مسئلۂ طلاق کیا ہے؟

تبریز بخاری ندوی
دار السلام اکیڈمی ،تیگوئی امباٹولی،کرگے ،مانڈر،رانچی،جھارکھنڈ۔

نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم اما بعد!
اسلامی شریعت اللہ تعالی کے احکام اور حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے اور مسلمانوں کی عام رائے و اتفاق اور فقہائے کرام اور ائمہء کرام کے فکر وکاوش کے نتیجہ کا نام ہے۔ اسلامی شریعت اور قانون پر عمل پیرا ہو کر ہی ہم دنیا واآخرت میں کامیاب ہو سکتے ہیں۔یہ قانون اور شریعت اس ذات کی بنائی ہوئی ہے،جو علیم وخبیر ہے۔یہ شریعت اور قانون انسانوں کی سہولت کے لئے ہیں ناکہ مشقت و پریشانی کا طوق گلے میں ڈالنے کے لئے۔ شریعت کی پابندی ہمیں دنیا و اآخرت دونوں جہاں پر کامیاب کرتی ہے اورخلاف ورزی کی صورت میں اللہ تعالی سے ناراضگی کی سبب بنتی ہے۔ اللہ تعالی نے شریعت کے خلاف فیصلہ کو کفر و انکار ، ظلم و زیادتی اور نقصان دہ قرار دیا ہے۔( سورۃ المائدہ)
موجودہ دور میں جس طرح سے اسلامی شریعت کی پامالی کی جارہی ہے اور اس سے خلاف ورزی برتی جارہی ہے،جس کے نتیجہ میں مسلمان نئے نئے فتنوں اور مشکلات میں گھرتے جا رہے ہیں ، ایسی صورت حال میں دین و دستور کی حفاظت و صیانت امت مسلمہ کی اولین فریضہ ہے ، اور اس سے عہدہ بر آں ہونے کی بس ایک ہی صورت ہے کہ اس پر عمل پیرا ہو ، اور اب تک ہم سے جو کو تاہی ہوئی ہے اس سے ختم کرنے کی کوشش کی جائے۔دوسری بات یہ ہے کہ اسلامی شریعت و دستور کو عام کیا جائے ۔اس وقت طلاق ثلاثہ کے تعلق سے ہمارے ملک کے اندر بحث چھیڑی ہوئی ہے ،روزانہ اخبار اور ٹی وی میں لوگ پڑھ اور سن رہے ہیں ،لیکن ہمارے بہت سارے مسلمان بھائی ایسے ہیں جن کو اس مسئلہ سے صحیح طور پر واقفیت نہیں ۔ ایسی صورت حال میں ہماری ذمہ داری بنتی ہے کہ طلاق ، خلع، جیسے اہم مسئلہ کو عام کیا جائے اور مسلم پرسنلا سے لوگوں کو متعارف کریا جائے۔ اس مناسبت سے انتہائی اختصار کے ساتھ مسئلہ طلاق کیا ہے ؟حضرت مولانا قاضی مجاہد الاسلام رحمۃ اللہ علیہ کی ایک تقریر کو بنیاد بنا کر کچھ حذف و اضافہ کے ساتھ پیش کیا جارہا ہے ۔ جس کو انہوں نے 30 مئی 1986 میں مسجد لوتاہ ،مدرسہ احمدیہ قدیم دبئی میں علماء کی جماعت سے خطاب کیا تھا اور وہ تقریر آج بھی www.bhatkallys.com پر دستیاب ہے ۔اللہ تعالی اسلامی شریعت و قانون پر عمل کی توفیق عطاء فرمائے ۔ آمین یا رب العالمین۔
طلاق کیا ہے؟
طلاق کے معنی ہے ۔رشتہء نکاہ کو توڑنا ۔ نکاح کے رشتہ کے ذریعہ ایک مرد اور عورت کے درمیان جو تعلق پید ہوتا ہے ، اس تعلق کو ٹوڑنے کا نام طلاق ہے۔ بشرط کہ مرد اپنی طرف سے اس کو توڑے ۔ تو شوہر اگر رشتہء نکاح کو اپنے طور پر توڑ دیتا ہے تو طلاق ہوتی ہے۔
طلاق توڑنے کے کچھ مخصوص الفاظ ہیں۔ ان الفاظ کی دو قسمیں ہیں ۔ (1) کچھ الفاظ صریح ہیں ۔ (2) کچھ الفاظ کنایہ ہیں ۔
صریح وہ الفاظ ہیں جو طلاق کے لئے وضع کئے گئے ہیں ۔ جیسے لفظ "طلاق "کہ مرد عورت سے کہے جا تجھکو میں نے طلاق دے دیا و غیرہ۔
الفاظ کنایہ وہ ہیں ، جو براہ راست طلاق کا مفہوم نہیں بتاتے بلکہ الفاظ کنایہ میں مفہوم طلاق اور کسی دوسرے مفہوم کا بھی احتمال ہو تا ہے ، لیکن نتیجہ کے طور پر اس سے طلاق سمجھ میں آتی ہے۔ایسے الفاظ کو طلاق کنایہ کہتے ہیں ۔ عام طور پر الفاظ کنایہ نیت کے محتاج ہوتے ہیں ۔ اگر کہنے والے کی نیت اس سے طلاق کی ہے تو طلاق مراد لی جاتی ہے اور اگر کہنے والے کی نیت اس سے طلاق کی نا ہو تو طلاق مراد نہیں ہو تی ہے۔
بعض اوقات بعض الفاظ کا استعمال مفہوم طلاق میں اتنا غالب ہو جاتا ہے کہ وہاں ضرورت پوچھنے کی نہیں رہتی کہ تمہاری نیت کیا ہے ۔ جیسے لفظ "حرام ” کا استعمال یا بعض علاقوں میں چھوڑ دیا بعض علا قوںمیں جواب دیا کا استعمال ، عربی میں بتۃ، بطلۃ، حرام اس طرح کے الفاظ وغیرہ اس طرح کے الفاظ سے طلاق واقع ہو جاتی ہے نیت کی محتاج نہیں رہتی ہے۔بعض اوقات الفاظ کنایۃ کا استعمال طلاق کے مفہوم میں کسی خاص عرف میں کسی خاص رواج میں اتنا غالب ہو جاتا ہے کہ آپ اگر چاہیں عام طور سے اس سے طلاق ہی مراد لی جاتی ہے تو ایسی صورت میں اس لفظ میں نیت کی ضرورت نہیں رہتی ہے ۔
بعض اوقات قرینہ مؤثر ہوتا ہے۔ جن کو قرائین کی شہادت کہتے ہیں۔قرینہ کبھی حال ہوتا ہے ،کبھی مقال ہو تا ہے۔ کبھی گفتگوں میں کوئی ایسا قرینہ موجود ہوتا ہے ۔جیسے: عورت کہتی ہے کہ مجھے طلاق دے دو تو شوہر نے کہا : جا تجھے میں نے حرام کیا ،جا تو نکل جا، تجھے میں نے نکال دیا ،جا تجھے میں نے چھوڑ دیا ، جا تجھے میں نے جدا کر دیا۔ یہاں پر عورت کا مطالبہ ہے اور سوال کے جواب میں یہ بات کہی جارہی ہے ، تو یہ سوال جو الفاظ میں آئیں ہیں یہ سوال دلیل ہے اس بات کی کہ آگے آنے والا لفظ اگرچہ طلاق کا نہیں ، لیکن جو لفظ استعمال کیا ہے وہ لفظ اس کے مفہوم کو متعین کرتا ہے اور یہ قرینہ لفظی ہو ا۔
کبھی حالات ایسے پیدا ہوتے ہیں ، جن حالات کے نتیجہ میں شوہر نے یہ کہا کہ خبر دار تو گھر سے نا نکلنا ، اگر گھر سے نکلی تو میں تجھے چھوٹ دو نگا ، اس کے باوجود عورت گھر سے نکل گئی،اب گھر سے نکلتے ہی شوہر کہتا ہے: جا تجھکو میں نے چھوڑ دیا جا تجھے میں نے جواب دیا ،جا تجھے میں نے الگ کر دیا ۔شوہر عورت کے اس عمل کے نتیجہ میں کہتا ہے، اور عورت کی اس عمل کو پہلے ہی سے وہ علحدگی کی بنیاد بتا چکا ہے ۔یا صورت حال بتاتی ہے کہ نیت اس سے طلاق کی ہے، تو طلاق ہو جائے گی۔
نکاح کے مقاصد:
نکاح کا پہلا مقصد: حصن، قلعہ،تحفظ۔یعنی عصمت و آبرو کی حفاظت کا انتظام۔
سب سے پہلی بات یہ سمجھنا چاہئےکہ نکاح کا رشتہ چاہےہندو نذہب ہو یا عیسائی ان لوگوں نے نکاح کو زندگی بھر کا ایک رشتہ تصور کیا ہے ، جب کہ اسلامی نقطہء نظر سے نکاح ایک معاہدہ (CIVIL CONTRECT) ہے۔ اور بیشک اس معاہدہ کو ایک مذہبی تقدس حاصل ہے ، اس لئے کہ اس معاہدہ کے ذریعہ سے انسان ( احصان ) حاصل کرتا ہے۔اور یہ قلبا ہو تا ہے ۔ یعنی اپنی عزت و عصمت کی حفاظت کا انتظام کرتا ہے ۔ نکاح کے ذریعہ ایک مرد اور ایک عورت اپنے کردار اور اپنے عمل کی حفاظت کرتے ہیں ، برائی سے اپنے کو بچاتے ہیں ،نگاہوں میں ان کے عصمت و آبرو اور شرم و حیا کا پہلو پیدا ہو تا ہے۔ یہ نکاح کا ایک بنیادی مقصد ہے قرآن کریم نے بار بار اس کو بتا یا ہے(۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔) ترجمہ اپنی نفس کی خواہش کو اور محض لذت نفس کو وقتی طور پر پرا کرتے رہنا اور چھپ چھپ کر ایاری کرتے رہنا یا کھل کر برائی کرتے رہنا ناجائز اور حرام ہے۔بہر حال ان تمام فتنوں سے بچانے کے لئے اللہ تعالی نے نکاح کا انتظام کیا ہے۔
نکاح کا دوسرا مقصد: موانست
ایک عورت اور مرد ایک دوسرے کے لئے انیس ، ایک دوسرے کے ہمدم،ایک دوسرے کے غم خوار ہوتے ہیں ۔قرآن کریم نے کہا ہے : ( لتسکنوا الیھا ) تاکہ تمیں اس سے سکینت ملے،اطمنان ملے۔ بہر حال نکاح کے دو فائدے ہیں ۔ ایک تو اطمنان قلب وسکون،ایک مرد کو ایک عورت کے ساتھ اور ایک عورت کو ایک مرد کے ساتھ۔ جب کہ دو نوں کا ایک معاہدہ ہو چکا ہو۔دوسرا عصمت و آبرو کی حفاظت کا انتظام، یہ دو بنیادی فائدے ہیں۔
کن وجوہات کی وجہ سے طلاق دینا جائز ہے:
اب اگر نکاح ہو گیا لیکن التفاق سے مزاجوں میں مناسبت نہیں ہے۔ اور یہ طبعی اور فطری بات ہے ۔ میاں یہ محسوس کرتا کہ میرے دل میں بیوی کی وہ محبت نہیں ہے جس سے ہم ایک دوسرے کے لئے باعث سکینت اور باعث انس بن سکیں ، اور بیوی یہ محسوس کرتی ہے کہ میں اللہ کے سرحدوں کو اس شوہر کے ساتھ رہ کر قائم نہیں رہ سکتی۔ اقامت حدوداللہ کو قائم رکھنا دونوں میاں بیوی کے لئے باہم دشوار ہو ، ایسی صورت حال میں کبھی بھی اس مسئلہ کو ضد کا مسئلہ نہیں بنانا چاہئے بعض دفعہ شوہر اپنی انانیت اور اپنی نفسانیت اور اپنی ضد میں آجاتے ہیں، جب کہ عورت کہہ رہی ہے کہ نہیں نبھاؤ ہو سکتا اور مرد بھی اس کو محسوس کر رہا ہے۔اس کو خوب اچھی طرح سمجھ لینا چاہئے کہ محبت جب تک دل میں نا ہو یا کم از کم محبت نا ہو تو ان میں ضبظ کی صلاحیت ہو کہ اپنی طبعیت کے خلاف بھی اپنی بیوی کے باتوں کو گوارہ کر کے خوشگوار ازدواجی زندگی گزار سکے، اور خاص کر یہ صفت مرد کے اندر ہو نا چاہئے کیوں کہ مرد کو "قوام” ذمہ دار بنایا گیا ہے۔ ( الرجال قوامون علی النساء)لیکن مرد اگر اس کی صلاحیت نہیں پاتا ، یا مزاج میں اتنی بعد اور دوری ہے کہ دونوں ایک دوسرے کے ساتھ انگیز کر کے زندگی نہیں گزار سکتے ، تو اسلامی نقطہء نظر یہ ہے کہ اس شادی کا تقدس باقی نہیں رہتا ،نکاح اپنے مقاصد سے خالی ہو گیا اور جو امر اپنے مقصد سے خالی ہو جائے وہ قائم رہنے کے لائق نہیں رہتی۔
ازدواجی زندگی گزارنے کے بہترین وصول:الطلاق مرتان فامساک بمعروف او تسریح باحسان ( البقرۃ : 229)
پہلا وصول: "امساک بالمعروف” خوبصورتی سے آپس میں نباہ کرنا ،اگر تھوڑی بہت خلاف طبع بات ہو تو اس کو بھی نظر انداز کر دینا، جیسے بھی ہو ایک دوسرے کو نباہ کر چلنا یہ بہترین وصول ہے۔ اس کو قرآن ” امساک بالمعروف” سے تعبیر کرتا ہے۔
دوسرا و صول: "تسریح بالاحسان” اگر نباہ ہو نہیں رہا ہے، مرد زبردستی اس عورت کو گلے میں پھانسے ہوئے ہے۔ یا بعض بدفعہ عورت بعض قانونی ہتھکنڈے کے ذریعہ مجبور کر دیتی ہے کہ شوہر خاہ مخواہ اس کو لٹکائے رہے،تو قرآن یہ کہتا ہے کہ ” کالمعلک” مت بناؤ ، بیوی کو لٹکا کر مت رکھو، ایسا ناہو کہ وہ بیوی معلوم ہو اور نا وہ بیوہ معلوم ہو ۔ ایک اٹل فیصلہ لو ، ہو سکے تو نباہ کرو چاہے تم کو اپنی ذہن پر کتنی ہی تکلیف اٹھانا پڑے، پھر بھی اگر نباہ کی صورت نا ہو تو ” تسریح بالاحسان”کے ساتھ یعنی حسن و خوبصورتی کے ساتھ اس کو علحدہ کر دو ، یہاں یہ سمجھ لینا چاہئے کہ یہ اسلامی تعلیمات ہی کی خاص خوبی ہے کہ اسلام جودائی جیسے مسئلہ کو بھی احسان کے ساتھ پر کرنے کو کہتا ہے،یعنی ظلم و زیادتی ،شر اور جھگڑے کے ساتھ ناہو،صاف صاف میاں بیوی کو یہ سمجھنا اور حقیقت کا اعتراف کرنا چاہئے کہ جب تک ممکن تھا ہم نے اطمنان کے ساتھ زندگی نہیں گزاری، اب معروف کے ساتھ دستور اور قاعدہ کے مطابق ہم دونوں کے درمیان نباہ کے امکانات نہیں ہیں اس لئے ہم دونوں ایک دوسرے سے علحدگی کا فیصلہ کرتے ہیں۔
اس سلسلہ میں قرآن کریم میں ایک اور بات کہی گئی ہے :” ولتی تخافون نشوزھن فعظوھن و اھجروھن فی المضاجع وضربوھن۔ فان اطعناکم فلا تبغو علیھن سبیلا”(النساء۔34)اور یہ بات خاص کر مردوں سے کہی گئی ہے ، کیونکہ مرد قوام اور ذمہ دار ہیں ،اور عورتوں کے کچھ حقوق رکھے گئے ہیں،اگر عورت کی نافرمانی کا خطرہ ہو ، مرد کی بات نہیں مانتی تو کیا کرنا ہے۔
تیسرا و صول :”فعظوھن”پہلے ان کو سمجھائیں۔ "واعظ” کے معنی ہیں ایسی بات کہنا جو دل کو نرم کرے۔تو ایسی بات کرو جس سے عورت کے دل میں نرمی پیدا ہو ، سمجھانے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اس سے طعنہ و تشنیع دی جائے ، اس کے کلیجہ میں برچھی ماری جائے ، بلکہ پیار و محبت،ملاطفت کی بات کرو۔عورت کی جذبات کی اور اس کے اندر کی انا کی تسکین کی کوئی ذریعہ ہو سکتا ہے تو نکالو، آخر کیا دشواری ہے ، مرد کی دانشمندی کا تقاضہ یہ ہے کہ اس کو سمجھایا جائے اوراگر اس پر بھی کام نا چلے تو پھر قرآن کہتا ہے "واھجروھن فی المضاجع”
چوتھا وصول: "واھجروھن فی المضاجع”رشتہ الگ کر لو، کمرہ سے نانکالو،یہ نہیں کہ اس کو کمرہ سے باہر نکال دیا، اس کی صورت یہ ہے کہ میاں بیوی اپنا بستر الگ کر لیں، اس سے اس کو احساس ہو گا ۔تنفر ہو گا۔اس کے باوجود اگر عورت نافرمانی پر تلا رہے تو پھر "وضربوھن”
پانچواں وصول : "وضربوھن”تادیب۔ یہاں یہ خوب یاد رکھنا چاہئے کہ ” تادیب” کا مطلب تادیب ہے "تعذیب” نہیں۔ اس کی مثال یہ ہے کہ اگر ہاتھ میں رومال ہو تو رومال سے ہلکی مار مار دی جائے یا پھر مسواک ہو تو مسواک سے مار دی جائے۔فقہاء نے لکھا ہے یہ الگ الگ معاشرہ کا الگ الگ حکم ہو گا۔اس واقعہ سے اس کو خوب اچھی طرح سے سمجھی جا سکتی ہے کہ مار پیٹ کا مسئلہ کتنا سخت ہے ۔ ہمارے آقا و مولا جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس کی اجازت تو دی کہ آدمی اپنی بیوی کو طلاق دے دے لیکن اس کی اجازت نہیں دی کہ بیوی کی پیٹائی کرے۔حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس ایک شخص آیا اور کہا :یا رسول اللہ میری بیوی بڑی زبان دراز ہے ۔بولنے میں بہت تیز ہےاس قدر بولتی ہے کہ مجھے عاجز کر دیتی ہے ، مجھے اجازت دیجیئے کہ میں اس کو کبھی کبھی پیٹائی کروں ۔ تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: نہیں مار نہیں سکتے ۔کہا: یا رسول اللہ بڑی زبان دراز ہے اس کی زبان کی ایزا رسانی سے میں پریشان رہتا ہوں، اس لئے تھوڑی اس کی پیٹائی ضروری ہے۔آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا : اگر زیادہ زبان دراز ہے اور اس کی وجہ سے تم دونوں کے درمیان نہیں نبھتی ہے پھر بھی تم نہیں مار سکتے جاؤ اس کو طلاق دے دو ۔ دوبارہ اس نے سوال کیا : اللہ کے رسول طلاق کیسے دوں مجھے اس سے بہت محبت ہے۔ تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا :اگر محبت ہے تو اس کی زبان کی ایزا پر صبر کرو ۔ اس سے نرداشت کرو۔ بیوی کو مارنا پیٹنا اتنی سخت بات ہے ۔ بہر حال تھوڑی بیت تادیب کی اجازت مرد کو دی گئی ہے ۔اور اگر اتنی مر حلوں سے گزرنے کے بعد بھی تعلقات میں سلجھاؤ پیدا نا ہو تو قرآن کریم آگے ہماری رہنمائی کرتا ہے۔
چھٹا وصول:و ان خفتم شقاق بینھما فباثوا حکما من اھلہ و حکما من اھلھا۔ ان یریدا اصلاحا یؤفق اللہ بینھما۔ ان اللہ کان علیما خبیرا۔(النساء 35)اب آخری راستہ یہ ہے کہ ایک ثالث ادھر سے اور ایک ثالث ادھر سے مقرر کر دی جائے ، دونوں ایک دوسرے کا جائزہ لیں گے اور معاملات کو سدھارنے کی کو شش کریں گے ۔ یہاں فقہاء کرام کی الگ الگ رائے ہیں حضرت امام مالک رحمۃ اللہ کی رائے یہ ہے کہ دونوں حکم با اختیار ہوں گے چاہے تو جدائی کرا دیں گے اور چاہے تو ملاپ کا فیصلہ کر دیں گے ،بشرطہ کہ دونوں اس پر متفق ہوں۔ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا خیال یہ ہے کہ یہ ثالث فقط ثالث ہوں گے کو شش کر کے مصالحت کرانے کی صورت نکالیں گے اگر مصالحت کی صورت نہیں نکلے گی تو زبردستی مصالحت نہیں کرائیں گے بلکہ یہ رپورٹ قاضی کو بھیج دیں گے، پھر قاضی سمجھے گا کہ کیا کرنا ہے۔اس اختلافی مسئلہ کی تفصیلات کے لئے قارئین سے گزارش ہے کہ وہ فقہ کی کتابوں سے رجوع فرما لین
بہر حال یہاں ایک بات اور بہت اچھی کہی گئی ہے ۔ "ان یریدا اصلاحا یوفق اللہ بینھما”اگر دونوں ثالث خلوص دل سے صلح جوئی کے طالب ہو نگےتو کتنا ہی میاں بیوی کے درمیان دوری کیوں نا ہو اللہ دونوں کے دلوں کو جوڑ دیگا اور محبت پیدا کر دیگا۔یہاں ایک بات اور بھی قابل ذکر ہے جو خاص کر ہمارے ملک کے سپرم کورٹ اور جنرنزم کے طرف سے اس پر بہت ہنگامہ کیا گیا ہے کہ اگر عورت کی طلاق ہو جائے گی تو عورت کہاں جائے گی،فوٹ پات پر پڑی رہے گی ، تو قرآن کریم کہتا ہے ” و ان یتفرق یغنی اللہ کل من سعۃ( النساء ۔120)اگر دونوں ایک دوسرے سے جدا ہی ہو جاتے ہیں ،نتیجہ طلاق پر ہی پہونچتا ہے،علحدگی ہی مسئلہ کا حل ہے تو اللہ ان دونوں کو ایک دوسرے سے بے نیاز کر دیگا نا مرد عورت کا محتاج رہیگا اور نا عورت مرد کی محتاج رہے گی ،اللہ دونوں کے غنی کا انتطام کر دے گا ، دونوں کو غنی بنا دے گا ۔
ان ساری مرحلوں سے گزرنے کے بعد بھی ثالثی وغیرہ سب ہوگئی پھر بھی معاملہ نہیں سلجھا تب آخری درجہ کی مجبوری کی چیز طلاق ہے۔
طلاق کا اسلامی طریقہ:
ان ساری کو شیشوں کے بعد بھی اب جدائی ہی ہے تو شریعت ان کی رہنمائی کرتی ہے ، اور ان کے لئے طلاق کا ایک متعین ضابطہ مقرر کرتی ہے ۔ جس کو علماء شریعت،فقہائے کرام و مجتہدین عظام نے قرآن و حدیث کی روشنی میں طلاق کا تفصیلی قانون مرتب کیا ہے۔ جو اپنے مراحل کے اعتبار سے تین صورتیں ہیں۔طلاق رجعی، طلاق بائن، طلاق مغلظہ۔جس کی تفصیلات کچھ اس طرح ہے۔
طلاق رجعی:
جب ایک شخص اپنی بیوی کو طلاق دینا چاہے تو شریعت کی تعلیم یہ ہے کہ اچانک عورت کو مطلقہ قرار دے کر اپنے سے جدا نا کرے بلکہ اس کو یہ کرنا چاہئے کہ پہلے مہینہ میں حیض سے پاک ہونے کے بعد وہ اپنی عورت سے کہے میں نے تمکو ایک طلاق دیا ۔اس کے بعد دونوں ایک مہینہ تک سوچتے رہیں ۔اس درمیان میں اگر رائے بدل گئی تو مرد اپنے قول طلاق کو واپس لے کر دوبارہ اپنی بیوی سے تعلقات قائم کر سکتا ہے۔
ایسا نا کرنے کی صورت میں اگلے مہینہ میں دوبارہ طہر کی حالت میں وہ اپنی بیوی سے کہے گا کہ میں نے تمکو دوسری بار طلاق دیا ۔ اس اثناء میں دوبارہ مرد کے لئے یہ موقع ہے کہ اگر اس کی رائے بدل جائے تو وہ طلاق کو واپس لے کر اپنی بیوی سے دوبارہ تعلقات قائم کر سکتا ہے ۔ اصطلاح میں ان دونوں کو طلاق رجعی کہا جاتا ہے، کیوں کہ مرد کو ان سے مراجعت کا حق حاصل ہے۔
طلاق بائن:
ابتدائی دو مہینہ میں مرد اگر اپنے قول سے رجوع نہ کرےاور تیسرا حیض آکر تیسرا مہینہ شروع ہو جائے تو اب عملی طور پر طلاق واقع ہو جائے گی ۔ اس کو طلاق بائن کہا جاتا ہے ۔ طلاق بائن پڑ جانے کے بعد مراجعت کے لئے تنہا مرد کا قول کافی نہیں ۔ اب صرف عورت اور مرد کی باہمی رضا مندی سے نکاح ثانی ہو سکتا ہے ۔اگر دونوں نے نکاح ثانی کر لیا تو دوبارہ وہ شوہر اور بیوی کی طرح ایک ساتھ رہ سکتے ہیں۔
طلاق مغلظہ:
تیسری صورت یہ ہے کہ آدمی تیسرے مہینہ میں یا اس کے بعد یہ کہہ دے کہ میں نے تم کو تیسری بار طلاق دیا ۔ ایسا کہنے کےبعد آخری طلاق واقع ہو جائے گی ۔ اس کو طلاق مغلظہ کہا جاتا ہے۔اس کے بعد دونوں ایک دوسرے کے لئے حرام ہو جائیں گے۔
شوہر اگر دوسری بار طلاق دینے کے بعد اپنی بیوی سے مراجعت کا ارادہ نا رکھتا ہو تب بھی اسے چاہئے کہ عورت کو اس کے حقوق دے کر خوش اسلوبی کے ساتھ اسے رخصت کر دے۔جہاں تک تیسری بار طلاق کا تعلق ہے تو شریعت نے اس کی حوصلہ شکنی کی ہے ۔ کیونکہ دوبارہ طلاق دے کر علحدہ ہو جانے کے بعد بھی یہ امکان باقی رہتا ہے کہ شوہر تجدید نکاح کے ذریعہ پھر اپنی سابقہ بیوی سے تعلق قائم کرے۔ مگر تیسری بار طلاق دینے کے بعد صورت (حلالہ) کے علاوہ اس مرد اور اس عورت کے درمیان نکاح مستقل طور پر حرام ہو جاتا ہے۔یہ مذکورہ مقرر طریقہ نے طلاق کو ایک جذبارتی اقدام کے بجائے ایک سوچا سمجھا منصوبہ بند عمل بنا دیا ہے، اور اس وقفہ کا مقصد اس کے سوا کچھ اور نہیں ہو سکتا کہ اس دوران شوہر اپنے فیصلہ پر اچھی طرح غور کر لے۔ وہ اپنے قریبی لوگوں سے اس کے بارہ میں بخوبی مشورہ کرے۔ حتی کہ اس کے متعلقین کو یہ موقع بھی مل جائے کہ جب انہیں طلاق کے معاملہ کی خبر ملے تو اس میں دخل دے کر وہ طرفین کو سمجھائے اور طلاق کو روکنے کی کو شش کریں یہ مقصد وقفہ کے بغیر پورا نہیں ہو سکتا تھا، اس لئے طلاق کو ایک با وقفہ عمل بنا دیا گیا۔

Related Posts

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے