آہ! پروفیسر ظفر احمد صدیقی

وفات: 29/دسمبر 2020ء

*_بقلم: عبید اللہ شمیم قاسمی_*

پروفیسر ظفر احمد صدیقی کی پیدائش 10/اگست 1955ء کو بدایوں میں ہوئی، وہ اصلا گھوسی محلہ قاضی پاڑہ ضلع مئو کے رہنے والے تھے، انہوں نے بہت سے تحقیقی کام کیے، جن میں ان کی کتاب " *علامہ شبلی نعمانی بحیثیت سیرت نگار* " بہت مشہور ہوئی۔
آپ نے بنارس یونیورسٹی میں تعلیم دی، اس کے بعد علی گڑھ گئے، آپ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) کے شعبہ اردو کے معتبر استاد اور معروف محقق تھے، پچھلے ہی سال پروفیسر محمد طارق چھتاری کی جگہ صدر شعبہ کے عہدہ کا چارج سنبھالا تھا، انہوں نے اپنی سبکدوشی کی تاریخ 9اگست 2020 تک بطور صدر شعبہ ذمہ داریاں انجام دی۔
پروفیسر ظفراحمد صدیقی کا شمار اعلی پائے کے محققین میں ہوتا تھا۔ وہ تقریبا 40 سال سے درس و تدریس کے شعبہ سے وابستہ رہے اور بطور استاد ان کی اعلی خدمات کا ہر سطح پر اعتراف کیا جاتا رہا ہے۔
تحقیق سے خاص دلچسپی کے تحت وہ طویل عرصہ سے اردو اور فارسی کے شعراءو ادباء پر تحقیقی کام انجام دئے۔ اور انھوں نے اس درمیان اردو کی ادبی تاریخ میں اہمیت کے حامل متون کی کھو ج کرکے انھیں شائع بھی کرایا۔
ان کا یہ بھی امتیاز تھا کہ وہ تقریبا 40 سال سے زائد کلاسیکی متن(نثر اور شاعری) کی تعلیم دئے۔ انھوں نے اردو کے کلاسیکی شاعروں کے اب تک نظر انداز کیا جاتا رہا تھا۔ ساتھ ہی اردو کی اہم صنف قصیدہ کی ہیئت اور حدود سے بھی بحث کی۔
پروفیسر ظفر احمد صدیقی کی ۷۱ کتابیں، جن میں ” شبلی شناسی کے اولین نقوش، تحقیقی مقالات ،دیوان ناظم، افکار و شخصیات،شبلی کی علمی و ادبی خدمات، شرح دیوان اردو غالب، شبلی معاصرین کی نظر میں، انتخاب مومن،نقش معنی وغیر ہ شامل ہیں۔ ان کے 135 سے زائد مقالات ملک اور بیرون ملک خصوصا پاکستان(نقوش،لاہور۔اقبالیات، لاہور۔صحیفہ، لاہور۔ قومی زبان ،کراچی، تحصیل، کراچی وغیرہ) کے معیاری جرنل میں شائع ہو چکے ہیں۔
پروفیسر ظفر احمد صدیقی کو ”نقوش ایوارڈ ، لاہور(پاکستان) کے علاوہ ہندوستان کی مختلف اردو اکیڈمیوں نے انعامات و اعزازات سے نوازا، نیز متعدد اسکالرشپ اور فیلوشپ بھی تفویض ہوئی۔ انہوں نے مختلف سیمیناروں میں 133 مقالات متعدد کلیدی اور صدارتی خطبے پیش کئے۔ اس کے علاوہ بطور ریسورس پرسن ۵۵ کانفرنسوں اور ورکشاپ میں شرکت کی۔
ان کے زیر نگرانی 17 پی ایچ ڈی اور ایم فل مقالات پر ڈگریاں تفویض کی گئیں۔
وہ جامعہ اسلامیہ مظفر پور اعظم گڑھ میں 2007ء میں منعقد سیمینار " *ہندوستان اور علم حدیث تیرہویں اور چودہوں صدی ہجری میں* " تشریف لائے تھے، اس کے بعد بھی کئی مرتبہ آئے۔
11/نومبر 2016ء کو گھوسی میں جمعیت علماء ہند کی جانب سے قومی یکجہتی کانفرنس میں انہوں نے بحیثیت میزبان بہت اچھا خطبہ پیش آیا۔
اپنی زندگی کے متعینہ وقت گزار کر آج وہ بھی دار آخرت کو کوچ کرگئے۔
*اٹھ گئی ہیں سامنے سے کیسی کیسی صورتیں*
*روئیے کس کے لیے اور کس کا ماتم کیجئے*
اللہ تعالی مرحوم کی مغفرت فرمائے، درجات بلند فرمائے اور ان کی خدمات کو قبول فرمائے۔

Related Posts

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے