بسم اللہ الرحمن الرحیم
ایک دن اپنے مشفق استاذ کے دیار میں
مولانا ضیاء الحق خیرآبادی ( حاجی بابو)
9235327576
مولانا محمد افضل صاحب مدظلہ (سابق استاذ مدرسہ منبع العلوم وحال استاذ دارالعلوم دیوبند) میرے مشفق ترین اساتذہ میں سے ہیں ، میں نے ان سے فارسی کی ڈھیر ساری کتابیں پڑھی ہیں،اور عربی اول میں نحومیر وشرح مائة عامل پڑھی ہے۔ مولانا نے میری درخواست پرگلزار دبستاں، کریما ، پند نامہ ، مامقیماں ،مفتاح القواعد، اخلاق محسنی ویوسف زلیخااور علامہ شبلی نعمانی کی شعر العجم جیسی کتابیں پڑھائیں ، مولانا کو پڑھانا نہیں گھول کر پلاناآتا تھا ، وہ طالب علم کواس کے موضوع سے ایسا والہانہ لگاؤ اور تعلق پیدا کردیتے تھے کہ وہ اس پر مر مٹتا تھا ، افہام وتفہیم کاایسا زبردست ملکہ تھا کہ باتیں خود بخود حافظہ اور وِجدان میں اپنی جگہ بناتی چلی جاتی تھیں ، ان سے جو کچھ فارسی پڑھی مدرسہ کے نظام سے ہٹ کر پڑھی، لیکن انھوں نے بغیر کسی گرانی کے جس قدر شفقت ومحبت سے پڑھایا اس پر میرا پورا وجود ان کا شکرگزار ہے ، دل کی گہرائیوں سے دعا ہے کہ باری تعالیٰ ہر طرح کے شرور وفتن سے انھیں محفوظ رکھیں اور ان پر اپنا فضل خاص فرمائیں۔ اس وقت دارالعلوم دیوبند جیسی مرکزی درسگاہ کے ایک اہم استاذہونے اور اہم عہدوں پر رہنے کے باوجود مولانا موصوف اب بھی وہی شفقت ومحبت کا معاملہ فرماتے ہیں جو کبھی فارسی پڑھنے کے زمانہ میں تھی، میں اس بات پر ﷲ تعالیٰ کا حد درجہ شکر ادا کرتا ہوں کہ مجھے ہردور اور ہر زمانے میں اساتذہ کی محبت وشفقت اور ان کا اعتمادحاصل رہا ۔
مولانا کا آبائی وطن یوپی سے متصل صوبہ بہار کا ایک گاؤں ”لے دری”ہے ، جو پہلے ضلع رہتاس میں تھا اور اب اس سے کٹ کر بننے والے ضلع ”کیمور ” کا حصہ ہے ۔ مولانا نے مدرسہ قرآنیہ ، بڑی مسجد جون پور میں قرآن کریم حفظ کیا ، اور وہیں مولانا محمد ایوب صاحب( ہنسور، فیض آباد) سے…… جو فارسی زبان میں اختصاص رکھتے تھے……. فارسی اور عربی اول ، دوم تک کی تمام کتابیں پڑھیں ، وہاں سے جامعہ اسلامیہ بنارس گئے جہاں عربی سوم سے جلالین شریف تک تعلیم حاصل کی ، وہاں جن اساتذہ سے کسب فیض کیا ان میں مولانا مفتی ابوالقاسم صاحب نعمانی (مہتمم دارالعلوم دیوبند)، مولانا حبیب الرحمن صاحب جگدیش پوری(استاذ دارالعلوم دیوبند)اور مولانا ڈاکٹر ظفر احمد صاحب صدیقی(پروفیسر مسلم یونیورسٹی علی گڈھ) جیسے نامور اہل علم شامل ہیں۔ ١٩٧٩ء میں دارالعلوم دیوبند تشریف لے گئے جہاں دوسال رہ کر مشکوٰة شریف اور دورہ حدیث کی تعلیم حاصل کی۔ آپ کی فراغت ١٩٨١ء میں ہوئی۔ تدریس کا آغاز مدرسہ ضیاء العلوم مانی کلاں سے کیا، تین سال وہاں رہے، اس کے بعد مدرسہ منبع العلوم خیرآباد آگئے ، یہ ١٩٨٣ء کا اخیروقت تھا، اس کے بعد تقریباً ٢٣ سال یہاں تدریس سے منسلک رہے ،آپ کا درس اپنی مثال آپ تھا ، تفہیم پر بے پناہ قدرت تھی ، منبع العلوم کے مقبول ترین اساتذہ میں آپ کا شمار ہوتا تھا ،کچھ عرصہ کے بعدمولانا کو یہاں کا ماحول اس قدر راس آیا کہ یہیں مکان بناکر مستقل بود وباش اختیار کرلی، اس وقت ان کو خیال بھی نہ آتا رہا ہوگا کہ کبھی منبع العلوم سے علیٰحدگی کی نوبت بھی آسکتی ہے ۔ ٢٠٠٥ء میں کچھ ایسی صورتحال پیش آئی کہ مولانا کو منبع العلوم چھوڑنا پڑا ، لیکن اسی ساتھ ان کو دارالعلوم دیوبند میں ہاتھوں ہاتھ لیا گیا، مولانا سید ارشد مدنی مدظلہ کی نظامت تعلیمات کا زمانہ تھا ، انھوں نے مولانا سے دارالعلوم میں تدریس کی پیشکش کی ، اس طرح نہایت اعزاز کے ساتھ مولانا ٢٠٠٥ء میں دارالعلوم دیوبند میں مدرس ہوگئے اور وہاں بھی ان کا درس انتہائی مقبول ہے ، کچھ عرصہ ناظم دارالاقامہ ، نائب ناظم تعلیمات وقائم مقام ناظم تعلیمات بھی رہے ، تعلیمات سے وابستگی کا کل زمانہ تقریباً پانچ سالوں پر محیط ہے، اس دوران کئی اہم امور انجام پائے، جس میں آپ کا کلیدی رول رہا ۔٭جیسے اساتذہ کی ترقی کے نئے ضابطہ کی ترتیب کے لئے شوریٰ نے ایک دستور ساز کمیٹی تشکیل دی ، جس کے آپ کنوینر رہے ، پھر نیا ضابطۂ ترقی رہنماخطوط کے ساتھ مرتب ہوا،منظور ہوا اور اسی قلیل عرصہ میں نافذ بھی ہوگیا۔٭ اسی طرح عربی اول سے ہفتم تک کے تمام درجات کی کتابوں کا ماہانہ نصاب مقرر ہوا۔ ٭دورۂ حدیث کی تمام کتابوں کی تفصیلی تدریس کے لئے ابواب کا انتخاب ہوا ، جس پر مجلس تعلیمی اور شوریٰ نے اپنی مہر تصدیق ثبت کردی ہے۔ بارہا آپ ناظم امتحان بھی رہے ، چونکہ مزاج میں تنظیم وترتیب بہت ہے، اس لئے اس کو بھی اچھی طرح منظم کیا، کاپیوں کے جانچنے کے لئے اصول وضوابط مقرر کئے ، جو مطبوعہ شکل میں ممتحن حضرات کو دئے گئے کہ اسی کی روشنی میں نمبرات دیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ مولانا نے اپنی افتاد طبع کے خلاف یہ تمام ذمہ داریاں ایک بڑے کے احترام میں قبول کیں اور اسے احسن طریقے سے پورا کیا ۔ورنہ خیرآباد کے زمانہ میں مولانا کو جیسا ہم لوگوں نے دیکھا ہے کسی کو تصور بھی نہیں ہوسکتا تھا کہ یہ کبھی کوئی معمولی ذمہ داری بھی قبول کرسکتے ہیں۔
مجھے مولانا کے محاسن وکمالات پر کوئی مقالہ نہیں لکھنا ہے ، بس سرسری طور جو باتیں ذہن میں آتی گئیں وہ نوک قلم سے ٹپکتی چلی گئیں ، ورنہ جو کچھ مولانا کے تئیں میرے احساسات وجذبات ہیں اس کا کچھ حصہ بھی بیان نہ کرسکا۔کلیم عاجز صاحب کیا خوب کہہ گئے
عاجز کا دل بہت بڑا ہے ظرفِ زمانہ چھوٹا ہے
ڈھیروں ڈھیروں بات ہے لیکن تھوڑا تھوڑا بولے ہے
بہر حال ان تمہیدی کلمات کے بعداپنے اصل موضوع کی طرف آتا ہوں۔ ٢٠ نومبر ٢٠٢٠ء جمعہ کو نماز جمعہ کے بعد بغیر کسی سابقہ اطلاع کے مولانا کا فون آیا کہ میں جون پور آیا ہوں ،اور رات میں خیرآباد پہنچ رہا ہوں ، تم سفر میں تو نہیں ہو ، میں نے کہا کہ نہیں، میں گھرپر موجود ہوں ۔ دیوبند جانے کے بعد جب کبھی بھی مولانا ایک دوروز کے لئے خیرآبادتشریف لاتے ہیں تو ازراہ شفقت قیام اپنے اس شاگرد کے یہاں فرماتے ہیں ، جو میرے لئے سعادت کی بات ہے ۔ شام کو مولانا تشریف لائے ،اتوار کی صبح تک قیام فرمایا ، اس دوران جامعہ رحمانیہ ولید پور ، مدرسہ منبع العلوم خیرآباد اور مولانا کے محلہ میں مسجد علی میں ان کی تقریریں ہوئیں ، میں سب میں شریک رہا۔ اس سفر میں مولانا کے ساتھ ان کے دوست اور جامعہ حسینیہ جون پورکے شعبہ حفظ کے قدیم ترین استاذ حافظ عمرفاروق صاحب بھی تھے ۔ اتوار کو مولانا کا ارادہ اپنے آبائی وطن جانے کا تھا ، مولانا کی خواہش پر میں بھی ساتھ ہولیاکہ مولانا کا وطن بھی دیکھ لوں اور کیمور کے پہاڑی سلسلے کی بھی سیر ہوجائے۔ اتوار کی صبح آٹھ بجے خیرآباد سے اپنے مخلص وبے تکلف دوست محترم طارق غفران صاحب کی گاڑی سے نکلے ، مولانا اور حافظ فاروق صاحب کے علاوہ مولانا کا بھتیجا احمد بھی ساتھ تھا، راستہ میں مدرسہ قاسم العلوم زمانیہ میں کچھ دیر کے لئے رکے ، بانی مدرسہ مولانا صلاح الدین صاحب کے صاحبزادے عزیزم مولانا حسین احمد سلّمہ جو شیخوپور میں مجھ سے پڑھے ہوئے رابطہ میں تھے ، انھوں نے مدرسہ کے گیٹ پر ہم لوگوں کا استقبال کیا، ان کے والد محترم سے بھی ملاقات ہوئی جو اس وقت مختلف قسم کے امراض وعوارض میں گھرے ہوئے ہیں ، باری تعالیٰ انھیں صحت وعافیت عطا فرمائیں۔پندرہ منٹ مولانا کی خدمت میں رہے ، اسی دوران چائے پی گئی اور واپسی کی اجازت لے کر آگے نکل گئے ، یہیں استاذ زادۂ عزیز مولانا محمد راشداعظمی سلّمہ سے ملاقات ہوئی ، میں نے کہا کہ مفتی عبد الرحمن صاحب کا گھر یہاں سے کتنی دور ہے ، اچانک پروگرام کی وجہ سے میں ان کو مطلع نہ کرسکا ، ورنہ ان سے بھی ملاقات کی کوئی شکل نکالی جاتی ، معلوم نہیں گھر پر ہیں یا نہیں ؟ اس نے کہا کہ آج ان کے بیٹے مولوی حمزہ کا ولیمہ ہے میں اسی میں شرکت کے لئے جارہا ہوں ، یہ بات چائے پیتے ہوئے انھوں نے بتائی ، میں نے کہا کہ آگے پروگرام کی وجہ سے اب اس میں ترمیم کی گنجائش بھی نہیں ہے ورنہ وہ بھول گئے تو کیا ہوا ،میں خود حاضر ہوجاتا، بہر حال مفتی عبد الرحمن صاحب سے ملاقات نہ ہونے کا افسوس رہا ۔ وہاںسے نکلے تو حافظ فاروق صاحب کے متعلقین میں سے قاری نہال صاحب کا ایک مدرسہ ہے کچھ دیر وہاں رکے ، اس کے بعد نکلے تو مولانا کے گاؤں ”لے دری” پہنچے ، خیرآباد سے اس کی مسافت براہ زمانیہ ١٢٥ کلومیٹر ہے ، لیکن راستہ بہت شاندار ہے ، تین گھنٹے میں ہم لوگ وہاں پہنچ گئے تھے ۔ گاؤں کے باہر مولانا کے چچازاد بھائی نیاز صاحب کا ایک اسکول ہے ، وہیں کچھ دیر رکے ، نیاز صاحب کو لے کر حافظ فاروق صاحب کے گھر توڑی بھگوان پور کے لئے نکل گئے ، پروگرام یہ بنا کہ صبح جب وہاں سے واپسی ہوگی تو تب گاؤں میں کچھ دیر رکیں گے ، بارہ بجے وہاں سے نکلے ۔
راستہ میں بھبھوا کا بورڈ دیکھ کر مجھے مدرسہ منبع العلوم کے قدیم طالب علم اور میرے بھائی مولانا منظور الحق صاحب کے رفیق درس مولانا آفتاب عالم صاحب کی یاد آئی ، میں نے مولانا سے کہا کہ اگر بآسانی آفتاب بھائی سے ملاقات ہوجاتی تو بہت اچھا ہوجاتا ، مولانا کے یہاں اپنے لوگوں کی رعایت بہت ہے ، کہنے لگے کہ ضرور ملاقات کریں گے ، آفتاب بھائی کو فون کیا اور ان کی دوکان پر پہنچ گئے جو بھبھوا شہر کی مین مارکیٹ میں ہے ، یہ کپڑوں کے بہت بڑے ہول سیلر ہیں ، کچھ دیر ان کے پاس رہ کر منبع العلوم کے عہد رفتہ کو یاد کیا گیا، انھوں نے رَس ملائی سے ضیافت کی۔ یہاں سے نکلے تو دس پندرہ منٹ میں حافظ فاروق صاحب کے گھر پہنچ گئے ، ظہر کی نماز ادا کرکے کھانا کھایا گیا ، کھانے میں حافظ صاحب نے بہت اہتمام کیا تھا ،کھاکر فارغ ہوئے تو تین بج گئے ، کچھ دیر آرام کرکے ساڑھے تین بجے عصر کا وقت ہوتے ہی نماز پڑھی گئی اور پہاڑ کی سیرکے لئے گاڑی سے نکل گئے ، مولانا کے علاوہ ساتھ میں حافظ صاحب کے صاحبزادے بلال بھائی اور مولانا کے چچازاد بھائی نیاز صاحب تھے۔ پہاڑ کو تراش کر نہایت عمدہ سڑک بنائی گئی ہے ، اونچی نیچی ، بل کھاتی ہوئی پہاڑی سڑک پر کار سے چلنا ڈرائیونگ کا امتحان تھا ، لیکن ہمارا ڈرائیور عمران احمدواقعی کافی ماہر تھا ،کہیں کہیں تو ایسے موڑ ملے کہ ذرا سی بے احتیاطی ہزاروں فٹ گہری کھائی میں پہنچادیتی ،٢٠ کلومیٹر چلنے کے بعد ایک تفریحی مقام” تلہاڑ کنڈ” پہنچے ، جہاں پہاڑی چشموں کا پانی برسات کے زمانے میں پوری قوت سے گرتا ہے ، اس وقت بھی برسات نہ ہونے کے باوجود چشمے کا صاف شفاف پانی معتدل رفتار سے بہت سی جگہوں پر گرکر ہزاروں فٹ گہری کھائی میں جارہا تھا یہ حسین منظر نگاہوں کے لئے باعث تسکین تھا ،ہم لوگ تقریباً تین ہزار فٹ کی بلندی پر تھے، وہاں سے نشیبی علاقہ جہاں پانی گرکر جمع ہورہا تھا دیکھتے ہوئے عجیب طرح کا خوف محسوس ہورہا تھا ، پہاڑ کے کنارے ریلنگ وغیرہ کے ذریعہ کوئی رکاوٹ بھی نہیں تھی ، اس لئے ہر سال دوچار لوگ وہاں سے کھائی کی گہرائی دیکھنے کے چکر میں نیچے گرکر لقمۂ اجل بن جاتے ہیں۔ آس پاس کے خوبصورت ودلکش مناظر قدرت کو دیکھ کر جی یہی چاہ رہا تھا کہ کچھ وقت مزید یہاں گزارا جائے ۔ جب ہم لوگ حافظ صاحب کے گھر سے نکل رہے تھے تو انھوں نے کہا کہ چائے پی کر جائیے ، اس وقت جی نہیں چاہ رہا تھا توکہہ دیا کہ ابھی نہیں واپس آکر پی لیں گے ، تو ان کے صاحبزادے حافظ رشید احمد صاحب نے کہا کہ میں چائے بنواکر وہیں پہاڑ پر لاؤں گا ، وہ مغرب سے کچھ پہلے مٹھائی ، نمکین اور چائے لے کر پہنچ گئے ، اس وقت ٹھنڈ کی وجہ سے چائے کی طلب بھی ہورہی تھی، چائے بالکل بروقت ملی۔ مغرب کا وقت ہورہا تھا ، چشمہ کے پانی سے سب لوگوں نے وضو کیا اور پہاڑی پر ہی نماز ادا کی گئی ۔ سورج ڈوبتے ڈوبتے ٹھنڈ بہت بڑھ گئی ، واپسی میں دیکھا کہ چرواہے اپنے جانوروں کو چراکر واپس لے جارہے تھے ، جگہ جگہ گائے ، بھینس اور بھیڑوں کے جھنڈ ملے ، واپسی میں پہاڑ سے نیچے آبادیوں میں جلٹی لائٹوں کا منظر بہت بھلا لگ رہا تھا ، لیکن دیہات ہونے کی وجہ سے لائٹوں کی وہ چکاچوند نہیں تھی جو مکہ مکرمہ ودیگر بڑے شہروں میں دیکھ چکا تھا ۔
حافظ صاحب کے گھر پہنچ کر کچھ دیر آرام کرکے عشاء کی نماز پڑھی گئی اس کے بعد کھانا کھاکر سوگئے ، صبح سے مسلسل سفر اور پہاڑکی تفریح نے کافی تھکادیا تھا ، لیٹتے ہی نیند کی آغوش میں پہنچ گئے ۔ واپسی کا پروگرام یہ تھا کہ ساڑھے پانچ بجے فجر پڑھ کر نکلیں گے ، چنانچہ فجر بعد چائے پی کر سوا چھ بجے نکلے ۔ یہ علاقہ بڑی تاریخی اہمیت کا حامل ہے ، یہاں سے قریب رہتاس گڑھ ہے ، جہاں قدیم بادشاہوں کی یادگاریں موجود ہیں ،یہیں ہندوستان کا نامور بادشاہ شیرشاہ سوری ابدی نیند سورہا ہے ، مولانا نے بتایا کہ یہاں کے ان پہاڑی سلسلوں کو ہی کیمور کہا جاتا تھا، اور اب یہ ضلع کا نام پڑ گیا ہے ۔ دہلی کے بادشاہوں نے جب جب مشرقی ہندوستان یعنی بنگال وغیرہ پر فوج کشی کی ہے تو ان کی گزرگاہ یہی علاقہ رہا ہے ، چنانچہ بہت سی جگہوں پر شہداء کی قبریں ہیں ، مشہور ہے کہ سید سالار مسعود غازی کے رفقاء کا گزر بھی یہاں سے ہوا ہے ، بھبھوا سے متصل ایک جگہ چَین پور ہے جہاں شیر شاہ سوری کے داماد بختیار خاں کا مقبرہ ہے ، اسی سے متصل ایک پہاڑی کے دامن میں ایک بزرگ محمد عثمان شاہ کا مزار ہے۔ چین پور میں پہنچ کر مولانا کے ایک رشتہ دارکلام الدین صاحب کے یہاں کچھ دیر رکے ، اس کے بعد شیر شاہ کے داماد بختیار خان کے مقبرہ پر گئے ، مولانا آفتاب عالم صاحب بھی وہاں آگئے تھے ، ایک وسیع احاطہ کے بیچ میں ایک شاندار وپُرشکوہ پتھروں سے بنی گنبد نما عمارت ہے ، اس میں پندرہ بیس قبریں ہیں، لیکن کہیں کوئی علامت یا کتبہ وغیرہ نہیں ہے جس سے اس کی تاریخی حیثیت کا پتہ چلے ، عمارت میں دوزینے بھی ہیں جن سے چھت پر جایا جاسکتا ہے لیکن اب ان زینوں کو بند کردیا گیا ہے ۔ مولانا آفتاب صاحب نے بتایا کہ اس احاطہ کا جوگیٹ ہے پہلے اس پر بختیار خاں کے بارے میں فارسی زبان میں کچھ لکھا تھا ، گیٹ کی مرمت کے دوران جب اس میں نئے پتھر لگائے گئے تو وہ سب تحریریں ختم ہوگئیں۔ احاطہ کا گیٹ مغل دور کے قلعوں جیسا ہے ، یہ پورا احاطہ محکمہ آثار قدیمہ کی نگرانی میں ہے ، باہر اس سلسلہ میں نوٹس بورڈ پر مختلف قسم کی ہدایات لکھی ہوئی ہیں ۔
وہاں سے نکلے تو ایک چھوٹی سی پہاڑی ندی کو پل کے ذریعہ پار کرکے دامن کوہ میں محمد عثمان شاہ کے مقبرہ پر پہنچے ، اس پہاڑ کو ان کے نام پر عثمان کوٹی کہا جاتا ہے ، بلکہ وہاں مقامی لوگ تو اس میں تخفیف کرکے ”عثمن کوٹی ” کہتے ہیں ، پہاڑکی چوٹی پر ایک چبوترہ ہے جس کے بارے میں گمان ہے کہ یہ عثمان شاہ کی ریاضت گاہ ہے، لیکن ہم لوگ اس پر نہیں گئے ۔ عثمان شاہ کے مزار کے احاطہ میں بہت ساری قبریں ہیں ، ان کا عرس بھی ہوتا ہے ، بدعات وخرافات کے قبیل کی جتنی قسمیں ہوتی ہیں جو اس طرح کے مزارات کا خاصہ ہیں وہ سب یہاں بھی ہوتی ہیں ، تھوڑی ہی دیر ہم لوگ وہاں رہے اتنی ہی دیر میں چند ایک ایمان سوز نظارے سامنے آہی گئے ۔ عثمان شاہ کے بارے میں کچھ معلوم نہ ہوسکا کہ یہ کس دور کے بزرگ ہیں، قبر پر بھی صرف نام لکھا ہوا ہے، تاریخ وفات وغیرہ بھی مذکور نہیں ہے۔ یہ سب باتیں قدرے تفصیل سے اس لئے لکھ رہا ہوں کہ اس علاقہ سے تعلق رکھنے والے اہل علم کی نگاہ سے یہ تحریر گزرے تو اس سلسلہ میں رہنمائی فرمائیں اور اپنی معلومات سے مجھے آگاہ کریں ، تاکہ مولانا کی خواہش کے مطابق اس علاقہ کی ایک صحیح تاریخ سامنے آجائے ، ان شاء اﷲ اس سلسلے میںمجھ سے جو ممکن ہوسکے گا کو شش کروں گا۔
یہاں سے مولانا کے گاؤں ” لے دری ” پہنچے ، مین روڈ سے بجانب مغرب ایک کلومیٹر کے فاصلہ پر ہے، اسی پچاسی گھروں پر مشتمل ایک خالص دیہات ہے ، اس سے متصل بھی ایک پہاڑی ندی ہے، نیاز بھائی کے گھر پہنچے ، اور ہماری فرمائش پرانھوں نے خالص دیہاتی ناشتہ کرایا جو پکوڑی کی طرح چھنی ہوئی ندی کی مچھلی ، دہی اور گڑ وغیرہ پر مشتمل تھا اور ہم متمدن لوگوں کے لئے ایک نعمت غیر مترقبہ! ناشتہ کے بعد مولانا اپنے اعزا واقربا سے ملنے کے لئے نکلے ،سامنے گاؤں کی مسجد نظر آئی ،جومولانا نے دیوبند سے فراغت کے بعد تعمیر کروائی ہے، مولانا تھوڑی تھوڑی دیر اپنے اعزاسے ملتے ہوئے اپنے گھر لے گئے جہاں اب کوئی نہیں رہتا ہے ، گھر میں تالا لگا ہوا تھا، ان کے سبھی بھائی وطن باہر مقیم ہوچکے ہیں ،گاؤں کے مغربی سمت میں قبرستان ہے ۔ مولانا کی کافی زمینیں وہاں ہیں لیکن اس کے مکین اب شاید ہی وہاں جاسکیں ،اس لئے وطن سے باہر سب اپنی اپنی جگہ مطمئن ہیں ، البتہ گاؤں میں خاندان کی ایک بڑی تعداد موجود ہے ۔ محسوس ہوا کہ اب بھی گاؤں میں مولانا کا بڑا اثر اور احترام ہے۔ دس بجے کے قریب وہاں سے نکلے ، مغلسرائے میں مولانا غلام رسول صاحب قاسمی سے ان کے مدرسہ عرفان العلوم میں جاکر ملاقات کی، مدرسہ ہمارے راستہ سے بالکل قریب تھا ، مولانا ہم لوگوں سے مل کر بہت خوش ہوئے ، انھوں نے چند ماہ قبل اپنے شیخ مولانا سید خلیل حسین میاں ( نبیرہ مولانا اصغر حسین دیوبندی ) کی سوانح ”ذکر خلیل ” کے نام سے لکھی ہے ، وہ ہمیں پیش کی ۔وہاں سے نکلے تو بنارس مولانا کے داماد ڈاکٹر محمد طیب صاحب کے گھر پہنچے ، یہاں میں نے اپنے عزیز دوست مولانا احمد سعید بن حاجی منظور احمد صاحب ( ناظم مدرسہ مطلع العلوم کمن گڑھا ،بنارس ) کو بلا لیاجو ایک باذوق عالم ہیں ،ان کے والد حاجی منظور صاحب بنارس کے مشہور ومخیر تاجر اور علماء نواز شخص ہیں ، استاذی مولانا اعجاز احمد صاحب اعظمی سے بہت خاص مراسم تھے، مولانا کاقیام بنارس انھیں کے یہاں ہوتا تھا، اسی نسبت سے ہم لوگوں سے بھی ایک خاص تعلق ہے۔ مولانا احمد سعید کچھ دیر ساتھ رہے پھر ایک فوری ضرورت کی بنا پر جلد ہی واپس چلے گئے۔ہم لوگ یہاں سے کھانا کھاکر عصر کی نماز پڑھ کر چار بجے کے قریب نکلے ، اور ساڑھے سات بجے گھر پہنچ گئے ۔ اس طرح یہ سفر اختتام کو پہنچا۔
مولانا کا ٹکٹ دوسرے دن دیوبند کے لئے تھا ، وہ یہیں رک گئے ۔ وہ کل ان شاء ﷲ دیوبند کے لئے روانہ ہوں گے ، باری تعالیٰ انھیں صحت وعافیت کے ساتھ رکھیں اور اپنے حفظ وامان میں بخیر وعافیت دیوبند تک پہنچائیں ۔ آمین یارب العالمین
٢٣ نومبر ٢٠٢٠ء مطابق ٧ربیع الثانی ١٤٤٢ھ دوشنبہ