وفات مولانا معزالدين احمد قاسمی (1961ء= 2020ء)

ايک روشن ستاره غروب هوگيا

عبید اللہ شمیم قاسمی

موت ایک فطری اور حقیقی عمل ہے اس سے كسی کو بھی مفر نہیں ہے۔ یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس سے کسی کو بھی انکار نہیں۔ جب بھی موت کے متعلق کسی سے دریافت کیاجاتا ہے تو تقریباً اس کا ایک ہی جواب ملتا ہے۔
موت سے کس کی رستگاری ہے
آج وہ، کل ہماری باری ہے

کسی بھی چیز میں پائیداری نہیں ہے۔ ہر وہ شئے جو وجود رکھتی ہے ﴿كُلُّ مَنْ عَلَيْهَا فَانٍ﴾ کے مطابق ایک روز ضرور فنا ہوجائے گی۔ باقی رہ جانے والی ذات تو صرف خدائے باری تعالی کی ہے۔ ﴿وَيَبْقَى وَجْهُ رَبِّكَ ذُو الْجَلَالِ وَالْإِكْرَامِ﴾ [الرحمن: 26، 27]
آغاز کسی شئے کا نہ انجام رہے گا
آخر وہی اللہ کا ایک نام رہے گا

اس زمین پر لاکھوں کروڑوں آئے اور اپنی وجود کی ہستی سے خیر باد کہہ گئے، آج ان میں سے بہت ساروں کا نام ونشاں تک باقی نہیں ہے۔ زمینِ چمن ہر روز نئے نئے لالہ زاروں سے گلزار ہوتی رہتی ہے اور پرانے پھول کھلے اور مرجھا کر خاک میں پنہاں ہوگئے۔

موت کے تصور سے اور خاص طور پر اُس وقت جب انسان کی کسی عزیز ہستی کو موت اُچک کر لے گئی ہو، قلب حساس پر تقدیر کی برتری اور تقدیر کے مقابلے میں انسان کی بے بسی و بے چارگی کا نقش اُبھرنا ایک قدرتی بات ہے۔
آج 13/ ستمبر بروز اتوار 11/ بجے دن ميں اچانک يہ جانكاه اطلاع ملی كہ جميعة علمائے ہند كے بے لوث خادم اور قيمتی سرمايہ اداره المباحث الفقهية اور امارت شرعيہ كے ناظم، اكابر كے معتمد حضرت مولانا معز الدين احمد قاسمی جنہيں مدظلہ العالی اور دامت بركاتهم كها اور لكھا كرتے تھے ،گذشتہ كئی روز سے ان كی بيماری كی مسلسل خبريں آرہی تھيں، اس دار فانی سے دار بقا كو كوچ كرگئے، إنا لله وإنا إليه راجعون، إِنَّ لِلَّهِ مَا أَخَذَ وَمَا أَعْطَى، وَكُلُّ شَيْءٍ عِنْدَهُ مُسَمًّى، فَلْتَحْتَسِبْ وَلْتَصْبِرْ۔

مولانا كا وطن اصلی گونڈه يوپی تھا، جہاں 1961ء ميں ايک دينی گھرانے ميں آپ كی پيدائش ہوئی، گھر ميں دينی ماحول تھا اس وجہ سے بزرگی كے آثار بچپن ہی سے ہويدا تھے، بزرگوں كا تذكره اور ان كی خدمات، ان كے مجاهدات وغيره كے تذكروں سے كان بچپن سے ہی مانوس تھے۔

ابتدائی تعليم اپنے علاقے سے حاصل كرنے كے بعد ازہر هند دارالعلوم ديوبند پہنچے اور 1985ء ميں فراغت ہوئی، دوران طالب علمی میں اساتذه كے محبوب نظر تھے، اور طلبہ ميں بھی مقبوليت تھی، اسی طرح دارالعلوم ديوبند كی مشہور انجمن مدنی دارالمطالعہ كے سرگرم ركن تھے، اور آپ دارالمطالعہ كی تمام سرگرميوں ميں شريک هوتے تھے۔ آپ دارالمطالعہ كو پروان چڑھانے ميں ہميشہ كوشاں رهے۔
فراغت كے بعد دارالعلوم ديوبند میں 1986ء میں ایک سال معين مدرس رہے، چونكہ آپ كا شمار دارالعوم كے ممتاز طلبہ ميں هوتا تھا اور آپ كی صلاحيتوں كے اساتذه بھی معترف رهے ہيں، انہيں خوبيوں كی بنا پر فدائے ملت حضرت مولانا سيد اسعد مدنی رحمة الله عليه نے آپ كو جمعيت ميں بلاليا ۔
آپ نے اپنی تمام تر صلاحيتوں كو جمعيت علماء هند كی خدمت كے ليے وقف كرديا تھا، آپ جمعيت علماء هند كی مجلس عاملہ كے بھی ركن تھے، اور اداره المباحث الفقهية كے روح رواں اور امارت شرعيہ كے ناظم تھے، جمعيت علماء كے تحت ہونے والے فقہی سيميناروں كو كامياب بنانے ميں آپ انتھک محنت كرتے، آپ كو اكابر كا اعتماد حاصل تھا۔
مولانا مرحوم تحقيقی ذوق ركھتے تھے، بالخصوص جمعيت علمائے هند كی تاريخ اور خدمات وكارنامے كے حوالے سے ان كا گہرا مطالعہ تھا، شايد اس حوالے سے وه منفرد تھے۔
اسی طرح ہر ماه پابندی سے چاند كی تحقيق كے ليے اعلان نكالتے خصوصا رمضان المبارک اور عيد كے چاند كی رويت كے سلسلے ميں مختلف جگہوں سے معلومات حاصل كرتے اور صحيح وقت پر اعلان كرتے جس كا لوگ بے صبری سے انتظار كرتے تھے۔

مولانا مرحوم كا شمار ان لوگوں ميں ہوتا تھا جو نہايت ہی مخلص تھے، ايک دوسرے كے ساتھ حسن سلوک، دوستی اور رفاقت ميں وه ضرب المثل تھے، مہمان نوازی اور دهلی كتابوں كی اشاعت كے سلسلے ميں ملک كے مختلف گوشوں سےآنے والے علماء كرام كو نہايت مفيد مشوروں سے نوازتے اور ان كی ہر ممكن مدد وتعاون كرتے، ان كی اسی خوبی كی بنا پر انہيں لوگ قدر ومنزلت كی نگاه سے ديكھتے تھے۔
آپ حقیقی معنوں میں بڑے نفیس اور شفیق انسان تھے۔ آپ سے جو بھی ملتا وہ آپ کا گرویدہ ہو جاتا۔ اس طرح آپ نے تقريبا 34/ سال جمعيت علماء ہند اور اس كے ذيلی اداره امارت شرعيہ ميں خدمت انجام ديتے ہوئے اس دار فانی سے رخصت ہوئے۔
راقم الحروف كی مولانا مرحوم سے ايک يا دو ملاقات هوئی ہوگی، كوئی تعارف بھی نہيں تھا، ليكن آپ كے چھوٹے بھائی مفتی اسعد الدين صاحب جو اس ناچيز سے دارالعلوم ديوبند ميں ايک سال آگے تھے، وه مدنی درالمطالعہ كے ناظم تھے تو ان سے تعلق كی بنا پر مولانا كا ذكر خير بار بار سننے كو ملتا تھا جس سے مولانا كی قدر ومنزلت دل ميں بيٹھ گئی تھی۔
مولانا اپنے اساتذه كی كتنی خدمت كرتے تھے اور ان سے کتنا لگاؤ تھا اس كا اندازه اس واقعہ سے لگايا جاسكتا ہے كہ جب دارالعلوم ديوبند كے سابق شيخ الحديث حضرت مولانا عبد الحق صاحب اعظمی نور الله مرقده كا انتقال ہوا تو ہم لوگ اعظم گڑھ ميں تھے، 30/ دسمبر 2016ء كہرا اور سردی شباب پر تھی، ايسے ميں مغرب كے بعد جب وفات كی خبر آئی تو پوری رات اعظم گڑھ سے سفر كرنے كے بعد اگلے روز 3 / بجے كے قريب جب ہم لوگ مظفر نگر پهنچے تو مولانا اپنے رفقاء كے ساتھ وہاں پہلے سے موجود تھے اور ساتھ ميں ناشتہ اور پھل وغيره وافر مقدار ميں هم لوگوں كو پيش كيا اور آگے راستہ خراب هونے كی وجہ سے رہنمائی كرتے ہوئے ديوبند تک ساتھ گئے، اس واقعہ سے ان كی حسن تدبير اور معاملہ فهمی اور انتظامی امور ميں صلاحيت كا اندازه لگايا جاسكتا ہے۔
مولانا نے تقريبا 59/ سال كی عمر پائی اور بہت سی خدمات انجام دیں، الله تعالى ان كى خدمات كو قبول فرمائے، اور ان كے كاموں كو اسى طرح جارى وسارى ركھے۔
نے مجال شکوہ ہے، نے طاقتِ گفتار ہے
زندگانی کیا ہے، اک طوقِ گلو افشار ہے

الله تعالی مولانا مرحوم كى مغفرت فرمائے، درجات بلند فرمائے، جنت الفردوس ان كا مسكن بنائے، ان كے ضعيف والدين، اہلیہ، برادران اور ديگر اعزه واقارب كو صبر جميل كی توفيق عطا فرمائے۔

Related Posts

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے