حضرت مولانا مفتی سعید صاحب پالنپوری: تعارف وخدمات

ولادت: 1360ھ/ 1940 ء
وفات: 1441 ھ / 2020 ء
✒از: محمد حماد کریمی ندوی
🏛ناظم آل انڈیا المعھد الاسلامی العربی

مختصر سوانحی خاکہ
نام: (سعید) احمد
والد کا نام: جناب یوسف صاحب
جائے پیدائش: کالیڑہ، شمالی گجرات (پالنپور)، انڈیا
تاریخ پیدائش: 1940ء کا آخر مطابق 1360ھ
ابتدائی تعلیم: مکتب (کالیڑہ) شمالی گجرات (پالنپور)، انڈیا
ثانوی تعلیم: مدرسہ سلم العلوم (پالنپور)، مظاہر العلوم (سہارنپور)
تکمیل: دار العلوم دیوبند، (دورۂ حدیث، 1382ھ)
اہم ذمہ داری: شیخ الحدیث و صدر مدرسین دار العلوم دیوبند
🌷ولادت باسعادت اور نام:
آپ کی تاریخ ولادت محفوظ نہیں، البتہ والد محترم نے اندازے سے آپ کاسن پیدائش 1940 ء کا آخر مطابق 1997سمت بکرمی مطابق 1360 ھ بتایا ہے، آپ موضع ’’کالیڑہ‘‘ ضلع بناس کانٹھا (شمالی گجرات) میں پیدا ہوئے، یہ پالن پورسے تقریباً تیس میل کے فاصلہ پر جنوب مشرق میں واقع ہے اور علاقہ پالن پور کی مشہور بستی ہے۔
آپ کا نام والدین نے ’’احمد‘‘ رکھا تھا، سعید احمد آپ نے اپنا نام خود رکھا ہے، آپ کے والد ماجد کا اسم گرامی ’’یوسف‘‘اور دادا کا نام ’’علی‘‘ ہے، جو احتراماً ’’علی جی‘‘ کہلاتے تھے، آپ کا خاندان ’’ڈھکا‘‘ اور برادری ’’مومن‘‘ ہے، جس کے تفصیلی احوال ’’مومن قوم اپنی تاریخ کے آئینہ میں ‘‘ مذکور ہیں۔
🌷تعلیم و تربیت:
جب آپ کی عمر پانچ، چھ سال کی ہوئی، تو والد صاحب نے آپ کی تعلیم کا آغاز فرمایا، لیکن والد مرحوم کھیتی باڑی کے کاموں کی وجہ سے موصوف کی طرف خاطر خواہ توجہ نہیں دے سکتے تھے، اس لئے آپ کو اپنے وطن ’’کالیڑہ‘‘ کے مکتب میں بٹھا دیا، آپ کے مکتب کے اساتذہ یہ ہیں : (۱) مولانا داؤد صاحب چودھری (۲) مولانا حبیب اللہ صاحب چودھری (۳) اور حضرت مولانا ابراہیم صاحب جو نکیہ، جو ایک عرصہ تک دارالعلوم آنند (گجرات) میں شیخ الحدیث رہے۔
مکتب کی تعلیم مکمل کر کے موصوف اپنے ماموں مولانا عبدالرحمن صاحب شیرا قدس سرہ کے ہمراہ ’’چھاپی‘‘ تشریف لے گئے، اور دارالعلوم چھاپی میں اپنے ماموں اور دیگر اساتذہ سے فارسی کی ابتدائی کتابیں چھ ماہ تک پڑھیں، چھ ماہ کے بعد آپ کے ماموں دارالعلوم چھاپی کی تدریس چھوڑ کر گھر آ گئے، تو آپ بھی اپنے ماموں کے ہمراہ آ گئے، اور چھ ماہ تک اپنے ماموں سے ان کے وطن ’’جونی سیندھی‘‘ میں فارسی کی کتابیں پڑھتے رہے۔
اس کے بعد مصلحِ امت حضرت مولانا نذیر میاں صاحب پالن پوری قدس سرہ کے مدرسہ میں جو پالن پور شہر میں واقع ہے داخلہ لیا، اور چار سال تک حضرت مولانا مفتی محمد اکبر میاں صاحب پالن پوری اور حضرت مولانا ہاشم صاحب بخاری رحمہما اللہ سے عربی کی ابتدائی اور متوسط کتابیں پڑھیں …مصلح امت حضرت مولانا محمد نذیر میاں صاحب قدس سرہ وہ عظیم ہستی ہیں، جنھوں نے اس آخری زمانہ میں ’’مومن برادری ‘‘کو بدعات و خرافات اور تمام غیر اسلامی رسوم سے نکال کر ہدایت وسنت کی شاہراہ پر ڈالا، اور ’’مومن برادری‘‘ کی مکمل اصلاح فرمائی، آج علاقۂ پالن پور میں جو دینی فضا نظر آ رہی ہے، وہ حضرت مولانا ہی کی خدمات کاثمرہ ہے، اور حضرت مولانا محمد ہاشم صاحب بخاری، بخاریٰ سے دارالعلوم دیوبند میں تعلیم کے لئے تشریف لائے تھے، فراغت کے بعد پہلے پالن پور، پھر امداد العلوم وڈالی گجرات، پھر جامعہ حسینہ راند یر (سورت) پھر دارالعلوم دیوبند میں تدریس کی خدمات انجام دیں، اور آخر میں ہجرت کر کے مدینہ منورہ چلے گئے، وہیں آپ کا انتقال ہوا، اور جنت البقیع میں مدفون ہیں۔
🌷مظاہر علوم میں داخلہ:
شرح جامی تک پالن پور میں تعلیم حاصل کرنے کے بعد مزید تعلیم حاصل کرنے کے لئے آپ نے ۱۳۷۷ھ میں سہارنپور (یو، پی) کا سفر کیا، اور مظاہر علوم میں داخلہ لے کر تین سال تک امام النحو و المنطق حضرت مولانا صدیق احمد صاحب جموی قدس سرہ سے نحو اور منطق وفلسفہ کی اکثر کتابیں پڑھیں، نیز حضرت مولانا مفتی یحییٰ صاحب سہارنپوری، حضرت مولانا عبد العزیز صاحب رائے پوری رحمہم اللہ اور حضرت مولانا وقار صاحب بجنوری سے بھی کتابیں پڑھیں۔
🌷دارالعلوم دیوبند میں داخلہ:
پھر فقہ، حدیث، تفسیر اور فنون کی اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے لئے ۱۳۸۰ھ میں دارالعلوم دیوبند کا رخ کیا، دارالعلوم دیوبند میں داخل ہو کر پہلے سال حضرت مولانا نصیر احمد خاں صاحب بلند شہری سے تفسیر جلالین مع الفوزالکبیر، حضرت مولانا سید اختر حسین صاحب دیوبندی قدس سرہ سے ہدایہ اولین وغیرہ پڑھیں، اور ۱۳۸۲ھ میں جو کہ دارالعلوم دیوبند کا سوواں سال تھا دورۂ حدیث کی تکمیل فرمائی، آپ نے دارالعلوم دیوبند میں جن حضرات اکابر سے پڑھا وہ مندرجہ ذیل ہیں :
(۱) حضرت مولانا سید اختر حسین صاحب دیوبندی (۲) حضرت مولانا بشیر احمد خاں صاحب بلند شہری(۳) حضرت مولانا سید حسن صاحب دیوبندی (۴) حضرت مولانا عبد الجلیل صاحب کیرانوی (۵) حضرت مولانا اسلام الحق صاحب اعظمی(۶) حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحب دیوبندی (۷) حضرت مولانا فخر الحسن صاحب مراد آبادی (۸) حضرت مولانا محمد ظہور صاحب دیوبندی (۹) فخر المحدثین حضرت مولانا فخر الدین صاحب مراد آبادی (۱۰) امام المعقول و المنقول حضرت علامہ محمد ابراہیم صاحب بلیاوی (۱۱) مفتی اعظم حضرت مولانا مفتی سید مہدی حسن صاحب شاہ جہاں پوری (۱۲) شیخ محمود عبد الوہاب صاحب مصری قدس اللہ اسرارہم و نور اللہ قبور ہم
موصوف اپنے بعض احوال اور کتب حدیث کے اساتذہ کرام کی تفصیل بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ:۔
