مشاہدات و تأثرات: سفر دارالعلوم دیوبند و دارالعلوم وقف دیوبند

مؤرخہ ۱۶؍ محرم الحرام ۱۴۴۲ھ مطابق ۵؍ ستمبر ۲۰۲۰ء بروز شنبہ

مرتب : عبد اللہ خالد قاسمی خیرآبادی
دفتر صحافت مظاہرعلوم سہارنپور

پورے ملک میں کووڈ19 کی وجہ سے مجموعی طور پر صورت حال بڑی ناگفتہ بہ ہے ، خاص طور سے مدارس اسلامیہ کا تعلیمی نظام بری طرح متأثر ہے ، تعلیم گاہیں بند ہیں ، مدارس اسلامیہ کا تعلیمی نظام ابتری کا شکار ہے ، سرکاری طور پر یہ اعلان ہے کہ مدارس اور دیگر تعلیم گاہیں مروجہ نظام تعلیم کے بجائے آن لائن تعلیم کا سلسلہ شروع کریں اور تعلیمی سرگرمیاں جاری کریں ، بہت سے سرکاری اور نیم سرکاری اداروں نے آن لائن تعلیم شروع بھی کردی ہے ، ان عصری تعلیم گاہوں کی دیکھا دیکھی بہت سے مدارس میں بھی اس کا چلن سننے میں آیا ، ایسے حالات میں جامعہ مظاہرعلوم سہارنپور کے ذمہ داران نے مناسب خیال کیا کہ آن لائن تعلیم کا طریقۂ کار کیا ہے ؟ اس کا مشاہدہ کیا جائے اور دیوبند جاکر دونوں دارالعلوم کے ذمہ داران تعلیم سے اس سلسلہ میں رجوع کیا جائے کہ وہ اس بابت کیا رائے رکھتے ہیں تاکہ اسی کی روشنی میں اربابِ مظاہرعلوم سہارنپور بھی سوچنا شروع کریں ۔
ابھی حال ہی میں شوشل میڈیا کے ذریعہ یہ بات مشتہر ہوئی کہ ۲؍ ستمبر ۲۰۲۰ء چہار شنبہ سے دارالعلوم وقف دیوبند میں آن لائن تعلیم کی شروعات ہوچکی ہے ، اس خبر کے بعد ذمہ داران مظاہرعلوم نے یہ فیصلہ کیا کہ وہاں موقع پر پہونچ کر اس کا مشاہدہ کیا جائے اور اس سلسلہ کی معلومات اکٹھاکی جائیں ۔
ذمہ داران کے مشورہ کے بعد ایک وفد مظاہرعلوم سہارنپور کے حضرات اساتذہ و دیگر کارکنان کا اس کام کے لئے مقرر ہوا کہ وہ اس سلسلہ کا سفر کرے اور معلومات جمع کرے ۔
چنانچہ جامعہ کے نائب مفتی مولانا مفتی سید محمد صالح کی سربراہی میں مولانا مفتی شعیب احمد بستوی معین مفتی مظاہرعلوم ، مولانا مفتی محمد اسجد استاذ ادب عربی ، مولانا عبداللہ خالد قاسمی خیرآبادی شعبۂ صحافت ، مولانا محمد اسعد حقانی شعبۂ رابطہ برائے مفاد عامہ اور قاری احمد ہاشمی استاذ شعبۂ قراءت پر مشتمل کل چھ افراد کا ایک وفد اس کام کے لئے متعین ہوا اور دیوبند روانہ ہوا ۔
دارالعلوم وقف دیوبند میں
اس نظام کی اطلاع پہلے سے دارالعلوم وقف کے ذمہ دار مولانا شکیب قاسمی کو کردی گئی تھی اس لئے سب سے پہلی منزل وہی تھی ، ان سے مقررہ وقت پر ملاقات ہوئی ، بندہ عبداللہ خالد نے ان سے مرتب گفتگو کے لئے پہلے سے ایک سوال نامہ مرتب کر رکھا تھا چنانچہ اسی کی روشنی میں مولانا مفتی سید محمد صالح صاحب نے گفتگو کا آغاز کیا ،
سوال نمبر (۱) مدارس میں جاری نظام تعلیم سے الگ آن لائن تعلیم کی ضرورت کیوں پیش آئی اور اس کا مقصد کیا ہے ؟
مولانا شکیب کا جواب : مدارس میں تعلیمی نظام بند ہونے کے بعد تمام طلبہ اپنی علمی و تعلیمی سرگرمیوں سے ایک طرح سے بالکل الگ ہوچکے تھے ، ان کو تعلیمی مشغولیات میں مصروف رکھنے کے لئے آن لائن تعلیم کا یہ نظام تشکیل دیا گیا ہے ۔ آئندہ جب مروجہ تعلیمی نظام کے اجراء کی واضح صورت حال اور اعلان حکومت کی جانب سے آئے تو طلبہ کا یہ تعلیمی سال ضائع نہ ہو یہ بھی ہمارے پیش نظر ہے ۔
سوال نمبر (۲) آن لائن تعلیم کے لئے کن درجات تعلیم کا انتخاب کیا گیا ہے ؟
مولانا شکیب کا جواب : اعدادیہ اور تخصصات کے درجات کے علاوہ سبھی جماعتوں کو آن لائن درس مہیا کیا جاتا ہے ۔
سوال نمبر (۳) کیا سبھی اساتذہ آن لائن تعلیم دینے پر مامور ہیں ؟
مولانا شکیب کا جواب : تقریباً سبھی اساتذہ من جانب ادارہ اس کام کے لئے مامور ہیں ۔
سوال نمبر (۴) آن لائن تعلیم کا طریقہ کیا ہے ؟
مولانا شکیب کا جواب : جس کتاب کا جو سبق جس استاذ سے متعلق ہے وہ اس کی مکمل تقریر اپنے طور پر آڈیو ریکارڈ کردیتا ہے ، ادارہ کی جانب سے ایک مقررہ شخص اس کو وصول کرلیتا ہے اور اس استاذ اور کتاب کی صراحت کے ساتھ اسے ادارہ کی ویب سائٹ پر ۲۴؍گھنٹے کے لئے اپلوڈ کردیتا ہے ، ادارہ کی ویب سائٹ پر جاکر طالب علم اس تقریر کو سن لیتا ہے اور اس کا سبق مکمل ہوجاتا ہے ، اگر کسی طالب علم کو استاذ کی تقریر سننے کے بعد کسی طرح کا کوئی سوال کرنا ہے تو اس جماعت اور کتاب کے نام سے من جانب ادارہ واٹس ایپ گروپ بنا ہوا ہے اس واٹس ایپ پر وہ اپنا سوال ڈال دیتا ہے ، متعلقہ استاذ حسبِ سہولت اسے دیکھ یا سن لیتا ہے اور اگلے سبق میں اس پر گفتگو کرلیتا ہے ۔
سوال نمبر (۵) درس نظامی میں بہت سی کتابیں (قواعد وغیرہ کی) ایسی ہیں جن کو حفظ یاد کرکے استاذ کو سنانا لازمی ہوتا ہے بغیر اس کے اس کتاب کی نافعیت ہی نہیں رہ جاتی ، اس سلسلہ میں کیا طریقہ اپنایا جاتا ہے ؟
مولانا شکیب کا جواب : اس سلسلہ میں ابھی کوئی مستقل نظام نہیں بن سکا ہے ۔
سوال نمبر (۶) طلبہ دور دراز اپنے گھروں میں ہیں اور ظاہر سی بات ہے کہ سب کے پاس تدریس کی کتابیں نہیں ہوں گی ، اور کتابوں کے بغیر درس ایک بے معنی سی بات ہے ، اس کے لئے کیا صورت اختیار کی جاتی ہے ؟
مولانا شکیب کا جواب : درس نظامی کی تمام کتابیں اس وقت نیٹ پر موجود ہیں ، ادارہ کی جانب سے طلبہ کو یہ ہدایت ہے کہ طلبہ نیٹ سے وہ کتابیں حاصل کرلیں ، طلبہ کی سہولت کے لئے درس نظامی کی تمام کتب جماعت وار ادارہ نے اپنی ویب سائٹ پر بھی ڈال رکھی ہیں ۔
سوال نمبر (۷) طلبہ کی حاضری و غیر حاضری کے لئے کیا طریقہ اختیار کیا جاتا ہے ، کیونکہ اس کے بغیر تعلیمی نظام مستحکم اور پائیدار ہی نہیں رہ سکتا ؟
مولانا شکیب کا جواب : اس سلسلہ میں ادارہ ابھی تک کوئی لائحۂ عمل نہیں تیار کرسکا ہے ، اس وقت صورت حال یہ ہے کہ مثلاً ایک جماعت میں ادارہ کے ریکارڈ کے مطابق بیس طلبہ ہیں ، ان کے لئے جو درس ویب سائٹ پر جاری کیا گیا ہے اس کو سننے والے دو سو سے بھی زائد ہیں ۔
سوال نمبر (۸) تعلیمی نظام مروجہ طریقہ پر بحال ہونے کی صورت میں ادارہ کی کیا پالیسی ہوگی ؟
مولانا شکیب کا جواب : تعلیمی نظام مروجہ طریقہ پر بحال ہوتے ہی تمام طلبہ کو ادارہ میں بلاکر سابقہ مروجہ طریقہ پر تعلیم شروع کردی جائے گی اور آن لائن جتنا درس ان کو دیا جاچکا ہے اس سے آگے سے اسباق ہوں گے ۔
سوال نمبر (۹) خدا نخواستہ اگر پورے سال تعلیمی صورت حال بحال نہ ہوئی اور موجودہ ہی صورت حال بنی رہی تو آن لائن درس حاصل کرنے والے طلبہ کو آگے ترقی کس بنیاد پر دی جائےگی ؟
مولانا شکیب کا جواب : ایسی صورت میں ادارہ آن لائن ہی ان کے امتحان کا نظم کرے گا اور اس امتحان میں حاصل شدہ نمبرات کی بنیاد پر ترقی و تنزلی کا فیصلہ کیا جائے گا ۔
إإإإإإإإإإإإإ
آن لائن تعلیم کے علاوہ بھی مفتی صالح صاحب اور وفد کے دیگر حضرات نے نظام مدرسہ کے تعلق سے کچھ گفتگو کی جس کا خلاصہ نمبر وار درج ہے ۔
۱ – دارالعلوم وقف دیوبند کا جملہ عملہ بشمول اساتذہ ، مدرسہ میں حاضری کے لئے مامور ہیں ، تعلیمی سرگرمیاں عملاً چونکہ موقوف ہیں اس لئے اساتذہ کو مختلف علمی کاموں میں مشغول کردیا گیا ، مثلاً دس کے قریب اساتذہ کرام ترتیبِ فتاویٰ کے کام پر مامور ہیں ، کچھ اساتذہ حجۃ الاسلام اکیڈمی کے تصنیفی و تالیفی کام میں مشغول کردیئے گئے ہیں وغیرہ وغیرہ اور پورے عملہ کو ماہ بماہ پورا مشاہرہ ادا کیا جاتا ہے ۔
۲ – ادارہ کی جانب سے تقریباً پینتیس سفراء ملک کے مختلف علاقوں کے لئے مقرر ہیں ، گذشتہ ماہ ۲۶؍ اگست ۲۰۲۰ء کو ان تمام سفراء کو حکماً ادارہ میں پہونچنے کو کہا گیا اور سب آئے ، ان سبھی سفراء کو ان کے ان کے علاقوں میں فراہمی مالیات کے لئے بھیج دیا گیا ہے اور اس وقت وہ سبھی سفراء بر سرِ کار ہیں ، کچھ شہروں میں سفراء کی رہائش کا مسئلہ تھا اس کو ادارہ نے اپنے متعلقین سے رابطہ کرکے حل کرلیا ہے ۔
۳ –  ہفتہ کے تمام ایام جمعہ سمیت تمام عملہ کی حاضری صبح ساڑھے سات بجے سے ڈیڑھ بجےتک (چھ گھنٹے)  ضروری ہے ، چھٹی صرف لاک ڈاؤن والے دن رہتی ہے ۔
دارالعلوم دیوبند میں
دارالعلوم وقف دیوبند کے بعد وفد کے سربراہ مفتی سید محمد صالح صاحب کی رائے ہوئی کہ دارالعلوم کے ذمہ داران سے بھی ملاقات کی جائے اور یہ معلوم کیا جائے کہ آئندہ تعلیمی نظام کے بارے میں وہ لوگ کیا سوچ رہے ہیں اور کیا لائحۂ عمل بنارہے ہیں ، چنانچہ میں نے مناسب سمجھا کہ پہلے مہتمم دارالعلوم دیوبند مفتی ابوالقاسم نعمانی مدظلہ سے فون پر رابطہ کرکے وقت لے لیا جائے ، میں نے فون کیا ، مہتمم صاحب کو مظاہرعلوم سے آنے والے اس وفد کے بارے میں اور آنے کی غرض کے بارے میں بتایا تو انھوں نے فرمایا کہ میں اس وقت علیل ہوں اور دفتر اہتمام بھی بیماری کی وجہ سے نہیں جاسکا ، بات چیت کرنے میں بھی اس وقت تکلیف ہورہی ہے ۔
مفتی صالح صاحب نے دارالعلوم دیوبند کے ناظم تعلیمات مولانا خورشید انور گیاوی سے رابطہ کیا اور انھوں نے ایک گھنٹے کے بعد ملاقات کا وقت دیا ۔
مناسب سمجھا گیا کہ اس ایک گھنٹے کو کام میں لایا جائے ، چنانچہ شعبۂ انٹرنیٹ کے ذمہ دار مولانا محمد اللہ قاسمی سے ملاقات کا پروگرام بن گیا اور ہم لوگ وہاں پہونچے ان سے آنے کی غرض بتائی تو انھوں نے بتایا کہ اس وقت دفتر اہتمام میں حصنِ حصین کا ختم ہورہا ہے اور کچھ دنوں سے مستقل یہ معمول ہے کہ روزانہ تقریباً سبھی اساتذہ دفتر اہتمام میں جمع ہوجاتے ہیں ، حصنِ حصین کا ختم ہوتا ہے ، دعا ہوتی ہے ۔
مولانا محمد اللہ صاحب سے ویب سائٹ اور آن لائن چندہ کے تعلق سے بڑی مفید اور معلوماتی گفتگو ہوئی ، ایک گھنٹہ گذرنے کے بعد ہم لوگ دفتر اہتمام میں پہونچے ، دعا ہوچکی تھی ، کچھ اساتذہ جاچکے تھے ، نائب مہتمم مولانا عبدالخالق مدراسی ، نائب مہتمم مولانا عبدالخالق سنبھلی ، حضرت مولانا نعمت اللہ صاحب اعظمی ، مولانا مفتی محمد امین پالنپوری ، مفتی محمد راشد اعظمی ، مولانا سلمان بجنوری ، مولانا افضل حسین کیموری موجود تھے ، مولانا مفتی راشد اعظمی نے ہم سب لوگوں کا تعارف موجود اساتذہ کرام سے کرایا ، پھر مفتی محمد صالح صاحب نے مولانا مدراسی سے گفتگو شروع کی ، مفتی صاحب نے بتایا حضرت والد صاحب مدظلہ کے حکم سے یہ وفد حاضرخدمت ہے ، ہمارے اس سفر کا مقصد یہ ہے کہ ہم یہ معلوم کریں کہ ذمہ دارانِ دارالعلوم دیوبند مدارس میں آئندہ تعلیمی نظام کے بارے میں کیا سوچ رہے ہیں اور کیا طریقہ اپنانے جارہے ہیں ، اس پر مولانا مدراسی صاحب نے کہا کہ ہم لوگ تو کچھ سوچتے نہیں ، سوچنا اور لائحۂ عمل تیار کرنا تو شوریٰ کا کام ہے ، ویسے اس سلسلہ میں حضرت مہتمم صاحب سے آپ حضرات کو زیادہ معلومات مل سکتی ہیں کیونکہ وہ ارباب شوریٰ سے مسلسل رابطہ میں رہتے ہیں ۔
مفتی صالح صاحب نے کہا کہ اس وقت آن لائن تعلیم کے بارے میں بھی مختلف مدارس سے خبریں آرہی ہیں اس سلسلہ میں دارالعلوم دیوبند کی کیا پالیسی ہے ، مولانا مدراسی نے فوراً کہا کہ آن لائن تعلیم شروع کرنا ہماری مجبوری نہیں اس پر بندہ عبداللہ خالد نے کہا کہ حضرت ! جو لوگ آن لائن تعلیم شروع کررہے ہیں ان کی کیا مجبوری ہے؟ اس پر مولانا مدراسی صاحب نے کوئی واضح جواب نہیں دیا اور مولانا نعمت اللہ اعظمی صاحب کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ حضرت سے بھی کچھ معلوم کرلیں ، مولانا نعمت اللہ اعظمی صاحب کی گفتگو کا حاصل یہ رہا کہ آن لائن تعلیم کا نظام ہمارے مدارس کے مقاصدِ تعلیم سے مطابقت نہیں رکھتا ۔
بندہ نے سفراء کے تعلق سے مولانا مدراسی سے معلوم کیا کہ کیا سارے سفراء اس وقت برسرِ کار ہیں تو مولانا مدراسی نے کہا کہ جی! اس وقت تقریباً سبھی سفراء کام پر گئے ہوئے ہیں دو تین ایسے ہیں جن کے علاقے کے لوگوں نے ابھی منع کر رکھا ہے اور وہ ابھی کام پر نہیں گئے ہیں ۔
اساتذہ کی حاضری کے تعلق سے معلومات چاہی گئی تو مدراسی صاحب نے بتایا کہ اساتذہ حاضری کے لئے مامور نہیں ہیں ، البتہ حصنِ حصین کے ختم اور دعا میں تقریباً سبھی اساتذہ روزانہ دفتر اہتمام میں مقررہ وقت پر تشریف لاتے ہیں ۔
معلوم کرنے پر ہمیں بتایا گیا کہ دارالعلوم دیوبند کا پورا عملہ اساتذہ کے علاوہ حاضری کے لئے مامور ہے اور اساتذہ سمیت پورے عملہ کو ماہ بماہ پوری تنخواہیں ادا کی جارہی ہیں ۔
دفتر تعلیمات میں
دفتر اہتمام سے پھر دفتر تعلیمات میں مولانا خورشید انور گیاوی سے ملاقات طے تھی اس لئے وہاں جانا ہوا ، مولانا خورشید انور گیاوی کے علاوہ سابق ناظم تعلیمات مولانا افضل کیموری بھی موجود تھے ، موجودہ ناظم تعلیمات مولانا خورشید انور گیاوی سے گفتگو کا حاصل نمبر وار پیش ہے :
۱ – جیسے ہی حکومت کی طرف سے مدارس کے کھلنے کا اعلان آئے گا ، دارالعلوم فوراً تعلیمی نظام شروع کردے گا ۔
۲ – قدیم طلبہ کے داخلوں کی کارروائی میں وقت صرف نہ ہو اس لئے قدیم سارے طلبہ کے فارموں کی تکمیل کرکے رکھ لی گئی ، طالب علم جب آئے تو اسے صرف دستخط کرکے کتب خانہ سے کتاب حاصل کرکے تعلیم شروع کرنی ہوگی ۔
۳ – مہینہ دو مہینہ کے بعد بھی اگر مدارس کے کھلنے کا اعلان آتا ہے تب بھی تعلیمی نظام شروع کرکے رمضان تک تعلیمی سلسلہ چلے گا اور شوال میں امتحانات ہوں گے ۔
۴ – سالانہ امتحانات نہ ہونے کی وجہ سے چونکہ ششماہی کے نمبرات کو معیار بنایا گیا ہے اس لئے آئندہ تخصصات کے شعبوں میں ششماہی کے نمبرات کی بنیاد ہی پر داخل کیا جائے گا ۔
۵ – ششماہی امتحان میں دورۂ حدیث شریف کی چونکہ صرف چار کتابوں کا امتحان ہوتا ہے ، اور اجرائے سند کے وقت مطبوعہ سند پر دس کتابوں کے نمبرات کا درج ہونا ضروری ہوتا ہے ، اس سلسلہ میں دارالعلوم دیوبند نے یہ ضابطہ بنایا ہے کہ جن طلبہ کو سند درکار ہے وہ ضمنی تقریری امتحان دے کر اپنی سند حاصل کرلیں ، البتہ ضمنی امتحان کے بعد تخصصات کے کسی شعبہ میں داخلہ ممکن نہیں ہوگا ۔
یہ بھی طے کرنے کی کوشش کی جارہی ہے کہ اگلے سال شعبان میں جب سالانہ امتحانات ہوں تو اس موقع سے شوال ۱۴۴۰ھ تا شعبان ۱۴۴۱ھ کے دورہ کے طلبہ کو بھی اس امتحان میں شریک کیا جائے اور ان کے محصلہ نمبرات کو باضابطہ ریکارڈ میں درج کرکے اسی بنیاد پر عندالطلب سند جاری کی جائے ۔
دفتر دارالاقامہ میں
دفتر تعلیمات کے بعد دفتر دارالاقامہ وفد پہونچا اور ناظم دارالاقامہ مولانا منیر احمد صاحب سے ملاقات ہوئی ، دارالاقامہ کے اصول و ضوابط کی مطبوعہ کاپی حاصل کی گئی ، ناظم دارالاقامہ سے گفتگو کا حاصل نمبر وار :
۱ – کسی جرم کی بنیاد پر طالب علم کا اخراج دارالاقامہ کے اختیار میں ہوتا ہے ، نظماء حلقہ کی اجتماعی میٹنگ اور مشورہ کے بعد ناظم دارالاقامہ کی طرف سے بھیجی گئی تحریر پر دفتر اہتمام حکم جاری کرتا ہے ، ناظم دارالاقامہ کی تحریر کے بغیر کسی کا اخراج نہیں ہوتا ۔
۲ – اگر کوئی طالب علم اپنی سیٹ سے پندرہ روز مسلسل غیر حاضر ہوگا تو ناظم دارالاقامہ اس کی سیٹ منسوخ کرکے کسی کے نام جاری کرسکتا ہے ۔
۳ – مدرسہ کے جتنے دربان ہیں وہ سب ناظم دارالاقامہ کے ماتحت کام کرتے ہیں ان کے عزل و نصب کا اختیار ناظم دارالاقامہ کو ہوتا ہے ۔

۱۷؍ محرم ۱۴۴۲ھ مطابق ۴؍ ستمبر ۲۰۲۰ء

Related Posts

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے