قاری محمد اسماعیل صاحب صدر القراء مدرسہ عربیہ ریاض العلوم گورینی جونپور کی قرآنی خدمات

حضرت الاستاذ قاری محمد اسماعیل صاحب دامت برکاتہم(صدر القراء مدرسہ عربیہ ریاض العلوم گورینی، جونپور) اور آپ کی قرآنی خدمات
محمدتبریز عالم حلیمی قاسمی (استاذ دارالعلوم حیدرآباد)
قرآن مجید، خیر الکلام بھی ہے، ملوک الکلام بھی، یہ کلام الٰہی ہونے کے ساتھ ساتھ، کتاب الٰہی بھی ہے، اس کا پڑھنا بھی ثواب ہے اور سننا بھی سببِ ہدایت اور باعثِ خیر وبھلائی ہے، قرآن نام ہے الفاظ، معانی اور لب ولہجہ کا، اسلام جوں جوں چہار دانگ عالم میں پھیلتا گیا، رفتہ رفتہ قرآن کی خدمات وحفاظت کا دائرہ بھی وسیع تر ہوتا گیا؛ بلکہ اتنا وسیع ہوا کہ اسلامی علوم وفنون کی جتنی معتبر شاخیں ہیں یا ہوسکتی ہیں ان سب کا تعلق اسی شجرہ طوبیٰ سے ہے اور دنیا اس کی مثال پیش کرنے سے تہی دامن ہے، معانی کے لیے سینکڑوں مفسرین پیدا ہوئے، پھر ایسے ایسے گلہائے رنگا رنگ کھلے، جن کی عطر بیزی سے دنیا حیرت زدہ اور مسحور ہوئے بنانہ رہ سکی، الفاظ اور لب ولہجہ کی بات کریں تو حفاظ وقراء نے ایسا سماں باندھا کہ کیا انسان اور چرند وپرند اور کیا دریا وپہاڑ، سب کے قلوب لرز گئے اور سب اس کے اعجاز کے آگے سر بہ سجدہ ہوگئے،نحو، صرف، بلاغت، فقہ، تجوید، لغت، معانی، بدیع، اشتقاق اور نہ جانے کیسے کیسے علوم وفنون وجود میں آگئے اور الگ الگ ہر فن سے متعلق بے شمار کتابیں لکھی گئیں کہ جن کی صرف فہرست ترتیب دی جائے تو مستقل ڈھیروں کتابیں تیار ہوجائیں، اور ایسے ایسے قرآن کے خدمت گذار پیدا ہوئے جن کے نام تاریخ میں سنہرے حروف سے لکھے گئے، کسی نے قرآنی آیات میں غور وتدبر کا حق ادا کیا، کسی نے ترغیبی وترہیبی پہلو کو نمایاں کیا، کسی نے الفاظ کی تصحیح وتجوید پر توجہ دی اور ان کی آواز، زینتِ قرآن کی علامت قرار پائی اور کسی نے مسائل کی تخریج واستنباط میں پوری زندگی گذار دی، علم وحکمت کے
اللؤلؤ وا لمرجانسے لبریز قرآن جیسی مقدس کتاب کی خدمت کا موقع یقیناًبہت بڑی نعمت اور سعادت ہے، کل قیامت میں ان خدامانِ کتاب الٰہی کی ایک الگ ہی قسم کی شان وشناخت ہوگی، اور ان کے بخت کا عروج اور نصیبہ کا اوج انھیں کس مقام ومرتبہ تک پہنچائے گا اللہ اعلم بالصواب۔
نزول قرآن کے وقت سے لے کر آج تک اس عالم رنگ وبومیں انگنت ایسے لائق افراد پیدا ہوئے جن کے سروں پر قرآنی خدمت کا سہرا بندھا اور سجا اور دنیا نے ان کی عظمت وعقیدت کے ترانے گائے اور ان کی خدمات کو صرف خراجِ عقیدت پیش ہی نہیں کیا بلکہ انھیں جھک کر سلام بھی کیا، انھیں مبارک ناموں میں ایک نام ،حضرت الاستاذ مولاناوقاری محمد اسماعیل صاحب زیدہ مجدہ (اللہ انھیں مدتوں زندہ اور سلامت رکھے) کا بھی ہے جن کا شمار بھی ان خوش نصیبوں اور سعادت مندوں میں ہوتا ہے جنہیں قرآن کریم جیسی آسمانی وآفاقی کتاب کی خدمت کا موقع ملا، اور اتنا ملا کہ اب بڑے قاری صاحب اور جونپوری زبان میں” بڑکے قاری صاحب” کے لقب سے مشرف ومشہور ہیں، جو حد درجہ متین، خاکسار، اور خاموش بزرگ کے مصداق، جن کی طبیعت میں نرمی، قلب میں تقوی اور عمل میں اخلاص جیسے اوصاف، خوشبو کی طرح رچے بسے ہیں جنہیں قریب سے گذرنے والا ہر شخص محسوس کرسکتا ہے۔
بڑے قاری صاحب اور آپ کی خدمت کا میدان
آپ کی زندگی قرآن کی خدمات میں بسر ہورہی ہے، اور خیال رہے جس کے نصیب میں قرآن کی خدمات آجائیں اس کے نصیبہ ور ہونے میں کسے کلام ہوسکتا ہے؟ فنِ قرأت جسے فنونِ اسلامیہ کے دقیق ترین فن میں شمار کیا جاتا ہے، بڑے قاری صاحب نے اسی فن کو اپنی زندگی کا نصب العین بنایا ہوا ہے، قرآن کے الفاظ، معانی، لب ولہجہ، رسم الخط اور قرآن سے متعلق دیگر فنون سے والہانہ نہیں؛ عاشقانہ تعلق ہے،اور اس کی نشر واشاعت کی فکر انھیں ہر وقت ستاتی ہے، یہی وجہ ہے کہ جامعہ عربیہ ریاض العلوم کے شعبۂ قرأت کے ماہرین فن اساتذہ کرام آپ کے ارشد تلامذہ میں ہیں، آپ نے قرآنی خدمات کے لئے بے شمار لائق وفائق قراء کی جماعت تیار کردی، جو ملک وبیرون ملک قرآن کی خدمت کے حوالے سے قاری صاحب کا فیض عام کئے ہوئے ہیں، اور اس فریضہ کی انجام دہی میں قاری صاحب ہمہ وقت سر گرم عمل ہیں، قرآنی خدمت سے آپ کو نہ موسم گرما روک سکتا ہے اور نہ ہی کڑاکے کی ٹھنڈ، سدِراہ بن سکتی ہے، ایسے یکتائے زمانہ، آسمانِ وجود پر نہ صرف یہ کہ بہت ہی خاص ہوتے ہیں؛ بلکہ بہت ہی کم ہوتے ہیں، حضرت قاری صاحب نے اپنی محنت اور کدو کاو ش کو قرآن جیسی لا ثانی کتاب کے لئے وقف کردی ہے اور اپنے لئے فرقانی خدمات کا میدان منتخب کیا، جس کا شہسوار، نگاہ شریعت میں بڑا ہی معتبر اور تقربِ خداوندی کا سزاوار ہوتا ہے، قاری صاحب نے اپنی غوطہ زنی کے لئے ایک ایسا سمندر منتخب کیا، جس کے بے حساب علمی ہیرے جواہرات کا کوئی حساب نہیں اور اس میں ڈوبنے والے کی اخروی زندگی کی مقبولیت بارگاہِ الہٰی مین طے ہے، قاری صاحب نے اپنے قلب وذہن میں ایسے کلام کو جگہ دی ہے جو سید الکلام ہے، جس سے فائق کوئی کلام اس دنیا میں کیوں کر ہوسکتا ہے؟۔
بڑے قاری صاحب اور دیگر علوم وفنون
مذکورہ بالا وصف، قاری صاحب کی کتاب زندگی کا سب سے بڑا عنوان ہے؛ لیکن دیگر فنون مثلا نحو، صرف، تفسیر ،حدیث وغیرہ سے بھی حد درجہ لگاؤ ہے، جس فن کی کتاب زیرِ مطالعہ ہوتی ہے، اس فن کی کیا چھوٹی اور کیا بڑی ساری کتابیں کھنگال ڈالتے ہیں، آپ کی نظر علوم پر عموماً، اور فنون پر خصوصاً ہوتی ہے، جب آپ مسندِ درس پر ہوتے ہیں تو چھوٹی بڑی ساری کتابوں کا نچوڑ اور عطر بیان کرتے ہیں اور اس فن کی بسم اللہ سے لے کر تمت بالخیر تک کا حوالہ پیش کرتے ہیں، دقیق ترین باتیں جو دیگر کتابوں میں بکھری پڑی ہیں اور جہاں تک رسائی ہر کس وناکس کی قدرت سے باہر ہے، قدر دان طالب علم کو ایک ہی جگہ، ایک ہی وقت ہاتھ لگ جاتی ہیں، جن حضرا ت کو قاری صاحب سے استفادہ کا شرف حاصل ہے، وہ گواہی دیں گے کہ آپ کا درس، بیش بہا معلومات کا خزانہ وذخیرہ ہوتا ہے، قاری صاحب کے علمی انہماک کو دیکھ کر، اکابر کے واقعات پر ایمان لانے کو جی چاہتا ہے، نہ کھانے کی فکر، نہ لباس کی فکر، فکر ہے تو صرف علوم وفنون کی، سوچ ہے تو صرف حل المشکلات والمعضلات کی، جب دیکھئے کسی مسئلہ کی تحقیق کی تگ ودو میں لگے ہوئے ہیں جب کوئی ملاقات کرتا ہے تو اس سے کوئی مسئلہ پوچھتے ہیں یا پھر اسے بتاتے ہیں، مہمان ہویا میزبان، سفر ہو یا حضر، مدرسے میں ہوں یا مسجد میں، بیٹھے ہوں یا راہ میں ہوں، خلوت ہو کہ جلوت، ہر وقت، ہر جگہ بات ہے تو صرف تحقیق علم کی، گفتگو ہے تو بس فن کی ، کلام ہے تو فقط حلِ مسلائل پر، تذکرہ ہے تو بس کتابوں کا،تڑپ ہے تو علمی رموز واشارات کے حصول کی، دُھن ہے تو صرف شروح وحواشی کی، الغرض آغاز ہے تو علم سے،انجام واختتام ہے تو علم ہی پر، ہر وقت مصروفِ تحقیقِ علوم وفنون، ہمہ وقت علمی تشنگی بجھانے کی سعی، ہر ٹائم کسی مسئلے کو سلجھانے کی خواہش، ہر آن، علمی سفر کی اگلی منزل کے لئے کمر بستہ، ہر لمحہ، علمی کمال کے حصول کے لئے کوشاں، کسی نئی بات کا علم ہوا تو کیا بڑے اور کیا چھوٹے سب کو بتانے کی دُھن، کسی مسئلہ یا عبارت میں وقتی طور پر ا لجھ گئے تو ہم اصاغر طلبہ سے پوچھنے میں نہ کوئی عار نہ کوئی بات۔
تحقیق ومطالعہ کا ہنر اور اس ہنر میں مزہ کوئی قاری صاحب سے سیکھے اور سمجھے، فن کی مشکل اور نادر باتوں کے لئے مستقل کئی کاپیاں اور ڈائریاں، اپنے اساتذہ کا اتنا ادب کہ ان کے فرمودات آج بھی قاری صاحب کی کاپیوں کے زینت بنے ہوئے ہیں، آپ حقیقی اور مثالی طالب علم اور پھر استاذ ومعلم کی سچی تعبیرہیں، علامہ ابراہیم بلیاویؒ سے متعلق کسی نے لکھا تھا کہ ”جبل العلم” کی تعبیر حضرت پر صادق آتی ہے، راقم آثم نے علامہ کو دیکھا نہ پایا، البتہ ان کے تلامذہ کے سامنے زانوئے تلمذ تہ کرنے کا شرف حاصل ہوا، جس سے اندازہ ہوا کہ واقعی علامہ ، جبل العلم رہے ہوں گے، راقم نے اپنے جن اساتذہ کرام کو دیکھا اور پڑھا ہے ان میں سے بہت سے -میرے معیار کے مطابق- واقعی جبل العلم ہیں، حضرت قاری صاحب کو جملہ علوم وفنون میں جبل ا لعلم کہنا شاید کسی کو مبالغہ لگے؛ لیکن اگر فنِ قرأت میں جبل العلم انھیں نہ کہا جائے تو دنیا سے اب اس ترکیب کو اور اس لقب کو، لغت اور محاورے سے مٹا دینا عقل مندی کی بات ہوگی۔
مزید لائق تقلید وعمل معمولات
مذکورہ بالا خصوصیات وخصائل علمی دنیا کے تھے، عملی دنیا میں بھی قاری صاحب امتیازی اوصاف کے حامل ہیں، نمازوں پر مداومت، قبل از وقت جماعت، مسجد پہنچنا، ہمہ وقت طلبہ کو جماعت سے پہلے مسجد پہنچنے کی تلقین کرنا، عصر بعد سے مغرب تک مسجد میں ہی عکوف کرنا، اور اس دوران تلاوت قرآن یا سماعت قرآن یا پھر ذکر الہٰی میں منہمک رہنا، نوافل روزوں کا اہتمام، یہ وہ نمایاں خصوصیات ہیں جو قابلِ تقلید وعمل ہیں، کن فی الدنیا کأنک غریب کی محسوس تفسیر دیکھنی ہو تو ریاض العلوم جونپور کے شعبۂ قرات کے میرِ کارواں (صدر القراء) بڑے قاری صاحب کو دیکھ لیا جائے،فرائض کے علاوہ سنن ومستحبات کی رعایت وپابندی، اورادو وظائف پر خصوصی توجہ بھی آپ کی زندگی کا حصہ ہے اور یہ تو طے شدہ امر ہے کہ جو آدمی راہ سنت پر گامزن ہوگا وہ فرائض میں کمی تو درکنار، کوتاہی بھی برداشت نہیں کرے گا، غالبا یہی نکتہ ہے سنت کی پیروی میں، التزام اتباعِ سنت، مداومت علی الفرائض کا باعث تو بہر حال ہے، یہ چیزیں تو مشاہد ے سے تعلق رکھتی ہیں، باقی آپ کے گھریلو معمولات ، آپ ہی زیادہ جانتے ہیں۔
کسر نفسی، تواضع اور خاک ساری میں طاق، سب کچھ ہوتے ہوئے بھی کچھ نہ سمجھنے کی ہمت سب میں کہاں ہے، کہیں تشریف لے جاتے ہیں تو وہاں مسجد میں ہی قیام کو ترجیح دیتے ہیں، کوئی ادنی خادم بھی اپنے یہاں بلاتا ہے تو بغیر کسی فرمائش کے، اس کی دلجوئی کے لئے حتی الامکان تشریف لے جاتے ہیں، بے جا اور بے محل غصہ کو حدیث میں منع کیا گیا ہے، قاری صاحب کی لغت زندگی میں غصہ جیسا لفظ از قبیل شاذ ہے؛ بلکہ آپ کی زندگی اس سلسلے میں ”باغ وبہار” اور ”مرنجاں مرنج زندگی” کی حیثیت رکھتی ہے، اور نامور ادیب مولانا عبد الماجد دریاآبادی کی زبان میں کہا جائے تو تعبیر کچھ یوں ہوگی کہ قاری صاحب کی ”جبیں” جیسے ”چیں” سے نا آشنا ہے۔
قاری صاحب اور طلبہ عزیز
مدارس میں اساتذہ کے لئے جو طے شدہ اصول ہیں، ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اساتذہ، طلبہ کو قوم کی امانت ہی نہیں؛ بلکہ اپنی اولاد سمجھیں،قاری صاحب کا تعلق، طلبہ کے ساتھ کیا اور کیسا ہے، اس کا صحیح اندازہ وہی شخص لگا سکتا ہے، جسے آپ سے شرفِ تلمذ حاصل ہے طلبہ کے تئیں، شفقت ومحبت، آپ کی زندگی کا جزء لا ینفک ہے، جیسے ایک شفیق باپ، اپنی اولاد کی ترقی، تہذیب اور اس کے مستقبل کی تعمیر کا حد درجہ متمنی رہتا ہے؛ قاری صاحب کی مثال بالکل اسی باپ جیسی معلوم ہوتی ہے، کوئی طالب علم ہو، کہیں کا ہو، قاری صاحب سے کچھ پڑھنا یا پوچھنا یا کوئی علمی استفادہ کی خواہش رکھتا ہو تو قاری صاحب کا درِ دولتِ علم اور بابِ کاشانۂ حکمت ہمیشہ اس کے لئے وا رہتا ہے؛ بلکہ طلبہ کو از خود بلا کر پڑھانے اور سکھانے کا مزاج ومذاق ہے، (یہ چیز مدارس سے اٹھتی جارہی ہے، اظہارِ افسوس کے ساتھ، اصلاح کی ضرورت معلوم ہوتی ہے) عصر بعد طلبہ کا قرآن سنتے ہیں، جو حضرت کی طرف سے ایک عظیم احسان اور صدقہ جاریہ سے کم نہیں ہے، طلبہ کے ذہن کے مطابق ہر فن کی کتابیں، مختصر تشریح کے ساتھ پڑھانے کا شوق حد درجہ رکھتے ہیں، جو طلبہ،قاری صاحب کے پاس، خصوصی (ریاض العلوم میں تخصص فی القراء ۃ کا ایک بہت ہی معتبر مفید اور کامیاب شعبہ) میں داخل ہوتے ہیں، ان پر قاری صاحب کی توجہ کا تعلق، شنید سے نہیں دید سے ہے، خبر سے نہیں مشاہدے سے ہے، طلبہ کو آگے بڑھانا، ان کی علمی وعملی سوچ کا گراف اونچا ہو، احساسِ کمتری کا دروازہ بند ہو اس کے لئے کیا طریقہ کا رہو، قاری صاحب اس سے بخوبی واقف ہیں، طلبہ کی اعانت ومدد، بیمار طلبہ کی عیادت ومزاج پرسی، غیر حاضر طلبہ کی فکر اور اسی طرح دیگر تمام صفات اس بات کی عکاس ہیں کہ قاری صاحب طلبہ کے حوالے سے، ہمدردانہ اور مشفقانہ احساسات وجذبات کے مالک ہیں، یہی وجہ ہے کہ افادہ واستفادہ آسان ہی نہیں، آسان تر ہوتا ہے۔
یہ ایک سرسری اور ناقص تحریر ہے، جو راقم الحروف کے احساسات وجذبات کے ناقص ترجمان ہیں، ورنہ تو بڑے قاری صاحب کی علمی وعملی بڑائی، ان کی بے داغ اور بافیض زندگی کے گوشوں پر روشنی ڈالنے کے لئے بہت کچھ سامان ومواد ہے جو وقتاً فوقتاً، معرضِ وجود میں آتے رہیں گے، حضرت الاستاذ کا چشمہ فیض تادمِ تحریر جاری ہے، اللہ اس چشمہ فیض کے سوتوں میں مزید برکت دے، ہم خدام دست بہ دعاہیں کہ اللہ قاری صاحب کی عمر میں خوب برکت عطا فرمائے اور آئندہ نسلوں کو بھی مستفیض ہونے کی سعادت نصیب فرمائے، راقم آثم کے ان احساسات وجذبات سے، قاری صاحب کی زندگی کی علمی وعملی گہرائی وگیرائی کا اندازہ لگانا اس شخص کے لئے جس نے قاری صاحب کو دیکھا ہے، آسان تو ہے ہی، محض ان سطور کے قارئین کے لئے بھی کوئی مشکل نہیں؛ کیوں کہ چاول کے چند دانے دیکھ کر پورے چاول پر حکم لگانا سب کے لئے بہت آسان ہوتا ہے، مشکل نہیں ہوتا، مخلصین ومحبین سے اس دعا کی درخواست ہے کہ ؂
وہ سلامت رہیں ہزار برس
ہر برس کے ہوں دن پچاس ہزار

Related Posts

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے