تعزیتی خط بر انتقال مولانا معز الدین قاسمی

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔تعزیتی خط۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
منجانب: مفتی شبیر احمد قاسمی
بہت ہی گہرے صدمے کی خبر ہے کہ حضرت مولانا معزالدین احمد صاحب ناظم امارت شرعیہ جمعیت علمائے ہند کا آج بتاریخ 24 محرم الحرام 13 دسمبر بروز اتوارکو وفات کا درد ناک سانحہ پیش آیا ۔
اناللہ وانا الیہ راجعون۔
مولانا مرحوم جمعیت علمائے ہند کی مجلس عاملہ کے ایک موقر اور معتمدرکن تھے اور امارت شرعیہ کے ناظم اور ادارۃ المباحث الفقہیہ کے اہم ترین ذمہ دار تھے۔
مباحث فقہیہ کی طرف سے جتنے فقہی اجتماعات ہوے ہیں وہ سب انھیں کے زیرنگیں عمل میں آئے۔
اور غالبا 1406ھ میں دارالعلوم دیوبند سے ان کی فراغت ہوئی،اس کے بعد متصلا دو سال تک دارالعلوم دیوبند میں معین المدرس کی حیثیت سےتدریسی خدمات انجام دیں۔
پھر اس کے بعد سے غالبا 1409ھ سے امارت شرعیہ جمعیت علمائے ہند کے ناظم کی حیثیت سے لگ بھگ تینتیس یا چونتیس سال کا طویل عرصہ جمعیت علمائے ہند کے ایک ذمہ دار کی حیثیت سے کام کرتے رہے۔
ملک کے طول و عرض میں ان کی خاص پہچان ہے۔
وہ ایک زیرک اور صاحب الرائے شخصیت تھے، مباحث فقہیہ کے اجتماعات کی مجلسوں میں مقالہ نگار اور مضمون نگار علماء و فقہاء کے درمیان ان کی رائے خاص اہمیت کے ساتھ وزن رکھتی تھی، وہ ایک اہم ترین مرکزی اور قیمتی شخصیت کے حامل ہونے کے ساتھ ساتھ علمی دنیا میں بھی ایک قد آور شخصیت کے حامل تھے۔
ان کے یہاں کتب حدیث کتب فقہ کتب سیرت و کتب تاریخ کے بڑے بڑے ذخیرے موجود تھے،نیز مسلک کی کتابوں کے علاوہ دیگر مسلکوں کی اہم کتابوں کا ذخیرہ بھی ان کے پاس موجود تھا اور بہت سی دفعہ ایسا ہوا کہ احقرنے ان کی لائبریری میں ایسی ایسی کتابیں بھی دیکھیں جن کا اس سے پہلے نام بھی نہیں سنا تھا،جب کہ وہ ہمارے دیکھنے سے پہلے ان کتابوں کا مطالعہ بھی بالاستیعاب کر چکے ہوتے تھے۔
جیسے ان کے پاس نایاب کتابوں کا ذخیرہ تھا اسی طرح وہ خود ایک علمی اعتبار سے وسیع ترین معلومات رکھنے والا شخص تھا، اسی وجہ سے بہت سے اہل علم کتابوں کے بارے میں ان سے خصوصی مشورہ لیا کرتے تھے۔
ہم تو ان کے سامنے ایک ادنیٰ طالب علم کے درجے میں تھے حتی کہ دارالعلوم دیوبند کے اہم اہم اساتذہ بھی علمی کتابوں کے بارے میں ان سے مشورہ لیا کرتے تھے۔
وہ حق گوئی میں ایک بے باک شخصیت تھے اور اپنی رائے پر مضبوطی سے قائم رہنے والے شخص تھے۔
ھندوستان کی تاریخ اور جمعیت علماء ھند کی سلسلہ وار تاریخ سے متعلق ان سے زیادہ معلوماتی شخصیت جمعیت علماء ھند کو فی الحال دستیاب نہیں ہے۔
ان کے والد ایک خوش نصیب عالم دین ہیں اللہ ان کا سایہ خیر و صلاح کے ساتھ دراز فرمائے۔
اللہ نے ان کو غالباًچھ نرینہ اولاد عطا فرمائی تھیں۔
1 مولانا معز الدین احمد رحمۃ اللہ علیہ 2 مولانا مفتی وحید الدین 3 مولانا مفتی قطب الدین 4 مولانا مفتی سعد الدین 5 مولانا مفتی اسجد صاحب یہ سب کے سب حافظ بھی ہیں اور جید عالم اور مفتی بھی ہیں اور یہ سب ملک کے اہم اور معتبر مدارس میں بہت ہی قبولیت کے ساتھ تدریسی خدمات انجام دیتے ہیں۔
اور ایک چھٹا صاحبزادہ دارالعلوم دیوبند میں متوسطات پڑھنے کے زمانے میں کسی حادثہ میں شہید ہو گیا آج مولانا مرحوم نے زندگی کا ایک لمبا عرصہ نیک نامی کے ساتھ گزارنے کے بعد ہفتہ دس دن شدید بیماری کے شکار ہونے کے ساتھ ہم سب سے داغ فراق اختیار فرما لیا ہے۔
خاص طور پر احقر کے لیے بہت بڑا صدمہ اور حادثے کا وقت ہے کہ ایک اہم ترین مدبر اور صاحب علم دوست ہاتھ سے نکل گیا۔
ان کے پسماندگان میں والدین اور ان کی اہلیہ اور ان کی ایک بیٹی اور ایک بیٹا ابوبکر جوابھی کم عمر اور درجہ حفظ پڑھ رہا ہے۔
اللہ تعالی مولانا کی عمر بھر کی خدمات کو شرف قبولیت عطا فرمائےاور ذریعہ نجات بنائے،اور مولانا کی بال بال مغفرت فرمائے اور اعلی علیین میں مقام عطا فرمائے۔
احقر مولانا کےوالدین،ان کی اہلیہ، بچوں، ان کے سارے بھائیوں،تمام دوست و احباب اور جمیعت علماء ہند کے ذمہ داران کی خدمت میں انھیں جملوں کے ساتھ تعزیت پیش کرتا ہے۔
شبیر احمد قاسمی
خادم جامعہ قاسمیہ مدرسہ شاہی مرادآباد الہند بتاریخ24 محرم الحرام 1442ھ 13ستمبر 2020ء

Related Posts

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے