محمد طاہر ندوی
کسی بھی نظام اور شعبہ میں آن لائن خدمات کسی حد تک مفید ہین ، خاص طور پر آفیشیل ورک، سوشل ورک ، پیغام رسانی ۔۔۔۔۔مین آن لائن انتہائی مفید ہے ، آن لائن تعلیم کی افادیت سے بھی بالکلیہ انکار نہین کیا جاسکتا، دور دراز کے علم کے شیدائی جو ذاتی ضروتوں کی وجہ سے کہیں جاکر تعلیم حصل نہیں کرسکتے آن لائن ان کے لیے بہتر متبادل ہے ، لیکن ان لائن تعلیم روبرو روایتی تعلیم کا متبادل نہین ہوسکتی ، یہ طریقہ تعلیم اجتمای تعلیمی نظم میں زیادہ موثر نہین ہے ، کسی حد تک سائنس ، جغرافیہ، میتھ۔۔۔جیسے مضامین میں جن کا تعلق انسان کی ذاتی تربیت سے نہیں ہے موثر بھی مان لیا جائے تب بھی یہ ان بچون کے لیے مفید ہےجو تعلیم کے لیے فکر مند ہیں ایسے بچوں کی تعداد بمشکل 10 فی صد ہی ہوگی ۔ تعلیم وتربیت کے لیے استاذ شاگرد کا رو برو ہونا ضروری ہے چند فی صد ایسے بچے ہوسکتے ہین جن کے لیے یہ طریقہ کار مفید ہو لیکن عمومی طور پر اکثر بچوں کو آن لائن امادہ نہین کیا جا سکتا ۔
تعلیم وتربیت کے لیے ایسا نظام ضروری ہے جو بالمشافہ ہو، جس مین استاذ شاگرد آمنے سامنے ہوں باہم رابطہ ہو، تعلیمی تربیتی ماحول ہو ،نظام کا پریشر ہو ، نظام ہی ڈسپلن اور کنٹرول قائم کرسکتا ہے ۔ بچے مختلف نفسیات ، مختلف ذوق ، مختلف رجحانات کے ہوتے ہیں ان کو ایک ایسا نظام ہی کنٹرول کرسکتا ہے جس میں بالمشافہ تعلیم ہو، انسان انسان ہے انسان نام ہے عقل و شعور، جذبات، احساسات کا انسان روبوٹ نہیں ہے تیکنالوجی کی دنیا میں ہو سکتا ہے انسانوں کی دنیا میں نہین ، کیا کوئی اس بات کو تسلیم کرسکتا ہے کہ احساسات، جذبات، کے تبادلہ مین آن لائن اظہار موثر اور کافی ہے؟ تعلیم کے ساتھ تربیت لازمی ہے ، کیا میڈیکل ، پولس ، فوجی ٹریننگ ۔۔۔۔آن لائن کا تصور ممکن ہے ؟
بچے باہم ماحول میں بہت کچھ سیکھتے ہین شعوری طور پر اور غیر شعوری طور پر بھی، جس سے ان کی شخصیت کی نشوونما -ڈولپ – ہوتی ہے ، اسی لیے ماہرین اس طرف خصوصی توجہ دیتے ہین کہ تعلیمی ثقافتی تربیت کے لیے ماحول کی شفافیت ضروری ہے ، آن لائن یہ ممکن نہیں ہے۔
بچے اچھے ماحول میں اپنے بڑوں سے ، ساتھیون سے زبان تہذیب طور طریق ، نظم و ضبط سلیقہ ، اداب ۔۔۔سیکھتے ہیں ایک دوسرے سے متاثر ہوتے ہیں ایک دوسرے کو سمجھنے کی طاقت پیدا ہوتی ہے، عام طور پر دیکھنے میں اتا ہے وہ بچے جو ہوسٹل میں رہتے ہین ان کی شخصیت زیادہ مستحکم ہوتی ہے ۔ انسان کی فطرت ہے وہ کردار سے متاثر ہوتا ہے یہ اسی وقت ممکن ہے جب اچھا ماحول ہو ، باہم انسان روبرو ہو ۔
ان لائن کے لیے اسمارٹ فون یا کمپیوٹر ضروری ہے ظاہر ہے اس کی فراہمی صرف سرمایہ دار ہی کرسکتا ہے عام ادمی نہین ۔
کئی مقامات پر انٹرنیٹ کی سہولت نہیں ہے جس کی وجہ سے ان لائن ہونا مشکل ہے ۔
بیشتر ماں باپ دلچسپی نہیں رکھتے یا صلاحیت نہیں رکھتے یا ان کے اندر کنٹرول کی صلاحیت نہیں ہوتی یا ان کے پاس وقت نہیں ہوتا کہ گھر پر وہ بچوں کی نگرانی کرسکیں۔
مدارس میں ان لائن تعلیم کچھ زیادہ مشکل اور زیادہ غیر موثر ہے اسکول کالج مین سرٹیفکٹ کا چسکہ ہوتا ہے ، اس لیے بچے امادہ ہو سکتے ہین ، مدرسہ مین کوئی دلچپی نہیں ہوسکتی ، چند ہی سرپرست جو دینی مزاج رکھتے ہین اپنے بچوں کو اس کے لیے امادہ ہوسکتے ہین۔
عام طور پر اسکول تجارت کی منڈی ہین اس لیے ان لائن تعلیم سے بچوں کے استحصال میں اضافہ ہوگا۔
آن لائن تعلیم بچے پر جسمانی طور پر اثر انداز ہوگی ۔ بچون کا باہم کھیل کود، تفریح ، گھر اسکول امدورفت نہ ہونے سے صحت ابنارمل ہوگی۔
موبائل یا کمپیوٹر کی اسکرین پر مستقل نگاہ کے فوکس سے بچون کی بینائی متاثرہوگی ۔
بچے آن لائن رہینگے تعیلم سے زیادہ وہ شب وروز ان سائٹس پر رہینگے جن سے ان کی تعلیم اور کردار متاثر ہونا اور جسمانی، ذہنی، نفسیاتی طور پر ابنارمل ہونا لازمی ہے، عام مشاہدہ ہے آن لائن رہنے سے بچوں کی زندگی آف لائن ہورہی ہے اچھا رویہ باہم عزت و احترام ، اداب زندگی بچون کی زندگیون سے غائب ہو رہے ہیں اپنوں کے جذبات احساسات۔۔ کا کوئی خیال نہیں، والدین اور اپنے قریب ترین محسنوں کے پاکیزہ ، بے لوث رشتوں کو تاتار ہوتے کون نہیں دیکھ رہا ہے۔
ابتدائی تعلیم آن لائن غیر موثر ہے لازما بچوں کی تعلیم و تربیت کے لیے معلم کا روبرو ہونا ضروری ہے اور اس کا متبادل آن لائن تعلیم نہین ہے ۔