بحرالعلوم اور استاذ الاساتذہ
مفتی خلیل الرحمن قاسمی برنی 9611021347
مادرعلمی دارالعلوم دیوبند میں جب قدم رکھا تو کچھ فرشتہ صفات اساتذہ کے تذکرے ان کے تبحر علمی کی باتیں اوران کی قابل تقلید ادائیں طلبہ کے درمیان کثرت سے چرچوں میں تھیں۔انہیں میں سے ایک مبارک شخصیت حضرت مولانامحمد حسین عرف ملا بہاری کی تھی۔کہاجاتاہے کہ علامہ محمد ابراہیم بلیاوی قدس سرہٗ کے بعد مادرعلمی میں،منطق،فلسفہ اورمعقولات میں آپ کے علاوہ کسی دوسرے کو درجہئ امتیاز حاصل نہ ہوسکا۔علوم عقلیہ میں آپ کو دسترس حاصل تھا۔اسی وجہ سے دارالعلوم میں آپ کا لقب ہی ”ملابہاری“پڑگیا تھا۔وابستگان دارالعلوم آپ کو اسی نام سے جانتے اورپہچانتے تھے ”ملابہاری“ان کے نام کا اس طرح قائم مقام بن گیا تھا کہ بعض طلبہ سالوں دارالعلوم میں گذارنے کے بعد واپس چلے جاتے اورانہیں یہ معلوم نہ ہوپاتا کہ حضرت کا نام ”محمدحسین“ہے۔ملامبارک،ملامحب اللہ اورملاصدیق جیسے علمائے فنون سے تشبیہ دینے کے لئے غالباً ان کا یہ لقب مشہور ہواتھا۔
مولانامرحوم علم و عمل کا مثالی سنگم تھے۔آپ کے چہرے بشرے سے ہی علم و عمل کے آثار ہویدا تھے۔درس نظامی کی تمام ہی کتابوں کے مضامین آپ کو مستحضر تھے۔یقیناآپ ایک بلند پایہ محدث،کامیاب مدرس،اورہردلعزیز استاذ تھے۔مادرعلمی میں چالیس سال سے زیادہ کا تدریسی زمانہ آپ کی علمی عظمت وشوکت کا حوالہ شناخت ہے۔مولانا مرحوم نے محنت سے پڑھا تھا اور یہ محنت والاجذبہ تادم واپسیں باقی رہا۔اسی لئے آپ کا علم بہت ٹھوس تھا۔آپ جو کچھ پڑھتے پڑھاتے تھے عمیق مطالعہ اورغوروفکر کے بعد پڑھاتے تھے۔معمولی سے معمولی فن یا کتاب کو بھی گہرے مطالعے کے بعد پڑھانے کے قائل تھے۔ان کی درسی تقریریں عام فہم،مختصر.مدلل اورمربوط ہوتی تھیں۔درس میں ان کی مختصر بیانی طلبہ کے لئے بہت مفید ہوتی تھی۔اسی لئے طلبہ کے درمیان ان کا سبق کافی مقبول تھا۔مدارس اسلامیہ میں رائج تمام علوم وفنون ہی میں آپ کو مہارت تامہ حاصل تھی۔اسی بنیاد پر آپ مادرعلمی کی درسیات کی اکثرکتابوں کو قابل ذکر خوش اسلوبی کے ساتھ چالیس سال سے زیادہ تک پڑھاتے رہے۔
رب سے مانگنے والا کبھی محروم نہیں رہتا=
مولاناعلیہ الرحمہ ایک بہت ہی غریب گھرانے میں پیداہوئے تھے اورپھر دس سال کے بھی نہیں ہوئے تھے کہ والدین کا سایہ سر سے اٹھ گیا زندگی کی شمع روشن رکھنے کے لئے اس چھوٹی سی عمر میں چرواہے بن گئے۔وہ دوسروں کی بیل،بکریاں چراکرلاتے اوراس کے عوض میں جو کچھ مل جاتا اپنے ماموں کے حوالے کرتے جو اس وقت ان کے کفیل بنے ہوئے تھے اورسخت ناداری کے باعث وہ بھی ننھے محمد حسین کو چرواہا دیکھنے پر مجبور تھے۔اسی عرصہ میں ایک دن خداوند قدوس نے ان کے دل میں یہ بات ڈالی کہ انہیں اچھی اور قدروقیمت والی زندگی گذارنے کے لئے تعلیم حاصل کرنی چاہیے۔چنانچہ آپ نے اس ارادے کو عملی جامہ پہنایا اورملک کے کئی مدرسوں میں پڑھتے ہوئے دارالعلوم دیوبند پہنچے اوروہاں سے سند فراغت حاصل کی۔
دوران ِ تعلیم وہ ذہن و حافظہ کے بہت کمزور تھے۔بہت محنت سے کسی مسئلے کو سمجھتے۔یاد کرتے لیکن جلدہی بھول جاتے۔اس سے ان کو بہت تکلیف ہوتی اورایک عجیب کرب محسوس کرتے۔بعض مرتبہ یہ خیال بھی ان کو ستاتا تھا کہ وہ عالم نہیں بن پائیں گے۔وہ خود فرماتے تھے کہ اس کی وجہ سے میں بڑا دل شکستہ رہاکرتا تھا۔اس احساس سے جب میں بہت زیادہ ٹوٹ جاتا تو اپنے رب کی طرف متوجہ ہوجاتا اوراس کے حضور اس طرح بلک بلک کرروتا جیسے ایک معصوم بچہ اپنی ماں سے چمٹ کر اپنی معصوم تمناؤں کو پوری کردینے کی تڑپ تڑپ کر اوررو روکر اس طرح درخواست کرتا ہے اور اپنی طلب اس کے سامنے اس طرح رکھتا ہے کہ اس کی ماں کو اس پر رحم اور ترس آجاتا ہے اور لپک کر اس کو گود میں اٹھا لیتی ہے اوراس کی فرمائش پوری کرتی ہے۔مولانا مرحوم فرماتے تھے کہ دعا کا اثر یہ ہوا کہ کچھ عرصے بعدذہن و حافظے میں مضبوطی آتی چلی گئی۔اورپھر مشکل ترین اورادق مسائل کا سمجھنا اوران کو یاد رکھنا میرے لئے بہت آسان ہوگیا۔
(ماخوذ از پس مرگ زندہ،ص260)
امتیازی اوصاف
حضرت العلام ملا بہاریؒ اکابرو اسلاف کی یادگار اورعلماء متقدمین کی جیتی جاگتی تصویر تھے۔مزاج اوررہن سہن میں بہت سادہ طبیعت کے مالک تھے۔ان کی پوری زندگی ہر طرح کے تکلفات سے خالی رہی،انتہائی خوش اخلاق،بے تکلف اورمرنجان مرنج انسان تھے۔ میں نے ان کو بالکل ان کی آخری عمر میں دیکھا ہے جب وہ چھڑی کا سہارلینے لگے تھے۔میانہ قد،متوسط جسم،تیز نگاہ،آواز صاف ستھری اورکڑک دار،ڈاڑھی اورسرکے بال گھنیرے ناک اونچی اوررنگ گہراگندمی تھا۔
مولانامرحوم کی زندگی میں دوچیزوں کا اہتمام بہت تھا۔اوراس بات پر مادرعلمی دارالعلوم دیوبند کے تمام طلبہ واساتذہ متفق تھے کہ مولانا مرحوم ان دوباتوں میں امتیازی شان کے حامل ہیں۔(۱) نماز باجماعت کی پابندی(۲) اسباق کی پابندی۔گرمی،سردی،نزلہ،بخار،بارش،آندھی،تمام ہی موقعوں پر ان دونوں چیزوں کی پابندی پر سختی سے عمل پیرارہے۔
حضرت ملابہاریؒ کی پیدائش صوبہ بہار میں ضلع سیتامڑھی کے ایک دورافتادہ گاؤں ”شیخ بسہیا“میں 13/شوال 1323ھ مطابق 13/نومبر 1905ء کو ایک بہت ہی مفلس اورمفلوک الحال خاندان میں ہوئی۔ابتدائی تعلیم اپنے میں گاؤں میں حاصل کی۔بعد ازاں وہ کئی ایک مدرسوں میں زیرتعلیم رہے۔دارالعلوم مؤناتھ بھنجن میں حضرت شیخ الہند قدس سرہٗ کے ایک ذی استعداد اورلائق و فائق شاگرد رشید مولاناکریم بخش سنبھلیؒ سے رائج علوم و فنون کی متعددکتابیں پڑھیں اس کے بعد آپ مظاہرعلوم سہارنپور میں بھی کئی سال اپنی علمی تشنگی بجھاتے رہے۔اورپھر 1345ھ مطابق 1927ء کو دارالعلوم دیوبند میں دورہئ حدیث میں داخلہ لیا۔حدیث کی اکثر کتابیں شیخ الاسلام حضرت مدنی قدس سرہٗ سے پڑھیں۔دارالعلوم میں آپ کے قابل ذکراساتذہ میں حضرت علامہ ابراہیم بلیاوی ؒ اورشیخ الادب حضرت مولانا اعزاز علی صاحب امروہوی ؒ تھے۔
دارالعلوم سے فراغت کے بعد گجرات،سہارنپور اوردہلی کے کئی مدارس میں تدریسی خدمات انجام دیتے ہوئے 1367ھ مطابق 1948ء کو دارالعلوم دیوبند میں بحیثیت مدرس مقررہوئے۔اورپھر تام دم آخر مادرعلمی میں بہت نیک نامی،خوش اسلوبی اورمحنت کے ساتھ تدریسی فرائض انجام دیتے رہے۔ان کی زندگی کی سب سے بڑی تمنا یہ تھی کہ ان کا آخری وقت جب بھی آئے دارالعلوم ہی میں آئے۔اسی لئے وہ وطن بہت کم جاتے تھے۔اورجب جاتے تو جلدی واپس تشریف لے آتے۔خدانے ان کی اس آرزو کو پورا کیا اوروہ 6/رجب1412مطابق 12/جنوری 1992کو واصل بحق ہوگئے۔
خداان کے درجات کو بلند فرمائے اورجنت الفردوس میں اعلیٰ مقام نصیب فرمائے۔آمین.