خاکپائے علماء: سعید احمد بن یوسف بن علی بن جیوا (یعنی یحییٰ) بن نور محمد پالنپوری، گجراتی ثم دیوبندی، تاریخ ولادت محفوظ نہیں، دارالعلوم دیوبند میں داخلہ ۱۳۸۰ھ میں لیا، اور ۱۳۸۲ھ میں فاتحۂ فراغ پڑھا، بخاری شریف حضرت فخر المحدثین حضرت مولانا فخرالدین صاحب مراد آبادی سے، مقدمۂ مسلم شریف ومسلم شریف کتاب الایمان و ترمذی شریف جلد اول حضرت علامہ بلیاوی سے، باقی مسلم شریف حضرت مولانا بشیر احمد خاں صاحب بلند شہری سے، ترمذی جلد ثانی مع کتاب العلل و شمائل اور ابوداؤد شریف حضرت علامہ فخر الحسن مراد آبادی سے، نسائی شریف حضرت مولانا محمد ظہور صاحب دیوبندی سے، طحاوی شریف حضرت مفتی سید مہدی حسن شاہ جہاں پوری سے، مشکوٰۃ شریف حضرت مولانا سید حسن صاحب دیوبندی سے، ان کے انتقال کے بعد جلد اول حضرت مولانا عبدالجلیل صاحب دیوبندی سے، اور جلد دوم حضرت مولانا اسلام الحق صاحب اعظم سے پڑھی، اس سال موطا مالک حکیم الاسلام قاری محمد طیب صاحب اور موطا محمد حضرت مولانا عبد الاحد صاحب دیوبندی کے پاس تھی۔ (مشاہیر محدثین و فقہائے کرام ص/۲۷و۲۸ )
آپ بچپن سے ہی نہایت ذہین و فطین، کتب بینی اور محنت کے عادی تھے، اس پر مذکور بالا اساتذہ کرام کی تعلیم و تربیت نے آپ کی استعداد و صلاحیت کو بائیس سال کی عمر میں ہی بام عروج پر پہنچا دیا تھا، چنانچہ دارالعلوم دیوبند جیسی عظیم دینی درسگاہ کے سالانہ امتحان میں آپ نے اول نمبر سے کامیابی حاصل کی تھی۔
🌷دارالافتاء میں داخلہ:
دورۂ حدیث سے فراغت کے بعد آپ نے شوال ۱۳۸۲ھ میں تکمیل افتاء کے لئے درخواست دی، یکم ذیقعدہ ۱۳۸۲ھ کو آپ کا دار افتاء دارالعلوم دیوبند میں داخلہ ہو گیا، اور حضرت مفتی سید مہدی حسن صاحب شاہ جہاں پوری کی نگرانی میں کتب فتاوی کا مطالعہ اور فتوی نویسی کی مشق کا آغاز فرمایا۔
آپ اپنے بھائی بہنوں میں سب سے بڑے ہیں، اس لئے دورۂ حدیث سے فراغت کے بعد اپنے بھائیوں کی تعلیم وتر بیت کی طرف خصوصی توجہ فرمائی، اسی سال آپ نے سماحۃ الشیخ محمود عبدالوہاب مصری کے پاس حفظ بھی شروع کیا، جو قرآن کریم کے جید حافظ اور مصری قاری تھے، اور جامعۃ الازہر قاہرہ کی طرف سے دارالعلوم دیوبند میں مبعوث تھے۔
الغرض ۱۳۸۲ھ اور ۱۳۸۳ھ میں آپ ایک طرف کتب فتاوی کا مطالعہ، فتوی نویسی کی مشق کرتے تھے، دوسری طرف اپنے بھائی کو حفظ کراتے تھے اور خود بھی حفظ کرتے تھے، اور ان کاموں میں ایسے مصروف ومنہمک تھے کہ رمضان المبارک میں بھی وطن تشریف نہیں لے گئے، ادھر افتاء کمیٹی نے آپ کی صلاحیتوں کو مزید پروان چڑھانے کے لئے دارالافتاء کے داخلہ میں ایک سال کی توسیع کر دی، چھ ماہ بعد دارالعلوم دیوبند کے ارباب انتظام نے آپ کا معین مفتی کی حیثیت سے دارالافتاء دار العلوم دیوبند میں تقرر کر دیا، جب کہ اس زمانہ میں معین مفتی رکھنے کا رواج نہیں تھا، جیسا کہ اب ہے۔
🌷راندیر میں آپ کا تقرر:
دار الافتاء کے نصاب کی تکمیل کے بعد حضرت علامہ بلیاویؒ کے توسط سے آپ کا تقرر دار العلوم اشرفیہ راندیر (سورت) میں درجۂ علیا کے استاذ کی حیثیت سے ہوا، چنانچہ آپ ۲۱ شوال ۱۳۸۴ ھ کو مادر علمی دارالعلوم دیوبند سے اپنے گھر تشریف لے گئے، والدین کی زیارت کا شرف حاصل کیا، پھر اپنے بھائیوں کو ساتھ لے کر راندیر (سورت) تشریف لے گئے، اور دارالعلوم اشرفیہ میں تدریس کا آغاز فرمایا۔
🌷راندیر میں آپ کی خدمات:
نو سال دارالعلوم اشرفیہ راندیر (سورت) میں مولانا مرحوم نے ترجمہ قرآن کریم، ابوداؤد شریف، ترمذی شریف، شمائل، موطین، نسائی شریف، ابن ماجہ شریف، مشکوٰۃ شریف، جلالین شریف مع الفوزالکبیر، ہدایہ آخرین، شرح عقائد نسفی، اور حسامی وغیرہ بہت سی کتابیں پڑھائیں، اور تصنیف و تالیف میں مشغول رہے، اسی عرصہ میں موصوف نے داڑھی اور انبیاء کی سنتیں، حرمت مصاہرت، العون الکبیر اور مولانا محمد بن ظاہر پٹنی قدس سرہ کی ’’المغنی‘‘ کی عربی شرح وغیرہ تصانیف ارقام فرمائیں، جن میں سے اکثر شائع ہو چکی ہیں، نیز اسی زمانہ میں موصوف نے قاسم العلوم والخیرات حضرت مولانا قاسم صاحب نانوتوی قدس سرہ کی کتابوں اور علوم و معارف کی تسہیل و تشریح کا آغاز فرمایا، ایک مضمون ’’افادات نانوتوی ‘‘کے نام سے اسی زمانہ میں الفرقان لکھنو میں قسط وار شائع ہوا تھا، جو نہایت قیمتی مضمون ہے۔
🌷دارالعلوم دیوبند میں آپ کا تقرر:
اسی دوران موصوف کے استاذ محترم حضرت مولانا محمد ہاشم صاحب بخاری نے جو پہلے جامعہ حسینیہ راندیر میں پڑھاتے تھے، پھر دارالعلوم دیوبند میں ان کا تقرر ہو گیا تھا، موصوف کو خط سے مطلع کیا کہ دارالعلوم دیوبند میں ایک جگہ خالی ہے، لہٰذا آپ دارالعلوم میں تدریس کی درخواست بھیجیں، موصوف نے جناب مولانا حکیم محمد سعد رشید صاحب اجمیری کے مشورہ سے درخواست بھیج دی، اس کے ہمراہ ایک مکتوب حضرت قاری محمد طیب صاحب کے نام ارسال فرمایا، حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحب قدس سرہ نے اس کے جواب میں جو گرامی نامہ بھیجا وہ درج ذیل ہے :۔
محتر می ومکرمی زید مجدکم!
سلام مسنون، نیاز مقرون، گرامی نامہ باعث مسرت ہوا، حضرت نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ کی کتب پر کام کرنے کی اطلاع سے غیر معمولی خوشی ہوئی جو صورت آپ نے اختیار فرمائی ہے وہ مناسب ہے، خود میرے ذہن میں ان کتب کی خدمت کی مختلف صورتوں میں سے ایک یہ صورت بھی تھی، الفرقان میں پڑھنے کی نوبت نہیں آئی، ان شاء اللہ رسائل منگوا کر مستفید ہوں گا، اور جو رائے قائم ہو گی وہ عرض کروں گا۔
درخواست منسلکہ مجلس تعلیمی میں بھیج رہا ہوں، اس پر وہاں سے کوئی کار روائی ضرور کی جائے گی، اس کی اطلاع دی جائے گی، دعا کی درخواست، قاسم العلوم کے میرے پاس دو نسخے تھے، ایک نسخہ اسی ضرورت سے وہاں بھیجا گیا، مگر واپس نہیں ہوا، اب ایک رہ گیا ہے جو صاحب نقل کرنا چاہیں وہ ایک وقت مقرر کر کے میرے کتب خانہ میں ہی بیٹھ کر نقل فرما لیا کریں، اور یہاں بحمد للہ خیریت ہے۔ والسلام
محمد طیب از دیوبند
۷-۷-۹۳ھ
یہ گرامی نامہ ۷/رجب ۱۳۹۳ھ کا لکھا ہوا ہے، اسی سال شعبان میں جب مجلس شوری کا انعقاد ہوا، اور درجات عربیہ کے لئے ایک مدرس کے تقرر کا تذکرہ آیا تو حضرت مولانا محمد منظور صاحب نعمانی قدس سرہ نے موصوف کا نام پیش کیا اور اسی مجلس میں موصوف کا تقرر ہو گیا، موصوف کو شعبان ہی میں اس کی اطلاع دے دی گئی، رمضان المبارک کے بعد آپ دارالعلوم دیوبند تشریف لے آئے، اس وقت سے آج تک دارالعلوم دیوبند میں تدریس کی خدمت انجام دیتے رہے۔
🌷دیگر خدمات:
تعلیمی وتدریسی خدمات کے علاوہ موصوف نے دارالعلوم دیوبند میں جو خدمات انجام دیں ان کے مفصل تذکرہ کی اس مختصر تعارف میں گنجائش نہیں، صرف چند خدمات کا ذیل میں تذکرہ کیا جاتا ہے :
(۱) 1402ھ میں حضرت مولانا مفتی نظام الدین صاحب نے طویل رخصت لے لی تھی، حضرت مفتی محمود حسن صاحب گنگوہی قدس سرہ سہانپور چلے گئے تھے، اور کچھ مفتیان کرام نے دارالعلوم سے علاحدگی اختیار کر لی تھی، اس لئے ارباب انتظام نے موصوف کو کتب متعلقہ کی تدریس کے ساتھ شعبۂ افتاء کی نگرانی اور فتوی نویسی کا حکم دیا تھا، جس کو بحسن و خوبی موصوف نے انجام دیا، اس سے پہلے ۱۳۹۵ھ میں بھی موصوف کو دارالافتاء دارالعلوم دیوبند کی نگرانی سپرد کی گئی تھی۔
(۲) جب سے دارالعلوم دیوبند میں ’’مجلس تحفظ ختم نبوت‘‘ کا قیام عمل میں آیا ہے، آپ اس کے ناظم اعلیٰ ہیں، 1419ھ میں آپ نے اس منصب سے سبکدوش ہونے کی مجلس شوری سے درخواست کی تھی، مگر مجلس شوری نے منظور نہیں فرمائی، اور ایک ہزار روپئے ماہانہ الاؤنس کے طور پر طے فرمائے، مگر آپ نے الاؤنس لینے سے انکار کر دیا، اور ذمہ داری کو سنبھال رہے ہیں۔
(۳) مذکورہ بالا خدمات کے علاوہ حضرت مہتمم صاحب دامت برکاتہم جو تحر یری اور تقریری خدمت موصوف کو سپرد فرماتے ہیں، اس کو بحسن و خوبی انجام دیتے ہیں۔
🌷تصنیفی خدمات:
حضرت مولانا کی تصانیف جو شائع ہو کر مشرق و مغرب میں پھیل چکی ہیں، ان میں سے کچھ کا تعارف درج ذیل ہے :
(۱) تفسیر ہدایت القرآن : یہ مقبول عام و خاص تفسیر ہے، پارہ ۳۰ اور ایک تا ۹ حضرت مولانا محمد عثمان کاشف الہاشمی صاحب رحمہ اللہ کے لکھے ہوئے ہیں، بقیہ کام حضرت والا نے کیا ہے۔
(۲) الفوزالکبیر کی تعریب جدید: یہ سابقہ تعریب کی تہذیب ہے، دار العلوم دیوبند اور دیگر مدارس عربیہ کے نصابِ درس میں داخل ہے۔
(۳) العون الکبیر : یہ الفوز الکبیر کی عربی شرح ہے، پہلے قدیم تعریب کے مطابق تھی، اب جدید تعریب کے مطابق کر دی گئی ہے۔
(٤) فیض المنعم: یہ مقدمۂ مسلم شریف کی معیاری اردو شرح ہے، جو ترکیب، حل لغات اور فن حدیث کی ضروری بحثوں پر مشتمل ہے۔
(۵) تحفہ الدر ر: یہ نخبۃ الفکر کی بہترین اردو شرح ہے، کتب حدیث پڑھنے والوں خصوصاً مشکوۃً شریف پڑھنے والوں کے لئے نہایت قیمتی سوغات ہے۔
(٦) مبادی الفلسفہ:اس میں فلسفہ کی تمام اصطلاحات کی عربی زبان میں مختصر اور عمدہ وضاحت کی گئی ہے، دارالعلوم دیوبند، اور دیگر مدارس عربیہ کے نصاب درس میں داخل ہے۔
(۷) معین الفلسفہ: یہ مبادیِ الفلسفہ کی بہترین اردو شرح ہے، اور حکمت وفلسفہ کے پیچیدہ مسائل کی عمدہ وضاحت پر مشتمل معلومات افزا کتاب ہے۔
(۸) مفتاح التہذیب: یہ علامہ تفتازانی کی ’’تہذیب المنطق ‘‘کی ایسی عمدہ شرح ہے کہ اس سے ’’شرح تہذیب‘‘جو مدارس عربیہ کے نصاب درس میں داخل ہے، خوب حل ہو جاتی ہے۔
(۹) آسان منطق: یہ تیسیرا لمنطق کی تہذیب ہے، دارالعلوم دیوبند اور بہت سے مدارس میں ’’تیسیرالمنطق‘‘ کی جگہ پڑھائی جاتی ہے۔
(۱۰) آسان نحو(دو حصے )۔
(۱۱) آسان صرف (دو حصے ) علم نحو اور علم صرف کی جو کتابیں اردو میں لکھی گئی ہیں، ان میں عام طور پر تدریج کا لحاظ نہیں رکھا گیا ہے، جبکہ یہ بات نہایت ضروری ہے، یہ نصاب اسی ضرورت کو سامنے رکھ کر مرتب کیا گیا ہے، یہ نصاب نہایت مفید اور بہت سے مدارس میں داخل درس ہے۔
(۱۲) محفوظات: (تین حصے) یہ آیات و احادیث کا مجموعہ ہے، جو طلبہ کے حفظ کے لئے مرتب کیا گیا ہے، بہت سے مدارس و مکاتب میں داخل نصاب ہے۔
(۱۳) آپ فتوی کیسے دیں؟: یہ علامہ محمد امین بن عابد ین شامی کی شہرۂ آفاق کتاب ’’شرح عقودرسم المفتی‘‘ کی نہایت عمدہ شرح ہے۔
(۱٤) کیا مقتدی پر فاتحہ واجب ہے؟: یہ حضرت مولانا محمد قاسم صاحب نانوتوی قدس سرہ کی کتاب ’’توثیق الکلام‘‘ کی نہایت آسان عام فہم شرح ہے۔
(۱۵) حیات امام ابوداؤد:اس میں امام ابوداؤد سجستانی کی مکمل سوانح، سنن ابی داؤد کا تفصیلی تعارف، اور اس کی تمام شروحات و متعلقات کا مفصل جائزہ سلیس اور دلنشین انداز میں پیش کیا گیا ہے۔
(۱٦) مشاہیر محدثین و فقہائے کرام اور تذکرہ راویان کتب حدیث :اس میں خلفاء راشدین، عشرۂ مبشرہ، ازواج مطہرات، بنات طیبات، مدینہ کے فقہائے سبعہ، مجتہدین امت، محدثین کرام، راویان کتب حدیث، شارحین حدیث، فقہائے ملت، مفسرین عظام، متکلمین اسلام اور مشہور شخصیات کا مختصر جامع تذکرہ ہے۔
(۱۷) حیات امام طحاوی:اس میں امام ابو جعفر طحاوی کے مفصل حالات زندگی، ناقدین پر رد، تصانیف کا تذکرہ، زبدۃطحاوی کی توضیح اور شرح معانی الآثار کا تعارف ہے۔
(۱۸) اسلام تغیر پذیر دنیا میں :
یہ مسلم یونیورسٹی علی گڈھ اور جامعہ ملیہ دہلی کے سمیناروں میں پڑھے گئے چار قیمتی مقالوں کا مجموعہ ہے۔
(۱۹) نبوت نے انسانیت کو کیا دیا؟:
یہ مقالہ جامعہ ملیہ دہلی کے ایک جلسہ میں پیش کیا گیا تھا، پہلے وہ علاحدہ شائع ہوا تھا، اب اس کو ’’اسلام تغیر پذیر دنیا میں‘‘ کے ساتھ شامل کر دیا گیا ہے۔
(۲۰) داڑھی اور انبیاء کی سنتیں :
ناخن تراشنے، حجامت بنوانے، مسواک کرنے، کلی اور ناک صاف کرنے، جسم کے جوڑوں کو دھونے، ختنہ کرنے، پانی سے استنجاء کرنے، بالوں میں مانگ نکالنے، مونچھیں تراشنے اور داڑھی رکھنے کے متعلق واضح احکامات، مسائل، دلائل اور فضائل کا مجموعہ ہے، داڑھی پر ہونے والے اعتراضوں کے جوابات بھی اس کتاب میں شامل ہیں۔
(۲۱) حرمت مصاہرت: اس میں سسرالی اور دامادی رشتوں کے مفصل احکام، اور ناجائز انتفاع کا مد لل حکم بیان کیا گیا ہے۔
(۲۲) تسہیل ادلۂ کاملہ:یہ حضرت شیخ الہند کی مایۂ ناز کتاب ’’ادلۂ کاملہ‘‘ کی نہایت عمدہ شرح ہے، اس میں غیر مقلدین کے چھیڑے ہوئے دس مشہور مسائل کی مکمل تفصیل ہے، یہ شیخ الہند اکیڈمی سے شائع ہوئی ہے۔
(۲۳) حواشی وعناوین ایضاح الادلۃ :ایضاح الادلۃ حضرت شیخ الہند کی شہرۂ آفاق کتاب ہے، اس پر موصوف نے نہایت مفید حواشی ارقام فرمائے ہیں، اور ذیلی عناوین بڑھائے ہیں، یہ کتاب بھی شیخ الہند اکیڈمی سے شائع ہوئی ہے۔
(۲٤) حواشی امداد الفتاوی: موصوف نے قیام راندیر کے زمانے میں یہ حواشی لکھنے شروع کئے تھے، یہ حواشی بھی اہل علم میں وقعت کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں۔
(۲۵) افادات نانوتوی:یہ موصوف کا ایک نہایت قیمتی مضمون ہے، جس کو دارالعلوم اشرفیہ راندیر کی تدریس کے زمانہ میں ارقام فرمایا تھا، اور اسی زمانہ میں الفرقان لکھنو میں قسط وار شائع ہوا تھا۔
(۲٦) افادات رشیدیہ :یہ موصوف کا دوسرا نہایت مفید مضمون ہے، جس کو دارالعلوم دیوبند کی تدریس کے آغاز میں ارقام فرمایا تھا، اور اسی وقت رسالہ دارالعلوم دیوبند میں قسط وار شائع ہوا تھا۔
(۲۷) رحمۃ اللہ الواسعۃ:یہ حجۃ اللہ البالغہ کی مبسوط اردو شرح ہے، حجۃ اللہ البالغہ کی تشریح ایک بھاری قرضہ تھا، جو ڈھائی سوسال سے امت کے ذمہ باقی چلا آ رہا تھا۔
(۲۸) تہذیب المغنی:المغنی علامہ محمد طاہر پٹنی قدس سرہ کی اسماء رجال پر بہتر ین کتاب ہے، موصوف نے اس کی عربی میں شرح لکھی ہے۔
(۲۹) زبدۃالطحاوی:یہ امام طحاوی کی شہرۂ آفاق کتاب ’’شرح معانی الآثار‘‘ کی عربی تلخیص ہے۔
اس کے علاوہ اور بھی کئی کتابیں ہیں۔
🌷دعوتی و تبلیغی خدمات:
مذکورہ بالا تعلیمی وتدریسی اور تصنیفی مصروفیات کے باوجود آپ ملک و بیرون ملک کے دورے کرتے رہتے تھے، اور جو حضرات دینی باتیں سننے کے مشتاق ہیں، ان کو اپنی نواسنجیوں سے نوازتے رہتے تھے، آپ دارالعلوم دیوبند کی تدریس کو بحسن و خوبی انجام دیتے ہوئے اور تصنیفی کام جاری رکھتے ہوئے، درمیان سال میں وقتاً فوقتاً ملک و بیرون ملک کے مختصر دورے کرتے رہتے تھے، اور رمضان المبارک کی طویل تعطیل میں کبھی برطانیہ، کبھی کناڈا، کبھی افریقہ اور امریکہ تشریف لے جاتے، ایک دن میں کئی کئی تقریریں کرتے، سعادت مند سامعین کو اللہ اور اس کے رسولﷺ کی اطاعت، خوف خدا و فکر آخرت اور اعمال صالحہ پر ابھارتے رہتے، حرام اور منکر باتوں سے نہایت مؤثر انداز میں باز رہنے کی تلقین فرماتے رہتے۔
🌷انداز خطابت اور تصنیفی خصوصیات:
جس طرح موصوف کا انداز خطابت نہایت مؤثر، درس نہایت مقبول اور عام فہم ہوتا تھا، اسی طرح آپ کی تمام تصانیف نہایت آسان، عام فہم اور مقبول عام و خاص ہیں، آپ کی تقریریں نہایت مبسوط اور علمی نکات سے پر، اور تحریر یں نہایت مرتب، واضح اور جامع ہوتی، اسی لئے آپ کی کئی تصانیف دارالعلوم دیوبند اور دیگر مدارس عربیہ کے نصاب درس میں داخل ہیں۔
🌷ترقیات کا راز:
مفتی صاحب کو اللہ جل شانہ و عم نوالہ نے بہت سی خوبیوں اور کمالات سے نوازا تھا، آپ کا ذوق لطیف، طبیعت سادہ اور نفیس تھا، مزاج میں استقلال اور اعتدال تھا، فطرت میں سلامت روی اور ذہن رسا کے مالک تھے، زود نویس اور خوش نویس تھے، حق و باطل اور صواب و خطا کے درمیان امتیاز کرنے کی وافر صلاحیت رکھتے تھے اور حقائق و معارف کے ادراک میں یکتائے زمانہ تھے۔
اور سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ موصوف اپنے کاموں میں نہایت چست اور حالات کا جوانمردی سے مقابلہ کرنے والے تھے، موصوف کو قریب سے دیکھنے والوں کا کہنا ہے کہ ہم نے حضرت اقدس جیسا شب و روز محنت کرنے والا مصروف آدمی اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھا، آپ کے تمام شاگرد جانتے ہیں کہ آپ کادرس کتنا مقبول تھا؟ اور جن حضرات کو آپ کی تصانیف دیکھنے، اور تقاریر سننے کا موقع ملا ہے، وہ جانتے ہیں کہ آپ کی تصانیف اور تقاریر کتنی پر مغز، مرتب اور جامع ہوتی ہیں ؟اور آپ کے خدام جانتے ہیں کہ حضرت اقدس اپنی اور اپنے متعلقین کی کتابوں کی تصحیح و طباعت کا کتنا اہتمام فرماتے تھے اور اپنے بھائیوں اور اہل و عیال کی تعلیم و تربیت کا کس قدر خیال فرماتے تھے۔
🌷اجازت بیعت و ارشاد:
موصوف جس طرح علوم ظاہری میں درک و کمال رکھتے تھے اسی طرح علوم باطنی سے بھی بہرہ ور تھے، مگر اس کا اس قدر اخفاء فرماتے ہیں کہ عام طور پر لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ آپ صرف علوم ظاہری میں مہارت رکھتے ہیں، جب کہ حقیقت یہ ہے کہ آپ طالب علمی کے زمانہ سے حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا صاحب قدس سرہ سے بیعت تھے، اور دیگر بزرگان دین سے بھی فیض یافتہ ہیں، خاص طور پر حضرت اقدس مولانا عبد القادر صاحب رائے پوری قدس سرہ کی مجالس میں مظاہر علوم کی طالب علمی کے زمانہ میں شرکت کرتے رہے ہیں، اور حضرت مولانا مفتی مظفر حسین صاحب مظاہری کے مجاز بیعت و ارشاد تھے۔
🌷زیارت حرمین شریفین:
موصوف نے کئی بار زیارت حرمین شریفین کا شرف حاصل کیا، سب سے پہلے 1400ھ مطابق ۱۹۸۰ء میں اہلیہ محترمہ کے ساتھ پانی کے جہاز سے سفر کیا، اور فریضۂ حج ادا کیا …پھر ۱۴۰۶ھ مطابق ۱۹۸۶ء میں افریقہ سے دوسرا حج کیا، چونکہ آپ پہلے فرض حج ادا کر چکے تھے، اس لئے موصوف نے یہ دوسرا حج آنحضرتﷺ کی طرف سے حج بدل کے طور پرکیا ہے …پھر ۱۴۱۰ھ مطابق ۱۹۹۰ء میں سعودی وزارت حج و اوقاف کے مہمان کی حیثیت سے تیسرا حج کیا…اور ایک بار ربیع الاول ۱۴۱۴ھ میں عمرہ کرنے کے لئے تشریف لے گئے۔
انتقال پر ملال
حضرت مفتی صاحب 25/ رمضان المبارک 1441 ھ مطابق 19/ مئ بروز پیر بوقت چاشت اپنے مالک حقیقی سے جا ملے۔
اللہ تعالیٰ حضرت مفتی صاحب کی بال بال مغفرت فرمائے، اور ان کی قبر کو نور سے بھر دے !آمین۔
٭٭٭
📚مزید تفصیلات کے لئے ملاحظہ ہو:
1⃣ روشن چراغ
2⃣ العون الکبیر میں شامل مولانا مفتی محمد امین صاحب کا مضمون۔
3⃣ رحمۃ اللہ الواسعۃ میں درج حالات۔
4⃣ مفتی صاحب کی تصنیفات۔

Related Posts

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے