حضرت شیخ عبدالفتاح ابوغدہ رحمۃ اللہ علیہ

مولانا ابن الحسن عباسی

شیخ عبد الفتاح ابوغده شام کے مشہور شہر حلب میں (1336ھ/ 1917ء) کو پیدا ہوئے، شیخ کے والد ایک عام آدی تھے اور کپڑوں کی تجارت کرتے تھے، حضرت شیخ اپنے ابتدائی حالات بیان کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں:

’’میرے والد اگر چہ عالم نہیں تھے لیکن علماء کے ساتھ انہیں بڑی محبت تھی، ان کی مجالس میں شریک ہوتے تھے اور ان کے علم ونصائح سے استفادہ کرتے تھے، خالص مذہبی آدی تھے ، قرآن کریم کی بکثرت پابندی کے ساتھ تلاوت کرتے تھے، میرے والد اور دادا اونی کپڑوں کی تجارت کرتے تھے، یہ مخصوص قسم کے کپڑے وہ خود بنتے تھے ، مارکیٹ میں ان کپڑوں کی بڑی مانگ تھی۔ یہ کپڑے ترکی وغیرہ بھی برآمد کئے جاتے تھے، اس لئے خوشحال گھرانوں میں ان کا شمار ہوتا تھا، دونوں دیندار اور احکام شریت کے پابند تھے، اپنی اولاد کی تربیت بھی انہوں نے اسی انداز سے کی، میری عمر جب آٹھ سال ہوئی تو مجھے ایک اسکول میں داخل کرایا گیا، یہ بڑے لوگوں کے بچوں کے لئے ایک مخصوص اسکول تھا اور اس کی فیس بہت زیادہ تھی لیکن اس کا تعلیمی اور تربیتی معیار بھی بڑا بلند تھا، چنانچہ میں نے پہلی جماعت سے لیکر چوتھی جماعت تک اس میں پڑھا اور یوں میں صحت کے ساتھ عبارت پڑھنے لکھنے لگا، خوشخطی میں اگرچہ کمزور تھا لیکن عبارت پڑھنے کی استعداد عمده تھی، اس زمانے میں محلہ کے بڑے بوڑھے اور رئیس قسم کے لوگ ہفتہ وار رات کو مجلس جماتے اور اس میں تاریخ اور قصوں کی کوئی کتاب پڑھی جاتی، عام طور سے واقدی کی طرف منسوب ’’فتوح الشام“ پڑھی جاتی، چنانچہ یہ کتاب عموماً مجھ ہی سے پڑھوائی جاتی، ایک تو کم عمری اور دوسرا صحیح عبارت پڑھنے کی بناء پر اس کے لئے میرا انتخاب کیا جاتا، حالانکہ اس وقت میری عمر دس سال کے لگ بھگ تھی، اس کے بعد ایک دوسرے اسکول میں خوشخطی سیکھنے کے لئے داخل ہوا ،لیکن وہاں زیادہ عرصہ ٹھہر نہ سکا اور چند ماہ کے بعد اسے چھوڑ دیا۔

پھر میرے دادا اور والد دونوں کی رائے ہوئی کہ میں کوئی پیشہ یا ہنر سیکھ لوں، ان کا کہنا تھا کہ پیشہ اور ہنر فقر وغربت سے امان وحفاظت کا ذریعہ ہے، اگر چہ اس وقت میں فقر و غربت میں مبتلا نہیں تھا لیکن ان کا خیال تھا کہ وقت کا کیا اعتبار، زمانہ منقلب اور دن بدلتے رہتے ہیں۔ چنانچہ میں نے ہاتھ سے کپڑا بننے کا کام سیکھا اور اس پیشے میں اچھی خاصی مہارت حاصل کی۔ دو تین سال تک میں اسی پیشے سے ایک کامیاب کاریگر کی حیثیت سے وابستہ رہا، اس کے بعد میں دو سال تک اپنے والد کے ایک دوست کے ساتھ مارکیٹ میں کپڑوں کی خرید وفروخت اور تجارت میں لگارہا، ان کی کپڑوں کی دوکان تھی اور میں معاون کی حیثیت سے ان کے پاس بیٹھتا رہا، اس کے بعد تین سال ایک دوسرے تاجر کے پاس رہا اور یوں تجارت کے اصول اور گاہکوں کے ساتھ لین دین کے طریقے سے مجھے خوب واقفیت حاصل ہوئی، پھر میرے والد اور دادا کی رائے ہوئی کہ میں مستقل تجارت شروع کر دوں، اس وقت میری عمر سولہ سال ہوگی، چنانچہ ایک تاجر کے ساتھ میں دو سال تک کاروبار میں شریک رہا، اکثر دن بھر میں ہی خرید و فروخت میں مصروف رہتا کیونکہ یہ شرکت کام میں تھی، مال کی نہیں تھی۔۔۔“

(امداد الفتاح، ص: ۲۵)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

معلوم نہیں اس کے بعد ظاہر کیا سبب پیش آیا کہ کپڑوں کی تجارت میں پانچ چھ سال مشغول رہنے کے بعد اسلامی علوم کی تحصیل کی طرف متوجہ ہوئے ، اللہ کو انہیں ایک جلیل القدر عالم بنانا منظور تھا اورعلم نے انہیں ایک گمنام تاجر کے مقام سے اٹھا کر قابل رشک بلندی عطا کی، چنانچہ 1936ء میں آپ نے مدرسۃ خسرویہ میں داخلہ لیا، اس وقت آپ کی عمر انیس سال ہوچکی تھی، چھ سال تک یہاں تعلیم حاصل کی، پھر مصر کی مشہور یونیورسٹی جامعہ ازہر تشریف لے گئے اور وہاں ’’كلیۃ الشریعۃ‘‘ میں چارسال لگا کر 1948ء میں سند فراغت حاصل کی ، پھر دو سال وہیں اصول تدریس میں تخصص بھی کیا اور 1950ء میں اپنے شہر ’’حلب“ لوٹ آئے۔

مصر میں شیخ عبد الفتاح ابوغدہ نے کئی اساتذہ سے پڑھا لیکن انہوں نے سب سے زیادہ استفاده شیخ محمد زاہد الکوثری رحمہ اللہ سے کیا، شیخ کوثری رحمہ اللہ اسلامی علوم میں امامت کا درجہ رکھتے تھے، عالم عرب ومصر میں ان کو وہ مقام حاصل تھا جو برصغیر میں حضرت مولانا انور شاہ کشمیری رحمہ اللہ کو حاصل تھا، شیخ عبد الفتاح ابوغده پر حضرت شیخ کوثری رحمہ اللہ کی عبقری شخصیت کا سب سے زیادہ اثر تھا، حضرت کوثری مذہب حنفی کے شیدائی تھے اور اس کا اثر حضرت ابوغده کی زندگی میں بھی نمایاں تھا، فرماتے تھے:

’’میں نے جتنے اساتذہ سے پڑھا، ان میں سے ہر ایک کے متعلق مجھے خیال ہوتا کہ میں محنت کروں تو اس طرح بن سکتا ہوں، لیکن شیخ کوثری کے بارے میں جب بھی سوچا، مجھے یقین ہو جاتا کہ میں اس مقام تک نہیں پہنچ سکتا۔“

برصغیر کے حنفی علماء اور ان کی تصانیف سے شیخ کو خصوصی لگاؤ تھا، انہوں نے کئی بار ہندو پاک کا سفر کیا، ان کے ان اسفار کا مقصد یہاں کے اہل علم حضرات سے ملاقاتیں اور یہاں کے علماء کی تصانیف کے مخطوطے حاصل کرنا ہوتا، مولانا عبدالحئی فرنگی محلی کی کئی کتابوں کوحضرت شیخ نے اپنے تحقیقی حواشی کے ساتھ جدید عربی ذوق کے تقاضوں کو ملحوظ رکھ کر نئے طباعتی اسلوب میں شائع کیا اور اس طرح عالم عرب میں پہلی بار مولانا عبدالحئی رحمہ اللہ کے علمی مقام اور ان کی بلند علمی تصانیف کا تعارف ہوا، حضرت علامہ انور شاہ کشمیری کی ایک کتاب ’’التصريح بما تواتر فی نزول المسیح“ حضرت مفتی اعظم مفتی محمد شفیع صاحب رحمہ اللہ نے مرتب فرمائی ہے، اس کا نسخہ انہیں کہیں نہیں مل سکا تھا، یہاں آ کر آپ نے حضرت مفتی صاحب سے حاصل کیا اور پھر اپنے مقدمہ اور تحقیقی حواشی اور اعلیٰ ترین معیار طباعت میں اسے شائع کیا، اس کتاب کے مقدمے میں انہوں نے پاکستان کے علماء سے رخصت ہوتے ہوئے، الوداعی لمحات کی دلچسپ تصویر کشی کی ہے، جس میں ایک طرف ان کے ہاں وقت کی قدرو قیمت کا پرتو نظر آتا ہے اور دوسری طرف ان ا کابر علماء کے علمی اور ادبی ذوق کا بھی کچھ اندازہ ہوتا ہے، لکھتے ہیں:

’’8 جمادی الاولی 1382ھ کو کراچی ائر پورٹ سے روانگی تھی، وہاں پہنچ کر معلوم ہوا کہ کئی اہل علم حضرات اس عاجز کو رخصت کرنے کے لئے ائرپورٹ پر موجود ہیں، ادھر اتفاقا جہاز کی روانگی میں دو گھنٹے تاخیر کا اعلان کر دیا گیا، اس لئے میں نے وہاں موجود اہل علم حضرات سے جانے کیلئے کہا لیکن ان سب کا اصرار تھا کہ وہ آخر تک رہیں گے، چنانچہ ہم سب حضرات ایک طرف بیٹھ گئے، یہ بڑا حسین اور قیمتی موقعہ تھا ، اکابر علماء اور صلحاء کا ایک بڑا مجمع تھا، جن میں حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب رحمہ اللہ اور حضرت علامہ مولانا محمد یوسف بنوری رحمہ اللہ کے نام خاص طور سے قابل ذکر ہیں، مجھے شوق ہوا کرعلم و فضل کے ان روشن ستاروں سے اس وقت استفاده کیا جانا چاہئے، چنانچہ میں نے کتاب ’’التصريح بما تواتر فی نزول المسیح“ نکالی اور حضرات علماء سے کہا کہ میں یہ کتاب ان سے پڑھنا چاہتا ہوں، انہوں نے بخوشی قبول کیا تو میں نے کہا کہ پڑھنے سے پہلے مجھے اس کی ’’اجازت حدیث“ دیدی جائے، انہوں نے اجازت دیدی، چنانچہ میں نے اولاً ان کے سامنے مولانا مفتی محمد شفیع صاحب رحمہ اللہ کا مقدمہ پورا پڑھا اور کتاب سے تین احادیث بھی پڑھ کر سنائیں، اس کے بعد حضرت علامہ مولانا محمد یوسف بنوری رحمہ اللہ نے پانچ احادیث پڑھیں، دوران قرات مختلف فوائد اور مفید باتیں بھی ہوتی رہیں، پھر جب روانگی کی گھڑی آ پہنچی تو میں نے اس موقع پر وہ دو شعر سنائے جو خلافت عثمانیہ کے آخری شیخ الاسلام مصطفیٰ صبری رحمہ اللہ نے مجھے اس وقت سنائے تھے جب ان سے میں رخصت ہورہا تھا اور مصر سے اپنے شہر کے لئے روانہ ہو رہا تھا:

قالت ومدت يدا نحوی تودعنی
ولوعۃ البين تأبى أن امديدا
أميت أنت أم حی؟ فقلت لها:
من لم يمت يوم بين لم يمت أبدا

(اس نے الوداعی مصافحے کے لئے ہاتھ بڑھایا تو غم جدائی نے مجھے ہاتھ بڑھانے نہیں دیا، (اور میں یوں ہی بے حس و حرکت کھڑارہا) کہنے لگی ’’آپ زندہ ہیں کہ مرده؟‘‘ میں نے جوابا عرض کیا: ”جو فراق و جدائی کے وقت نہیں مرا ، پھر کبھی نہیں مرے گا…“ )

یہ سن کر حضرت مفتی محمد شفیع صاحب رحمہ اللہ نے اپنے مندرجہ ذیل دوشعر پڑھے:

تذکر عهدا بالحمی ثم معهد
جرى فیہ من دور الكؤوس تسلسل
بکینا فابكينا ولا مثل ناقف
لحنظلة فی الحی حين تحملوا

(حمی اور معہد میں گزرا ہوا زمانہ بھی کیا یادگار زمانہ تھا، جہاں جام کے مسلسل دور چلتے رہتے…قبیلے کے سفر اور جدائی کے وقت ہم اس طرح پھوٹ پھوٹ کر روئے کہ اوروں کو بھی رلا گئے، یہ رونا اندرائن کوٹنے والے کی طرح نہیں تھا (یعنی مگرمچھ کے آنسورونا نہیں تھا بلکہ غم فراق کا رونا تھا)۔

حضرت شیخ ابوغده نے ”قواعد فی علوم الحديث“ کے نام سے اپنے حواشی کے ساتھ ”اعلاء السنن‘‘ کا مقدمہ بھی الگ شائع کیا۔ ’’اعلاء السنن“ حضرت مولانا ظفر احمد عثمانی رحمہ اللہ کی تصنیف کردہ وہ کتاب ہے جو اپنے موضوع پرمنفرد ہے اور فقہ حنفی کے حدیثی مستدلات کی جامعیت میں اس کی نظیر نہیں، اس کے علاوہ حضرت مولانا شبیر احمد عثمانی نے اصول حدیث میں مسلم شریف کی شرح ’’فتح الملهم“ کا جو مقدمہ تحریر فرمایا، حضرت شیخ ابوغدہ نے اس پر بھی تحقیق و تعلیق کا کام کیا ہے۔

مفید اور نایاب کتابوں کے حصول کے لئے شیخ ابوغدہ کی تلاش اور جستجو کا کیا عالم تھا، اس کا اندازہ مندرجہ ذیل دو واقعات سے کیا جاسکتا ہے۔

(1) کتاب ”التصريح بما تواتر فی نزول المسیح“ کے حصول کا قصہ ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’اس کتاب کا حصول میری بہت بڑی تمنا تھی، اس کے ہندوستانی نسخے کو حاصل کرنے کے لئے میں پندرہ سال سے زیادہ عرصے سے کوشش کر رہا تھا، لیکن مجھے یہ کتاب مل نہیں سکی ،مصر کے کتب خانوں میں اپنی چھ سالہ اقامت کے دوران میں اسے تلاش کرتارہا، مکہ مکرمہ، مدینہ منورہ اور بغداد کے کتب خانوں میں بھی اسے تلاش کیا، ہندو پاک کے علماء سے بھی اس کے حصول کے لئے کہا لیکن اس کا کوئی نسخہ نہیں مل سکا، در اصل یہ کتاب 1344ھ میں پہلی بار چھپی تھی اور اپنے موضوع پر منفرد کتاب ہونے کی وجہ سے ہاتھوں ہاتھ لی گئی جس کی وجہ سے اس کا ملنا بڑا مشکل ہو گیا، پھر جب میں نے ہندو پاک کا سفر کیا، وہاں بھی مختلف کتب خانوں میں تلاش کرتا رہا اور بالآخر کراچی میں حضرت مفتی محمد شفیع صاحب سے ملاقات ہوئی، ان کے پاس اس کا نسخہ تھا، انہوں نے وہ مجھے بطور ہدیہ عطا فرمایا۔“

(مقدمۃ التصریح ص:۹۵)

(2) فقہ حنفی کی مشہور کتاب ’’فتح باب العنایۃ“ شیخ ابوغدہ نے اپنی تحقیقات کے ساتھ شائع کی ہے، اس کے حصول کا واقعہ وہ یوں ذکر کرتے ہیں:

’’دوران تعلیم میں چھ سال تک مصر میں اسے تلاش کرتا رہا، تعلیم سے فراغت کے بعد اپنے شہر حلب کے کتب خانوں میں بھی اسے تلاش کرتا رہا، پھر جب 1376ھ میں مجھے حج بیت اللہ کی سعادت حاصل ہوئی تو مکہ مکرمہ کے کتب خانوں میں میں نے اسے تلاش کیا لیکن یہ کتاب کہیں نہیں مل سکی، ایک دن ایک کتب فروش سے چند کتابوں کی خریداری کے بعد میں نے اس کتاب کا بڑی مایوسی کے ساتھ ذکر کیا تو اس نے مجھے بتایا کہ اس کتاب کا ایک نسخہ چند دن پہلے میرے پاس کسی بخاری کے ترکے سے آیا تھا، جسے میں نے تاشقند کے ایک عالم و شیخ ’’عنایت الله تاشقندی“ کو اچھی قیمت پر فروخت کردیا ہے، یہ سن کر میں مکہ مکرمہ کی گلیوں میں دیوانہ وار شیخ عنایت اللہ تاشقندی کو تلاش کرنے لگا لیکن سات دن تلاش کے باوجود وہ نہیں مل سکے، ان سے ملاقات کے لئے میں نے طواف کرتے ہوئے خصوصی دعائیں کیں، بالآخر اللہ تعالی نے ان سے میری ملاقات کرادی اور میں نے یہ کتاب ان سے حاصل کر لی۔“

(مقدمۃ فتح باب العنایۃ ص:۸۔ ۹، و صفحات من صبر العلماء، ص:۲۷۹)

فرماتے تھے کہ کبھی کبھی میں نذر اور منت مان لیتا تھا کہ اگر مجھے فلاں کتاب مل گئی تو میں اتنی رکعت نفل پڑھوں گا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

شخ عبد الفتاح ابوغدہ نے مختلف کتابوں پر جو تحقیقی حواشی لکھے ہیں ، حقیقت یہ ہے کہ وہ علوم و فوائد کا شاہکار اور طویل و وسیع مطالعے کا نچوڑ ہیں اور بسا اوقات اصل کتاب سے زیادہ تفصیلی و مفید اور مقبول ان کے حواشی ہوتے ہیں ، حاشیہ نویسی میں میں انکی بے نظیر تحقیق کا ایک واقعہ بیان کرتے ہوئے، ان کے مشہور شاگرد اور محقق شیخ محمد عوامہ لکھتے ہیں:

’’ایک بار میں شیخ کی خدمت میں کتاب ’’الاجوبۃ الفاضلۃ“ کی کاپیاں لے کر حاضر ہوا، وہ مجھے اپنے وسیع مہمان خانے میں لے گئے، میں نے دیکھا کہ ہر طرف کتابیں کھلی رکھی ہیں اور بیٹھنے کے لئے کہیں جگہ نہیں ، میں مسکرایا تو فرمانے لگے: دراصل اس کتاب میں ایک لفظ آیا تھا، تین ماہ سے اس لفظ کے معنی اور تحقیق کرتے ہوئے تھک چکاہوں، اب جا کے الحمدللہ اس کی حقیقت سامنے آگئی ، اس لئے یہ ساری کتا ہیں میں یہاں لایا ہوں اور جہاں جہاں یہ لفظ آیا ہے، کتابوں میں سے وہ مقامات کھولے ہوئے ہیں۔ دراصل مؤلف نے امام شافعی کے بارے میں لکھا ہے کہ ”انہ يعمل بالإحالۃ“یہ ’’إحالۃ“ کا لفظ میری سمجھ میں نہیں آیا، میں نے اپنے فلاں فلاں استاذ سے پوچھا لیکن ان کے پاس اس کا جواب نہیں تھا، اب جا کر معلوم ہوا کہ یہ لفظ ’’إحالۃ“ نہیں بلکہ ’’إخالۃ“ ہے جو خَال یَخال سے ماخوذ ہے جس کے معنی قیاس و گمان کے ہیں، اخالہ سے مراد قياس شرعی ہے۔“

(امداد الفتاح ص : ۱۳۰)

اندازہ لگائیں کہ ایک کلمہ کی تحقیق کے لئے شیخ نے تین ماہ تک مسلسل کس قدر محنت کی، شیخ ابوغدہ رحمہ اللہ کی تمام کتابیں اور حواشی اسی طرح کی مسلسل محنت کے آئینہ دار ہیں ، ان کی تصنیفات اور تحقیق کردہ کتابوں کی تعدادتقریبا اسی نوے ہیں، ان میں تریسٹھ کتابیں شائع ہو چکی ہیں ، انہوں نے زیادہ تر کام تحقیق و تعلیق اور حاشیہ نویسی کا کیا ہے، ان کی مستقل تصانیف تقریبا پندرہ بیس ہیں، آپ کی جن کتابوں کو غیر معمولی مقبولیت حاصل ہوئی، ان میں سے چند یہ ہیں:

🌟 قیمۃ الزمن عند العلماء: یہ عربی زبان میں پہلی منفرد کتاب ہے، جس میں شیخ ابو غدہ نے علماء اور اہل علم کے وقت کی قدر و قیمت کے واقعات جمع کئے ہیں اور اب تک اس کے ساٹھ ایڈیشن شائع ہو چکے ہیں، اس کا اردو ترجمہ ہند و پاک میں چھپ چکا ہے۔

