ڈاکٹر فاروق اعظم قاسمی
مشکی پور ، جمال پور ، کھگڑیا ۔ بہار
کرونائی نظر بندی کے اذیتناک دور سےہم گزر رہے ہیں ۔نظام ِ کائنات یوں تھم سا گیا ہے کہ انسان کہیں آسکتا ہے نہ جا سکتا ، نہ کسی کو کسی کی خوشی میں شرکت کی گنجائش ہے اور نہ کسی عزیز کے جنازے پرعقیدت کے دو آنسونچھاور کرنے کا موقع، ذہن و دماغ بری طرح منتشر و مضطرب ہے ، کہتے ہیں کہ مصیبت کے وقت خدا کو یاد کیا جاتا ہے لیکن یہاں تو میرے اللہ بھی روٹھے ہوئے ہیں ۔ مسجدوں پر پہرا ہے ، نہ جمعہ و جماعت نصیب ہے ، نہ روزہ رمضان کا لطف ہے اورنہ ہی منبر و محراب کا دیدار ۔ سب بے رونق ، سب پھیکا پھیکا ۔ یہی کیا کم غم تھا کہ غم و الم کا ایک اور پہاڑ ٹوٹ پڑا اور ایک انتہائی محبوب اور مشفق و مخلص استاذ کا سایہ ہمارے سروں سےاٹھ گیا ۔ ایک بار پھر ہمیں اپنی یتیمی کا احساس شدت سے ہو رہا ہے۔استاذ ِ محترم مفتی سعید احمد پالنپوری علیہ الرحمہ کی ایک ایک ادا ، ان کی رفتار و گفتار ، ان کی نشست و برخاست ، ان کی یادیں اور ان کی باتیں سب ایک ایک کر کے ذہن کی اسکرین پر رقص کر رہی ہیں ۔ یقین نہیں ہو رہا ہے کہ مفتی صاحب اب اس دارِ فانی سے عالم ِ جاودانی کی طرف کوچ کر گئے اور اب دوبارہ لوٹ کر ممبئی سے دیوبند نہیں آئیں گے۔
اس کا غم کم ہےکہ ایک عظیم انسان راہی ملکِ عدم ہوا لیکن اس لمحے کو یاد کر کے کلیجہ منہ کو آتا ہے اور جسم پہ کپکپی طاری ہوجاتی ہے کہ اتنا بڑا انسان کیسی خاموشی کے ساتھ دنیا سے رخصت ہوگیا ۔ ایسی خاموشی کہ آخری وقت میں ان کے دو صاحبزادے اور ایک صاحبزادی کے علاوہ چند لوگ ہی موجود تھے ۔ ان کے دیگر بچے اور اہل خانہ دیوبند تھے ۔ نہ خاندان والے ہیں ، نہ متعلقین و منتسبین ہیں اور نہ ہی شاگردوں کا کوئی کارواں ۔ مولی ٰ یہ کیسا عذاب ہے کہ چاہتے ہوئے بھی ان کا کوئی چاہنے والاآخری دیدار نہ کر سکا ، انھیں غسل اور کاندھا نہ دے سکا ۔ آہ جب تک وہ زندہ رہا ہزاروں کے جھرمٹ میں رہا لیکن آج جب اس کی روح جسم سے آزاد ہو چکی ہے اور زندگی کا آخری سفر درپیش ہے تو اس کے اس قافلے میں گنتی کے چند افراد شامل ہیں ۔اس مختصر سے باراتی کے ساتھ جنت کا یہ دولہابڑی سبک خرامی کے ساتھ اپنے ابدی حجلہ عروسی کی طرف اس تیزی سے لپکا گویا اسے برسوں سے اس خوبصورت لمحے کا بے صبری سے انتظار رہا ہو ۔ ہاں ہاں کون آرام نہیں چاہتا مفتی صاحب دن رات محنت کرکرکے تھک جو گئے تھے ۔ ہاں میرے مولی!تیرا ارشاد بھی تو ہے کہ میں اپنے بندوں کے ساتھ ان کے گمان کے مطابق معاملہ کرتا ہوں۔ تیرے اس پیارے بندے نے تو زندگی بھر بدعات و خرافات کو آنکھیں دکھائیں اورمسلم معاشرے سے انھیں گھر بدر کیا تھا ۔یہاں تک کہ غیر مسنون تعزیت کو بھی اس نے نوحہ گردانا تو اس کی رخصتی پر اس کے سامنے کیوں آہ وواویلہ ہوتا ، کیوں میلہ لگتا ؟ الٰہی! تیرا راز تیرے سوا اور کون جان اور سمجھ سکتا ہے ؟
مفتی صاحب نرے ایک استاذ ہی نہیں تھے ؛ وہ ایک بہترین شوہر ، مشفق و مربی باپ ، مخلص خسر ، انصاف پرور دادا ، ذمہ دار منتظم ، شاندار مصنف اور جاندار واعظ بھی تھے ۔ان کی زندگی کا بڑا حصہ تعلیم و تدریس میں گزرا ، ساتھ ہی انھوں نے تبلیغ و ارشاد اور تصنیف کا سلسلہ بھی جاری رکھا لیکن تمام تر مصروفیات کے باوجود وہ اپنی خانگی ذمہ داریوں سےکبھی غافل نہیں رہے ، مفتی صاحب کے نزدیک شوہر ، باپ ،خسر اور دادا ناناجیسے الفاظ محض الفاظ نہیں تھے ؛ ان الفاظ کے گہرے معانی بھی تھے اور وہ معانی تھے حقوق و ذمہ داریاں ۔ حضرت مرحوم نے اپنے بڑے صاحبزادے کے ایک حادثے میں وفات کے بعد ان کے بیوی بچوں کی مکمل کفالت اپنے ذمے لی ۔ ایک بار انھوں نے دوران ِ درس فرمایا تھا کہ دادا کے رہتے ہوئے والد گزر جائے تو شرعا دادا کی جائیداد سے پوتے کا حصہ تو ساقط ہوجاتا ہے لیکن دوسری طرف اس کی کفالت کی اخلاقی ذمہ داری بھی دادا پر عائد ہوجاتی ہے ۔ اس ذمہ داری کو مفتی صاحب نے بحسن و خوبی نبھایا ۔
مفتی صاحب نے ایک بار فرمایا کہ میرا اصل نام احمد تھا اور سعید کا اضافہ میں نے خود کیا ہے ۔ کبھی کبھی اپنے ابتدائی زمانے کی عسرت کا حال بھی بتاتے ، کہنے لگے ناندیر میں جب پڑھاتا تھا تو اس وقت تنخواہ معمولی تھی بمشکل پورے مہینے خرچہ چل پاتا تھا ، ہم پان کے عادی تھے لیکن مہینے کی 20 تاریخ کو پان کھانا چھوڑ دیتے تھے ۔
مفتی صاحب کی پہلی زیارت جامعہ عربیہ خادم الاسلام ہاپوڑ میں ہوئی جب میں وہاں تجوید کا طالب علم تھا ۔ یہ 1997-98کی بات ہے ۔ اس وقت بس اتنا سمجھ سکا تھا کہ دیوبند کے حضرت تشریف لائے ہیں ۔ وہ تو بعد میں دیوبند پہنچنے کے بعد معلوم ہوا کہ اچھا وہ حضرت مفتی صاحب ہی تھے ۔ اب مفتی صاحب کو دور دور سے دیکھتا رہتا ، کبھی غلہ اسکیم کے جلسے میں اور کبھی کسی اور جلسے میں ۔ اسفادۃ ً سال ِ دوم عربی میں آسان منطق کے توسط سے پہلی بار مفتی صاحب سے ملاقات ہوئی ۔پھر الفوز الکبیر اور مبادی الفلسفہ سے ملاقات کرتے ہوئے دورہ حدیث کے سال (فائنل یر) ترمذی شریف کے واسطے سے براہ ِ راست مفتی صاحب سے شرف ِ تلمذ حاصل ہوا ۔ مفتی صاحب سے ہم نے(2007)ترمذی اور طحاوی پڑھی۔ ہمارے شیخ نصیر احمد خاں علیہ الرحمہ کی طبیعت جب زیادہ علیل ہوگئی تو بخاری شریف کے بھی کچھ حصے پڑھنا نصیب ہوئے ۔ہمارے زمانے میں دورہ حدیث شریف میں صف ِ اول میں جگہ پانے کے لیے بڑی مارا ماری رہتی ، دارالحدیث کھلنے کا واضح اعلان نہ کیا جاتا ، طلبہ بڑے بے چین رہتے ، کہیں سے کوئی خبر مل جاتی کہ آج کسی وقت درسگاہ کھل سکتی ہے بس دروازوں پر لڑکوں کا تانتا بندھ جاتا ، کئی کئی گھنٹے اور بسا اوقات پوری رات انتظار میں گزر جاتی ، کبھی کبھی تو طلبہ دارالحدیث کی بالکنی سے بذریعہ رسی نیچے اتر کر اپنے ناموں کی پرچیاں پہلی صف کی تپائیوں پر چسپاں کردیتے لیکن جب درسگاہ کھلتی تو عجیب ہنگامہ آرائی رہتی ، بسا اوقات بحثہ بحثی شروع ہوجاتی اور اس تنازعہ کے تصفیے کے لیے انتظامیہ کو دخیل بننا پڑتا ۔ میں نے بھی مسند ِ استاذ سے جانب ِ جنوب کونے پہ جگہ پائی اس لیے کہ سامنے بیٹھنے کی اپنے اندر جرات نہیں پاتا تھا ۔ مفتی صاحب کا درس ترمذی مغرب تا عشا ء ہوتا ۔کیا مجال کہ درسگاہ خالی رہے ، کتاب ساتھ نہ ہو گوارا لیکن طلبہ حاضر ضرور رہتے ، چاہے دروازے کی چوکھٹ پر جگہ ملے یا چپلوں میں بیٹھنا پڑے ۔
اس وقت مفتی صاحب کی عمر 67-68 سال تھی ، محلہ بیرون کوٹلہ سے پیدل تشریف لاتے ، تقریباً ایک کلو میٹر کا فاصلہ ہوگا ، باب ِ قاسم سے جامعہ کے احاطے میں داخل ہوتے ، باب ِ امداد سے ہوتے ہوئے مولسری کے کوئیں پہ پہنچتے اور چاپا کل سے پانی لیتے اور منہ صاٖ ف کرتے، اس لیے کہ وہ پان کا شوق رکھتے تھے لیکن درس حدیث کے وقت منہ میں پان رکھے رہنے کو نامناسب سمجھتے تھے ۔مفتی صاحب حدیث پڑھاتے نہیں ؛ گھول کر پلادیتے تھے کہ ادنی سے ادنی ذہنی سطح کے حامل طلبہ کا ذہن و دماغ بھی مطمئن ہو جاتا اور استاذ محترم جو کچھ اپنے شاگردوں کو سمجھانا چاہتے ہیں وہ ان کے ذہنوں میں پیوست ہوجاتا۔
مفتی صاحب نے "محفوظات ” کے عنوان سے تین چھوٹے چھوٹے کتابچے تیار کیے تھے جو منتخب آیات و احادیث اور اسمائے حسنیٰ پر مشتمل تھے ۔ ہمیں اس بات کا پابند کرتے کہ ہم انھیں زبانی یاد کریں۔ مفتی صاحب انتہائی محنتی انسان تھے اور طلبہ کی لاابالی انھیں گوارا نہیں تھی وہ کبھی کبھی ہماری لاپرواہیوں سے بد دل ہو کر ناراض بھی ہو جایا کرتے تھے اور یہ وقت شاگردوں بطور خاص محنتی اور پابند طلبہ کے لیے بڑی آزمائش کا وقت ہوتا اور بڑی مشکل سے حضرت الاستاذ مانتے اور دوبارہ درسگاہ میں تشریف لاتے ۔ ہماری اصلاح و تربیت کے لیے ان کا ایک انداز یہ بھی ہوتا تھا ۔ چھوٹے موٹے عوارض کبھی بھی مفتی صاحب کی تدریس کی راہ میں حائل نہ ہوتے ۔ ایک دفعہ انھوں نے فرمایا کہ رات بھر سر چکراتا رہا اور بے خوابی کی کیفیت رہی ، میں نے اپنا بی پی یا شوگر چیک کیا تو مشین نے کہا ” پڑھانا وڑھانا چھوڑاور آرام کر ” میں نے کہا "اپنا فلسفہ تو اپنے پاس رکھ اور میں تو چلا پڑھانے ۔ یہ یا اسی طرح کے ملتے جلتے الفاظ مفتی صاحب کے تھے ۔ کبھی میں نے انھیں ایسا نہیں دیکھا کہ وہ دوران ِ درس سستی یا تھکاوٹ کا اظہار کر رہے ہوں یا پڑھاتے پڑھاتے ان کے اندر اکتاہٹ پیدا ہورہی ہو ۔ وہ درس نہیں دے رہے ہوتے ؛ عشق و جذب کے ایک عجیب و غریب عمل سے گزر رہے ہوتے ۔ انتہائی اطمنان کے ساتھ ٹھہر ٹھہر کرمزے لے لے کر اور مچل مچل کر پڑھاتے ۔دو چار احباب پر مشتمل ہمارا ایک گروپ تھا ، ہم انتہائی پابندی کے ساتھ اسباق میں حاضررہتے ، مفتی صاحب کی تقریر سنتے اور کاپی بھی لکھتے لیکن سچی بات یہ ہے کہ حضرت الاستاذ کی بہت سی باتیں ہمیں ہضم نہیں ہوتیں تو ہمارا مذکورہ گروپ آنکھوں آنکھوں ہی میں تبصرہ کر ڈالتا تاہم الحمد للہ سنجیدگی کے جامے سے ہم کبھی باہر نہ ہوئے اور مفتی صاحب سے براہ ِ راست تو کبھی سوال کرنے کی ہمت ہی نہ ہوئی اس لیے کہ ان سے سوال کرنے یا سوالیہ پرچی پیش کرنے کی کچھ شرطیں تھیں اور ان شرطوں پر ہر کسی کا کھرا اترنا بہت مشکل تھا ۔مفتی صاحب علیہ الرحمہ کتنے محقق تھے اور کتنے ماہر ِ تعلیم ، اس پہلو پر گفتگو ہو سکتی ہے لیکن رب ذوالجلال نے انھیں بلا کی قوتِ تفہیم جو دولت بیش بہا عطا کی تھی اس کا کوئی جواب نہیں تھا۔ اس وصف میں وہ بلا شبہہ طاق اور اپنے معاصرین میں ممتاز تھے۔ ان کا انداز درس ِ انتہائی مربوط و مرتب ، پرکشش ، سادہ ،سہل اور رواں تو ہوتا ہی لیکن کبھی کبھی حسب ِ حال لطائف و ظرائف سے بھی قہقہہ بکھیر دیتے اور پورا دارالحدیث زعفران زار ہوجاتا۔ ایک دفعہ کی بات ہے کہ طہارت کے باب کے ضمن میں پاکی ناپاکی بحث چل رہی تھی ، مفتی صاحب نے اپنے زمانہ طالب علمی کا ایک قصہ سنایا جب وہ مظاہر العلوم سہارنپور میں زیر ِ تعلیم تھے ۔ فرمایا ایک بار گھومتا گھومتا اسٹیشن والی مسجد پہنچ گیا ، استنجے کا تقاضہ ہوا ، سامنے مٹی کا لوٹا نظر آیا ، اسے لے کر استنجے خانے میں چلا گیا ، فارغ ہو کر جب باہر آیا تو موذن ملک الموت کی طرح سامنے کھڑا تھا ، اس نے مجھ سے لوٹا لیا اور غصے سے زمین پر دے مارا اور کرختگی کے ساتھ کہا لا آٹھ آنے ، تم نے لوٹا ناپاک کر دیا ۔ بالآخر اس نے مجھ سے آٹھ آنے لیے۔ مفتی صاحب نے فرمایا کہ بھئی اس روزتو ” ہگنا مہنگا پڑ گیا” ۔اس نادان کو یہی پتہ نہیں تھا کہ کوئی چیز کب ناپاک ہوتی ہے اور ہوتی بھی ہے تو اسے پاک کرنے کا طریقہ بھی ہوتا ہے ۔ مفتی صاحب نے ایسے اچھوتے انداز میں اس قصے کو بیان کیا کہ ہم لوٹ پوٹ ہوگئے ۔ ایک بار انھوں نے فرمایا کہ تم میں سے پچاس فیصد کا پاجامہ ناپاک رہتا ہے اس لیے کہ تم اس سلسلے میں سنتوں کی پابندی نہیں کرتے ۔
دعا کے سلسلے میں استاذ محترم نے فرمایا کہ جن نمازوں کے بعد نوافل نہیں ہیں ان میں تو نماز کے بعد ہی دعا کرو اور جن کے بعد نوافل ہیں ان میں نوافل کے بعد دعا کیا کرو اور جم کے کیا کرو ۔
مفتی صاحب میدانی آدمی تو تھے نہیں ؛ تاہم اپنے زبان و قلم اور علم و عمل سے طلبہ کی ایسی کھیپ تیار کرنا چاہتے تھے جو علم و دین میں تعمق و تصلب کے ساتھ ساتھ خدمت دین کے والہانہ جذبے سے بھی سرشار ہو ، ایک پکا مسلمان اور سچا شہری بھی ہو ۔
مفتی صاحب ہمیں کتابوں کے اسباق کے ساتھ زندگی کے اسباق بھی پڑھاتے تھے ، فرماتے کہ رسمی تعلیم سے فراغت کے بعد جب دن و رات دس سال تک مستقل مطالعہ کروگے تو کچھ کچھ علم آنا شروع ہوگا ۔ علم و مطالعے کو اپنا مشغلہ بنانے کی شاگردوں کو ہمیشہ نصیحت فرماتے ۔وہ اس بات کی نصیحت فرماتے کہ یہاں سے نکلنے کے بعد قرآن کریم کی چند آیات اور چند احادیث کا ترجمے کے ساتھ مطالعے کا معمول بنا لو اور اسے اپنی زندگی وظیفہ بنا لو ۔
حضرت عام طور سے طلبہ کی دو قسمیں بیان کرتے ۔ (1)اعلیٰ ذہن کے مالک ۔ (2) ادنیٰ ذہن کے حامل ۔ ان کی خواہش ہوتی کہ اول الذکر دینی مدارس میں تدریسی لائن ہی سے وابستہ ہوں اور آخر الذکر تدریس کے علاوہ ذمہ داریاں سنبھالیں ۔ مدارس کے وہ اعلیٰ اذہان جو عصری جامعات کا رخ کرلیتےہیں ان سے مفتی صاحب بہت نالاں رہتے اور کہتے کہ یہ طبقہ میرا مخاطَب نہیں ہے ۔ اس سلسلے میں مفتی صاحب کی نیت پر شک کی گنجائش نہیں ہے تاہم اپنے تشخصات کے ساتھ عصری اداروں میں علماء کی موجودگی بھی وقت کی اہم ضرورت ہے ۔ہمیں اس رویے پر نظر ثانی کرنے کی ضرورت ہے کہ پڑوس میں آگ لگی ہوئی ہے اور ہم مطمئن ہیں کہ ہم محفوظ ہیں ۔ جواہر لال نہرو یونیورسٹی نئی دہلی کے آٹھ سالہ قیام کے دوران میں مجھے اچھی طرح اس کا تجربہ ہوا کہ اس طرح کے مخالف ماحول میں بھی اگر ایک عالم اپنی عالمانہ شان کے ساتھ رہتا ہے تو وہ خود روشن ہوتا بھی ہے ،روشن رہتا بھی ہے اور دوسروں تک روشنی پہنچاتا بھی ہے ۔
دارالعلوم دیوبند میں بھی تبلیغی جماعت کا کام ہوتا ہے(عارضی طور پر ابھی کچھ دنوں سے موقوف ہے ) اور علی گڑھ میں بھی، لیکن دونوں میں نوعیت کا فرق ہے۔ دیوبند میں اساتذہ کی شمولیت صفر ہے جب کہ علی گڑھ میں اساتذہ ہی کی نگرانی میں سارا کام انجام پاتا ہے ۔ یہاں جماعت سے جڑے طلبہ کا خیال ہے کہ اصل مقصود عمل ہے اور علم عمل تک پہنچانے کا ایک ذریعہ ہے اس لیے جماعت کا نمبر پہلے ہے اور تعلیم کا درجہ دوسرے نمبر پر ہے ۔ وہاں والے کی فکر یہ ہے کہ وہ ایک پروسیس اور معاہدے کے تحت اس ادارے میں داخل ہوئے ہیں اس لیے اولین ترجیح تعلیم ہے لیکن عملی اور دعوتی زندگی کی عملی مشق بھی بہت ضروری ہے اس لیے اپنے خارجی اوقات کو یہ لوگ ضائع کرنے کے بجائے انھیں کام میں لگاتے ہیں ۔ تعلیم ان کے یہاں پہلی ترجیح ہے اور تبلیغی سرگرمیاں ثانوی ترجیح ۔ اس کا لازمی نتیجہ یہ ہےکہ علی گڑھ میں جماعت کو عموماً مثبت نظر یے سے دیکھا جاتا ہے اور دیوبند میں معاملہ اس کے برعکس ہے۔اس تناظر میں مفتی صاحب کی رائے کی تفہیم آسان ہو سکتی ہے ۔ان کے نزدیک طلبہ کے لیے جماعت دیگر غیر درسی سرگرمیوں کی طرح کا ایک کام ہے اور اس کی حیثیت اضافی ہے ۔ وہ یہ بھی کہتے تھے کہ اس جماعت میں بے اعتدالی اس لیے بھی آرہی ہے کہ مرکز نظام الدین اپنے مرکز دیوبند سے دور ہو تا جا رہا ہے۔ وہ فرماتے تھے کہ امیر جماعت مولانا محمد یوسف کاندھلوی جب بھی سہارنپور جاتے تو دیوبند ہوتے ہوئے جاتے اور اور وہاں سے واپسی پر بھی یہی معمول رہتا ۔ وہ دار العلوم دیوبنداور وہاں کے اساتذہ سے پورے طور پر جڑے ہوئے تھے ، اپنی کارگزاریوں سے انھیں آگاہ کرتے ، ان سے مشورے لیتے اور ارباب ِ دیوبند کو بھی بہت سے معاملات میں مفید مشوروں سے نوازتے ،لیکن ان کے بعد یہ سلسلہ تقریباً منقطع ہوگیا ۔ مفتی صاحب اس پر افسوس کا اظہار بھی کرتے ۔
ہمارے زمانے میں دورہ حدیث میں تقریباً آٹھ سو طلبہ تھے ۔ مفتی صاحب فرماتے تھے کہ اتنی بڑی درسگاہ اصولاً صحیح نہیں ہے ، کم از کم اس کی چار ترتیبات (Sections) ہونی چاہئیں۔ وہ یہ بھی فرماتے کہ مدارس میں آج عموماً یہ ہو رہا ہے کہ شیخ الحدیث کا انتقال ہوا اور مہتمم ہی اس مسند پر قابض ہوبیٹھا چاہے اس کے اندر اس کی اہلیت ہو کہ نہ ہو اور طنزاً کہتے کہ گاؤ تکیہ لگایا ، بغل میں ایک اگالدان رکھا اور بن گئے شیخ الحدیث ۔ کبھی یہ فرماتے کہ آج مدارس سے اچھے نتائج اس لیے بر آمد نہیں ہورہے کہ اہل مدارس نے اموال زکوٰۃ میں خرد برد شروع کردی ہے اور اس کے مصرف میں بڑی بے اعتدالی آگئی ہے ۔
وہ برابر ہمیں محنت کی تلقین کرتے اور فرماتے کہ یہاں سے چلے جاؤگے ، شادی ہوجائے گی اور صغریٰ کبریٰ ملنے کے بعد نتیجہ بھی کھٹاکھٹ نکلنا شروع ہو جائے گا اور ہر سال سلام ابا سلام ابا بھی ہونے لگے گا ۔ اس لیے ابھی ہی جو کرنا ہے کر لو ۔ یعنی بعد میں بہت کچھ کرنا چاہتے ہوئے بھی نہیں کر پاؤگے ۔
مفتی صاحب کا چوں کہ ہر سال لندن و کناڈا وغیرہ بیرون ممالک کا سفر ہوا کرتا تھا اور ان کا سابقہ انگریزی داں طبقے سے بھی پڑتا تھا اس لیے ایک زمانے میں انھوں نے انگریزی اخبار پڑھنے کا آغاز کیا تھا لیکن الٹی سیدھی تصاویر کی بہتات کی بنا پر اسے ترک کر دیا ۔
تصویر کشی کے جواز و عدم جواز بارے میں علمائے ہند اور علمائے عرب میں اختلاف پایا جاتا ہے ۔ اس سلسلے میں ہمارے یہاں شدت پائی جاتی ہے اور وہاں تساہل ۔ آج تو تقریباً سب برابر ہی ہوگئے ہیں ۔ مفتی صاحب نے فرمایا کہ دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ کے پچاسی سالہ جشن کا موقع تھا ، میں بھی شریک تھا ، تصویر کشی دھڑلے سے ہورہی تھی ، علمائے عرب اس عمل میں پیش پیش تھے اور میں گریزاں ، پروگرام کے اختتام کے بعد ان سے گفتگو ہوئی لیکن انھوں نے اس عمل کو الگ اور حدیث میں آئی وعید کو دو علیحدہ شئی قرار دیا ۔ میں نے دوسرے روز علی الصباح ان میں سے ایک صاحب کو صبح کی چہل قدمی کے بہانے سڑکوں پہ گھمانے لے گیا اور ایک جگہ ہنومان مندر کے پاس ہم رک گئے جہاں ہنومان جی کی ایک قد آدم تصویر لگی ہوئی تھی اور لوگ اس کی پوجا کر رہے تھے ۔ جب دوبارہ پروگرام میں میں پہنچا تو دیکھا کہ وہ بھی تصویر کشی سے گریزاں ہیں ۔ مفتی صاحب نے اس عالم کا نام بھی بتایا تھا جو مجھے اب یاد نہیں رہا ۔ مفتی صاحب اپنی رائے تھوپنے کے بجائے اسے مثبت اسلوب اور نرم لہجے کے ساتھ سمجھانے کی پرخلوص کوشش کرتے تاکہ مخاطب خود ہی سمجھ کر اس کا قائل اور اس پر عامل ہوجائے ۔
ہمارے شیخ مولانا نصیر احمد خاں صاحب جب صاحب ِ فراش ہو گئے تو دارالعلوم کو شیخ الحدیثی کا مسئلہ در پیش آیا ، دارالعلوم کے خوشہ چینوں اور بہی خواہوں کے لیے یہ وقت بڑی کشمکش کا تھا ، اسی دوران جمعیۃ تنازعہ بھی طول پکڑ گیا تھا ، اللہ کا کرنا یہ ہوا کہ بڑی آسانی کے ساتھ شیخ الحدیث کے لیے حضرت الاستاذ کا نام متعین ہو گیا اور اللہ نے جتنے دن مقدر کیے تھے اتنے دن مفتی صاحب اس منصب ِ عظیم پر فائز رہے ۔
استاذ محترم کی خدمات کی کئی جہات ہیں ۔ درس و تدریس ، تصنیف و تالیف اور دعوت و تبلیغ ، لیکن میرے نزدیک ان کی دوخصوصیات ایسی ہیں جو کروڑوں میں کسی کو نصیب ہوتی ہیں ۔ اول ان کا 2002سے پہلے پہلے مدرسے سے لی ہوئی تنخواہوں کی واپسی ، یعنی دارالعلوم اشرفیہ راندیر سورت ، گجرات میں نو سال (1065-1973) اور دارالعلوم دیوبند میں تیس سال (1973-2002)کی لی ہوئی تنخواہ کی کل رقم (75/973054)نو لاکھ تہتر ہزار چون روپے پچہتر پیسے واپس کردی۔ اس کے بعد تادم واپسیں تنخواہ نہیں لی ۔ دوسرا بڑا امتیاز ان کا یہ تھا کہ رسمی تعلیم سے فراغت کے بعد خود ، شادی کے بعد اہلیہ اور صاحب ِ اولاد ہونے کے بعد تمام بیٹوں اور بیٹیوں اور بیٹوں کی شادیوں کے بعد تمام بہوؤں کو حافظ بنانے کا نا قابل ِ فراموش کارنامہ ہے ۔ مفتی صاحب کی یہ ایسی خوبی ہے کہ دور دور تک ان کا کوئی ہم پلہ نظر نہیں آتا ۔ ذٰلک فضل اللہ یؤ تیہ من یشاء ۔ سال کے اخیر میں یہ خبر سننے میں آئی تھی کہ اس بار مفتی صاحب ختم بخاری کے موقعے پر نہ تو ناصحانہ کوئی کلمہ کہہ پائے اور نہ ہی دعاء کر پائے۔ آج الفاظ کے بجائے ان کے آنکھوں سے نکلے آنسو کچھ نہیں بہت کچھ بول رہے تھے اور مفتی صاحب یوں ہی اٹھے اور چلے گئے ، استاذ کے ساتھ شاگردوں کی بھی گھگھی بندھ گئی ۔ مجھے جب یہ خبر ملی تو ٹھٹھک سا گیا ، یہ محض تشویش نہیں تھی بلکہ کسی طوفان کا شاخسانہ تھی جو 25 رمضان 1441ھ کو ان کی وفات کی صورت میں سامنے آئی ۔ اللہ انھیں اعلی ٰ علیین میں جگہ عطا فرمائے اور ان کی جملہ خدمات کو شرف قبولیت سے نوازے اور دار العلوم دیوبند کو ان کا نعم البدل عطا فرمائے ۔