یقین کامل کے مالک، جن کے دل جذبہ جہاد سے سرشار اور شوق شہادت جن کی متاع زندگی تھا۔ لیکن اطاعت رسول اور قوت ایمانی کا مظاہرہ کرکے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے آئندہ نسلوں کے لیے بالخصوص نوجوان نسل کے لیے اپنے جذبات قابو میں رکھنے اور امیر کے حکم کی تعمیل کا عظیم سبق دیا۔
اسی کے ساتھ ہمیں ملک وملت کے پاسبان ہونے کی حیثیت سے اپنا کردار اس سپاہی کی طرح بنانا ہوگا جس کے ہاتھ فتح مدائن کے وقت قیمتی جوہرات سے مرصع کسری کا تاج زریں آیا، تو وہ اس کو اپنے دامن میں چھپاکر امیر افواج اسلامی حضرت سعد بن وقاص رضی اللہ عنہ کے پاس لاکر عرض کرنے لگا: " أيها الأمير! یہ کوئی بہت قیمتی چیز معلوم ہوتی ہے، یہ میں آپ کے حوالے کر رہا ہوں تاکہ بیت المال میں داخل ہوجاۓ"، مسلمان امیر حیرت میں ڈوب گئے کہ اللہ اکبر! اتنا قیمتی جواہرات سے مرصع تاج اور اس غریب سپاہی کی نیت خراب نہ ہوئی، کہا کہ آپ کا نام؟ اس نے دروازے کی طرف منہ کرکے پیٹھ پھیر کر کہا: جس کے لیے میں نے یہ کام کیا ہے، وہ میرا نام جانتا ہے" یہ کہ کر وہ روانہ ہوگیا۔
اس ليے موجوده حالات ميں ہميں نوجوانوں كى خاص تربيت كرنى ہوگى، اس كے ليے ضرورى ہے كہ دين كى بنيادى ضروريات كا علم ہو، نماز روزه وغيره كے ايسے مسائل سے واقفيت ہو جو ہر مسلمان كے ليے جاننا ضرورى ہے، نوجوانوں كے اندر خدمت خلق كا جذبہ پيدا كرنا ضرورى ہے، اس ليے ضرورت اس بات كى ہے كہ نبی پاک ﷺ كى پاكيزه زندگى كا مطالعه كيا جائے اور آپ كے جانثار صحابہ كرام كى زندگی كو بھى پيش نظر ركھا جائے۔
الله تعالى ہميں دين كى صحيح سمجھ نصيب فرمائے اور اپنى مرضيات پر چلنے كى توفيق مرحمت فرمائے، آمين۔