مولانا سید سلمان حسینی ندوی صاحب کی منصور پور کی حالیہ تقریر —-چند قابل غور گوشے

مفتی محمد عفان منصور پوری

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
مولانا سید سلمان حسینی ندوی صاحب نے مؤرخہ ۲۰ / ربیع الاول ١٤٤٢ھ منصورپور میں جو تقریر کی اس کے ابتدائی حصوں میں تو کوئی بات قابل اعتراض نہیں تھی البتہ درمیان و اخیر میں متعدد باتیں ایسی کہی ھیں جن کی وضاحت ضروری ھے تاکہ مولانا کی تقریر سننے والوں تک امت کا صحیح موقف بھی آسکے ۔

جہاں تک فضائل اھل بیت بالخصوص حضرت علی کرم اللہ وجھہ کے مناقب کا تعلق ھے تو کسی بھی سچے مومن کو اس سے اختلاف نہیں ھوسکتا ، الحمد للہ ھم اپنے اھلسنت کے طبقہ میں کسی ایسے شخص کے بارے میں نہیں جانتے جو حضرات اھل بیت میں سے کسی بھی مقدس شخصیت کے مخصوص فضائل کا منکر ھو بلکہ بفضلہ تعالی ان سب کو ھم عزیز از جان سمجھتے ھیں ۔

مولانا کی گفتگو میں جو باتیں قابل گرفت اور خلاف واقعہ محسوس ھوئیں ھم ان کو ترتیب وار ذکر کرتے ھیں :

( ١ ) مولانا سید سلمان صاحب نے اھل بیت اور حضرت علی کرم اللہ وجھہ کے فضائل و مناقب ذکر کرنے کے بعد یہ غلط تاثر پیش کرنے کی کوشش کی کہ موجودہ علماء اھلسنت میں کچھ ایسے ناصبی اور منافق لوگوں نے گھس پیٹھ بنالی ھے جو اھل بیت کے ان فضائل کو تسلیم نہیں کرتے اور ان کو وہ مقام نہیں دیتے جو ان کا حق ھے بلکہ ان کے ساتھ نعوذ باللہ کینہ و دشمنی رکھتے ھیں حالانکہ یہ سراسر اتہام اور بدگمانی ھے ھم پہلے ھی یہ بات واضح کرچکے ھیں کہ اھل بیت سے عقیدت و محبت اور ان کی عظمت و رفعت شان کا اعتراف ھمارے ایمان کا حصہ ھے البتہ اتنی بات ضرور ھے کہ ھم حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی شان میں گستاخی کو بھی کسی درجہ میں روا نہیں سمجھتے اور مولانا کے نزدیک اھل بیت سے محبت اس وقت تک کامل نہیں ھوسکتی جب تک صحابہ کے ایک طبقہ کی کردار کشی نہ کردی جائے ۔

( ۲ ) مولانا سید سلمان صاحب نے اپنی عادت کے مطابق حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ پر چھینٹہ کشی کرتے ھوئے ان کا نام لئے بغیر یہ کہا کہ وہ نعوذ باللہ حضرت علی کرم اللہ وجھہ کو گالیاں دیا کرتے تھے اور استدلال کے طورپر صحیح مسلم کی وہ روایت پیش کی جس میں یہ بات ذکر کی گئی ھے کہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو برابھلا کہنے سے کس چیز نے آپ کو روکا تو انہوں نےفرمایا کہ تین باتیں ان کے بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسی فرمائیں ھیں کہ ان میں سے ایک بھی میرے نزدیک سرخ اونٹوں سے بہتر ھے ( ایسی صاحب فضائل شخصیت کے بارے میں اختلاف کے باوجود میں لب کشائی نہیں کرسکتا ) وہ تین باتیں کیا ھیں:

( الف) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سےفرمایا کیا تمھیں یہ بات پسند نہیں کہ تمہاری مجھ سے وھی نسبت ھو جو ھارون علیہ السلام کی موسی علیہ السلام سے تھی سوائے اس کے کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ھوگا ۔

( ب ) خیبر کے موقع پر آپ نے فرمایا تھا کل میں ایسے شخص کو جھنڈا دوں گا جو اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرتا ھے اور اللہ اور اس کے رسول اس سے محبت کرتے ھیں اگلے دن حضرت علی رضی اللہ عنہ کو بلاکر جھنڈا آپ نے ان کے حوالہ کیا اور پھر فتح نصیب ھوئی ۔

( ج ) مباھلہ کے وقت آپ نے حضرت علی و فاطمہ و حسن و حسین رضوان اللہ علیہم اجمعین کو بلایا اور فرمایا اے اللہ یہ میرے گھر والے ھیں ۔ ( صحیح مسلم ، فضائل الصحابہ ، حدیث 2404 )

اس حدیثِ سے یہ غلط تاثر دیا گیا کہ نعوذ باللہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی شان میں گستاخی کرنے کی ترغیب دے رھے ھیں ، حالانکہ ان حضرات کا کردار اس کے بالکل برخلاف ھے ۔

 روایت کا صحیح مطلب یہ ھیکہ حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ جنگ جمل اور جنگ صفین میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کی مخالف صف سے تعلق رکھنے والے صحابہ میں سے تھے لیکن کبھی ان کے خلاف زبان نہیں کھولی تو حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے ان  سے پوچھا  کہ رائے اور نظریے میں اتنے  شدید اختلاف کے باوجود آپ نے کبھی حضرت علی رضی اللہ عنہ کے لئے نازیبا زبان کیوں نہیں استعمال کی ؟ اس کا مطلب یہ ھرگز نہیں ھے کہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے خلاف غلط زبان استعمال کرنے پر ابھار رھے ھیں بلکہ مطلب یہ ھے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی وہ کیا خصوصیات ھیں جن کی بنا پر اختلاف رائے کے باوجود آپ ان کے خلاف نامناسب زبان استعمال کرنا روا نہیں سمجھتے ۔
یہی وجہ ھیکہ جواب میں حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے جو صفات حضرت علی رضی اللہ عنہ کی شمار کروائیں اس کے ایک ایک لفظ سے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے عقیدت و محبت اور عظمت کا عنصر جھلکتا ھے یعنی رائے کا اختلاف اپنی جگہ لیکن ان کا مقام و مرتبہ اور جلالت شان مسلم ھے ، اگر بات وھی ھوتی جو مخالفین سمجھتے ھیں یعنی حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو گالیاں دلوانا چاہ رھے ھیں ( نعوذ باللہ ) تو حضرت سعد رضی اللہ عنہ یقینا ان کو سختی کے ساتھ جواب دیتے ؛ لیکن اس طرح کی کوئی بات انہوں نے نہیں کہی کیوں کہ وہ جانتے تھے کہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے سوال کا منشا کیا ھے ، اسی لئے انہوں نے فرمایا کہ جنگ جمل و صفین میں حضرت علی کرم اللہ وجھہ کے ساتھ نہ ھونا الگ ھے اور ان کے بارے میں حسن ظن اور اچھے گمان کا ھونا الگ ھے ، اس کا مطلب یہ ھے کہ اگر ھم جنگوں میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ نہ رھے تو اس سے یہ نہ سمجھنا چاھئے کہ ھم ان کی شان میں گستاخی کی جسارت کرسکتے ھیں ۔

( ۳ ) اھل بیت کا مصداق ، مولانا سید سلمان صاحب نے حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور موقف جمھور کے خلاف اس بات پر زور دیا کہ اھل بیت سے مراد صرف حضرت علی و فاطمہ و حسن و حسین رضوان اللہ علیہم اجمعین ھیں ازواج مطہرات کو اھل بیت میں شامل کرنا مخالف حدیث ھے اور استدلال کیا حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کی اس حدیث سے جسمیں یہ مضمون مذکور ھے کہ آیت کریمہ : ” انما یرید اللہ لیذھب عنکم الرجس اھل البیت و یطھرکم تطھیرا ” کے نزول کے موقع پر آپ نے ایک چادر منگوائی اور ان چاروں حضرات کو ڈھانپ کر یہ فرمایا کہ : ” اے اللہ یہ میرے اھل بیت ھیں ، آپ ان سے ھر طرح کی گندگی کو دور فرمادیجئے اورانہیں اچھی طرح پاک صاف فرمادیجئے "۔

حالانکہ اسی روایت میں آگے جو بات بیان کی گئی اس کا مولانا نے کوئی ذکر نہیں کیا وہ  بات  یہ ھیکہ جب ان چاروں کو آپ نے چادر میں لے لیا اور دعاء کی تو ام المومنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا : یا رسول اللہ مجھے بھی اس میں شامل فرمالیجئے آپ نے فرمایا :" انت علی مکانک وانت علی خیر " تم اپنی جگہ پر ھو یعنی تم تو پہلے ھی سے اھل بیت میں شامل ھو  اور تم بہترائی پر ھو ۔ ( مستفاد تحفة الاحوذي ، ابواب التفسير )

اسی بات کی تائید اس روایت سے بھی ھوتی جس میں یہ مضمون ھے کہ حصین بن سبرہ رح نے حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ یہ بتائیے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اھل بیت کون ھیں ؟ اور کیا ازاواج مطہرات اھل بیت میں شامل نہیں ھیں؟ تو حضرت زید رض نے جواب دیا کہ ازواج مطہرات بھی اھل بیت میں ھیں لیکن اس حدیث میں اھل بیت سے مراد حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے خاندان کے وہ لوگ ھیں جن کے لئے زکوٰۃ لینا حرام قرار دیا گیا ھے ۔
( مسلم شریف ، فضائل الصحابہ ، حدیث 2408 )

پھر خود قرآن کریم کی آیت تطھیر میں اللہ تعالی نے ازواج مطہرات رضوان اللہ علیہن اجمعین کو خطاب کرتے ہوئے اھل بیت کے لفظ سے یاد فرمایا ھے جس سے یہ بات واضح ھوجاتی ھے کہ ازواج مطہرات ھی اھل بیت کا اولین مصداق ھیں ۔

( ٤ ) مولانا سلمان صاحب نے اس بات پر اصرار کیا کہ حضرت علی و فاطمہ و حسن و حسین رضوان اللہ علیہم اجمعین کے ناموں کے ساتھ علیہ السلام استعمال کیا جائے ۔
تو اس سلسلے میں یہ عرض ھے کہ غیر نبی کے ساتھ اگرچہ علیہ السلام کا استعمال اصولی طور پر کیا جاسکتا ھے لیکن فقھاء اس بات کی تصریح کرتے ھیں کہ اھل بیت میں سے بعض حضرات کو نبی معصوم کے مثل اور مفترض الطاعہ سمجھکر ان کے نام کے ساتھ امام یا علیہ السلام کا استعمال کرنا جائز نہیں ۔
ملا علی قاری علیہ الرحمہ نے حضرت علی کرم اللہ وجھہ کے نام کے ساتھ علیہ السلام کے استعمال کو روافض اور اھل بدعت کا شعار قرار دیا ھے : ان قولہ : ” علی علیہ السلام ” من شعار اھل البدعة فلا يستحسن في مقام المرام . ( فقہ اکبر ص : 167 )

( ۵ ) بانیان دارالعلوم دیوبند کا تذکرہ کرتے ھوئے مولانا سلمان صاحب نے حاجی سید عابد حسین صاحب علیہ الرحمہ کے بارے میں کہا کہ وہ دارالعلوم مولانا محمد قاسم صاحب نانوتوی رحمہ اللہ کے حوالے کرکے حجاز مقدس کی جانب ھجرت کرگئے تھے ۔
تو اس سلسلہ میں یہ وضاحت ضروری ھے کہ ھماری معلومات کے مطابق حضرت حاجی سید عابد حسین صاحب نوراللہ مرقدہ نے کوئی ھجرت نہیں فرمائی بلکہ دیوبند ھی میں قیام پذیر رھے اور وھیں قبرستان قاسمی کے قریب آسودہ خواب ھیں ۔

بہر حال یہ چند باتیں مولانا سلمان حسینی صاحب کی تقریر سے اخذ کرکے اس لئے لکھدی گئی ھیں کہ مولانا بھی بار بار یہ کہ چکے ھیں کہ اب میں ان موضوعات پر بات نہیں کروں گا اور ان کے چاھنے والے بھی یہ کہتے نہیں تھکتے کہ مولانا غلط موقف سے رجوع کرچکے ھیں لیکن یہ عجیب بات ھے جب بھی موقع ملتا ھے مولانا صراحتا یا کنایة امت کے متفقہ موقف کے خلاف اپنی بات کہنے سے نہیں چوکتے ۔

ربنا لا تزغ قلوبنا بعد اذ هديتنا وهب لنا من لدنك رحمة انك انت الوهاب
محمد عفان منصورپوري
٢١ / ربیع الاول ۱٤٤٢ھ

Related Posts

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے