الرحیق المختوم پر مفتی دار العلوم کے جواب کے خلاف تبصروں جواب میں ایک مختصر تبصرہ

ڈاکٹر مفتی عبید اللہ قاسمی

لیکچرر شعبہ عربی دہلی یونیورسٹی لکھنؤ

تاب "الرحیق المختوم” کے بارے میں مجھے پہلے صرف اتنا معلوم تھا کہ سعودی حکومت نے اس پر ایوارڈ دیا تھا لہذا کتاب کے بارے میں میں ساکت تھا. لیکن فتوے کے بعد جب کتاب کو اندر سے دیکھا اور ابھی اس کے ابتدائی صرف 250 صفحات کے حوالجات پر دو تین گھنٹوں میں طائرانہ نظر ڈالی تو مجھے بہت حیرت ہوئی. یہ سوال تو میں نے کل بھی کیا تھا کہ جو لوگ اس کتاب کے ثناخواں ہیں وہ کتاب کے ان نمایاں اور امتیازی خوبیوں کو بتائیں جن کی وجہ سے سعودی حکومت نے ایوارڈ دیا مگر جواب اب تک نہیں مل سکا ہے. کیا اس کتاب کی عربی زبان غیر معمولی ہے، اس کے مشمولات نرالے ہیں، اس کے سارے حوالے مستند ہیں، اس کی ساری روایات صحیح اور قوی ہیں، بہت جامعیت ہے یا کچھ اور ہے؟

سیرت کی جس عربی کتاب میں تحقیق وریسرچ کے اصولوں کے برخلاف اولین مصادر (Primary sources) سے ہٹ کر ثانوی مصادر (Secondary sources) بلکہ ثالثی ورابعی بلکہ دنیا کی نگاہ میں گمنام مصادر کی بھرمار ہو بلکہ بعض جگہوں پر مصادر میں صرف بائبل کا حوالہ ہو، بعض جگہوں پر بخاری شریف کی صحیح حدیث کو نقل کرکے اس کے مقابلے میں ابنِ اسحاق کی بات اور اپنی عقل کو ترجیح دیا گیا ہو، جگہ جگہ جمہور کے قول کو چھوڑ کر شاذ قول کو اختیار کیا گیا ہو بلکہ مصنف بعض جگہوں پر یہ بھی کہتا ہو کہ اس کا قائل کوئی نہیں ہے، بکثرت مودودی صاحب کا حوالہ دیا گیا ہو، عربی کی سیرت کی اس کتاب میں بکثرت ہندوستان کی اردو کتابوں کا حوالہ دیا گیا ہو، ضعیف احادیث کی بھرمار ہو بلکہ بعض موضوع حدیثوں سے بھی استدلال کیا گیا ہو ایسی کتاب اگر انتہائی سطحی نہ کہی جائے تو پھر کس کتاب کو انتہائی سطحی کہا جائے؟

ذیل میں سرسری طور پر میں نے چند چیزوں کو جمع کیا ہے. احباب ان پر نظر کریں اور انٹرنیٹ پر موجود (جسے میں اس تبصرے کے بعد شیئر کررہا ہوں) اس کتاب کو اس کے درج ذیل صفحات نمبرات پر جاکر از خود بھی دیکھ لیں:

صفحہ 17: محاضرات تاریخ الامم الاسلامیہ للخضری
نوٹ: پوری کتاب میں اس کتاب کا بکثرت حوالہ دیا گیا ہے.

صفحہ 18: وبعد إدارة النظر من جميع الجوانب أثبتنا ماترجح عندنا…
نوٹ: موصوف مقدمے میں بھی "ثم اثبت فی صلب المقالۃ ماترجح لدی بعد التحقیق” لکھ چکے ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ وہ جمہور کی تحقیق کے مقابلے میں اپنی تحقیق کو راجح قرار دے رہے ہیں.

صفحہ 18: موصوف فرماتے ہیں کہ معروف یہ ہے کہ ہاجرہ فرعون کی باندی تھی مگر وہ باندی نہیں بلکہ اس کی بیٹی تھی. دیکھئے رحمۃ للعالمین قاضی محمد سلیمان منصورپوری
نوٹ: موصوف نے اس اردو کتاب کا بکثرت حوالہ دیا ہے.

صفحہ 25: تفہیم القرآن للسید المودودی
نوٹ: موصوف نے سیرت کی اس کتاب میں بطور حوالہ بکثرت مودودی صاحب کی تفہیم القرآن کا ذکر کیا ہے.

صفحہ 27: سفر التکوین نوٹ: مصنف نے اکلوتا حوالہ بائبل کے باب Genesis سے دیا ہے.

صفحہ 50: مختصر سیرۃ الرسول للشیخ محمد بن عبد الوہاب النجدی
نوٹ: اس کے بکثرت حوالے موجود ہیں.

صفحہ 58: مختصر سیرۃ الرسول للشیخ عبد اللہ النجدی
نوٹ: اس کے بھی بکثرت حوالے موجود ہیں.

صفحہ 59: ووقع فی کتاب الترمذی وغیرہ انہ بعث معہ بلالا (تحفۃ الاحوذی) …
نوٹ: براہِ راست حدیث کا حوالہ ترمذی سے دینے کی بجائے تحفۃ الاحوذی شرح ترمذی سے دیا ہے.

صفحہ 66: موصوف نے اپنی عقل سے فرمایا ہے کہ نزولِ وحی کی ابتداء 21 رمضان کو ہوئی جس کا حوالہ نہ صرف یہ کہ ندارد ہے بلکہ یہ تک فرمایا کہ اس کا قائل کوئی نہیں ہے.

صفحہ 101: تدل علیہ روایۃ ذکرہا الشیخ عبد اللہ النجدی فی مختصر السیرۃ…
نوٹ: حدیث کا حوالہ اصل کتاب سے دینے کی بجائے شیخ نجدی کی کتاب سے دیا جارہا ہے.

صفحہ 115: تاریخ اسلام للشاہ اکبر خان نجیب آبادی
نوٹ: اس اردو کتاب کے حوالے بھی بکثرت ہیں.

صفحہ 172: مصنف نے قبا میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا قیام چار دن پیر تا جمعرات بتایا ہے اور حوالے میں فرماتے ہیں کہ یہ ابن اسحاق، ابن ہشام اور اسی کو علامہ منصورپوری نے اختیار کیا. جب کہ بخاری شریف میں ایک روایت میں 24 روز، دوسری میں دس روز اور کچھ، اور تیسری میں 14 راتیں بتائی گئی ہیں اور اسی اخیر کو ابن قیم نے زاد المعاد میں اختیار کیا ہے.
نوٹ: موصوف بخاری شریف کی صحیح حدیثوں اور ابن قیم کے قولِ مختار کو ذکر کرنے کے باوجود صرف چار روز قیام بتاتے ہیں اور اس کی اپنی توجیہ کرتے ہیں.

صفحہ 202: حقق الأستاذ السيد أبو الأعلى المودودي تحقيقا مدللا أن سورة محمد نزلت قبل بدر
نوٹ: کس شان سے بدر سے پہلے سورہِ محمد کے نزول کی تحقیق اور حوالے میں مودودی صاحب کا ذکر کیا ہے دیکھنے کی چیز ہے.

صفحہ 21: پر اخیر میں جو حدیث ان اللہ خلق الخلق … نقل کی ہے وہ ضعیف ہے.

صفحہ 53: پر فرمایا گیا "وروي عن النبي صلى الله عليه وسلم انه قال: انا ابن الذبیحین”
نوٹ: محدثین اس حدیث کے بارے میں فرماتے ہیں لا اصل لہ بہذا اللفظ.

میں نے مذکورہ بالا سطور میں موصوف کے ریسرچ اور تحقیق کے طریقہ، مشمولات، حوالجات اور طرزِ استدلال کا ایک سرسری اور ہلکا نمونہ پیش کیا ہے. اگر کوئی باریک بیں علمی تحقیق کے ٹھوس اصولوں کے میزان پر بالاستیعاب اس کتاب کا جائزہ لے لے تو نہ جانے بات کہاں تک پہنچے گی اور حشر کیا ہوگا. مگر صاحب! سوال پھر بھی باقی رہتا ہے کہ پھر سعودی حکومت نے پاکستان میں منعقدہ اپنی کانفرنس میں سلفیہ کے استاذ مصنف کو اس کتاب پر 50 ہزار ریال کا ایوارڈ کیوں دیا؟ تو اس کا جواب میرے ذمہ نہیں ہے. اور اس کا جواب حالات سے واقف اہلِ نظر کے لئے مشکل بھی نہیں ہے.

Related Posts

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے