تاریخ دیوبند کے ایک صاحب زہد استاذ جلیل
مفتی خلیل الرحمن قاسمی برنی 9611021347
یوں تو دیوبند کے تمام ہی اساتذہ علم و عمل کا حسین امتزاج اوراخلاق و کردار کے پیکر رہے ہیں اورآج بھی الحمدللہ وہا ں کے اساتذہ اِن صفات حسنہ اورنوع بنوع خوبیوں سے آراستہ ہی ہیں۔مگر ماضی میں گذررجانے والوں کا بدل بہرحال ملنا ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے۔ایسے اکابرین اوراسلاف ِ دیوبند کی ایک طویل فہرست ہے.جن میں سے ہر ایک مکارم اخلاق اورکمالات وخوبیوں کا مجموعہ تھا۔انہیں مبارک ہستیوں اوراسلاف میں ایک واضح نام حضرت مولانازبیر احمد دیوبندی رحمہ اللہ کا بھی ہے۔
مولانازبیر صاحب دیوبندی ؒ دارالعلوم ویوبند کے درجہئ علیا کے مقبول استاذ تھے۔انتہائی شریف وکریم،باوقار،حلیم و سنجیدہ،کم گو اورہر ایک کے لئے ہمدردی وخیر خواہی کے جذبات رکھنے والے ایک عالم ربانی تھے۔پوری زندگی سادگی،نہایت صبر وشکر اورکفایت شعاری کے ساتھ گذاری۔فنائیت،تواضع،زہدواستغناء،جمال و کمال سیرت و کردار،تقویٰ وپرہیزگاری اور علم و آگہی جیسی عمدہ و کامل صفات سے اپنے اکابر کی طرح مزین تھے۔آپ بزرگانِ دیوبند کی روایات کے امین اورمادرعلمی کی علمی بزم آرائیوں کے ایک مضبوط نگراں اورروح رواں کی حیثیت سے تھے۔آپ کے چہرے بشرے سے ہی علم و عمل کے آثار ہویدارہتے تھے۔وجیہ و شکیل اورمتأثر کن شخصیت کے حامل تھے۔وہ انتظامی امور سے دور رہ کر صرف پڑھنے پڑھانے پر یقین رکھنے والے کامل معلم ومربی تھے۔ان کی رفتار،گفتارا ور عمل و کردارمیں ایک خاص کشش تھی اس لئے طلبہ ان سے بہت متأثر رہتے۔اسی کے ساتھ ارباب دارالعلوم کی نگاہوں میں بھی وہ ہمیشہ معتمد ہی رہے۔مادرعلمی میں میزان،نحومیرسے لے کر نسائی شریف تک کی تمام ہی اہم کتب آپ کے زیر درس رہیں۔پڑھانے کے دوران آپ کی کوشش یہ ہوتی کہ غبی سے غبی طالب علم بھی سبق سمجھ کر ہی جائے۔اس کے لئے آپ اپنی تمام تر صلاحیتیں صرف فرماتے۔طلباء بھی ان کے سبق میں پوری دلچسپی لیتے۔آپ کا انداز تدریس کچھ اس طرح تھا۔پہلے عبارت خوانی کراتے،اورعبارت کی تصحیح پر بہت زیادہ زور دیتے،پھر الفاظ کے معانی،سہل انداز میں عبارت کا مفہوم اوراسکے بعد ترجمہ و مطلب بیان فرماتے۔اسی لئے آپ کے بارے میں یہ کہا گیا کہ آپ تاریخ دیوبند کے ایک صاحب زہد عالم ربانی اورکامیاب استاذ جلیل تھے۔
مولانامرحوم کی پیدائش 25/صفر 1355ھ مطابق17/ مئی1936ء بروز اتوار کو قصبہ دیوبند میں ایک معزز گھرانے میں ہوئی۔آپ کا سلسلۂ نسب حضرت ابوبکر صدیق ؓ سے جا ملتاہے۔آپ کے والد محترم جناب محمد فاضل صاحب مرحوم گریجویٹ تھے اورمیرٹھ کے فیض عام انٹرکالج میں مدرس تھے۔موصوف اگر چہ انگریزی تعلیم یافتہ شخص تھے مگر ا ن کی وضع قطع،تراش،خراش اورلباس پرصالحیت کارنگ چڑھاہواتھا۔دیندار،متبع سنت اورباوضع انسان تھے۔حضرت مولانازبیر احمد ؒ کی پیدائش سے چند ماہ پہلے ہی بہت کم عمری میں داغ مفارقت دے گئے۔اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ مولاناجب پیداہوئے تو والد محترم کا سایہ ان پر نہیں تھا اورپیدائشی یتیم تھے جو آگے چل کر دریتیم اورگوہر آبدار بنے۔
حضرت مولانازبیر احمد صاحب دیوبندی قدس سرہٗ کی مکمل تعلیم ابتداء سے انتہاء تک دارالعلوم دیوبند میں ہوئی۔
حفظ و ناظرہ کی تعلیم حضرت قاری بشیر صاحب اورحضرت قاری کامل صاحب رحمھما اللہ کے پاس حاصل کی۔دینیات و فارسی میں حضرت مولانامشفع صاحب رحمہ اللہ سے استفادہ کیا۔1373ھ مطابق 1954ء میں درجہ ئ عربی اول میں داخل ہوئے۔اورمختلف اساتذہ سے مختلف علوم و فنون پڑھتے ہوئے 1380 ھ مطابق 1961ء میں دورہ حدیث سے فراغت حاصل کی۔پھر ایک سال 1381ء میں حضرت مفتی مہدی حسن شاہ جہاں پوری قدس سرہٗ کے زیرنگرانی افتاء کی تعلیم مکمل کی۔آپ کے قابل ذکراساتذہ کی فہرست میں حضرت مولانافخرالدین صاحب مرآدابادی ؒ،حضرت مولانامحمد ابراہیم بلیاویؒ،حضرت مولانا فخرالحسن صاحبؒ،حضرت مولانا معراج الحق صاحب دیوبندیؒ،حضرت مولانابشیر احمد صاحب بلند شہری ،حضرت مولاناظہور احمد صاحبؒ،اورحضرت مولاناعبدالاحد صاحب دیوبندیؒ قدس اللہ اسرارھم جیسے عبقری اساطین علم شامل ہیں۔
شروع ہی سے آپ ذہین و فطین اورمحنتی تھے۔جو پڑھامحنت سے پڑھا اس لئے آپ پڑھانے میں بھی بے انتہاء محنت فرماتے۔صلاح و صلاحیت اوراستعداد میں مضبوط ہونے کے ساتھ اپنے اساتذہ کے بھی معتمد تھے۔حضرت مفتی مہدی حسن شاہ جہاں پوری کی توجہات خاص طور پر آپ کو حاصل تھیں۔اسی لئے فراغت کے معاً بعد حضرت مفتی صاحب نے اپنے اس ہونہار شاگرد کو ناگپور تدریس کے لئے بھیج دیا۔وہاں ایک ادارہ میں چارسال دینی خدمات انجام دینے کے بعد وطن تشریف لے آئے۔ایک سال کے بعد 11/شوال 1386ھ مطابق 20/جون 1967ء کو آپ کا تقرر بحیثیت مدرس عربی ایشیاء کی عظیم دینی درسگاہ دارالعلوم دیوبند میں عمل میں آیا۔اورپھرتادم آخر دارالعلوم دیوبند ہی سے منسلک رہ کر علوم نبوت کی اشاعت میں مصروف رہے۔اس عرصہ میں کئی ہزار طلبہ نے آپ کے چشمہئ علمی سے اپنی پیاس بجھائی۔ان میں سے بہت سے طلباء ملک کے نامور علماء میں شمار ہوتے ہیں اوراپنی خدمات کے باعث حضرت مولاناکے لئے صدقہءجاریہ بنے ہوئے ہیں۔تواضع،خاموش مزاجی،یکسوئی اورتحمل وبردباری میں مولانامرحوم اپنی مثال آپ تھے۔وقت کی پابندی میں بھی ضرب المثل تھے۔گھر سے سیدھے درسگاہ اوردرسگا ہ ے سیدھے گھر پہ آپ کا معمول تھا۔
آپ کی خانگی زندگی بھی بہت سادہ اوراتباع سنت سے معمور تھی۔گھر میں رہتے ہوئے اپنے کام خود ہی انجام دیتے اورچوں کہ کثیر العیال تھے اس لئے گھر کے کام کاج میں بھی گھروالوں کا خوب ہاتھ بٹاتے۔بازار سے روز مرہ کا سامان اورسودا سلف بھی خود ہی لاتے تھے۔کئی مرتبہ طلبہ اس سعادت کو حاصل کرنے کی کوشش کرتے یا درخواست کرتے تو منع فرمادیتے۔آخر تک کسی طالب علم سے کوئی ذراسی بھی خدمت لیناگوارہ نہیں کیا۔بالآخر میدان تدریس کے یہ شہسوار محنت و صبر سے بھرپور اور زہدوعمل سے معمورزندگی گذارتے ہوئے 17/ذی الحجہ 1418ھ مطابق 15اپریل 1998ء بروز بدھ بعمر 63سال دنیا کو الوداع کہہ گئے۔اورساری دنیا کو یہ پیغام دے گئے۔
موت ایک زندگی کا وقفہ ہے
یعنی آگے چلیں گے دم لے کر
پسماندگان میں اہلیہ محترمہ، چھ صاحبزادیاں اوردوصاحبزادے ہیں۔دونوں صاحب زادے نیک خصلت اورخوش اطوار ہیں اور دار العلوم دیوبند کے قابل اعتماد ملازمین میں سے ہیں۔بڑے صاحبزادے حضرت مفتی محمد عمیر صاحب زید مجدہ عادات واخلاق میں کافی حدتک والد مرحوم کے مثل ہیں۔دوسرے صاحبزادے مولانامحمد زبیر صاحب دارالعلوم کے شعبہئ تعلیمات میں ہیں۔اللہ ان تمام کو صحت وسلامتی کے ساتھ برکتوں والی زندگی عطافرمائے۔آمین۔