کرسمس ڈے کی حقیقت اور مسلمان

خلیل الرحمن قاسمی برنی بنگلور 9611021347

کرسمس ڈے چونکہ عیسائیوں کا دن ہے اور وہ اسے اپنے طریقے کے مطابق مناتے ہیں اسلئے سب سے پہلے یہ ضروری ہے کہ کرسمس ڈے کے معنی معلوم ہوجایئں تاکہ مسلمانوں کو اس کی حقیقت کا علم ہوجاۓ کرسمس ڈے – یہ تین الفاظ سے مرکب ہے (1) کرائسٹ !! جس کا معنی ہے مسیح (علیہ السلام) (2) ماس !! جس کا معنی ہے اجتماع اور اکٹھا ہونا (3) ڈے جس کا معنی ہے دن، یوں اس مجموعہ کے معنی یہ ہوں گے کہ ”وہ دن جس میں مسیحؑ کیلئے اکٹھا ہوا جائے“ یعنی مسیحی اجتماع یا مسیحؑ کا یوم ولادت، تاریخ پر نظر ڈالیں تو پتہ چلتا ہے کہ تقریباً چوتھی صدی میں یہ لفظ استعمال ہونا شروع ہوا، اس سے پہلے نہیں تھا، بعض جگہ اسے ”بڑے دن“ کے نام سے بھی پکارا جاتا ہے، عیسائیوں کے ہاں کرسمس ڈے کو دنیا میں دیگر مختلف ناموں سے بھی منایا جاتا ہے مثلاً نوائل (پیدائشی یا یوم پیدائش) اور یول ڈے نیٹوئی (پیدائش کاسال) وغیرہ۔
جبکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ دن عیسیٰؑ کی ولادت کا دن ہی نہیں ہے، پوری بائبل، عہد نامہ جدید اور چاروں انجیلوں میں سوائے چند اشارات کے عیسیٰؑ کی ولادت کا صراحتاً بالکل بھی ذکر نہیں ہے، اس لئے عیسائیوں کے ہاں بھی عیسیٰؑ کی تاریخ پیدائش اور سن پیدائش میں بہت شدید اختلاف پایا جاتا ہے، چنانچہ ”مذاہب عالم کا تقابلی مطالعہ“‘ کا ایک اقتباس اس کے سارے پس منظر پر یوں روشنی ڈالتا ہے کہ ”4 صدیوں تک 25 دسمبر تاریخ ولادت مسیحؑ نہیں سمجھی جاتی تھی، 530ء میں سیتھیا کا ڈایونیس اکسیگز نامی ایک راہب جو کہ ایک منجم بھی تھا، تاریخ ولادت مسیحؑ کی تحقیق اور تعین کیلئے مقرر ہوا، سو اس نے حضرت مسیح علیہ السلام کی ولادت 25 دسمبر مقرر کی کیونکہ مسیحؑ سے پانچ صدیاں قبل 25 دسمبر مقدس تاریخ سمجھی جاتی تھی بہت سے دیوتاؤں کا اس تاریخ پر یا اس سے ایک دو دن بعد پیدا ہونا تسلیم کیا جا چکا تھا، چنانچہ راہب نے آفتاب پرست اقوام میں عیسائیت کو مقبول بنانے کیلئے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی تاریخ ولادت 25 دسمبر مقرر کر دی۔“
پھر عیسائیوں کا یہ عقیدہ بھی ہے کہ ”25دسمبر کو اللہ کا بیٹا پیدا ہوا تھا“ (العیاذ باللہ) سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مسلمانوں نے اس دن کو کیوں منانا شروع کر دیا، نہ تو ان کا یہ عقیدہ ہے اور نہ ہی اسکی تاریخی حیثیت سچی ہے بلکہ اس کا سارا دارومدار خودساختہ اور جعل سازی پر مبنی ہے، اس دن عیسائی جو کچھ کرتے ہیں وہی مسلمانوں نے بھی کرنا شروع کر دیا ہے، بر صغیر میں عیسائی چند فیصد ہیں اور مسلمان بڑتعداد میں ہیں ،لیکن اس کے باوجود مسلمان ان سے مرعوب ہیں اور کئی جگہ مسلمان بہت جوش و جذبہ سے اس دن کو مناتے ہیں جو بجاۓ خود انتہائی افسوسناک بات ہے، اس موقع پر عیسائی شراب نوشی کرتے ہیں حالانکہ ان کی اپنی بائبل میں 38 مقامات میں شراب نوشی کو حرام قرار دیا گیا ہے جبکہ صرف برطانیہ کا حال یہ ہے کہ ہر سال کرسمس کے موقع پر 7 ارب 30 کروڑ پاؤنڈ کی شراب پی جاتی ہے، شراب نوشی، مذہب بیزاری، بدکاری، ہم جنس پرستی، ناچ گانا، سود، مردوزن کا اختلاط، بت پرستی، جوا اور جو خرافات عیسائی اس موقع پر انجام دیتے ہیں یہ تو اصل عیسائیت میں بھی ناجائز ہیں، انہیں بعد کے منچلوں اور مفاد پرستوں نے عیسائیت کیساتھ شامل کر کے رواج دیا ہے اور پھر ان سے متاثرہ لبرل قسم کے مسلمانوں نے بھی ان کی دیکھا دیکھی ان سے بھی بڑھ چڑھ کر اسے منانا شروع کر دیا ہے، اب مسلمان بھی اس موقع پر لاکھوں روپے کی شراب چڑھا جاتے ہیں، برائی و بدکاری، جوابازی اور دیگر تمام امور میں عیسائیوں کے بھی کان کتر دیتے ہیں، اسلئے مسلمانو کو اپنے خدا کی طرف آنا چاہیے اور شریعت سے وابستہ ہونا چاہیے اسی میں ان کی کامیابی ہے ، سورۃ مریم کے مطالعہ سے پتہ چلتاہے کہ عیسائیوں کا عقیدہ کیا ہے، جس کرسمس پر لبرلیے خیر سگالی کیلئے عیسائیوں کی خوشیوں میں شریک ہوتے ہیں اور انہیں مبارکبادیں دیتے ہیں، اس کا پس منظر خدا کی طرف سے سنیں اور عبرت حاصل کریں، اللہ تعالی نے قرآن کریم میں فرمایا ہے”اور کہا (عیسائیوں نے) کہ بنا لیا ہے خدائے رحمان نے بیٹا، البتہ لائے ہو تم ایک بڑی ناگوار بات، قریب ہے کہ آسمان پھٹ پڑیں اس سے اور زمین شق ہو جائے اور گر پڑیں پہاڑ ریزہ ریزہ ہو کر، اس وجہ سے کہ پکارتے ہیں یہ لوگ رحمان کیلئے اولاد، اور نہیں ہے لائق رحمن کیلئے کہ وہ بنائے اولاد۔“
حضرت عیسٰی ع کے تعلق سے موجودہ عیسائیوں کا نظریہ

موجودہ عیسائی اپنا رشتہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے جوڑتے ہیں، جب کہ اس دنیا میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے متعلق تین طرح کے نظریات پائے جاتے ہیں:(1)پہلا نظریہ یہ ہے کہ وہ ابن اللہ اور اقانیمِ ثلٰثہ کے ایک جز ہیں، یہ نظریہ عیسائیوں کا ہے (2) دوسرا نظریہ یہودیوں کا ہے ، جو العیاذ باللہ آپ کی ولدیت کے متعلق سوال اٹھاتے ہیں (3) تیسرا نظریہ یہ ہے کہ مسیح علیہ السلام اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے پیغمبر ہیں، ایک مدت زمین پر رہے ، پھر آسمان پر اٹھا لیے گئے اور قربِ قیامت پھر نازل ہوں گے اور شریعتِ محمدیہ کے مطابق زندگی کزاریں گے ، ایک مدت تک قیام کریں گے اور پھر وفات پاکر مدینہ منورہ میں مدفون ہوں گے ۔ مذکورہ بالا تینوں نظریات و عقائد میں سے پہلا افراط تو دوسرا تفریط پر مبنی ہے کہ اول نے آپ کا درجہ الوہیت سے ملا دیا، دوسرے نے آپ کے جائز وجود کا بھی انکار کر دیا، جب کہ تیسرا نظریہ اسلام کا ہے جو اس افراط و تفریط سے مکمل طور پر پاک اور مسلمانوں کا مسلّمہ عقیدہ اور قرآن و احادیث سے مدلل طور پر ثابت شدہ ہے ۔

موجودہ عیسائی مذہب

موجودہ عیسائی مذہب نے خدا کے تصور کی جو تفصیلات بیان کی ہیں، وہ بڑی الجھی ہوئی ہیں اور ان کا سمجھنا آسان نہیں ہے ۔ یہ بات ہر شخص کو معلوم ہے کہ عیسائی مذہب میں خدا تین اقانیم سے مرکب ہے : باپ، بیٹا اور روح القدس۔ اسی عقیدے کو عقیدۂ تثلیث کہا جاتا ہے ، لیکن بہ جائے خود اس عقیدے کی تشریح و تعبیر میں عیسائی علما کے بیانات اس قدر مختلف اور متضاد ہیں کہ یقینی طور سے کوئی ایک بات کہنا بہت مشکل ہے ۔ وہ تین اقانیم کون ہیں، جن کا مجموعہ ان کے نزدیک خدا ہے ؟ خود ان کی تعیین میں بھی اختلاف ہیں، بعض کہتے ہیں کہ خدا باپ، بیٹے اور روح القدس کے مجموعے کا نام ہے [عام عیسائیوں کا یہی مسلک ہے ]، اور بعض کا کہنا ہے کہ باپ، بیٹا اور کنواری مریم وہ تین اقنوم ہیں، جن کا مجموعہ خدا ہے ، پھر ان تین اقانیم میں سے ہر ایک کی انفرادی حیثیت کیا ہے اور خداے مجموع سے اس کا کیا رشتہ ہے ؟ اس سوال کے جواب میں بھی ایک زبردست اختلاف پھیلا ہوا ہے ۔ ایک گروہ کا کہنا ہے کہ ان تین میں سے ہر ایک بہ ذاتِ خود بھی ویسا ہی خدا ہے جیسا مجموعۂ خدا، ایک دوسرے گروہ کا کہنا ہے کہ ان تینوں میں سے ہر ایک الگ الگ خدا تو ہیں مگر مجموعۂ خدا سے کم تر ہیں، اور ان پر لفظِ خدا کا اطلاق ذرا وسیع معنی میں کر دیا گیا ہے ، تیسرا گروہ کہتا ہے کہ یہ تین خدا ہی نہیں ہیں، خدا تو صرف ان کا مجموعہ ہے ۔غرض اس قسم کے بے شمار اختلافات ہیں جن کی وجہ سے تثلیث کا عقیدہ ایک خوابِ پریشان بن کر رہ گیا ہے ۔(بائبل سے قرآن تک)

عیسائی تہواروں میں کرسمس کی حیثیت

عیسائی تہواروں میں کرسمس کا دن ایسا ہی سمجھا جاتا ہے ، جیسے مسلمانوںمیں عید کا دن، کیوں کہ یہ عیسائیوں کا سالانہ تہوار ہے ،جو پچیس دسمبر کو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی سال گرہ کے طور پر منایا جاتا ہے اور بیان کیا جاتا ہے کہ اس تاریخ کو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ولادت ہوئی تھی، اسی خوشی میں کیک کاٹے جاتے ہیں اور مختلف قسم کے طریقوں سے خوشی کا اظہار کیا جاتا ہے ۔ایسٹر کے متعلق عیسائیوں کا عقیدہ ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام کو جب سولی پر چڑھادیا گیا تو وہ تین دن بعد دوبارہ زندہ ہو گئے تھے اور چوں کہ یہ 21مارچ کی تاریخ تھی، اس لیے اس خوشی میں عیسائی 21مارچ کو یا اس کے فوراً بعد آنے والے اتوار کو یہ تہوار مناتے ہیں۔یاد رہے کہ یہ وہی دن ہے جسے ایرانی نوروز کے نام سے یاد کرتے ہیں اور ہندو اسے بسنت کا موقع قرار دیتے ہیں۔ مصر اور آئرلینڈ کے لوگ ایسٹر کوآسٹر145 کہتے ہیں، جس کا مطلب بہار کی دیوی ہے ، اس اعتبار سے ان کے یہاں یہ بہار کی دیوی کی تقریب ہوتی ہے ۔ (تقابلِ ادیان)

کرسمس کی ابتدا

قرآن مجید کی سورۂ مریم پڑھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ جب حضرت مریم علیہا السلام کو دردِ زہ ہوا تو اللہ تعالیٰ نے ان کو ہدایت کی کہ کھجوروں کے تنے کو ہلائیں تا کہ ان پر تازہ پکی کھجوریں گریں اور وہ اس کو کھائیں اور چشمے کا پانی پی کر طاقت حاصل کریں۔ اب فلسطین میں موسمِ گرما کے وسط یعنی جولائی ، اگست میں ہی کھجوریں ہوتی ہیں، اس سے بھی یہ امر واضح ہو جاتا ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام کی ولادت جولائی یا اگست کے کسی دن میں ہوئی تھی اور25دسمبر کی تاریخ غلط ہے ۔ (مذاہبِ عالم کا تقابلی مطالعہ)نیز انسائیکلوپیڈیا آف برٹانیکا کے مقالہ نگار شمالی کیلفورنیا کے شہر درہم کی ڈیوک یونیورسٹی کے شعبۂ تاریخ و دینیات کے پروفیسر ڈاکٹر ہانس جے ہلر برانڈکرسمس ڈے کے متعلق لکھتے ہیں کہ ابتدائی عیسائی لوگ حضرت عیسیٰ کی یوم پیدائش اور اس موقع کو بہ حیثیت تہوار منانے کے درمیان فرق کیا کرتے تھے ،در اصل ولادتِ مسیح کو منانے کی رسم بہت بعد میں آئی،بالخصوص عیسائیت کی ابتدائی دو صدیوں کے دوران شہدا یا حضرت عیسیٰ کے یومِ پیدائش کو بہ حیثیت تہوار منانے کے لیے شناخت کرنے کے متعلق ابتدائی عیسائیوں کی طرف سے انتہائی مضبوط مخالفت موجود تھی،بہت سے چرچ فادرز نے یومِ ولادت کو منانے کی پاگان (مشرکانہ) رسم کے متعلق طنز آمیز تبصرے پیش کیے ۔25دسمبر کو ولادتِ مسیح کے طور پر مقرر کرنے کا باقاعدہ آغاز بالکل غیر واضح ہے ، عہد نامہ جدید میں اس بارے میں کوئی سراغ نہیں ملتا ۔اس دن کی بنیاد کے متعلق ایک ہمہ گیر وضاحت یہ ہے کہ25دسمبر در حقیقت پاگان (مشرک)روم کے تہوار یعنی نا مغلوب ہونے والے سورج دیوتا کا یومِ پیدائش کی نقل ہے

کرسمس ٹری

کرسمس کے دوران کرسمس ٹری بھی بڑی اہمیت رکھتا ہے ، جب کہ یہ تصور جرمنوں کا پیدا کردہ ہے ۔ یہ لوگ کرسمس کے دن حضرت مریم علیہا السلام اور حضرت عیسٰی علیہ السلام اور حضرت جبریل علیہ السلام کا کردار مختلف اداکاروں کے ذریعے ایک ڈرامے کی شکل میں پیش کرتے اور تمام واقعہ دہراتے ہیں جو مریم علیہا السلام کے ساتھ مسیح علیہ السلام کی ولادت کے ضمن میں پیش آیا، اور اس واقعے کے دوران درخت کو مریم علیہا السلام کا ساتھی بنا کر پیش کیا جاتاہے کہ وہ اپنی ساری اداسی اور ساری تنہائی اس ایک درخت کے پاس بیٹھ کر گزار دیتی ہیں۔ چوں کہ یہ درخت بھی اسٹیج پر سجایا جاتا تھا اور ڈرامے کے اختتام پر لوگ اس درخت کی ٹہنیاں تبرک کے طور پر اکھیڑ کر ساتھ لے جاتے اور اپنے گھروں میں ایسی جگہ لگا دیتے تھے جہاں ان کی نظریں اس پر پڑتی رہیں، یہ رسم آہستہ آہستہ کرسمس ٹری کی شکل اختیار کر گئی اور لوگوں نے اپنے اپنے گھروں میں کرسمس ٹری بنانے اور سجانے شروع کر دیے ۔ اس ارتقائی عمل کے دوران کسی ستم ظریف نے اس پر بچوں کے لیے تحائف بھی لٹکا دیے ، جس پر یہ تحائف بھی کرسمس ٹری کا حصہ بن گئے ۔کرسمس ٹری کی بدعت انیسویں صدی تک جرمنی تک محدود رہی، 1847عیسوی کو برطانوی ملکہ وکٹوریہ کا خاوند جرمنی گیااور اسے کرسمس کا تہوار جرمنی میں منانا پڑا تو اس نے پہلی مرتبہ لوگوں کو کرسمس ٹری بناتے اور سجاتے دیکھا اسے یہ حرکت بہت معلوم ہوئی ،لہٰذا وہ واپسی پر ایک ٹری ساتھ لے آیا۔ 1848عیسوی میں پہلی مرتبہ لندن میں کرسمس ٹری بنوایا گیا، جو ایک دیو ہیکل کرسمس ٹری تھا ،جو شاہی محل کے باہر سجایا گیا تھا۔ 25دسمبر 1848ء کو لاکھوں لوگ یہ درخت دیکھنے لندن آئے اور اسے دیکھ کر گھنٹوں تالیاں بجاتے رہے ، اس دن سے لے کر آج تک تقریباً تمام ممالک میں کرسمس ٹری ہر مسیحی گھر میں سجایا جاتا ہے ۔(ایوری مینز انسائیکلوپیڈیا، 1958ء)

کرسمس کے موقع پر سرخ جوڑے

کرسمس کے موقع پر ایک خاص چیز اور قابلِ ذکر ہے ، وہ ہے سُرخ کپڑے پہننا ، چہرے پر سفید داڑھی سجائے اور کندھے پر لال تھیلا اُٹھائے کرسمس فادر یا سینٹا کلاز کس۔جو بچوں کے لیے تحفے لے کر آتا ہے ، اس لیے کرسمس کے موقع پر اس کا بے صبری سے انتظار کیا جاتا ہے ۔

موجودہ حالت

شروع شروع میں تو جب 25 دسمبر کی تاریخ آتی تو چرچ میں ایک اجتماع ہوتا، ایک پادری صاحب کھڑے ہو کر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی تعلیمات اور آپ کی سیرت بیان کر دیتے ، اس کے بعد اجتماع برخواست ہو جاتا۔ گویا کہ بے ضرر اور معصوم طریقے پر یہ سلسلہ شروع ہوا، لیکن کچھ عرصے کے بعد انھوں نے سوچا کہ ہم پادری کی تقریر تو کرا دیتے ہیں، مگر وہ خشک قسم کی تقریر ہوتی ہے ، جس کا نتیجہ یہ ہے کہ نوجوان اور شوقین مزاج لوگ تو اس میں شریک نہیں ہوتے ، اس لیے اس کو ذرا دلچسپ بنانا چایے ، تاکہ لوگوں کے لیے دل کش ہو، اور اس کو دل چسپ بنانے کے لیے اس میں موسیقی ہونی چاہیے ، چناں چہ اس کے بعد موسیقی پر نظمیں پڑھی جانے لگیں۔ پھر انھوں نے یہ دیکھا کہ موسیقی سے بھی کام نہیں چل رہا ہے ، اس لیے اس میں ناچ گانا بھی ہونا چاہیے ، چناں چہ پھر ناچ گانا بھی اس میں شامل ہو گیا۔ پھر سوچا کہ اس میں کچھ تماشے بھی ہونے چاہئیں، چناں چہ ہنسی مذاق کے کھیل تماشے شامل ہو گئے ، چناں چہ ہوتے ہوتے یہ ہوا کہ وہ کرسمس جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی تعلیمات بیان کرنے کے نام پر شروع ہوا تھا اب وہ عام جشن کی طرح ایک جشن بن گیا، اور اس کا نتیجہ یہ ہے کہ ناچ گانا اس میں، موسیقی اس میں، شراب نوشی اس میں، قمار بازی اور جوا اس میں، گویا کہ اب دنیا بھر کی ساری خرافات کرسمس میں شامل ہو گئیں اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی تعلیمات پیچھے رہ گئیں۔اب آپ دیکھ لیجیے کہ مغربی ممالک میں جب کرسمس کا دن آتا ہے تو اس میں کیا طوفان برپا ہوتا ہے ! [افسوس کہ مشرق بھی اب اس کی پوری نقالی کرنے لگا] اس ایک دن میں اتنی شراب پی جاتی ہے کہ پورے سال اتنی شراب نہیں پی جاتی، اس ایک دن میں اتنے حادثات ہوتے ہیں کہ پورے سال اتنے حادثات نہیں ہوتے ، اس ایک دن میں عورتوں کی اتنی عصمت دری ہوتی ہے کہ پورے سال اتنی نہیں ہوتی اور یہ سب کچھ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے یومِ پیدائش کے نام پر ہو رہا ہے ۔(اصلاحی خطبات)اس لیے علماے اسلام نے ان تہواروں میں مسلمانوں کو شریک ہونے سے روکا اور تاکید کی ہے کہ مذہبی رواداری بہت عمدہ چیز ہے ، لیکن اغیار کے خاص مذہبی امور میں شرکت درست نہیں۔برنی 9611021347

Related Posts

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے