خلوت اور وقارِ علم کی حفاظت:
میں سمجھتا ہوں کہ عالم کے لئے خلوت سے بہتر نہ کوئی لذت ہے نہ شرف نہ راحت اور نہ سلامتی اور خلوت ہی کے ذریعہ بدن کی اور دین کی سلامتی اور اللہ تعالیٰ اور مخلوق کے نزدیک کوئی مرتبہ حاصل ہوسکتا ہے۔
کیونکہ مخلوق کے نزدیک وہ عالم جو ان سے میل جول رکھتا ہو بے قدر ہو جاتا ہے اور اس کی عزت ان کے دلوں میں کم ہو جاتی ہے اور یہی وجہ ہے خلفاءاسلام کی قدر زیادہ ہونے کی کہ وہ لوگوں سے پوشیدہ رہتے ہیں۔
جب عوام کسی عالم کو دیکھتے ہیں کہ وہ کسی مباح کام میں رخصت پر عمل کر رہاہے تو ان کے نزدیک وہ بے قدر ہو جاتا ہے۔ اس لئے عالم پر اپنے علم کی حفاظت اورعوام کے نزدیک اس کے مرتبہ کوقائم رکھنا ضروری ہے چنانچہ بعض سلف کا قول ہے کہ ہم لوگ مزاح اور ہنسی ٹھٹھاکرتے تھے لیکن جب ہماری اقتداءکی جانے لگی تو اب میں اس کی گنجائش نہیں سمجھتا۔
اور حضرت سفیان ثوری نے فرمایا اس علم دین کو حاصل کرو اور اس کو بند کرکے رکھو اس میں مذاق کی آمیزش نہ کرو ورنہ لوگوں کے دل اس کو اگل دیںگے۔
عام لوگوںکی رعایت کا انکار نہیں کرنا چاہئے۔ کیونکہ حضور اکرم نے حضرت عائشہ سے فرمایا:
لولا حدثان قومک فی الکفر لنقضت الکعبہ وجعلت لھا بابین
”اگر تمہاری قوم زمانہ کفر سے قریب نہ ہوتی تو میں کعبہ کو توڑتا اور اس کے دو دروازے بنواتا“۔
اور حضرت امام احمد بن حنبل نے نماز مغرب سے پہلے دو رکعت نفل کے متعلق فرمایا میں نے لوگوں کو دیکھا کہ وہ اس کو مکروہ سمجھتے ہیں تو میں نے بھی ان کو چھوڑ دیا۔
خبردار! تم کسی ایسے جاہل کی بات مت سننا جو ان چیزوں کو ریا قرار دے یہ ریا نہیں ہے بلکہ علم کی حفاظت ہے اس کی وضاحت یہ ہے کہ اگر کوئی عالم لوگوں کے سامنے ننگے سر نکل آوے یا ہاتھ میں روٹی کاٹکڑا لئے کھاتا ہوا چلا آوے تو عوام کے نزدیک بے حیثیت ہو جائے گا اگرچہ یہ کام مباح ہے لیکن وہ اس بدپرہیز طبیب کے مثل ہوجاتا ہے جو دوسروں کو پرہیز کا مشورہ دیتا ہو۔
لہٰذا کسی عالم کے لئے مناسب نہیں ہے کہ عوام سے گھل مل کر رہے تاکہ خود عوام کا دین مضبوط رہے اور جب کسی مباح کام کا ارادہ کرے تو عوام سے چھپ کر کرے۔
یہی وہ قدر اور عزت ہے جس کو حضرت ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ نے اس وقت ملحوظ رکھا تھا جب انہوں نے حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ کو شام آتے ہوئے دیکھا کہ ایک گدھے پر سوار ہیں اور آپ کے دونوں پیر ایک ہی طرف ہیں توعرض کیا:
اے امیر المؤمنین! آپ سے بڑے بڑے لوگ ملنے آویں گے (لہٰذا اپنی ہئیت بدل دیجئے) تو یکھو آپ نے کیسی اچھی بات ملحوظ رکھی۔
البتہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اصل کی حفاظت کے لئے حضرت ابوعبیدہ کی تادیب کرنی چاہی اس لئے فرمایا:
ان اللّٰہ اعزکم بالاسلام فمھما طلبتم العز فی غیرہ اذلّکم
”اللہ تعالیٰ نے تم کو اسلام کے ذریعہ عزت بخشی ہے تو جب بھی تم اس کے علاوہ کسی طریقہ میں عزت چاہو گے وہ تم کو ذلیل کردے گا“۔
مطلب یہ کہ تم کو عزت دین سے حاصل کرنی چاہئے نہ کہ افعال کی ظاہری صورتوں سے اگرچہ صورتوں کا بھی لحاظ رکھا جاتا ہے۔ چنانچہ آدمی اپنے گھر کے اندر تنہائی میں ننگے بدن رہتا ہے اور جب لوگوں کے پاس آنا چاہتا ہے تو دو کپڑے (کرتا پائجامہ) عمامہ اور چادر پہن کر نکلتا ہے اور یہ نہ بناوٹ ہے اور نہ تکبر۔
جبکہ حضرت امام مالک بن انس غسل فرماتے خوشبو لگاتے پھر حدیث شریف کے درس کیلئے بیٹھتے۔
اے مخاطب: خبردار وہ جو تم دیکھتے ہو کہ علماءبادشاہوں کے دروازوں پر نظر آتے ہیں کبھی اس کی طرف مائل نہ ہونا۔ کیونکہ خلوت علم اور عالم دونوں کی محافظ ہے اور ایسے علماءجتنا ان سے نفع نہیں اٹھاتے اس سے زیادہ اپنا کھو بیٹھتے ہیں۔
سید الفقہاءحضرت سعید بن المسیب حاکموں کے پاس نہیں جاتے تھے۔ اس وجہ سے لوگوں نے ان پر اعتراض وتنقید کی ہمت نہیں کی۔
لہٰذا اگر تم لذت اور راحت چاہتے ہو تو اے علم والو! اپنے گھر کے اندررہو اور (وہاں بھی) اگر اپنے گھروالوں سے کنارہ کش رہو تو تمہاری زندگی اور خوشگوار ہو جائیگی۔ بیوی بچوں سے ملاقات کے لئے ایک وقت متعین کرلو۔کیونکہ جب انہیں ایک وقت معلوم ہوجائے گا تو پھر اس وقت تم سے ملاقات کے لئے تیاری کریں گے۔ اور اس طرح تمہارا رہن سہن بہتر ہوجائے گا۔
تمہارے گھر میں ایک کوٹھری ایسی ہونی چاہئے جس میں خلوت اختیار کر سکو تاکہ اس میں جا کر اپنی کتابوں کی سطروں سے گفتگو کر سکو اور اپنی فکر کے میدان میں دوڑ سکو۔
لوگوں سے ملنے جلنے خاص کر عوام سے ملاقات سے پرہیزکرو۔
اتنی آمدنی حاصل کرنے کی کوشش کرو جو تم کو لالچ سے محفوظ رکھے کیونکہ یہ چیز دُنیا میں عالم کے لئے آخری درجہ کی لذت ہے۔
حضرت ابن مبارک سے پوچھا گیا کہ آپ ہم لوگوں کے ساتھ کیوںنہیں بیٹھتے؟ آپ نے فرمایا ”میں حضرات صحابہ اور تابعین کے پاس جاکر بیٹھتا ہوں“ آپ کا اشارہ اس کی طرف تھا کہ کتابوں کا مطالعہ کرتا ہوں (جن میںصحابہ وتابعین کے ارشادات ہوتے ہیں)
جب کسی عالم کولوگوں سے استغناءاور خلوت کی توفیق مل جاتی ہے اور اس کے پاس ایسا فہم بھی ہوتا ہے جس سے وہ تصنیف و تالیف کا کام کر سکے تو سمجھ لو کہ اس کی لذت کامل ہو گئی۔ اور اگر ایسا فہم بھی مل گیا جو اسے حق تعالیٰ کی معرفت اور اس کی مناجات کی طرف لے جائے تو پھر تو موت سے پہلے ہی وہ جنت میں داخل ہوجاتا ہے۔
ہم اللہ تعالیٰ سے دُعا کرتے ہیں کہ ہم کو ایسی بلند ہمت عطا فرمائے جو کمال کی طرف لے جائے۔ اور نیک اعمال کی توفیق عطا فرمائے۔ ”حق کے راستہ کے راہی چند ہی افراد ہیں“۔
(صید الخاطر از ابن جوزی)