🌟 صفحات من صبر العلماء على شدائد العلم والتحصيل: یہ کتاب بھی اپنے موضوع پر لا جواب ہے ، حضرت شیخ نے اس میں تحصیل علم کی راہ میں پیش آنے والی تکالیف و مشقتوں پر علماء اور اسلاف کے صبر و استقامت کے مختلف واقعات اپنے مؤرخانہ اور محققانہ اسلوب میں بیان کئے ہیں، جن کا مطالعہ انسان کو ایک نیا جذبہ اور تازہ ولولہ عطا کرتا ہے ، اس کے اب تک چھ ایڈیشن شائع ہو چکے ہیں، اس کا اردو ترجمہ بھی ’’صبر و استقامت کے پیکر“ کے نام سے پہلے انڈیا میں اور پھر پاکستان میں چھپ چکا ہے۔

🌟 من ادب الإسلام : اس رسالے میں حضرت شیخ نے اسلام کے معاشرتی آداب کو عام فہم اور سہل اسلوب میں تحریر فرمایا ہے، مختصر ہونے کے باوجود یہ رسالہ انتہائی مؤثر اور مفید ہے اور کئی زبانوں میں اس کا ترجمہ ہو چکا ہے، اس کا اردو ترجمہ بھی اس ناکارہ کے ایماء پر مولوی عقیل الرحمٰن نے کیا جو جنگ اخبار کے اسلامی صفحہ میں شائع ہو چکا ہے۔

🌟 العلماء العزاب الذين آثروا العلم على الزواج: یہ کتاب بھی اپنے موضوع پرمنفرد ہے، اس میں حضرت شیخ نے ان علماء کے واقعات جمع کئے ہیں جنہوں نے علمی مصروفیات کی وجہ سے شادی نہیں کی اور انہوں نے ازدواجی زندگی کے مقابلے میں علمی زندگی کو ترجیح دی، اس کے اب تک پانچ ایڈیشن شائع ہو چکے ہیں، اس کا اردو ترجمہ بھی احقر کے مشورے سے ایک ساتھی کر رہا ہے۔

🌟 لمحات من تاريخ السنۃ وعلوم الحديث: یہ کتاب بھی حضرت شیخ کی مقبول کتابوں میں سے ہے، اب تک اس کے پانچ ایڈیشن شائع ہو چکے ہیں، اس میں حضرت شیخ نے احادیث وضع کرنے کی ابتداء، اس کے پس منظر اور اسباب پر روشنی ڈالی ہے اور حضرات محدثین نے احادیث موضوعہ کے سدباب کے لئے جو محنتیں اور کوششیں کی ہیں، انہیں دلکش اسلوب میں بیان کیا ہے۔

🌟 الرسول المعلم و أسالیبہ فی التعلیم : اس کتاب میں حضرت شیخ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے معلم ہونے کی حیثیت کو اجاگر کیا ہے اور اسؤہ نبوی سے تعلیم وتربیت کے جن اصول و مبادی کی طرف رہنمائی ملتی ہے، انہیں جمع کیا ہے، یہ بھی اپنے موضوع پر ایک انوکھی کتاب ہے اس کا اردو ترجمہ بھی احقر کے کہنے پر مولوی حبیب حسین نے کرلیا ہے جو ’’حضور اکرم ﷺ بطور معلم““ کے نام سے زیرِ طبع ہے۔

اللہ جل شانہ نے ان کی تصانیف کو عالم اسلام میں بڑی مقبولیت عطا فرمائی، وہ ہمارے اس دور میں عالم عربی کے واحد عالم تھے جن کی تالیفات وتحقیقات کو برصغیر میں غیر معمولی مقبولیت حاصل ہے، ان کی کتابیں یہاں ہاتھوں ہاتھ لی جاتی ہیں، حضرت شیخ کی پاکیزہ زندگی، اخلاص و للہیت اور اعلیٰ تحقیقی اور طباعتی معیار کو ان کی تصانیف کی مقبولیت کے اسباب میں شمار کیا جاسکتا ہے، اللہ تعالی نے انہیں درد مند دل اور اشکبار آنکھیں عطا فرمائی تھیں ، ہمارے دؤرہ حدیث کے سال وہ تشریف لائے تھے، طلبہ دؤرہ حدیث اور اساتذہ حدیث ’’اجازت حدیث‘‘ لینے کے لئے جمع ہو گئے، صحیح بخاری شریف کی پہلی حدیث پڑھنی تھی، ایک ساتھی نے عبارت شروع کی تو ’’بسم اللہ“ بھول گئے ، حضرت نے ان کی طرف دیکھ کر فرمایا: ”معلوم ہے، آپ کس ہستی کا کلام پڑھ رہے ہیں کہ بسم اللہ بھول گئے؟…“ اور آب دیدہ ہو کر آواز بھرا نے گی، ان کے شاگرد اور مشہور محقق شیخ محمد عوامہ لکھتے ہیں:

’’میں حضرت شیخ ابوغدہ کی خدمت میں ایک طالب علم اور ایک خادم کی حیثیت سے سینتیس سال رہا، اس طویل عرصے میں میں نے ان سے کوئی بات ایسی نہیں سنی جس کے بارے میں مجھے خیال آیا ہو کہ یہ بات نہ کہتے تو بہتر تھا، اسی طرح ان کے کسی مؤقف کے متعلق میرے ذہن میں کبھی یہ بات نہیں آئی کہ شیخ کا یہ موقف نہ ہوتا تو اچھا تھا، معاذ اللہ میں ان کے معصوم ہونے کا دعویٰ نہیں کرتا ہوں بلکہ میرا مقصد یہ ہے کہ الله کی طرف سے اپنے مخلص بندوں کو راہ حق اور رائے کی درستگی کی توفیق مل جاتی ہے، میں اس طویل عرصے میں حضرت شیخ کے علم وعمل کا معتقد رہا اور ان کی عملی زندگی میں اسلامی تعلیمات اور آداب کی رعایت و تطبیق کا مشاہدہ کرتا رہا۔

(امداد الفتاح، ص:۱۱۸۔۱۱۹)

پھر اس قدر وسیع اور تحقیقی کام کر نے کے باوجود انہوں نے ساری زندگی گوشۂ تصنیف میں نہیں گذاری بلکہ ان کے تدریسی مشاغل اور دعوتی اور سیاسی مصروفیات بھی جاری رہیں، حقیقت یہ ہے کہ اللہ جل شانہ جب کسی سے کام لیتے ہیں تو اس کے اوقات میں برکت اور اسے انضباط اوقات کی توفیق عطا فرما دیتے ہیں ، وہ تعلیم سے فراغت کے بعد تدریس سے وابستہ ہوئے، جامعہ دمشق میں تین سال تک استاذ رہے، دس سال تک جامعہ محمد بن سعود ریاض میں استاذ رہے، سعود یونیورسٹی ریاض میں بھی دو سال تک استاذ رہے، اس کے علاوہ 1962ء میں شامی پارلیمنٹ کے رکن بھی منتخب ہوئے، 1398ھ میں آپ کو رابطہ عالم اسلامی کا بھی رکن منتخب کیا گیا، 1986ء میں عالم عرب کی مشہور اسلای تنظیم ’’اخوان المسلمین‘‘ کے مراقب عام (امیر) مقرر ہوئے لیکن کچھ عرصے کے بعد آپ نے امارت کا یہ عہدہ خود چھوڑا۔

کثرت مطالعہ اور کتب بینی کی وجہ سے آپ کو دائیں آنکھ میں تکلیف شروع ہوئی اور اس سے خون آنے لگا، آپریشن کرایا گیا، لیکن تکلیف بڑھتی گئی، سر میں شدید درد کا دؤرہ پڑنے لگا، ہسپتال میں داخل کرائے گئے تو معلوم ہوا کہ گردے اور جگر نے کام چھوڑ دیا ہے، 9 (نو) شوال 1417ھ کو ہسپتال ہی میں جان جان آفرین کے سپرد کی۔

سعودی فرماں رواں شاہ فہد کے حکم سے خصوصی طیارے میں جسد خاکی ریاض سے مدینہ منورہ لایا گیا، مسجد نبوی میں نماز جنازہ پڑھی گئی اور جنت البقیع میں دفن کئے گئے کہ اہل فراق کے لئے عیش دوام ہے یہی… اور یوں علم وعمل، زہد و تقوی اور فضل و کمال کی اس جامع ہستی کی زندگی کی سرگذشت تو یہاں آ کر ختم ہوگئی لیکن ان کی علمی یادگاریں باقی رہیں، اسلامی علوم کا گلستان جب تک شاداب رہے گا، حضرت شیخ کی ان یادگاروں کی خوشبو، مشام قلب و جان کو معطر کرتی رہیں گی۔

(التجائے مسافر مؤلفہ مولانا ابن الحسن عباسی)

Related Posts

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے