حضرت مولانا شاہ فیاض عالم ولی اللہی کٹیہاری

مختصر تعارف
حضرت مولاناشاہ فیاض عالم ولی اللہی
نبیرہ حضرت مولانا حفیظ الدین لطیفی بانی تکیہ شریف خانقاہ رحمانپور بارسوئی ، کٹیہار

منجانب:🖊️بزم اتحاد علمائے کٹیہار} واٹس ایپ گروپ{
زیر نگرانی ؛قاضی اسرار صاحب / ڈاکٹر صلاح الدین قاسمی

ولادت باسعادت:
1338ھ ،مطابق 8/ نومبر 1920ء میں اپنے نانیہالی گاؤں سہی پور(کھوریال) میں حضرت مولانا شاہ ولی اللہی صاحب کی ولادت باسعادت ہوئی۔
ابتدائی تعلیم و فراغت :
حضرت کی ابتدائی تعلیم آبائی گاؤں” رحٰمن پور” میں جید عالم دین مولاناعبد الرحمن صاحب مرحوم سے حاصل کی،مزید تحصیل علم کے لیے مدرسہ شمس الہدیٰ پٹنہ،مدرسہ حمیدیہ دربھنگہ،مدرسہ منظراسلام بریلی اور مدرسہ علم الٰہیات کانپورکاسفر کیااورآخرالذکر مدرسہ میں دستارفضیلت کے اعزاز سے نوازے گئے۔ واضح رہے کہ مدرسہ منظر اسلام بریلی میں نہ داخلہ لئے اورنہ وہاں قیام کئے، بس صرف وہاں جانا ہوا۔
دارالعلوم دیوبند سے فراغت :
مدرسہ علم الہیات کانپور سے فراغت کے بعد مزید علوم اسلامیہ عالیہ حاصل کرنے کے لیے آپ نے عالمی شہرت یافتہ اسلامی دانشگاہ ازہر ہند دارالعلوم دیوبند کا رخ کیا اور یہاں سے فراغت حاصل کی۔ دسرے مدرسوں میں تحصیل علم کے بعد دارالعلوم دیوبند میں تعلیم حاصل کرنے کی ایک اہم وجہ تھی کہ حضرت شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے داداجان حضرت مولانا حفیظ الدین لطیفی رحمۃاللہ علیہ ایک جید عالم دین ،صاحب نسبت بزرگ،صاحب دیوان ،شاعر اور بہت بڑے مصنف تھے،حضرت شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے ان کے دیوان وغیرہ کے مطالعہ کے دوران مزید لیاقت و استعداد کی ضرورت محسوس کی اور اس طرح آپ ۱۹۴۱ء؁ ء یوبند پہونچے اور داخلہ لیا، شیخ الاسلام حضرت مولانا حسین احمد مدنی رحمۃ اللہ علیہ، شیخ الحدیث دارالعلوم دیوبند اور حضرت مولانا اعزاز علی رحمتہ اللہ علیہ، شیخ الادب دارالعلوم دیوبند، وغیرہم اساتذہ اکابرین دارالعلوم دیوبند سے کسب فیض کیا ، اور ۱۹۴۷ء؁ میں فضیلت کے امتحان میں اعلیٰ نمبرات سے کامیابی حاصل کی۔
دارالعلوم دیوبند میں دوران طالب علمی کی سرگرمیاں :
حضرت شاہ صاحب دارالعلوم میں زمانہ َ طالب علمی میں انجمن اصلاح البیان بہار کے دیواری پرچہ”البیان“کے مدیر، جمعیۃ الطلبہ کے ناظم نشر واشاعت،مرکزی جمعیۃ الطلبہ کے نائب صدر تھے۔نیز انجمن ترقی اردو دہلی،محمد قاسم ولی اللہ سوسائٹی اور سجاد لائبریری کے بانیان میں ہونے کا شرف بھی حضرت کو حاصل ہے۔
جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی میں تعلیم :
1949 ء جامعہ ملیہ اسلامیہ میں بی اے میں داخلہ لیا اور یہاں سے بی،اے، فائنل کی ڈگری حاصل کی۔
درس وتدریس:
مندرجہ ذیل اداروں میں حضرت رحمۃ اللہ علیہ نے درس واصلاح کا فریضہ انجام دیا؛
{ا} تقریباً۲۲سال تک مدرسہ لطیفی رحمٰن پور،اس زمانے میں حضرتؒ خانقاہ لطیفی رحمٰن پور کے سجادہ نشیں اورمدرسہ لطیفی کے ناظم تھے۔
{۲}/7سال تک حضرت مولانا سہول صاحب بھاگلپوری، سابق استاذ دارالعلوم دیوبند ،کے مدرسہ پورینی بھاگلپورمیں درس و تدریس کی خدمات انجام دیں۔
{۳} 1981ء سے 1990ء تک مدرسہ تنظیمیہ باراعید گاہ ، پورنیہ میں پرنسپل رہے۔
{۴} اکتوبر 1990ء میں انسان اسکول/ کالج کشن گنج میں بطور لکچرار رہے۔

حضرت ایک کامیاب مدرس،بلند پایہ محقق،مفکر،مصلح،شاعراورادیب بھی تھے۔ اپنے تخیلات کو جس طرح چاہتے تھے سپرد قلم کرتے تھے،ہرصنف سخن میں آپ نے طبع آزمائی کی ہے، چنانچہ حضرت رحمۃ اللہ علیہ نے غزلیں ،نظمیں ،ڈرامانگاری ، افسانہ نگاری اور شکاریات پر بھی مضامین لکھے ہیں، ”دیوان غالب“ان کا مشہور ڈراماہے۔ حضرت مترجم اور مقالہ نگاربھی تھے،انہوں نے بہت سے مقالے لکھے جیسے کہ "اقبال کافلسفہ حیات”،”اعجاز قرآن”،”امانہ”،”بنی عباس نے بنی امیہ سے حکومت کیسے حاصل کی”،”بچہ کی پیدائش اورپرورش میں ماں کا کردار”،”رویت ہلال” اور{ریڈیو}وغیرہ۔
حضرت رحمۃ اللہ علیہ نہایت خاموشی کے ساتھ گمنامی کی حالت میں علم وفن کے ہرمیدان میں عظیم خدمات انجام دیتے جن کی وجہ سےہم سبھوں کےدرمیان ان کانام ہمیشہ روشن رہے گا۔دوران علالت حضرت کے تمام صاحبزادے خاص طورپر سید ریاض عالم اوران کی اہلیہ محترمہ سیدہ عشرت بانو نے حضرت رحمۃ اللہ علیہ کی ہرطرح کی خدمت عبادت سمجھ کر کی۔
انتقال پرملال : 23ربیع الاول1442 ھ مطابق 10نومبر 2020ء، دن منگل، ۳/بجکر ۴۰منٹ، ہم سبھوں کے لئے غمناک ثابت ہواکہ علم وعمل،فکر وفن،تحقیق وتدقیق،شعروادب،غزل ونظم،افسانہ وڈراما،حکمت وفلسفہ کے یہ بحر ذخارداغ مفارقت دے گئے۔اناللہ واناالیہ راجعون۔
اللہ سبحانہ و تعالیٰ حضرت کے درجات کوبلند فرمائے، حضرت کے جملہ اہل خانہ، اقرباء و اعزا ، محبین، متوسلین اور منتسبین کو صبر جمیل کی توفیق دے، اور ملت اسلامیہ کوحضرت کا نعم البدل عطاء کرے۔آمین۔

Related Posts

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے