مولانا معزالدین رحمہ اللہ جوار رحمت میں

اور دلی اجنبی ھوگئی ——–
( بھائی معزالدین رحمہ اللہ جوار رحمت میں )

وہ ھمارے بڑے بھائی ، فیملی ممبر اور گھر کے ایک فرد کی طرح تھے ، ھم نے شروع سے ان کو ایک وفا شعار مخلص بھائی سے بڑھکر شفقت کرتے ھوئے اور ایک سچے ھمدرد سے بڑھ کر معاملہ کرتے ھوئے پایا ، سکھ اور دکھ کی ھر گھڑی میں بھائی معزالدین ھمارے آس پاس ھوا کرتے تھے ، وہ ھر طرح کی راحت پہنچاکر خوش ھوتے تھے اور دکھ کو بانٹ لیا کرتے تھے .

سچ پوچھئے تو آج پہلی مرتبہ ھمیں دھلی میں اجنبیت اور اکیلے پن کا احساس ھورھا ھے ، ھم نے جب سے دھلی آنا شروع کیا بھائی معزالدین کا کمرہ ھماری قیام گاہ اور وھی ھمارے میزبان ھوا کرتے تھے ، دھلی میں جہاں بھی جانا ھوتا ڈی ٹی سی بسوں سے یا آٹو رکشا سے وہ ھمارے ساتھ ھوتے ، انہیں بس پتہ چل جائے کہ ھم دھلی آرھے ھیں سراپا انتظار ھوجایا کرتے تھے ، بار بار فون پر معلوم کرتے رہتے تھے کہ کہاں تک پہنچے ، نہ جانے کتنی مرتبہ ایسا ھوا ھوگا کہ وہ اپنے چھوٹے بھائی کو لینے اسٹیشن پہنچ گئے ، ان کا گھر اگرچہ یہاں نہیں تھا پھر بھی پر تکلف کھانوں سے ضیافت کا اھتمام کرتے جس کو وہ عام طور پر دسترخوان کریم وغیرہ سے منگایا کرتے تھے ، رات میں رکنا ھوتا تو صبح کو پرانی دھلی کے مشھور پکوان ” نہاری ” کا ناشتہ کرواتے ، جس ضرورت کے لئے آنا ھوتا اسے پورا کرنے میں بھرپور دلچسپی لیتے ، اگر کبھی دلی ایسے موقع پر آنا ھوتا کہ وہ یہاں موجود نہ ھوتے تو برابر رابطہ رکھتے اور کوشش کرتے کہ ان کی غیر موجودگی کا احساس نہ ھونے پائے ، یہی وجہ تھی کہ دھلی آتے ھوئے کچھ سوچنا نہیں پڑتا تھا غرض کہ ھر مرض کی دوا بھائی معزالدین تھے ۔
اللہ ان کو غریق رحمت کرے وہ ھمیں اپنے احسانات تلے دباکر اور دھلی کو ھمارے لئے اجنبی بناکر چھوڑ گئے ، عمر نے وفا کی تو دھلی تو شاید آئندہ بھی آنا ھوگا لیکن اب کوئی ان کی طرح انتظار کرنے والا اور دلی تعلق کا مظاھرہ کرنے والا شاید نہیں ملے گا ، اس بے لوث تعلق رکھنے والے شفیق بھائی کی غیر موجودگی کا احساس پتہ نہیں کب تک زخم بن کر ھرا رھے گا ۔

1981ء میں جب 18 / سال کی عمر میں انہوں نے دارالعلوم دیوبند کے درجہ پنجم عربی میں داخلہ لیا تو ھماری عمر بمشکل پانچ سال رھی ھوگی ، حضرت اقدس والد صاحب دامت برکاتہم کے پاس” مقامات حریری ” کا گھنٹہ تھا ، بھائی معزالدین کے والد محترم : حضرت مولانا عبد الحمید صاحب دامت برکاتہم چونکہ شیخ الاسلام حضرت مدنی نور اللہ مرقدہ کے گرویدہ اور ان کے خانوادہ سے والہانہ تعلق رکھنے والے ھیں اس لئے یہی جذبات بھائی معزالدین کی طرف منتقل ھوئے ، زمانہ طالب علمی ھی سے حضرت والد صاحب —- ادام اللہ ظلہ علینا —- سے ان کی اس درجہ قربت اور اتنی کثرت سے آنا جانا ھوگیا تھا کہ ھم نے شروع سے ھر موقعہ پر حضرت والد صاحب ، بھائی صاحب اور گھر والوں کا ان پر پورا اعتماد دیکھا ، یہی وجہ تھی کہ بے تکلفی کے ساتھ ھر طرح کی بات ان سے ھوجایا کرتی تھی ، وہ بہت اچھے مشیر تھے ، ھمیشہ ھمارے تابناک مستقبل کے لئے کوشاں اور خواھاں رھا کرتے تھے ، ھدایۃ النحو ھی سے انہوں نے عربی شروحات کا مطالعہ کرنے کی نہ صرف ترغیب دی اور تاکید کی بلکہ ھرسال امہات الکتب کی عربی شروحات اپنی دلچسپی سے انہوں نے ملک یا بیرون ملک سے مہیا کرائیں اور مطالعہ کی عادت ڈلوائی ، آج احساس ھوتا ھے کہ اگر ابتدائی سالوں میں وہ اس جانب عملی طور پر متوجہ نہ کرتے تو ھم اپنی سھل انگاری کی وجہ سے شاید ان کتابوں سے استفادہ نہ کرپاتے ۔

             ( جاری ---- )

محمد عفان منصور پوری
۲٤ / محرم الحرام ١٤٤٢
١٣ / ستمبر ٢٠٢٠ء

Related Posts

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے