فکر انقلاب کا اکابرِ دیوبند نمبر

عبدالمالک بلندشہری

تاریخِ اسلام کی بلند و بالا شخصیات اور قد آور علماء کے عبرت انگیز تذکرے،بصیرت افروز حالات اور ان کے اکتسابات و فتوحات جہاں معلومات و حقائق کا گنجینہ ہوتے ہیں وہیں ان کے روشن افکار کی قندیلیں بعد والوں کے دلوں کو روشنی بخشنے، ان کے ذہنوں کو تازگی و فرحت عطا کرنے اور انہیں بلند مقاصد و اعلی عزائم کا خوگر بنانے میں بھی ممد و معاون ہوتی ہیں..

اکابر و اسلاف کے تذکرے و احوال کی اشاعت ہر دور میں اہم اور ضروری سمجھی گئی ہے اور آج کے مادہ پرستانہ و مفاد پسندانہ احوال کو دیکھتے ہوئے تو اس کی اہمیت و افادیت اور معنویت دو چند ہوجاتی ہے…….

ماضی قریب میں برصغیر کی علمی، مذہبی، سماجی، ثقافتی اور معاشرتی سطح پر جن شخصیات و افراد کے انمٹ نقوش ثبت ہوئے اور جن کے کارہائے نمایاں آج بھی دوسروں کو دعوت فکر و عمل دے رہے ہیں ان میں علمائے دیوبند کا کردار بہت نمایاں ہے…. تحریک دیوبند تحریک ولی اللہی کا وہی امتداد ہے جو تحریک گردشِ زمانہ و انقلاباتِ دہر کی باعث نیم مردہ اور سوختہ جان ہوگئی تھی.. اس خفتہ تحریک کی نشاۃ ثانیہ کا سہرا اگر کسی جماعت و گروہ کے سر بندھتا ہے تو وہ علمائے دیوبند کے سر ہی بندھتا ہے….

نانوتہ کے ایک چھوٹے اور دور افتادہ قصبہ سے اٹھنے والے ایک معمولی شخص (جو بعد میں مختلف مراحل سے گزر کر شخصیت کی مسند پر فائز ہوا) نے انتہائی بے سر و سامانی کے عالم میں انار کے درخت تلے جو تحریک شروع کی تھی وہ بعد میں نتائج و ثمرات کے اعتبار سے دوسروں کے لئے باعث غبطہ بن گئی… تحریک دیوبند سے وابستہ حضرات نے برطانوی سامراج اور استعماریت کے خلاف محاذ قائم کرنے، مکتب و مدرسہ کے ذریعہ دین و مذہب کے تحفظ اور عیسائی مشنریز سے مقابلہ کرنے کے سلسلہ میں جو ناقابل یقین قربانیاں انجام دیں اور اس دشوار گزارراہ میں انہیں جن صعوبتوں اور اذیتوں کا سامنا کرنا پڑا ان سے تاریخ سے ادنی درجہ کا مس رکھنے والا بھی ہر شخص آگاہ ہوگا.

عہد رواں میں اردو زبان کے ذریعہ اکابر دیوبند کے حالات و کوائف کی ترویج و اشاعت میں جو کردار آل انڈیا تنظیم علماء حق دہلی ادا کررہی ہے وہ لائق ستائش اور قابل تحسین ہے . تنظیم کے ذمہ دار جناب مولانا اعجاز عرفی اکابر شناسی کے حوالہ سے اپنی ایک منفرد اور اہم شناخت قائم کرچکے ہیں… اکابر دیوبند کے فیوض و کمالات کو عام کرنا، ان کے احوال و سوانحی کوائف سے نئی نسل کو روشناس کرانا ان کی زندگی کی اولین ترجیحات میں شامل ہے…. وہ حکیم الامت نمبر، شیخ الاسلام نمبر، امام العصر نمبر، شیخ الحدیث نمبر، انظر شاہ نمبر، مفکر اسلام نمبر، فقیہ الاسلام نمبر سمیت متعدد عظیم شخصیات کے فکر و فن پر انتہائی معیاری، دستاویزی خصوصی رسائل شائع کرکے سوانحی ادب میں اب تک گراں قدر اضافہ کرچکے ہیں جس کا سلسلہ ہنوز جاری ہے…

زیر نظر شمارہ اکابر دیوبند نمبر اسی درخشاں سلسلہ کی ایک بہترین اور تابناک کڑی ہے.. اکابر دیوبند نمبر کے عنوان سے یہ مجلہ حال ہی میں منظر عام پر آیا ہے جو اپنے گوناگوں مشمولات، تحقیقی مقالات کی وجہ سے لائبریری کی زینت بننے لائق ہے … دیدہ زیب طباعت، عمدہ ٹائٹل اور سفید کاغذ کی وجہ سے اس کی قدر و قیمت اور معنویت میں کئی گنا اضافہ ہوگیا ہے.

رسالہ مدیرِ تحریر کے اداریہ سے شروع ہوتا ہے جس میں وہ مختصر مگر جامع انداز میں اکابر دیوبند کی خدمات کو خراج تحسین و باج عقیدت پیش کرتے ہیں.. اس کے بعد پیغامات و مراسلات کا سلسلہ ہے جس میں حیات انسانی کے مختلف شعبوں سے وابستہ سرکردہ شخصیات نے اس کاز کے تئیں اپنی پسندیدگی کا اظہار کیا ہے ….برصغیر کے نہایت ممتاز ترین بزرگ رہنما اور ندوۃ العلماء کے ذمہ دار مولانا سید رابع حسنی مدظلہ علمائے دیوبند کے امتیازات کو بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ تحریک دیوبند ایک مدرسہ، ایک تربیت گاہ، ایک مکتب فکر اور ایک مسلک کی حیثیت سے پوری دنیا میں متعارف ہے جس سے وہاں قیام کرکے راقم کو بھی استفادہ کا موقع ملا…

اسی طرح کاروان دیوبند کے سالار قافلہ مولانا مفتی ابوالقاسم نعمانی لکھتے ہیں کہ فکر انقلاب کے اکابر دیوبند نمبر کا انتظار ہے-اس کے مدیر نے پہلے بھی متعدد شخصیات کی حیات و خدمات پر خصوصی اور دستاویزی نوعیت کے شمارے شائع کئے ہیں. میں ان کی اس سرگرمی کو تحسین کی نگاہوں سے دیکھتا ہوں.

اسی طرح عالم اسلام کے مایہ ناز فقیہ اور درجنوں کتابوں کے مصنف مفتی تقی عثمانی لکھتے ہیں اکابر دیوبند کے اس مجلہ اور مولانا عرفی کے لئے دل سے دعاء نکلتی ہے…

ان کے علاوہ مفتی زرولی خان، مولانا حکیم مظہر مدظلہ، مولانا سید احمد خضر شاہ مسعود، مفتی عبدالخالق آزاد رائےپوری ،مفتی نعیم کراچی، مفتی رفیع عثمانی، مفتی احمد خانپوری ، مولانا احمد بزرگ، مولانا قاری ابوالحسن اعظمی، مولانا محمد سعیدی سمیت ملک و بیرون ملک کی متعدد سرکردہ شخصیات کے مسرت افزاء پیغامات شامل ہیں.

پیغامات کے بعد مضامین کا سلسلہ شروع ہوتا ہے سب سے پہلا مضمون مولانا قاسم ناناتوی کی شخصیت کے متعلق ڈاکٹر سعید الاعظمی کا ہے.. انہوں نے بہت ہی اختصار و جامعیت کے ساتھ ان کی شخصیت کا تعارف کرایا ہے ان کے علاوہ قاسم شناسی کے حوالہ سے ڈاکٹر محمد اللہ خلیلی نے بھی اچھا مضمون لکھا ہے..اس موضوع پر جناب اعجاز عرفی کے خود کے بھی دو مضامین ہیں جو بڑے معلوماتی ہیں- ان کے مضامین سے معلوم ہوتا ہے کہ قاسم ناناتوی تعلیم کو ایک اکائی تصور کرتے تھے اور ہندی و سنسکرت کی تعلیم پر بھی ارتکاز رکھتے تھے.

اکابر رائے پور پر مفتی عبدالخالق آزاد نے بڑا جاندار، تفصیلی، مبسوط اور بہترین مضمون لکھا ہے جو ان اکابر کی زندگی کے تمام ہی گوشوں اور پہلووں سے بخوبی طور پر واقفیت بہم پہنچاتا ہے. سعید اکبر آبادی کا اسلوب نگارش کے عنوان سے حقانی القاسمی کا مضمون منفرد نوعیت کا حامل ہے.. مضمون میں حقانی صاحب کے سحر انگیز قلم کی جولانی عروج پر محسوس ہوتی ہے. انہوں نے بہت ہی خوبصورتی کے ساتھ سعید اکبر آبادی کے اسلوب کی خوبیوں اور محاسن سے نقاب کشائی کی ہے.. حقانی القاسمی کا چونکہ فکری منطقہ بہت وسیع ہے اور ان کا اسلوب نگارش بڑا منفرد ہے اسی لئے ان کی دیگر نگارشات کی طرح مذکورہ مضمون میں بھی ان کے پرکشش اسلوب کا جلوہ مترشح ہوتا ہوا محسوس ہوتا ہے. ..ان کے علاوہ قاری ابوالحسن اعظمی کے بھی متعدد شخصیات کے حوالہ سے کئی مضامین ہیں جو انتہائی مختصر ہیں قاریین کرام کو ان کی خواندگی کے بعد تشنگی کا شدت سے احساس ہوتا ہے، مولانا ناصر الدین مظاہری کے بھی کئی مضامین ہیں جو تاثراتی نوعیت کے ہیں، مفتی سعید پالنپوری پر نور عالم خلیل امینی کا مضمون زبان و بیان اور معلومات کے اعتبار سے بہت عمدہ ہے. مولانا احمد علی سہارنپوری پر نور الحسن راشد کاندھلوی نے بڑا معلومات افزا مضمون سپرد قلم کیا ہے… ان کے علاوہ متعدد اہل قلم کے متنوع افراد پر بہترین، معلومات آفریں مقالات ہیں..

مجھے امید ہے کہ یہ رسالہ اپنے سابقہ خصوصی شماروں کی طرح اہل علم و دانش سے داد و تحسین حاصل کرے گا اور اس کوشش کو ادبی ومذہبی حلقوں میں یکساں طور پر قدر کی نگاہ سے دیکھا جائے گا.

٢٢ دسبمر ٢٠٢٠

Related Posts

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے