حسان الدین سنبھلی
اس روے زمین پر فتنے تو بے شمار ہیں اور گردش ایام کے ساتھ ساتھ بڑھتے ہی چلے جارہے ہیں اور جوں جوں دنیا قیامت سے قریب ہوتی چلی جائے گی یوں یوں فتنے اپنی زلفیں دراز کرتے چلے جائیں گے لیکن ان فتنوں میں سب سے سنگین فتنہ بے حیائی اور فحاشی کا ہے اس فتنے کو قرآن وحدیث میں بہت تفصیل سے بیان کیا گیا ہے لیکن میں یہاں قرآن مجید کا ایک ادنی سا طالبعلم ہونے کی حیثیت سے اس فتنے کا مطالعہ پیش کروں گا اور سورہ یوسف کی چند آیتوں کی روشنی میں اس سنگین مسئلہ کا حل تلاش کروں گا ۔۔
أعوذ بالله من الشيطان الرجيم
بسم الله الرحمن الرحيم
وراودته الَّتِي هُوَ فِي بَيْتِها عَنْ نَفْسِهِ وَغَلَّقَتِ الْأَبْوابَ وَقالَتْ هَيْتَ لَكَ قالَ مَعاذَ اللَّهِ إِنَّهُ رَبِّي أَحْسَنَ مَثْوايَ إِنَّهُ لا يُفْلِحُ الظَّالِمُونَ (23) وَلَقَدْ هَمَّتْ بِهِ وَهَمَّ بِها لَوْ لا أَنْ رَأى بُرْهانَ رَبِّهِ كَذلِكَ لِنَصْرِفَ عَنْهُ السُّوءَ وَالْفَحْشاءَ إِنَّهُ مِنْ عِبادِنَا الْمُخْلَصِينَ (24)
اٹھارھویں صدی میں مغرب نے مساوات مردوزن کے نام پہ آزادی نسواں(women’s liberation movement ) کی جو تحریک چھیڑی تھی اور پوری دنیا یہ ماحول پیدا (Create )کرنے کی کوشش تھی کہ نعوذ باللہ اسلام نے عورت کو بہت حقارت کی نظر سے دیکھا ہے " انگریز مستشرق ایڈورڈولیم لین ( 1876 _ 1801) نے قرآن کے منتخب حصوں کا ترجمہ تیار کیاتھا یہ ترجمہ پہلی بار لندن سے چھپا اس ترجمہ کے ساتھ ایک دیباچہ شامل تھا اس دیباچہ میں فاضل مترجم نے اسلامی تعلیمات کا تعارف کراتے ہوۓ لکھا ہے کہ اسلام کا تباہ کن پہلو عورت کو حقیر درجہ دینا ہے "(خاتون اسلام – 5-
پھر دھیرے دھیرے اس نام نہاد تحریک نے زور پکڑنا شروع کیا یورپ اور امریکہ میں اس کی زلفیں دراز ہوتی رہیں تاآنکہ اس نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا اور مساوات کے نام پہ عورت کو مرد کے ہر شعبے میں لاکے بٹھادیا جس کے نتیجہ میں انھوں نے(اہل مغرب) گھر کی شہزادی کو باہر کی بربادی کی طرف لاکھڑاکیا اسلام کی وہ شہزادی جس کو اسلام نے عفت وغیرت اور حیا کا تاج پہنایا تھا پل بھر میں اس دستار غیرت کو زمیں بوس کرڈالا حالانکہ اسلام کے نزدیک مرداور عورت میں مقام ومرتبہ اور حقوق (rights) کے لحاظ سے کوئ فرق نہیں " عورت کا درجہ اسلام میں وہی ہے جو مرد کا ہے ( بعضكم من بعض ) حیثیت اور حقوق اور آخرت کے انعامات میں دونوں کے درمیان کوئ فرق نہیں .البتہ اسلام کے نزدیک مرد مرد ہے اور عورت عورت زندگی کا نظام چلانے میں دونوں برابر کے شریک ہیں تاہم اسلام نے دونوں کے درمیان تقسیم کار کا اصول رکھا ہے نہ یکسانیت کار کا اصول " خاتون اسلام ۱۲۱"
آج مغرب کی طرف سے برپا کیے جانے والے اس consept کے نتیجے میں ہزاروں زلیخاؤں کی جانب سے "هيت لك " (welcome my dear ) کی صدائیں گونجتی ہوئ سنائ دیتی ہیں آج پھر مغرب نے آپ کے اوپرٹھیک اسی طرح دروازےبند کردیے جس طرح ہزاروں سال پہلے کی زلیخا نے حضرت یوسف علیہ السلام کے اوپر دروازے بند کردیے تھے اور ان کو "هيت لك "کہ کے پکاراتھا- آج آپ ذرا گردن اٹھائیں تصویر زلیخا آپ کے سامنے- بازار سے لے کر shopping malls تک اسٹیشن سے لے کر ایرپورٹ (airport )تک یہاں تک کہ جہاز (flight ) میں آپ جیسے ہی داخل ہونگے اپنی سیٹ تک پہنچنے سے پہلے ہی آپ هيت لك (welcome my dear)اور "ولقد همت به وهم بها " کی تصویر اور تفسیر کا مشاہدہ کرلیں گےابھی حال میں پڑوسی ملک میں "ہمارا جسم ہماری مرضی" کی ایک صدائے دلخراش سننے کو ملی جو مغرب کی اس ناپاک سوچ کی طرف بڑھتا ایک قدم ہے
آئیے دیکھتے ہیں کہ وہ کس طرح اسلام کے اخلاقی اقدار (moral values) کو دنیا سے ختم کرنا چاہتے ہیں اور کس طرح مساوات مرد وزن کے نام پہ اپنے ناپاک افکار کو زندہ کرنا چاہتے ہیں اس کی ایک تصویر میں ڈاکٹر اسرار احمد کی ایک اسپیچ سے پیش کروں گا " ڈاکٹر صاحب کہتے ہیں " کہ مغرب نے مساوات کے نام پہ جو تجویزات پیش کیں ان تجاویز کو پہلے 1994 میں قاہرہ کی ایک کانفرنس میں پیش کیا گیا اس کے بعد بیجنگ میں اسی سلسہ کو تازہ کیا گیا پھر یونائٹد نیشن آرگنائزیشن کی جنرل اسمبلی کے تحت جون (200 ) میں یہ ایجنڈہ رکھا گیا جس میں مندرجہ ذیل باتیں سامنے آئیں 1- ہم جنس پرستی کوئ جرم نہیں 2- ہم جنس پرستوں کی شادیوں کو تسلیم کیا جائے 3- عورت گھر کا کام نہیں کرے گی 4- عورت شوہر سے حمل کی اجرت لے گی 5- اگر عورت کی طبیعت ہمبستری کے لیے آمادہ نہ ہو اور شوہر آواز دے تو اسے marital rape یعنی زنا بالجبر مانا جائے گا 6- زناکاری کو باعزت پیشہ مانا جائے 7 وراثت اور طلاق میں برابری – ان نظریات کو آپ کے دیکھیں اور ان کے ناپاک عزائم کا اندازہ لگائیں کہ اسلام کے اس خوبصورت نظام کو یہ کس طرح پیوند خاک کرنا چاہتے ہیں اور اس دین مبیں نے مرد اور عورت کے تعلق سے جو عادلانہ تصور( concept ) پیش کیا گیا ہے اسے کس طرح ختم کرنا چاہتے ہیں ۔
لہذا سورہ یوسف کی ان آیتوں کا پیغام( massage)یہ ہے کہ جب بہی آپ باہر کی فضا میں نکلیں اور ان چیزوں سے گزرنا پڑے تو فورا اللہ کا خوف آپ کی زبان سے یہ بول نکال دے اور دل سے یہ آواز نکلے جس طرح حضرت یوسف کی زبان سے اللہ کے خوف نے یہ کلمات نکال دیے تھے "معاذالله إنه ربي أحسن مثواي إنه لا يفلح الظالمون " آپ کو ہمہ وقت اللہ کا استحضار بے حیائی اور فحاشی پہ آپ کی روح کانپ جائے اور سورہ یوسف کی آیتیں آپ کے سامنے گردش کرنے لگیں ۔۔
اور عورت کی خوبصورتی یہ ہیکہ وہ اپنے اپنے گھروں میں رہیں اور "تمشي على استحياء " ان کی زندگی کا عنوان ہو جب دونون طرف سے control ہوگا تب جاکر معاشرہ فحاشی وعریانیت سے پاک صاف ہوگا اور اور پھر یہ شعر عورت کے تعلق سے حقیقت میں صادق آۓگاکہ
وجود زن سـے ہے تصویر کائنات میں رنگ
اسی کے ساز سے ہے زندگی کا سوز دروں