عبدالباری سمستی پوری ،دیوبند(یوپی)
دہلی کے ایک مؤقر روزنامہ کے تین اپریل کے شمارہ میں ’’آج کا خط‘‘ کے عنوان سے محمد خالد خوریجی کے نام سے ایک مراسلہ شائع ہوا جس میں انہوں نے دارالعلوم کے سلسلہ میں چھپی ایک خبر ’’غیر مسلم سے محبت کی اجازت نہیں: دارالعلوم‘‘ کی سرخی کو سامنے رکھ کر لکھا، مراسلہ پڑھنے کے بعد معلوم ہوا کہ موصوف لکھنے اورچھپنے کے بہت خوگر ہیں؛ لیکن تاریخی حقائق سے کورے، ان حقائق پر مطلع ہونا ان کا شعار نہیں ہے؛ ورنہ وہ ایسا نفرت بھرا جملہ ’’یقینی طور پر ایسے نظریات کا حامل ادارہ تعریف وتوصیف کے قابل نہیں ہو سکتا‘‘ بالکل نہیں لکھتے۔
میں اس مؤقر اخبار کے ذریعہ سے موصوف کو گوش گزار کرنا چاہتا ہوں کہ دارالعلوم دیوبند اور اس کے اکابرین نے ہندو مسلم اتحاد ویگانگت کا جو عملی نمونہ پیش کیا ہے وہ کسی ادارے نے نہیں کیا، گاندھی جی کو مہاتما کا خطاب دینے والے مولانا محمود الحسن دیوبندی المعروف بہ شیخ الہند ہیں گاندھی جی کے پاس ملک کا دورہ کرنے کے لیے پیسے نہیں تھے تو ہمارے اکابرین نے تحریک خلافت کا پیسہ نکال کر گاندھی جی کو دیا تاکہ ہندو ومسلم دونوں اس ملک کو آزاد کرانے کے لیے شرکت کر سکیں اور ملک جلد از جلد آزاد ہو۔
دوسری مثال: حضرت شیخ الہند نے اپنے آزاد ہندوستان کے منصوبے کو بر روئے کار لانے کے لیے جو تحریک ریشمی رومال چلائی تھی اس آزاد ہند کا راجہ ہندو برادری سے تعلق رکھنے والے ایک فرد مہندر کو بنایا تھا حالانکہ ان سے زیادہ قابل اور فعالی علمائے کرام موجود تھے۔
اسی طرح آزادی ہند کے موقعہ پر اور اس کے بعد دارالعلوم نے تقسیم ہند کی مکمل مخالفت کی اور پاکستان کے مقابلہ میں ہندوستان کی جمہوری حکومت کی تائید کی اور اسے پسند کیا جب کہ اس کے اکثر لیڈر غیر مسلم تھے یہ تو ابتدائی زمانے کی بات ہے آج کل بھی دارالعلوم دیوبند کے استاذ حدیث مولانا سید ارشد مدنی صاحب ہند ومسلم اتحاد کا نمونہ پیش کرایا اور ہندو مسلم دوستی کا بین نمونہ پیش کیا اس کے علاوہ حیدرآباد ، آسام، دھولیہ، مالیگاؤں اڑیسہ وغیرہ مختلف صوبوں اور اضلاع میں جمیعۃ علماء ہند کی طرف سے مسلمانوں کے ساتھ ساتھ سینکڑوں غیر مسلموں کی امداد کی، کیا یہ غیر مسلم دوستی کا ثبوت نہیں؟
رہا مسئلہ اخبار بیان کا تو دارالعلوم کسی طرح کا بھی کبھی بھی کوئی بیان نہیں دیتا ہے میڈیا کے متعصب حضرات کوئی فتویٰ کہیں سے اٹھا لیتے ہیں اور اسے توڑ مروڑ کر پیش کرتے ہیں تاکہ ادارہ کو بدنام کیا جا سکے؛ لیکن پوری دنیا اس بات سے بہ خوبی واقف ہے، اس طرح کی حرکت آفتاب پر تھوکنے کے مانند ہے۔
شاید کہ موصوف کی نظروں سے مہتمم دارالعلوم دیوبند مفتی ابوالقاسم بنارسی کا بیان اخبار سے نہیں گزرا کہ ’’دارالعلوم کا دروازہ مسلم اور غیر مسلم قائدین سب کے لیے یکساں کھلا ہوا ہے جو جب چاہیں آسکتے ہیں‘‘۔ کیا اس کے بعد کبھی انہیں دارالعلوم کے ہندو مسلم اتحاد پر کسی دلیل کی حاجت ے؟ اس لیے موصوف شرپسندی کا شکار نہ بنیں اور تاریخ کا مطالعہ کریں اس کے بعد اس ادارہ کے سلسلہ میں جس کے فضلاء پوری دنیا میں امن وخوف کا پیغام دے رہے ہیں اس کے خلاف رائے قائم کریں۔