مولانا اسجد عقابی*
دل بوجھل ہے، قلم خاموش ہے، آنکھیں اشکبار ہیں، زبان گنگ ہے، ذہن معطل ہے، اعضاء و جوارح ساکت و صامت ہیں، لب سلے ہوئے ہیں، الفاظ کا دامن تنگ ہے اور خیالات اس ذات گرامی کی فرقت سے رنجور و منتشر ہیں، جو تنہا ایک ملت کی حیثیت رکھتا تھا۔ جس کے الفاظ و بیان نے ہزاروں لاکھوں گم گشتہ راہ لوگوں کو دین مستقیم کا راستہ دکھایا تھا۔ جس کی ذات گرامی اہل اسلام اور عالم اسلام کیلئے نعمت مترقبہ اور جس کا وجود مسعود رحمت و برکت کا سر چشمہ تھا۔ جس کی شخصیت جامع علم و کمالات کا حسین سنگم تھی۔ جس کی ذات سے فضائل و معارف کے سوتے پھوٹتے تھے۔ جس کا ایک عالم دیوانہ تھا۔ جس کے دیدار کیلئے گوشہ عالم سے منتسبین جوق در جوق در پر حاضر ہوا کرتے تھے۔ وہ مرجع الخلائق تھے۔ ان کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کرنے کو وقت کے مشائخ اور ارباب علم و ادب باعث فضیلت تصور کیا کرتے تھے۔ ایک ہمہ جہت جامع شخصیت علم کا بحر بیکراں عالم باعمل سنت محمدی کا شیدا محدث دوراں ۱۹ مئی ۲۰۲۰ کے روز ہم سے جدا ہو کر اپنے محبوب حقیقی کے دربار عالیہ میں پہنچ گیا ہے۔
روٹھا وہ اس ادا سے کہ رُت ہی بدل گئی۔
حضرت الاستاذ شیخ الحدیث مولانا مفتی سعید احمد پالنپوری رحمۃ اللہ علیہ کی ذات گرامی کے اوصاف و کمالات اور ان کی خدمات کو قلمبند کرنے کیلئے ہزارہا صفحات کے دفاتر بھی کم ہیں۔ آپ کی کثیر الجہات خدمات کے کسی ایک پہلو کو اگر موضوع بنایا جائے، تو بھی اس کا کما حقہ احاطہ کرنا بعید ہے۔
بحیثیت مدرس، آپ کا درس قابلِ ستائش اور قابل ذکر ہی نہیں، بلکہ ملک اور بیرون ملک میں آپ کے بے شمار فیض یافتگان اس نرالے انداز درس کو اپنائے ہوئے ہیں۔ اور اس بات کا فخریہ اظہار کیا کرتے ہیں کہ مفتی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے انداز کی کوشش ہے۔ آپ کا درس بے حد مقبول تھا۔ طلباء کا اژدحام آپ کے درس میں ہوا کرتا تھا۔ زائرین کی بڑی تمنا یہ بھی ہؤا کرتی تھی کہ، حضرت مفتی صاحب کے درس میں بیٹھنے کی سعادت حاصل ہوجائے۔
انداز بیان نہایت شیریں تھا، دوران تقریر افہام و تفہیم کے ایسے اچھوتے انداز کو اپناتے جس سے عام فہم انسان بھی مسائل کی تہہ تک بآسانی پہنچ جایا کرتا۔ آپ دوران سال اسباق کی پابندی کے پیش نظر اسفار سے حتی المقدور گریز کیا کرتے تھے۔ جس کا نتیجہ یہ تھا کہ، اخیر عمر تک آپ سے متعلق کتاب (بخاری شریف) ہمیشہ درایت کے ساتھ پڑھائی گئی ہے۔ اور یہ آپ کا وہ بے نظیر کارنامہ ہے جس کی مثال دور حاضر میں شاید و باید ہی کہیں اور کسی کے متعلق دریافت ہوسکے۔ طرز تدریس نے آپ کو طلباء کرام کیلئے مشعل راہ بنا دیا تھا۔ آپ سے طلباء کا والہانہ لگاؤ، ایسا امر بدیہی ہے، جس کیلئے کسی مثال یا واقعہ کی ضرورت نہیں ہے۔ ملک و بیرون ملک کے طول و عرض میں پھیلے علماء کرام کی ایک بڑی جماعت، حدیث کی تفہیم کیلئے براہ راست آپ سے رابطہ کرتے، بلکہ بعض تو طویل سفر طے کرکے دیوبند پہنچ جایا کرتے تھے اور اپنے مسائل کو حل کراتے۔
دارالعلوم کے زمانہ تدریس میں یوں تو تقریباً تمام کتابیں آپ سے متعلق رہی ہیں،اور بیشتر کتابوں پر آپ نے از سر نو کچھ تسہیلی یا تشریحی کام کئے ہیں، لیکن چار اہم کتابیں ایسی ہیں، جن کو پڑھانے کے ساتھ آپ نے وہ کارہائے نمایاں انجام دیئے ہیں جسے الفاظ کے سانچے میں پرویا نہیں جاسکتا۔ آپ نے ان یاقوت و زمرد اور جواہر کو یکجا کیا ہے، جسے تتبع بسیار کے باوجود دریافت کرنا جوئے شیر لانے سے کچھ کم نہ تھا۔
دارالعلوم دیوبند میں ترمذی شریف آپ سے ایک طویل زمانہ تک متعلق رہی ہے۔ اور آپ نے اس کتاب کا وہ حق ادا کیاہے، جسے آج آپ کے ہزاروں فیض یافتگان مسلسل لکھ رہے ہیں یا کہہ رہےہیں۔ دوران درس آپ نے ترمذی شریف کی اردو شرح(تحفة الالمعي) کی ترتیب کا ذہن بنایا، اور اچھوتے انداز پر، جس میں محدثانہ گفتگو کے ساتھ، اسماء الرجال پر کلام، صحت حدیث کے متعلق دیگر ائمہ فنون کی بیش قیمتی آراء اور ان سب سے بڑھ کر، فقہی مباحث کو اُجاگر کیا ہے۔ فقہی مباحث میں حضرت مفتی صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے نہایت سلیس و شستہ اور شائستہ انداز بیان کو اپناتے ہوئے مسائل کو مجلی و منقح کیا ہے۔
بعد ازاں، جب صحیح بخاری آپ سے متعلق ہوئی، تو آپ نے ترجمہ الباب، ترتیب بخاری، فقہ بخاری اور دیگر فقہاء کرام خصوصاً ائمہ اربعہ کے مسائل و اختلافات کو بھی اپنے کلام کا محور بنایا، جس سے قاری کے اذہان پیچیدگی میں الجھنے کے بجائے بسہولت معاملہ کی تہہ تک پہنچ جاتے ہیں۔ درس بخاری کو بنام (تحفة القاري) باضابطہ مرتب فرماکر، حضرت مفتی صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی حیات مبارکہ میں ہی مکمل کرادیا تھا۔
ہندوستان کے مسلمانوں کا ہر طبقہ اپنے آپ کو حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ سے جوڑتا ہے۔ ہر کوئی ان کے نام کو فخریہ بیان کرتا ہے۔ اور اپنا علمی سلسلہ حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ کے واسطے سے مکمل کرتا ہے۔
لیکن حضرت محدث دہلوی کی کتابوں سے استفادہ کا جو حصہ محدث دارالعلوم حضرت مفتی سعید صاحب رحمۃ اللہ علیہ کو نصیب ہوا ہے، وہ بہت کم افراد کے حصے میں آیا ہوگا۔ آپ نے حضرت محدث دہلوی کی کئی کتابوں پر کام کیا ہے، اور تمام کام موجود ہیں اور مقبول عام و خاص ہے لیکن ایک ایسا کارنامہ جس سے اب تک پورا ہندوستان گزشتہ کئی سو سالوں سے محروم تھا، اور علمی دنیا جس کی صدیوں سے مقروض تھی، اور جس کی وجہ سے حضرت محدث دہلوی کی معرکةالاراء کتاب (حجة الله البالغة) سے استفادہ محض عربی زبان و ادب کے ماہرین تک محدود تھا۔ حضرت مفتی صاحب نے اس کتاب کی بہترین طرز تحریر اور سہل انداز میں اردو زبان میں (رحمۃ اللہ الواسعۃ) مکمل تفصیل سے منتقل فرمایا ہے۔ حضرت مفتی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کا یہ علمی کارنامہ پورے عالم اسلام کیلئے عظیم اور نایاب تحفہ ہے۔ حضرت محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ سے نسبت کا جو حق اس کتاب کے ذریعہ ادا کیا گیا ہے، وہ رہتی دنیا تک آنے والوں کیلئے انمول تحفہ ہے۔ اس کتاب کی مقبولیت کا عالم یہ ہے کہ، علماء طبقہ کے علاوہ کالج اور یونیورسٹی سے متعلق افراد کیلئے بھی یہ سب سے موزوں اور معتبر مرجع کی حیثیت رکھتی ہے۔
قرآن کریم، جو مذہب اسلام کیلئے سر چشمہ ہدایت ہے۔ قرآن کے اعجاز و معارف ہر دور اور ہر زمانے میں یکساں رہے ہیں۔ اس کی افادیت تا قیامت یوں ہی جاری و ساری رہے گی۔ مفتی صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے حالات حاضرہ، عوامی رجحان اور عام لوگوں کی استعداد کے پیش نظر نہایت شیریں اور بار آور تفسیر بنام (ہدایت القرآن) اپنے اخیر زمانے میں مرتب فرمایا۔ حضرت مفتی صاحب رحمۃ اللہ علیہ فرمایا کرتے تھے کہ اب عوام تو عوام علماء کے طبقہ (طلباء) میں بھی اتنی صلاحیت نہیں رہ گئی ہے کہ وہ بیان القرآن سے براہ راست کما حقہ استفادہ کر سکیں، اسلئے طلباء کو چاہیے کہ وہ (ہدایت القرآن) کا مطالعہ کریں۔ کیونکہ اس کی زبان سہل ہے۔
مرور زمانہ نے اردو زبان پر جو اثر ڈالا ہے، اور جس طرح اردو زبان کے محاورے اور تمثیلات کی جگہ عام فہم الفاظ نے لی ہے، اکابرین عظام کی بے شمار کتابیں عوام الناس کی سمجھ اور فہم سے کوسوں دور ہوگئی ہے۔ اس بات کے پیش نظر، حضرت مفتی صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت نانوتوی اور دیگر اکابرین کے کتابوں کی تسہیل کا ایک نیا سلسلہ جاری فرمایا تھا، جس کی بدولت آج الحمدللہ کئی کتابیں تسہیل کے مراحل طے کرنے کے بعد توجہ کا مرکز بنی ہے۔ حضرت مفتی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے اس کارنامے کو سراہتے ہوئے، حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے خط میں لکھا تھا کہ یہ ان چند طریقوں میں سے ایک ہے، جس پر ہم نے بارہا غور کیا ہے، اور کام کرنے کا ارادہ کیا ہے۔
حضرت مفتی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے علمی کارناموں اور تحریری افادات اور تقریری خطبات کا عظیم سرمایہ ملت کے پاس موجود ہے۔ اور حضرت مفتی صاحب رحمۃ اللہ علیہ سے وابستگی کا حقیقی حق یہ ہے کہ آپ کے علمی ورثہ کو کما حقہ محفوظ رکھا جائے، تاکہ آنے والی نسلوں کیلئے علم کا یہ بیش بہا خزینہ موجود رہے۔
عملی میدان میں حضرت مفتی صاحب رحمۃ اللہ علیہ نہایت متقی اور مشفق رہے ہیں۔ اتباع سنت میں بے نظیر اور حد درجہ اہتمام کرنے والے تھے۔
اللہ تعالیٰ اپنے نیک بندوں کی خواہشات کی یوں بھی تکمیل فرمایا کرتاہے۔ جب حضرت شاہ وصی اللہ الہ آبادی رحمۃ اللہ علیہ کے بعض متوسلین و منتسبین نے بعد از مرگ مزار پر پھول وغیرہ چڑھانے اور دیگر افعال کی خواہش ظاہر کی تو حضرت شاہ وصی اللہ الہ آبادی رحمۃ اللہ علیہ کو شاق گزرا اور آپ بکثرت یہ شعر پڑھا کرتے تھے۔
پھول کیا ڈالو گے تربت پر میری
خاک بھی تم سے نہ ڈالی جائے گی۔
چنانچہ ہوا بھی یہی ہے، پانی جہاز میں حج کے سفر کے دوران آپ کا انتقال سمندر کے ایسے علاقے میں ہوا، جہاں سے خشکی تک پہنچنا متعینہ مدت میں ممکن نہیں تھا۔ اللہ نے اپنے ولی کے زبان کی یوں لاج رکھی اور نماز کے بعد جنازہ دریا برد کردیا گیا۔ حضرت مفتی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کو تعزیتی اجلاس، قبر کی شناخت، میت کو بغرض تدفین ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرنے کا عمل وغیرہ پسند نہیں تھا۔ حضرت مفتی صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے بارہا دوران درس اور کبھی اپنے خطاب میں بھی ان موضوعات پر اپنی رائے اور ناپسندیدگی کا اظہار فرمایا تھا۔ اللہ کی قدرت، اللہ نے اپنے اس ولی کامل، فنا فی اللہ اور متبع سنت کی رائے کی ایسی لاج رکھی کہ، ہزاروں وابستگان آبدیدہ آنکھوں سے جنازہ کے دیدار کو ترس گئے اور وہ بندہ خدا ایک عالم کو اپنے پیچھے زندگی بھر کا رنج و غم اور حزن و ملال دیکر خاموشی کے ساتھ سر زمین ممبئی کو اپنے باسعادت و بابرکت وجود سے منور کرگیا۔
آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے
سبزہ نورستہ اس گھر کی نگہبانی کرے
استاذ دارالعلوم وقف دیوبند*