شیخ یوسف صالح قراچہ ترکی ندوی

✒️ مفاز شریف ندوی۔

انیسویں صدی کے نصف اواخر سے مسلمانوں پر سیاسی نکبت و ادبار چھانے لگا۔ بر صغیر کی عظیم الشان سلطنت مغلیہ کا چراغ گل ہوا۔ دوسری طرف عظیم سلطنت عثمانیہ کا تار و پود بکھر رہا تھا۔ مختلف اسلامی ممالک پر مغربی استعمار کے سائے بڑھتے جارہے تھے۔ بیسویں صدی کے آغاز میں سلطنت عثمانیہ کو ختم کیا گیا۔ جس کے بعد سے اب تک مسلم ممالک مغرب کے غلام ہیں۔ ظاہر میں بعض آزاد نظر آئیں مگر معاشی اور تہذیبی طور پر ان کے زیر اثر ہیں۔ وہ اپنا کوئی ذاتی فیصلہ نہیں لے سکتے ہیں۔ اس المناک اور اندوہ گیں حقیقت کو اس زمانے کے بڑے شاعر نے اس طرح بیان کیا ہے:

وہی آواز سلاسل، کہیں مدھم کہیں تیز
لاکھ کہتے رہیں آزاد ہیں آزاد نہیں

فرق گر ہے تو سلاخوں کی کمی بیشی کا
ہم قفس زاد ہیں سب، کوئی چمن زاد نہیں

اب ان اشعار کی فنی خصوصیات پر گفتگو مناسب نہیں ہے۔ خلافت عثمانیہ کے خاتمے کے بعد مایوس کن حالات پیدا ہوتے گئے۔ ترکی میں جو اسلام دشمنی کا مظاہرہ ہوا وہ ہم سے مخفی نہیں ہے۔ اسلامی تعلیمات پر پابندی لگی۔ اسلامی تعلیم پر قدغن لگائی گئی۔ کئی مساجد کو گودام اور دوسرے حکومتی مفادات کے لیے استعمال کیا گیا۔ ہزاروں علما کو موت کے گھاٹ اتارا گیا۔
یوسف صالح قراچہ اس ماحول میں پیدا ہوئے۔ ان کے ماموں حکومت کے ایک اچھے عہدے پر فائز تھے۔ ان کو اسلام سے محبت تھی۔ اس لیے وہ اپنے گھر میں عشاء کے بعد قرآن مجید کی تعلیم چپکے چپکے دیتے تھے۔ اسی طرح ان کے گھر میں والد صاحب اپنی اولاد کو قرآن کریم پڑھاتے تھے۔ ایک دن حکومت کے اہلکاروں کو محسوس ہوا کہ ان کے گھر میں قرآن کی تعلیم ہوتی ہے، تحقیق و تفتیش کے لیے ان کے گھر پہنچے۔ یوسف صاحب اور ان کے بھائی مدرسے میں موجود تھے۔ مگر تشویش کی بات یہ ہوئی کہ ان کے یہاں ایک بچہ قرآن سیکھنے کے لیے ہر روز آیا کرتا تھا۔ وہ اس وقت آج بھی تشریف لایا۔ حکومت کے اہلکاروں نے سوال کیا کہ یہ کون ہے؟
ان کے والد صاحب نے جواب دیا: یہ تو میرا بچہ ہے۔ پھر انھوں نے حکومت کے اہلکاروں کو گمراہ کرنے کے لیے اس بچے سے کہا: بیٹا! تم یہ بکریاں چرانے کے لیے لے جاؤ۔
جب پولیس والے چلے گئے تو ان میں سے ایک واپس آکر ان کے والد سے کہتا ہے: مجھے معلوم ہے کہ آپ قرآن پڑھاتے ہیں۔ آپ باز آجائیں، ورنہ یہ حکومت آپ کو پابند سلاسل کرے گی اور آپ کا گھر زمیں بوس کرے گی۔
خلافت عثمانیہ کے خاتمے کے بعد سے 1950 تک اذان ترکی زبان میں دی جاتی رہی۔ ان کے والد مؤذن تھے اور یہ بھی ترکی زبان میں اذان دیتے تھے، بلکہ یہ خود کبھی کبھار ترکی زبان میں ہی اذان دیا کرتے تھے۔ اس طویل عرصے میں دینی مدارس کا وجود نہ تھا۔
البتہ 1950 میں ترکی میں پارلیمانی انتخابات ہوئے، جن میں عدنان میندریس کو کامیابی حاصل ہوئی۔ وہ ظاہر میں اسلام بیزار تھے مگر بباطن اسلام سے محبت رکھتے تھے۔ انھوں نے تعلیم قرآن کی پابندی ختم کردی۔ بعض علما ان کے پاس چلے گئے اور دینی مدارس کے قیام کی اجازت طلب کی۔ امام خطیب کے نام سے سات چھوٹے چھوٹے مکاتب قائم کیے گئے۔ یہ مکاتب ان شہروں میں قائم ہوئے قيصرية، اسطنبول، قونية، مرعش، آدانا اور اسبارتا۔ یوسف صاحب کی ثانوی تعلیم یہاں ہوئی۔

یہ ترکی کے مشہور شہر قیصریہ کے ایک دیہات میں پیدا ہوئے۔ اور وہیں سولہ سال تک دینی تعلیم حاصل کی۔ قرآن ناظرہ مکمل کیا۔ عربی کے مبادیات کی تعلیم حاصل کی۔ اور ربع قرآن حفظ کیا۔ سولہ سال مکمل ہونے کے بعد ان کے استاذ و مربی مفتی ہاشم آنار رحمۃ اللّٰہ علیہ کے مشورے سے اسطنبول کا سفر کیا۔ اسطنبول میں کسی سے شناسائی نہیں ہے۔ لیکن استاذ کہہ رہے ہیں: اگر تم سفر کے لیے تیار ہو جاؤ تو میں ایک شخصیت کو خط لکھ دوں گا۔ ان کے دل میں حصول علم کا شوق مچل رہا تھا مگر والد صاحب کچھ دن کے لیے اس سے راضی نہ ہوئے۔ آخر کار مفتی صاحب کے اصرار اور سمجھانے سے راضی ہوگئے۔
یہ قیصریہ سے اسطنبول کے لیے ریل گاڑی پر سوار ہوئے اور ایک دن ایک رات کے طویل سفر کے بعد اپنے منزل مقصود پہنچے۔ وہ خود کہتے ہیں: میرے استاد نے مجھے مختلف خطوط دیے تھے۔ ان پر الگ الگ پتے لکھے ہوئے تھے۔ میں ان کو دیکھ کر سات مختلف جگہوں پر چلا گیا اور سات شخصیات سے ملاقات کی اور ان کو استاد کا خط دکھایا، مگر ہر کسی نے مجھے اپنے پاس رکھنے سے انکار کیا۔ اب میرے پاس صرف ایک مسجد کا پتہ باقی رہ گیا۔ میں وہاں چلا گیا۔ وہ انتہائی چھوٹی خستہ حال مسجد تھی۔ اسطنبول کی بلدیہ سے قریب واقع تھی۔ میں جب وہاں پہچا تو مغرب کی اذان کا وقت قریب تھا۔ میری جیب میں پندرہ لیرہ موجود تھے، جو اس وقت پندرہ ڈالر کے برابر تھے۔ میرے دل میں یہ خیال آیا کہ اگر مجھے یہاں رہنے کے لیے جگہ نہ ملی تو میں ان پیسوں سے دو دن ہوٹل میں رہ سکتا ہوں۔ یہ سوچ رہا تھا کہ اذان ہوگئی۔ نماز کے بعد میں وہاں کے امام شیخ توفیق خوجہ سے ملا اور انہیں اپنے استاد کا خط دکھایا۔ انھوں نے غور سے خط کو پڑھنا شروع کیا اور جب ان کی نگاہ مفتی ہاشم صاحب کے نام پر پڑی تو وہ بڑے محبت بھرے لہجے میں پوچھنے لگے: مفتی صاحب کہاں ہیں؟ زندہ ہیں یا اللّٰہ کو پیارے ہوگئے؟
میں نے کہا: الحمداللہ زندہ ہیں، صحیح سالم ہیں۔ انھوں نے مجھے آپ کے پاس تعلیم حاصل کرنے کے لیے بھیجا ہے۔
انھوں نے پوچھا: تمھاری جائے اقامت کہاں ہے؟
میں نے کہا: میرے پاس کوئی بھی جگہ نہیں ہے۔
وہ پوچھنے لگے: تمھارا بستر اور ساز و سامان کہاں ہے؟
میں نے کہا: میرے پاس سونے کے لیے تخت اور بستر نہیں ہے۔ اس پر شیخ نے لاحول پڑھا اور اپنے ایک شاگرد سلیمان کو آواز دی۔ وہ آیا تو شیخ نے اس سے کہا کہ یہ نیا طالب علم ہے۔ تم اسے اپنے کمرے لے جاؤ اور بستر کا انتظام کرو۔ سلیمان مجھے ایک چھوٹے سے کمرے میں لے گیا۔ اب وہ کمرہ میری قیام گاہ تھا۔ کھانے کے لیے اکثر ٹماٹر اور سوکھی روٹی ملتی تھی، جو اس وقت بہت مزیدار معلوم ہوتی تھی۔
شیخ یوسف نے استاذ توفیق خوجہ کے پاس علم قرآت اور مختلف قرآنی علوم کی تحصیل و تکمیل کی۔ اس دوران وہ دوسری مسجد میں شیخ عبد العزیز بکینہ کے پاس علم عقائد کی ایک کتاب کا درس لیتے تھے۔ اسی طرح استاد محمد زاہد کوتکو سے بھی مستفید ہوتے رہے۔ یہ تمام شخصیات اس وقت کے کبار اہل علم میں شمار ہوتے تھے۔

1959 کے شروع میں مولانا علی میاں کے ایک دوست لندن سے پڑھ کر اپنے وطن ہندوستان آنے والے تھے۔ مولانا علی میاں نے ان سے کہا کہ تم کچھ دن کے لیے اسطنبول میں قیام کرو اور وہاں ایک شامی طالب علم کو میرا خط دو۔ اس شامی طالب علم کا اخوان المسلمین سے گہرا تعلق تھا۔ شیخ یوسف کے اس شامی طالب علم سے اچھے مراسم تھے۔ وہ ان سے اکثر ملنے آیا کرتے تھے۔ اس نے ہندوستانی مہمان کا تعارف کرایا۔ اتفاق کی بات یہ ہوئی کہ یہ سب حضرت ابو ایوب انصاری کے مقبرے کی زیارت کے لیے چلے گئے۔ اس سفر میں شیخ یوسف کی ہندوستانی عالم سے گفتگو ہوئی۔ شیخ کو فارسی اور عربی آتی تھی۔ جب کہ مہمان کو اردو اور انگریزی آتی تھی۔ شیخ فارسی میں گفتگو کرتے اور وہ شامی طالب علم انگریزی میں ترجمہ کرتا تھا۔ اسی طرح گفتگو جاری رہی۔ پھر اچانک ہندوستانی عالم نے پوچھا: تم ہندوستان میں دار العلوم ندوۃ العلماء میں پڑھنے کے لیے کیوں نہیں آتے؟ یہاں پر مشہور عالم شیخ ابو الحسن ندوی پڑھاتے ہیں۔ شیخ یوسف نے کہا: میں ایک غریب آدمی ہوں۔ کھانے پینے کا بند و بست کیسے ہوگا؟
انھوں نے جواب دیا: آپ کو اس سلسلے میں پریشان ہونے کی کوئی ضرورت نہیں۔ یہاں مفت میں کھانا اور رہنے کے لیے ٹھکانہ دیا جائے گا۔
خدا کی توفیق و تائید سے وہ ندوہ آگئے اور قسم الادب میں داخل ہوگئے۔ یہاں تین سال رہے۔ اردو بالکل نہ آتی تھی۔ اس کے لیے مولانا علی میاں نے سعید الرحمن اعظمی صاحب کو مامور کیا۔ وہ انہیں اردو زبان سکھانے لگے۔ چونکہ یہ ذہین تھے، اس لیے بہت تیزی سے اردو زبان کے استعمالات پر قابو پانے لگے۔ ایک مدت کے بعد ندوے میں مولانا عبد الماجد دریابادی تشریف لائے تو انھیں بھی بلایا گیا۔ یہ ان سے اردو میں گفتگو کرنے لگے۔ دریابادی صاحب پوچھنے لگے: تم کہاں سے آئے ہو؟
انھوں نے کہا: ترکی سے آیا ہوں۔ ایک سال سے یہاں تعلیم حاصل کررہا ہوں۔
دریابادی صاحب نے ان کی سلیس اردو پر تعجب کا اظہار کیا۔
ان تین سال میں ان کا ہمیشہ معمول رہا کہ وہ ہفتے میں کئی کئی دن مستقل نہیں سوتے تھے۔ فجر کی اذان تک مطالعے میں منہمک رہتے۔ فجر کی نماز کے بعد دو گھنٹے آرام کرتے اور پھر مدرسے کی تعلیم میں مشغول ہوجاتے تھے۔
مولانا علی میاں کی ان پر خصوصی شفقت اور توجہ مرکوز رہی۔ یہ اکثر خالی اوقات میں مولانا کے پاس چلے جاتے اور ان سے مختلف علمی سوالات کرتے تھے۔ مولانا علی میاں ان سے کہتے تھے: یوسف! میرے بولنے کا انتظار مت کرو۔ تمھیں جو بھی اشکال ہو یا سوال کرنا ہو پوچھتے رہو۔ اس طرح ان دونوں کے درمیان افادہ و استفادہ ہوتا رہا۔
ندوے کے طلبہ اور اساتذہ ان سے بے حد محبت کرت تھے اور ان کی ممکن حد تک مدد سے دریغ نہیں کرتے تھے۔ تین سال کی محنت سے بھرپور تعلیم کے بعد اپنے وطن ترکی چلے گئے اور وہاں مزید اعلیٰ تعلیم حاصل کی۔ اس کے بعد وہاں کے مدارس میں تدریسی خدمات انجام دیں۔ خصوصاً امام خطیب کے مدارس میں، جہاں انھوں نے بچپن میں تعلیم حاصل کی تھی۔ اسی تدریسی دور میں ان کے پاس رجب طیب اردوغان نامی شاگرد بھی آیا اور ان سے عربی زبان کی چار سال تعلیم حاصل کی۔ شیخ یوسف نے اس کی دینی ذہنی تربیت میں اہم کردار ادا کیا۔ اس دور میں ترکی پر ملحدوں کا قبضہ تھا۔ کچھ عرصہ پہلے عدنان میندریس کو تختہ دار پر لٹکایا گیا، اس لیے کہ وہ اسلام پسند تھے۔ اس تاریک ماحول میں ان چھوٹے چھوٹے مکاتب میں اور مختلف مساجد میں ایک درویش صفت ملاؤں کی جماعت دین کی تعلیم دے رہی تھی اور ایک نئی نسل تیار کر رہی تھی۔ ان میں شیخ یوسف کا بھی حصہ ہے۔ ان کے شاگردوں میں اردوغان جیسا مرد مومن پیدا ہوا، جو بڑا ہوکر اسلام کا سپاہی بن گیا۔ بیس سال سے اسلام کی صحیح ترجمانی کررہا ہے اور دشمنانِ اسلام کی آنکھوں میں کھٹک رہا ہے۔ شیخ کے قریبی دوستوں میں عبداللہ جل بھی ہیں، جو پہلے وزیر اعظم تھے۔ اس کے علاوہ ان کے شاگردوں اور دوستوں میں متعدد ایسے ہیں، جو حکومت کے عہدوں پر فائز رہے اور ہیں۔ میں سوچتا ہوں کہ آخرت میں شیخ کا کتنا پڑا مقام ہوگا۔ مولانا علی میاں کے ترقی درجات کا کیا عالم ہوگا۔
امام خطیب مکاتب کی تعداد اب سات ہزار سے تجاوز کرگئی ہے۔ جب شیخ یوسف یہاں تعلیم حاصل کررہے تھے، اس وقت ان کی تعداد سات تھی۔ اخلاص کا نتیجہ.
اس داستان میں سیکھنے کے لیے بہت کچھ سامان ہے۔

بشکریہ: علم وکتاب (واٹس ایپ گروپ)

Related Posts

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے