عارف بِاللہ ، حکیم الاسلام حضرتِ اقدس مولانا قاری محمد طیّب صاحب قاسمی نوّراللہ مرقدہ ، سابق مہتمم دارالعلوم دیوبند
از : محمد طاھر قاسمی ابن حضرت مولانا قاری دین محمد صاحب قاسمی میواتی ثم الدھلوی رحمۃ اللہ علیہ ، سابق خطیب و امام جامع مسجد حوض رانی نئی دھلی انڈیا
آپ ہندوستان کے مشھور و معروف عالمِ ربّانی ، حکیم الاسلام ، عارف بِاللہ ، شیخُ العرب والعجم ، بے مثل عظیم خطیب ، اکابرِ دیوبند کے علوم ؛ خصوصاً علومِ قاسمی ، علومِ شیخ الھند ، علومِ تھانوی اور علومِ عثمانی کے عظیم شارح ، حُجّۃ الاسلام حضرت مولانا مُحمّد قاسم صاحب نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ کے پوتے ، حضرت مولانا حافظ مُحمّد احمد صاحب رحمۃ اللہ علیہ مہتمم خامِس دارالعلوم دیوبند کے صاحبزادے ، مسلم پرسنل لاء بورڈ کے صدر ، حکیمُ الامّت مجدّد المِلّت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے ممتاز خلیفہ اور دارالعلوم دیوبند کے مایۂ ناز مہتمم تھے ۔
ولادت :
آپ کی ولادت باسعادت مُحرّم الحرام ۱۳۱۵ھ مطابق جون؍ ۱۸۹۷ء بروز اتوار دیوبند میں ہوئی ۔
آپ کا نامِ نامی مُحمّد طیّب تجویز کیا گیا اور تاریخی نام مُظفرالدین رکھا گیا ۔ اوّل نام سے آپ نے شھرت پائی ۔
حضرت حکیم الاسلام مولانا قاری مُحمّد طیّب قاسمی صاحبؒ فرماتے تھے کہ میری پیدائش کے ساتھ ایک بزرگ کی کرامت وابستہ ہے ، فرماتے تھے کہ حضرت حافظ مُحمّد احمد صاحبؒ کے پہلے تین اولادیں ہوئیں ، اور ان تینوں کا بچپن میں انتقال ہوگیا ، اس کے بعد ایک مدت تک حضرت حافظ صاحبؒ کے یہاں کوئی اولاد نہ ہوئی ، حضرت شیخ الہندؒ کو اس کی زیادہ فکر تھی ، ان کی خواھش تھی کہ خاندان قاسمی کا سلسلہ آگے بڑھے ، حضرت شیخ الہندؒ نے مولانا عبد الاحد صاحبؒ کے والد مولانا عبد السّمیع صاحبؒ کو فتحپور کے ایک صاحب کرامت بزرگ کی خدمت میں بھیجا جو اولاد کے سلسلہ میں مستجاب الدّعوات تھے کہ ان سے حضرت حافظ صاحبؒ کی اولاد کے لئے دعاء کروائیں ، ان بزرگ نے حضرت شیخ الہندؒ کا پیغام سن کر تھوڑی دیر مراقبہ کیا ، اور پھر سر اٹھاکر ان الفاظ میں بچّہ پیدا ہونے کی خوشخبری سنائی ۔ لڑکا ہوگا ، حافظ ہوگا ، قاری ہوگا ، مقتدیٰ ہوگا ، عالم ہوگا ، حاجی ہوگا ، قاری صاحبؒ فرماتے تھے کہ ان بزرگ کے یہ کلمات کسی حد تک تو صادق آہی گئے ۔
تعلیم و تربیت :
۱۳۲۲ھ میں سات سال کی عمر میں دارالعلوم دیوبند میں داخل کئے گئے ، اور وقت کے ممتاز اکابر علماء و بزرگوں کے عظیم الشّان اجتماع میں مکتب نشینی کی تقریب عمل میں آئی ۔ دو سال کی قلیل ترین مدت میں قرآن مجید قراءت و تجوید کے ساتھ حفظ کیا ، حفظِ قرآن مجید سے فراغت کے بعد درجۂ فارسی میں آپ کو داخل کیا گیا ، وہاں سے پانچ سال فارسی اور ریاضی کے درجات میں تعلیم حاصل کرکے عربی کا نصاب شروع کیا جس سے ۱۳۳۷ھ مطابق ۱۹۱۸ء میں فراغت اور سند فضیلت حاصل کی ۔ دوران تعلیم میں دارالعلوم کے تمام اساتذہ آپ کے ساتھ بوجہ خاندانی شرف اور آبائی نسبت کے شفقتوں و محبّتوں سے پیش آتے تھے اور مخصوص طریق پر تعلیم و تربیت میں حصہ لیتے رہے ، حدیث کی خصوصی سند آپ کو وقت کے مشاھیر علماء و اساتذہ سے حاصل ہوئی اور بہت سے بزرگوں کی ہمت اور توجہ آپ کے ساتھ تھی ۔ حضرت مولانا خلیل احمد صاحب سہارنپوریؒ نے بطور خود آپ کو سہارنپور طلب فرماکر اوائل حدیث کی تلاوت کراکر اپنی خصوصی سند خود اپنے دستِ مبارک سے لکھ کر عطا فرمائی ، اِسی طرح مولانا عبد اللہ انصاری صاحب انبیٹھویؒ اور اپنے والد ماجد حضرت مولانا حافظ مُحمّد احمد صاحبؒ سے بھی سندِ حدیث لی ۔
علمِ حدیث میں آپ کے خصوصی اُستاذ مُحدّثِ کبیر حضرت علامہ سید مُحمّد انور شاہ کشمیریؒ تھے ۔
آپ کے اساتذۂ گرامی میں شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسن صاحب دیوبندیؒ ، امام العصر ، مُحدّثِ کبیر حضرت علامہ سید مُحمّد انور شاہ صاحب کشمیریؒ ، مفتیٔ اعظم حضرت مولانا مفتی عزیز الرحمٰن صاحب عثمانیؒ ، حکیم الامّت حضرت مولانا اشرف علی صاحب تھانویؒ ، حضرت مولانا حبیب الرحمٰن صاحب عثمانیؒ ، شیخ الاسلام حضرت علاّمہ شبّیر احمد صاحب عثمانیؒ ، حضرت مولانا خلیل احمد صاحب سہارنپوریؒ ، شیخ الادب حضرت مولانا اعزاز علی صاحب امروہویؒ ، حضرت علّامہ مُحمّد ابراہیم صاحب بلیاویؒ اور حضرت مولانا سیّد اصغر حسین صاحب دیوبندیؒ جیسے نامور امام علم و فضل شامل ہیں ۔
راہِ سلوک :
آپ نے اپنا سِلسلۂ بیعت ۱۳۳۹ھ میں یعنی دارالعلوم سے فراغت کے دو سال بعد ، اولاً حضرت شیخ الہند مولانا محمود حسن صاحب دیوبندیؒ سے قائم کیا ، تزکیہ و احسان کی منزلیں طے ہی کررہے تھے کہ پانچ ماہ بعد حضرت شیخ الہندؒ کی وفات ہوگئی ۔ ان کی وفات کے بعد حضرت علامہ سید انور شاہ کشمیریؒ کی طرف رجوع کیا اور تربیت حاصل کی ۔ بعد ازاں ۱۳۴۳ھ میں حکیم الامّت حضرت تھانویؒ کی طرف رجوع کیا اور اُنہیں کے زیر تربیت سلوک و معرفت کی منزلیں طے کیں ۔
۱۳۵۰ھ مطابق ۱۹۳۱ء میں حضرت تھانویؒ نے آپ کو خلافت و اجازت سے نوازا ۔ اللہ تعالٰی نے آپ کو اس راہ میں بھی اپنی رحمت و فضل سے نوازا تھا اور آپ کے ذریعہ بے شمار ہزاروں افراد کی اصلاح ہوئی اور لاکھوں کو اپنے فیض علمی و روحانی سے مالا مال کیا ، اور ان کی ایمانی و روحانی و احسانی زندگی میں انقلاب پیدا ہوا ، اور ہزاروں کی بگڑی زندگی سنور گئی ، کتنے لوگ آپ کے دستِ حق پرست پر حلقۂ بگوش اسلام ہوئے ، آپ کا حلقہ بیعت و ارشاد ہندوستان سے نکل کر بلاد و ممالک تک پہنچا اور بہت سے لوگوں کو آپ نے اجازت بھی دی ، آپ کے خلفاء و مجازین سیکڑوں کی تعداد میں ہیں ۔
درس و تدریس :
فراغت کے بعد آپ نے دارالعلوم دیوبند ہی میں درس و تدریس کا سلسلہ شروع کیا اور درسِ نظامی کی مختلف علوم و فنون کی اہم کتابیں پڑھائیں ۔ خصوصیت کے ساتھ "حجۃ اللہ البالغۃ” تقریباً ہمیشہ ہی آپ کے درس میں رہی ، اِس کے علاوہ ابن ماجہ شریف ، مشکوٰۃ شریف اور شمائل ترمذی کا بھی آپ نے سال ہا سال درس دیا ، ۱۳۳۷ سے ۱۳۴۷ تک آپ نے مستقلاً درس دیا ، اُس کے بعد اہتمام کی ذمّے داری کے ساتھ ساتھ بھی آپ نے "حجۃ اللہ البالغۃ” کا درس تقریباً آخر تک جاری رکھا ۔ ذاتی علم و فضل ، ذہانت و ذکاوت اور آبائی نسبت کے باعث بہت کجلد طلبہ کے حلقے میں آپ کے ساتھ گرویدگی پیدا ہوگئی ۔ تدریسی زمانہ ۱۳۳۷ھ سے ۱۳۴۳ھ تک رہا ۔ اوائل ۱۳۴۱ھ مطابق ۱۹۲۴ء میں اکابر و مشائخ کے مشورے پر نائب مھتمم کے منصب پر آپ کا تقرر کیا گیا ، جس پر اوائل ۱۳۴۸ھ مطابق ۱۹۲۸ء تک آپ اپنے والد ماجد اور حضرت مولانا حبیب الرحمن عثمانیؒ کی نگرانی میں ادارۂ اہتمام کے انتظامی معاملات میں حصہ لیتے رہے ۔ ۱۳۴۸ھ مطابق ۱۹۲۹ء میں حضرت مولانا حبیب الرحمٰن عثمانیؒ کے انتقال کے بعد آپ کو باقاعدہ طور پر مستقل مھتمم بنایا گیا ۔ اور تاحیات ۱۴۸۲ھ تک مسند اہتمام پر فائز رہے ۔ سابقہ تجربۂ ، اہلیت کار اور آبائی نسبت کے پیش نظر یہ ثابت ہوچکا تھا کہ آپ کی ذات میں اہتمام دارالعلوم کی صلاحیت بدرجۂ اتم موجود ہے ، چنانچہ مہتمم ہونے کے بعد آپ کو اپنے علم و فضل اور خاندانی وجاہت و اثر کی بنا پر ملک میں بہت جلد مقبولیت اور عظمت حاصل ہوگئی ، جس سے دارالعلوم کی عظمت و شھرت کو کافی فوائد حاصل ہوئے ۔
دارالعلوم نے آپ کے زمانۂ اہتمام میں نمایاں ترقی حاصل کی اور آپ نے اپنے زمانہ میں دارالعلوم کی شھرت و عظمت کو چار چاند لگادیے اور پوری دنیا میں دارالعلوم دیوبند کا نام روشن ہوا ۔ ۱۳۴۸ھ مطابق ۱۹۲۸ء میں جب آپ نے انتظام دارالعلوم کی باگ دوڑ ہاتھ میں لی تو اس کے انتظامی شعبے ۸ تھے جن کی تعداد آپ نے ۲۳ تک پہنچادی ، اس وقت دارالعلوم کی سالانہ آمدنی کا بجٹ ۵۰۲۶۲ روپیہ سالانہ تھا ، آپ کے زمانے میں ۲۶ لاکھ تک پہنچ گیا ۔ ۱۳۴۸ھ مطابق ۱۹۲۹ء میں ملازمین دارالعلوم کے عملے میں ۴۵ افراد تھے ، آپ نے ان کی تعداد دو سو تک پہنچادی ، اس وقت اساتذہ کی تعداد ۱۸ تھی جو بڑھ کر ۵۹ ہوگئی ، طلبہ کی تعداد ۴۸۰ تھی جو آپ کے زمانۂ اہتمام میں دو ہزار تک پہنچ گئی ۔ اسی طرح عمارتوں میں بھی نمایاں اضافہ ہوا ، دارالتفسیر ، دارالافتاء ، دارالقرآن ، مطبخ جدید ، فوقانی دارالحدیث ، بالائی مسجد ، باب الظاھر ، جامعۂ طبیہ جدید ، دو منزلہ دارالاقامہ ، مہمان خانہ کی قدیم عمارت ، کتب خانے کا وسیع و عریض ھال ، دارالاقامہ جدید ، افریقی منزل ، مطبخ کے قریب ، تین درسگاہوں کا اضافہ ؛ حضرت ممدوح ہی کے دور اہتمام کی تعمیرات ہیں ۔
غرض کہ دارالعلوم کے ہر شعبے نے آپ کے دور اہتمام میں نمایاں ترقی کی ۔ دارالعلوم کی مجالس انتظامیہ و شوریٰ نے مختلف اوقات میں آپ کی غیر معمولی خدمات کے اعتراف اور اظہار قدردانی کے سلسلے میں متعدد مرتبہ تجاویز پاس کیں ۔ دارالعلوم کی شمع کو روشن رکھنے کے لئے پیرانہ سالی میں بھی جوانوں کی طرح سرگرم عمل رہے ۔ عالمی پیمانے پر اسلام اور مسلمانوں کے تئیں دارالعلوم کی خدمات کو متعارف کرانے میں بھی آپ پیش پیش رہے ۔ آپ کے دور اہتمام میں دنیا کے گوشہ گوشہ سے حصول علم کے لئے آنے والے طلبہ کا سلسلہ روز افزوں رہا ۔
خدمات و کارنامے :
درس و تدریس کے علاوہ فن خطابت اور تقریر میں بھی آپ کو خداداد ملکہ اور قوت گویائی حاصل تھی اور زمانۂ طالب علمی ہی سے آپ کی تقریریں پبلک جلسوں میں شوق کے ساتھ سنی جاتی تھیں ، اہم سے اہم مسائل پر دو دو تین تین گھنٹے مسلسل اور بے تکلف تقریر کرنے اور ٹھوس علمی مواد پیش کرنے میں آپ کو کوئی رکاوٹ اور تکلف نہیں ہوتا تھا ۔ حقائق اور اسرار شریعت کے بیان اور ایجاد مضامین میں ٘آپ کو خاص قدرت حاصل تھی ، جسے آپ کے اکابر و اساتذہ بھی تسلیم کرتے تھے ۔ جدید تعلیم یافتہ طبقہ آپ کے علمی اور حکیمانہ اسلوب بیان سے خاص طور پر محظوظ ہوتا تھا ۔ مسلم یونیورسٹی علی گڑھ اور دوسری یونیورسٹیوں میں آپ کی تقریریں خاص طور پر مقبول تھیں ، بعض معرکتہ الآراء تقریریں مسلم یونیورسٹی علی گڑھ سے شائع ہوچکی ہیں ۔ ملک کا کوئی خطہ ایسا نہیں ہے جس میں آپ کی تقریروں کی گونج نہ پہنچی ہو ، آپ کی رواں دواں اور دلکش تقریر جب علم کے گہرے سمندر سے گزرتی تھی تو لہروں کا سکوت قابل دید ہوتا تھا ۔ جمعیۃ العلماء کے سالانہ اجلاسوں میں آپ کے خطباتِ صدارت بڑی قدر کی نگاہوں سے دیکھے گئے ہیں ، آپ کے منتخب علمی خطبات دس جلدوں میں ” خطبات حکیم الاسلام ” کے نام سے شائع ہوچکے ہیں ۔
آپ کی علمی تقریروں سے ایک خاص حلقۂ اثر پیدا ہوا اور بیرون ہند کے علمی حلقوں میں بھی آپ کی خطابت کے اثرات پہنچے ۔ آپ نے دارالعلوم کے اہتمام کے ساتھ ساتھ تبلیغ دین کا بھی حق ادا کیا پوری دنیا کے ممالک میں آپ نے متعدد بار سفر کئے اور اسلام کی سر بلندی کے لئے کوشاں رہے ، آپ کی تقریروں نے ملک و بیرون ملک میں ایک وسیع حلقہ پیدا کیا ۔ اور آپ ایک عظیم خطیب ، ادیب ، مُحقق ، مدبر ، محدّث ، مفسّر ، متکلّم ، مصنف اور شیخِ کامل تسلیم کئے گئے ۔ متعدد بار حج و زیارت کی سعادت حاصل کی اور پورے عالم اسلام میں حکیم الاسلام کے لقب سے شھرت پائی ۔
۱۳۵۳ھ مطابق ۱۹۳۴ء میں بسلسلۂ سفر حجاز آپ نے ہندوستان کے ایک مؤقر وفد کے صدر کی حیثیت سے سلطان ابن سعود کے دربار میں جو تقریر فرمائی اس نے سلطان کو بہت متأثر کیا ، سلطان ابن سعود نے شاہی خلعت اور بیش قیمت کتب کے عطیہ سے اعزاز بخشا ۔
۱۳۵۸ھ مطابق ۱۹۳۹ء میں آپ کا سفر افغانستان علمی خدمات کی کی ایک مستقل تاریخ ہے ، آپ نے دارالعلوم کے نمائندے کی حیثیت سے دارالعلوم اور حکومت افغانستان کے درمیان علمی و عرفانی روابط قائم کرنے کے لئے یہ سفر اختیار فرمایا تھا ۔ افغانستان کے علمی ، ادبی ، سرکاری اور غیر سرکاری انجمنوں اور سوسائٹیوں نے مدعو کیا تھا ۔ آپ کی عالمانہ تقریروں سے وہاں کے علمی اور ادبی حلقے بہت متأثر ہوئے ۔ اسی طرح آپ نے پاکستان ، بنگلہ دیش ، انڈونیشیا ، ملیشیا ، برما ، عالم عرب ، حبش ، ( ایتھوپیا ) ، کینیا ، مڈغاسکر ، جنوبی افریقہ ، زنجبار ، روڈشیا ، ری یونین ، انگلینڈ ، فرانس ، جرمنی ، کناڈا ، امریکہ وغیرہ ممالک کا دورہ کیا ۔
حضرت قاری صاحبؒ ہندوستان کے مؤقر ادارہ آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے مؤسس اور بانی بھی ہیں ۔ حکومت ہند کے ذریعہ مسلمانوں کے شرعی قوانین کے تبدیل کرنے یا اس سے چھیڑ چھاڑ کرنے کے خلاف ممبئی میں ۱۹۷۲ء میں ایک عمومی کنونشن بلایا گیا جس میں ہندوستان میں امت مسلمہ کے تمام گروہ ایک پلیٹ فارم پر جمع ہوئے اور اس کے بعد آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کی تشکیل عمل میں آئی ۔ حضرت قاری صاحبؒ اس بورڈ کے بانی اور صدر اول مقرر ہوئے اور تاعمر بالاتفاق اس بورڈ کے صدر رہے ۔
حقیقت یہ ہے کہ آپ کی دلکش شخصیت کے بے شمار پہلو ہیں ، شرافت و انسانیت ، سراپا انکسار ، پاک باطنی ، علم و فضل ، خطابت و تقریر ، اور وعظ و تلقین ، سادگی اور عجز و انکساری ، حکیمانہ گفتگو ، فصاحت و بلاغت ؛ غرض کہ آپ کی شخصیت کردار و اعمال اور جلال و جمال کا ایک حسین امتزاج تھی ۔
علمی یادگاریں :
دارالعلوم کے انتظامی امور کے علاوہ تصنیف و تالیف سے آپ کو طبعی دلچسپی تھی ۔ آپ کا یہ مشغلہ دارالعلوم کے انتظامی معاملات اور اوقات تدریس کے علاوہ ہمیشہ جاری رہا ، بالخصوص دوران سفر کے فارغ اوقات اسی میں صَرف ہوتے تھے ۔ آپ اپنے وقت کے عظیم مصنف تھے ، آپ کی تصانیف کی تعداد کافی ہے ، مختلف موضوعات پر تقریبا سو سے زائد تصنیفات ہیں ، اور ہر کتاب اپنے مواد اور اپنی جامعیت اپنے اسلوب بیان اور اپنے طرز استدلال میں انوکھی ہے ، ہر کتاب آپ کی مخصوص طرز تحریر کے ساتھ عالمانہ و محققانہ مباحث زبان و بیان کی رعنائیوں اور دل آویزیوں سے آراستہ پیراستہ ہے ۔ تصنیف و تالیف کا سلسلہ اخیر عمر تک جاری رہا ، مختلف دینی علمی اور تاریخی موضوعات پر تقریبا سو سے زائد مطبوعہ اور غیر مطبوعہ رسالے اور کتابیں اپنی یادگار چھوڑیں جن میں سے بعض کتابوں کے نام درج ذیل ہیں :
( 1 ) التشبہ فی الاسلام ( 2 ) مشاھیر امت ( 3 ) کلمات طیبات ( 4 ) مقامات مقدسہ ( 5 ) اطیب الثمر فی مسئلۃ القضاء والقدر ( 6 ) سائنس اور اسلام ( 7 ) اسلام اور مسیحی اقوام ( 8 ) مسئلہ زبان اردو ہندوستان میں ( 9 ) دین و سیاست ( 10 ) اسباب عروج و زوال اقوام ( 11 ) اسلامی آزادی کا مکمل پروگرام ( 12 ) الجتہاد والتقلید ( 13 ) اصول دعوت اسلام ( 14 ) اسلامی مساوات ( 15) تفسیر سورۂ فیل ( 16 ) فطری حکومت ( 17 ) فلسفۂ نماز ( 18 ) نظریۂ دو قرآن کا جائزہ ( 19 ) اسلام میں اخلاق کا نظام ( 20 ) خاتم النّبیین صلی اللہ علیہ وسلم ( 21 ) حدیث کا قرآنی معیار ( 22 ) علماء دیوبند کا دینی رخ اور مسلکی مزاج ( 23 ) شرعی پردہ ( 24 ) اسلام میں فرقہ واریت ( 25 ) آفتاب رسالت ( 26 ) حدیث رسول کا قرآنی معیار وغیرہ ۔
شعر و شاعری :
آپ کو اردو شاعری سے اچھی مناسبت تھی ، بلند پایہ مصنف اور خطیب ہونے کے ساتھ آپ قادر الکلام شاعر بھی تھے ، اور جب کبھی کہنے پر آتے تو چار چار پانچ پانچ سو اشعار پر مشتمل نظمیں کہہ ڈالتے تھے جس پر آپ کے شاعری مجموعۂ کلام ( 1 ) "عرفان عارف” ( 2 ) جنون شباب ( 3 ) ارمغان دارالعلوم ، شاھد ہیں ۔
آپ کے ہم عصر قریبی ساتھیوں میں مفتیٔ اعظم پاکستان حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحبؒ ، حضرت علامہ مولانا مُحمّد ادریس کاندھلویؒ اور محدّث کبیر حضرت مولانا سیّد بدر عالم میرٹھی مہاجر مدنیؒ تھے ۔
جلسۂ صد سالہ :
۱۹۸۰ء میں آپ کے زمانۂ اہتمام میں دارالعلوم دیوبند کے صد سالہ اجلاس کی چہل پہل آج تک لوگوں کے قلوب میں تازہ ہے ، اس تاریخ ساز اجلاس سے دنیا نے دیکھ لیا کہ نہ صرف برِصغیر بلکہ عالم انسانیت پر دارالعلوم دیوبند کے علمی و روحانی فیض کا دائرہ کس قدر وسیع ہے ۔ آپ نے کبرِ سنی اور انتہائی ضعف کے باوجود اپنی وسعت فکری اور انتظامی پختگی کو بروئے کار لاتے ہوئے اس عالم گیر اجلاس کے ذریعہ فکر دیوبندیت کو عام کیا اور قومی و بین الاقوامی شھرت یافتہ دنیا بھر کی شخصیتوں سمیت عوام و خواص کے ٹھاٹھیں مارتے سمندر کی لہروں کے ذریعہ ثابت کردیا کہ دارالعلوم دیوبند ایک تعلیمی ادارہ ہی نہیں بلکہ پوری ملتِ اسلامیہ کی تمناؤں کا مرکز بھی ہے ۔
دارالعلوم میں خلفشار اور اہتمام سے استعفاء :
۱۹۸۰ء کے بعد جب کبر سنی کی وجہ سے اہتمام کی ذمہ داریاں آپ پر گراں ثابت ہونے لگیں تو آپ نے مجلس شوریٰ میں ایک معاون کی ضرورت کا اظہار فرمایا ، چنانچہ حسبِ درخواست مجلسِ شوریٰ نے معاون کے طور پر حضرت مولانا مرغوب الرحمٰن صاحب بجنوریؒ کو منتخب فرمایا ، لیکن اس کے بعد ہی دارالعلوم میں اہتمام اور مجلس شوریٰ کے درمیان اختلاف اور خلفشار رونما ہوجانے کے بعد ٹکراؤ کی صورت پیدا ہوگئی ۔ آخر کار ۱۸ ذِی قعدہ ۱۴۰۲ء مطابق ۹ اگست ۱۹۸۲ء کو حضرت قاری صاحبؒ نے اہتمام سے از خود کنارہ کشی مناسب سمجھی اور دارالعلوم سے قلبی لگاؤ کے اظہار کے باوجود اہتمام کی ذمہ داریوں سے سبکدوش کردئے جانے کی درخواست کی ۔ آپ کی پیرانہ سالی کو پیش نظر رکھتے ہوئے دارالعلوم کی مجلسِ شوریٰ نے آپ کا استعفاء قبول فرمالیا ۔ الغرض آپ نے ساری حیات خدمت اسلام اور خدمت دارالعلوم میں گزاری ۔
وفات :
۱۹۸۲ء کے اوائل ہی سے آپ کی صحت دن بدن گرتی چلی گئی ۔ بالآخر ۶ / شوّال ۱۴۰۳ء مطابق ۱۷ / جولائی ۱۹۸۳ء بروز اتوار صبح گیارہ بجکر پانچ منٹ پر ۸۸ / سال کی عمر میں دارالعلوم دیوبند اور آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے پلیٹ فارم سے قوم و ملت کی عظیم خدمت انجام دے کر آپ اس دارِ فانی سے رخصت ہوئے ۔ اِنَّا لِلہ وَاِنّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنْ ۔
آپ کی نمازِ جنازہ ۶ / ۷ شوّال کی درمیانی شب میں بعد نمازِ عشاء ۱۱ بجے اِحاطۂ مولسری دارالعلوم دیوبند میں آپ کے صاحبزادۂ اکبر خطیب الاسلام حضرت مولانا محمد سالم صاحب قاسمیؒ نے پڑھائی ، جس میں ہزاروں اساتذہ و طلبہ و علماء باشندگانِ شہر اور مختلف اطراف سے آئے ہوئے علماء و صلحاء اور عام مسلمانوں نے شرکت کی ، اور قبرستان قاسمی میں اپنے جدّ امجد ججۃ الاسلام حضرتِ اقدس مولانا مُحمّد قاسم صاحب نانوتویؒ کے پہلو میں تدفین عمل میں آئی ۔
آل انڈیا ریڈیو کے مطابق ایک لاکھ سے زائد افراد نے نمازِ جنازہ میں شرکت کی ۔
۷ / صفر ۱۴۰۴ء مطابق ۱۳ نومبر ۱۹۸۳ء کی مجلس شوریٰ میں تعزیت کی تجویز پاس کی گئی جس میں کارناموں کو سراہتے ہوئے آپ کی روح کو خراج عقیدت پیش کیا گیا ۔ تجویز کا ایک اقتباس یہ ہے :
"مرحوم و مغفورکو اللہ نے لا تعداد محاسن و مناقب اور فضائل و مکارم سے نوازا تھا ، علوم ظاھری میں وہ امام العصر علامہ انور شاہ کشمیریؒ کے مایۂ ناز تلمیذ رشید تھے اور علوم باطنی میں ان کو حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ جیسے عظیم المرتبت شیخ کی خلافت حاصل تھی ، انہوں نے اپنے سر چشمۂ فیض سے درس و تدریس ، موعظت و دعوت اور رشد و صحبت کے مختلف ذرائع سے اپنی طویل عمر میں نہ صرف ہندوستان بلکہ عالم اسلام کو سیراب کیا ۔” ( تجویز تعزیت ، اجلاس مجلس شوریٰ ، 7 / صفر ۱۴۰۴ء مطابق ۱۳ نومبر ۱۹۸۳ء )
( تاریخ دارالعلوم : 235/ 2 ، پسِ مرگ زندہ صفحہ 109 تا 124 ، دارالعلوم دیوبند کی جامع و مختصر تاریخ صفحہ : 518 ، تذکرۂ اکابر صفحہ : 190 ، سو بڑے علماء صفحہ : 109 ، حیاتِ طیّب : 76/1 ، ملت اسلام کی مُحسن شخصیات صفحہ : 224 )