محمد عبید اللہ قاسمی، دہلی
آج کل جدید تعلیم یافتگان اور دانشوران کی طرف سے بہت شور مچایا جاتا ہے اور علماء پر یہ الزام لگایا جاتا ہے کہ وہ دینی علوم اور دنیوی علوم میں تفریق کرتے ہیں جبکہ پہلے زمانوں کے علماء ایسی تفریق نہیں کرتے تھے اور وہ دینی ودنیوی دونوں طرح کے علوم کے جامع ہوتے تھے. وہ کہتے ہیں کہ اُس وقت کے مدارس کے فیض یافتگان ایک طرف عالمِ دین ہوتے تھے تو دوسری طرف وہ سائنسداں اور موڈرن ایجوکیشن کے ماہرین بھی بن کر نکلتے تھے.
حقیقت یہ ہے کہ علماء کے خلاف یہ الزام بے بنیاد اور کج فہمی بلکہ بدفہمی پر مبنی ہے. اُس زمانے کے اداروں کو مدارس کہنے کی بجائے تعلیم گاہیں کہنا چاہئے. اُن تعلیم گاہوں میں جو مسلم سائنسداں اور موڈرن ایجوکیشن کے مسلم ماہرین ہوتے تھے وہ دینی علوم میں بھی اچھی معلومات رکھتے تھے، مسلم شناخت رکھتے تھے، داڑھی رکھتے تھے، اسلامی لباس پہنتے تھے. سوال یہ ہے کہ موجودہ زمانے کی تعلیم گاہوں میں بھی اسی طرح مسلم سائنسداں، ڈاکٹرز، انجنئرز اور موڈرن ایجوکیشن کے ماہرین دینی علوم کی واقفیت کیوں نہیں رکھتے ہیں، اسلامی شناخت سے خود کو کیوں محروم رکھتے ہیں، حضور کی سنت داڑھی سے کیوں دور بھاگتے ہیں، اسلامی لباس اختیار کیوں نہیں کرتے ہیں؟ اگر یہ ذمہ داری ان کی نہیں ہے تو پھر کس کی ہے؟
اگر وہ علماء کا عملاً صرف قرآن وحدیث کے علوم میں شغف رکھنے کو تفریق کا نام دیتے ہیں تو پھر کیا انہیں بھی یہ نہیں کرنا چاہئے کہ وہ دینی اور دنیوی تعلیم میں تفریق نہ کریں اور دونوں علوم کو بلا تفریق حاصل کریں اور دونوں میں مہارت پیدا کریں جیسا کہ مسلمان پہلے زمانوں میں کرتے تھے؟ اور کیا وہ عملاً ایسا نہ کرکے دین اور دنیا، دینی تعلیم اور دنیوی تعلیم میں تفریق نہیں کررہے ہیں؟ اگر وہ یہ سمجھتے ہیں کہ ان کا یہ عمل تفریق نہیں ہے تو پھر علماء کا یہ عمل تفریق کیونکر بن گیا؟ تفریق تو اس وقت کہنا درست ہوتا جب دو فیصد کا انتہائی مختصر طبقہِ علماء موڈرن ایجوکیشن کو اور موڈرن سائنس کو حاصل کرنے سے روکتا جبکہ علماء ان علوم سے روکتے ہرگز نہیں ہیں بلکہ ان کی تحصیل کی ترغیب دیتے ہیں. اگر روکتے ہیں تو صرف اللہ کے حکموں کو توڑنے سے روکتے ہیں.
لہذا جدید علوم کے گریجویٹ اور دانشوران کو ایسے الزام سے باز رہنا چاہئے، مغالطے اور غلط فہمی سے دور رہنا چاہئے. جس طرح علماء ایک میدان یعنی قرآن و حدیث کے علوم میں مہارت حاصل کررہے ہیں اسی طرح وہ بھی جدید علوم میں مہارت پیدا کریں. تقسیمِ کار سے کام آسان اور بہتر ہوتا ہے. تقسیمِ کار کو تفریق کہکر غلط فہمی نہ پھیلائیں. پرانے زمانوں میں دینی ودنیوی علوم میں اتنی وسعت پیدا نہیں ہوئی تھی جتنی اب ہوچکی ہے لہذا پہلے کی طرح موجودہ زمانے میں ایک ہی شخص دونوں طرح کے علوم کا ماہر نہیں بن سکتا ہے (اگر کوئی کہے کہ اب بھی بن سکتا ہے تو ذرا ایک سائنٹسٹ یا انجنئر کو فقیہ یا محدث بناکر دِکھادے) بلکہ پہلے جب اتنی وسعت اور پھیلاؤ نہیں تھا تب بھی خال خال لوگ ہی دونوں میدانوں کے ماہر ہوتے تھے.
مورخہ 21 جنوری 2021