مفتی خلیل الرحمن قاسمی برنی 9611021347
حضرت مولانایعقوب صاحب مدراسی قدس سرہٗ یادگارِ اسلاف اورامت کے ان صلحاء کا عکس جمیل تھے جو امت کے لئے نشانِ راہ اورمنارہئ نور تھے۔آپ اکابر دیوبند کے پاکیزہ سلسلے کی ایک خوبصورت اورزریں کڑی تھے۔تقویٰ و طہارت میں ممتاز اورعلم و عمل میں یکتا تھے۔قدرت نے بے شمار اورمتنوع خوبیوں سے نوازاتھا۔آپ کی دینی خدمات کا سلسلہ ایک طویل عرصے کو محیط ہے۔جس میں آپ کا داعیانہ کردار،معلمانہ شناخت اورمنہج صحیح کی اشاعت کا سلسلہ ایک واضح عنوان کی حیثیت اختیار کئے ہوئے تھا .آپ اکابر دیوبند کی پاکیزہ روایات کے امین اورصحیح قدروں کے محافظ تھے۔پوری زندگی دردآمیز مجاہدات،دعوت و تبلیغ کی محنت،میراث ِ رسول کی اشاعت اورقوم و ملت کی ٹھوس خدمت میں مشغول رہے۔طریقہ سلجھاہوا،رہن سہن سادہ اورکردار بہت اجلا و صاف تھا۔خلوص و للٰہیت اورزہد و استغناء اپنے اکابر سے ورثہ میں پایاتھا۔
ہندوستان کی مشہور صنعتی بستی ”میل و شارم“ضلع ویلور تمل ناڈو میں رجب /1353ھ مطابق 21نومبر /1934ء میں آپ کی ولادت ہوئی۔ ابتدائی تعلیم وطن ہی میں ”اسلامیہ ہائی اسکول“ میں گیارہویں جماعت تک حاصل کی۔اس کے نتیجہ میں آپ اردو اورانگریزی دونوں زبانوں پر قابو یافتہ ہوگئے تھے۔اسکول کے زمانے میں کئی فارسی و عربی کی کتابیں بھی حضرت مولاناابوسعود صاحبؒ اورحضرت مولانانیر صاحبؒ وشارمی سے پڑھیں۔یہ وہ ہستی ہیں جنہوں نے سب سے پہلے اپنے اس ہونہارشاگرد کے سامنے اکابر دیوبند کے حالات و واقعات سناکر اس تلمیذ رشید کو دیوبندکا گرویدہ بنایا۔اسکول کی تعلیم سے فراغت کے بعد جامعہ ”باقیات صالحات“میں چار سال درس نظامی کی تعلیم حاصل کی،پھر اعلیٰ تعلیم کے لئے ازہر ہند دارالعلوم دیوبند کے لئے رخت ِ سفر باندھا اوردارالعلوم دیوبند میں باقاعدہ داخلہ لے کر تقریباً پانچ سال تک وہاں کے چشمہئ فیض صافی سے خوب خوب سیراب ہوئے۔دورانِ تعلیم آپ کا شمار محنتی طلباء میں تھا۔مکمل توجہ،انہماک اوریکسوئی کے ساتھ دارالعلوم دیوبند کے اساطین علم سے بھرپور استفادہ کیا۔استاذالفقہ اورصدرالمدرسین حضرت مولانامعراج الحق صاحب ؒ کی خدمت اورتربیت نے ان کے اخلاق میں مزید جلا پیدا کیا۔1379ھ مطابق 1959ء میں دارالعلوم دیوبند سے فارغ ہوئے۔
آپ کی خدمات کا سلسلہ بہت وسیع اورمتنوع ہے۔فراغت کے بعد آپ کا تدریسی دورشروع ہوتاہے۔سب سے پہلے صوبہئ کرناٹک کی عظیم دینی و علمی درسگاہ دارالعلوم سبیل الرشاد بنگلور میں آپ کا بحیثیت مدرس تقرر ہوا۔اس ادارہ میں آپ کی تدریسی خدمت دوسال تک رہی۔بعدازاں کچھ عرصہ دعوت و تبلیغ کی مبارک محنت سے وابستہ رہ کر چار مہینے بغرض اصلاح و تربیت شیخ الحدیث حضرت مولانامحمد زکریا صاحب قدس سرہٗ کی خدمت میں رہے۔اس درمیان حضرت شیخ الحدیث ؒ کے خطوط کے جوابات لکھنے کی ذمہ داری اس لئے دی گئی تھی کیوں کہ ان کی تحریر و کتابت بہت عمدہ،صاف اورنمایاں تھی۔خوش اخلاق،خوش گواورخوش سیرتی کے ساتھ آپ خوش خط بھی تھے۔
آپ کی ایک سالہ تدریسی خدمت مدرسہ امدادیہ تھانہ بھون میں بھی رہی،جہاں آپ شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد زکریا صاحب قدس سرہٗ اور اپنے استاذ و مربی خصوصی حضرت مولانامعراج الحق صاحب کے مشورے سے مقرر ہوئے تھے۔یہاں آپ نے ابوداؤد شریف اورمشکوٰۃ المصابیح کا مکمل درس دیا۔پھر گھروالوں کے اصرار پر وطن تشریف لائے اوریہاں مدرسہ مظاہر علوم سیلم میں تقریباً پانچ سال ۴ مہینے تدریسی خدمات انجام دیں۔پھر جامعہ باقیات صالحات ویلور کے ذمہ داروں کے اصرارپر اس عظیم مدرسہ میں اپنا علمی فیض جاری کیا۔یہاں آپ ساڑھے بارہ سال تک پوری محنت جانفشانی،انہماک و یکسوئی کے ساتھ تدریسی خدمات انجام دیتے رہے۔بخاری شریف اوردیگر کئی اہم کتابیں آپ سے متعلق رہیں۔تدریس میں آپ نے ہر کتاب کا مکمل حق ادا کیا۔عبارت کا ہر گوشہ واضح اندا ز اورسہل طریقے سے آپ طلبہ کے ذہن نشیں کرتے جس سے ہر طالب علم سبق پوری طرح سمجھ کر مطمئن ہوجاتا اوراسی لئے پھر وہ ہمیشہ تقریباً ڈیڑھ سال آپ نے کیرلہ کے مدرسہ حسینیہ میں بھی تدریسی خدمات انجام دی ہیں۔اس کے بعد آپ 1405ھ مطابق 1985ء سے تادم آخر مدرسہ کاشف الہدیٰ مدراس میں اپنے چشمہئ علم سے تشنگانِ علوم کو سیراب کرنے میں لگے رہے۔اس مدرسہ میں موصوف کی خدمات بہت نمایاں اورہمہ گیر تھیں۔بحیثیت صدر المدرسین اورشیخ الحدیث آپ مقرر تھے۔1406ھ مطابق 1986ء میں آپ ازہر ہند دارالعلوم دیوبند کے رکن شوری ٰ منتخب ہوئے۔
جنوب ہند میں آپ مسلک دیوبند کے بہت مضبوط ترجمان تھے یہی وجہ ہے کہ آپ اکابر کے مشرب و مسلک اورمنہاج کی ایک واضح علامت کی حیثیت سے متعارف تھے۔اگر یہ کہاجائے کہ آپ اسلاف ِ دیوبند کی یادگار اورصالحین کی نشانی تھے تو یہ مبالغہ نہ ہوگا۔یہ صحیح ہے کہ آپ جامعہ”باقیات صالحات“ ویلور کے فیض یافتہ تھے مگر آپ نے اپنا مذاق و مزاج دیوبندی رکھا،اوراکابر دیوبند کے متعلق غلط فہمیوں اوربدگمانیوں کو کمال ِ حکمت اورحسن ِ تدبیر سے دور بھی کرتے رہے۔
آپ ایک کامیاب مدرس ہونے کے ساتھ منفرد اسلوب اوردل نشیں وپر رقت وعظ کہنے والے کامیاب خطیب بھی تھے۔میل و شارم کی ایک مشہور و معروف مسجدمیں آپ کے فکر انگیز اوراصلاحی خطبات سے بے شمار لوگوں کو فائدہ پہنچا۔کئی لوگوں کی زندگی میں دینی واصلاحی انقلاب آپ کے خطبات اورمؤثر تقریروں ہی کے ذریعہ آیاملی اورقومی مسائل کے حل کے لئے امارت شرعیہ مسلم پرسنل لاء بورڈ اورجمعیۃ علماء ہند کے ذریعہ آپ نے اپنی صلاحیتیں صرف فرمائیں۔جو آپ کی بے لوث اوردردمند شخصیت کی حیثیت سے آپ کی شناخت بنی۔معروف ادارہ مدرسہ مفتاح العلوم میل و شارم کے سرپرست اعلیٰ تھے۔
اس ادارہ کی ترقی میں مولانا مرحوم کی مخلصانہ راہنمائی برابر شامل رہی۔تاحیات آپ نے اس مدرسے کو اپنی توجہات عالیہ اوردعواتِ مستجابہ میں خاص جگہ عطافرمائی۔کئی مدارس کے نگراں اورایک سے زیادہ تنظیموں کے سرپرست ہونے کے ساتھ کئی اہم اورمؤقر علماء کے استاذ ِخاص تھے۔
سادگی وقناعت اورزہدواستغناء آپ کے خصوصی اوصاف تھے۔آپ کے تلامذہ اورآپ کو دیکھنے والوں نے آپ کے استغناء اورشانِ زہد میں انفرادیت کی خاص طورپر گواہی دی ہے۔نماز باجماعت کا اہتمام سنتوں کی اتباع،وقت کی پابندی،اکابر کا عقیدت مندانہ احترام جیسے اوصاف میں بھی آپ ضرب المثل تھے۔خطبات وشارم کے نام سے آپ کے خطبات شائع ہوئے تو اہل علم نے ان کو ہاتھوں ہاتھ لیا۔اوریہ وقیع خطبات علماء و خطباء کے درمیان قدر کی نگاہوں سے دیکھے گئے۔
علم و عمل کا یہ آفتاب 27/جمادی الثانیہ 1440ھ مطابق3/فروری 2019ء بروز اتوار کئی محفلوں کی روشنی اپنے ساتھ لے کر غروب ہوگیا۔
پسماندگان میں دوصاحبزادے اوردوصاحبزدیاں ہیں۔پہلے صاحبزادے مولانااسماعیل ذبیح اللہ صاحب قاسمی مدرسہ کاشف العلوم میں مدرس ہیں۔جب کہ دوسرے صاحبزادے مولانامحمد حسین صاحب قاسمی مدرسہ مفتاح العلوم میل و شارم میں تدریسی خدمات میں لگے ہوئے ہیں۔
یقینا آپ کا بدل ملنا مشکل ہے۔اللہ آپ کی مغفرت فرمائے اورجنت الفردوس میں اعلیٰ مقام نصیب فرمائے۔آمین