یہ خاموشی كہاں تک؟ لذت فریاد پیدا كر!!

بقلم : مفتی محمد اجمل قاسمی
استاد تفسیروادب مدرسہ شاہی مرادآباد

حالات وآزمائشیں زندگی كا لازمہ ہیں‏،افراد ہوں یاجماعتیں، نیكوں كا قافلہ ہویا گندوں اورفسادیوں كا ٹولہ‏، سب كی راہیں امتحان وآزمائش كی گھاٹیوں سے ہوكرہی گذرتی ہیں‏، قرآن كریم نے انسانوں كی ہدایت ونصیحت كے لیے قوموں كی تاریخ كے جوسچے واقعات كہیں تفصیل اوركہیں اختصار كے ساتھ باربار دہرائے ہیں‏، ان میں اس حقیقت كوالگ الگ پیرائے اورجداجدا اسلوب میں واضح طورپربیان كیا گیا ہے ‏، تاریخ كے صفحات اورروزمرہ كے مشاہدات سےبھی اس حقیقت كی سچائی كا تجربہ ہوتا رہتاہے۔

دنیا چوں كہ امتحان گاہ ہے؛ لہٰذا بندے كی قلبی كیفیات ، اس كے ایمان اوراس كے كردار وعمل كی سچائی كوپركھنے كے لیے بھی ناخوش گوار حالات اورآزمائشیں ناگزیرہیں‏، اورچوں كہ بندہ اپنی افتادِ طبع كے اعتبار سے انجام سےبے پروا‏، ناعاقبت اندیش اورغفلت كیش واقع ہوا ہے ‏؛ لہٰذا خواب غفلت سے بیدار كرنے ‏، اورنفس پرستی سے نكال كرخدا پرستی كی طرف لانے كے لیے بھی مصائب و آلام سے اس كوگذارنا ازبس ضروری ہے۔ قرآن كریم میں یہ مضمون مختلف آیات میں دہرایاگیاہے‏، كہیں پر ایمان والوں كو پیش آنے والے امتحان كی غرض وغایت كو بیان كرتے ہوئے كہاگیا:‘‘وَلِيَبْتَلِيَ اللّهُ مَا فِي صُدُورِكُمْ وَلِيُمَحِّصَ مَا فِي قُلُوبِكُمْ وَاللّهُ عَلِيمٌ بِذَاتِ الصُّدُورِ‏’’(آل عمران:154) ‘‘اوریہ سب اس لیے ہواتاكہ جوكچھ تمہارے سینوں میں ہے اللہ اسے آزمائے ‏، اورجوكچھ تمہارے دلوں میں ہے اللہ اس كا میل كچیل دوركرے‏،اوراللہ دلوں كے بھید جانتاہے ’’۔اوركہیں ابتلاء وآزمائش كا سبب اورمقصد ان الفاظ میں بیان ہوا :‘‘ظَهَرَ الْفَسَادُ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ بِمَا كَسَبَتْ أَيْدِي النَّاسِ لِيُذِيقَهُم بَعْضَ الَّذِي عَمِلُوا لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُونَ‏’’ (الروم:41)‘‘لوگوں نے اپنے ہاتھوں جوكمائی كی اس كی وجہ سے خشكی اورتری میں فسادپھیلا‏، تاكہ انہوں نے جوكام كیے ہیں اللہ اُن میں سے كچھ كا مزہ انہیں چكھائے ‏، شاید وہ بازآجائیں’’۔

آزمائش اوریاد خدا كی طرف متوجہ كرنے كے لیے جوواقعات پیش آتے ہیں وہ انفرادی نوعیت كے بھی ہوتے ہیں‏، اوراجتماعی اورقومی نوعیت كے بھی ‏، اورپھریہ واقعات كبھی توفرد وقوم كے لیےمحض ضرررساں ہی ہوتے ہیں‏؛مگركبھی ایسے مہیب روح فرسا اورہولناك ہوتے ہیں كہ جماعت وقوم كی بقا اوروجود پر ہی خطرات كے بادل منڈلانے لگتے ہیں‏،ان حالات میں بسااوقات عزم وہمت كے كوہ گراں بھی كچھ دیر كے لیے اپنی جگہ سےہل جاتے ہیں ‏، اورخاصان خدا بھی گھبرا كراپنےنجات دہندہ رب كوبے تابانہ پكار اٹھتے ہیں‏، آئیے! خدائے بزرگ وبرتر كی پاك كتاب سےاس اجمال كی تفصیل اوردعوے كی دلیل سماعت كرتے ہیں‏، باری تعالیٰ كا ارشاد ہے‏:‘‘وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَيْءٍ مِّنَ الْخَوفْ وَالْجُوعِ وَنَقْصٍ مِّنَ الأَمَوَالِ وَالأنفُسِ وَالثَّمَرَاتِ وَبَشِّرِ الصَّابِرِينَ’’(البقرۃ:155)‘‘ اوردیكھوہم تمہیں آزمائیں گے ضرور‏،( كبھی )خوف سے ‏، (كبھی ) بھوك سے ‏، اور(كبھی) مال وجان اورپھلوں میں كمی كركے۔ اورجولوگ (ایسے حالات) میں صبرسے كام لیں ان كوخوشخبری سنادو’’۔

ایك دوسرے مقام پروجود وبقا كے لیے خطرات پیدا كرنے والے واقعات كا تذكرہ كرتے ہوئے ارشاد فرمایا:‘‘ اَمْ حَسِبْتُمْ أَن تَدْخُلُواْ الْجَنَّةَ وَلَمَّا يَأْتِكُم مَّثَلُ الَّذِينَ خَلَوْاْ مِن قَبْلِكُم مَّسَّتْهُمُ الْبَأْسَاءُ وَالضَّرَّاءُ وَزُلْزِلُواْ حَتَّى يَقُولَ الرَّسُولُ وَالَّذِينَ آمَنُواْ مَعَهُ مَتَى نَصْرُ اللّهِ أَلا إِنَّ نَصْرَ اللّهِ قَرِيبٌ‏’’(البقرۃ:214)‘‘ كیا تم نے سمجھ ركھا ہے كہ جنت میں تم ( یوں ہی )داخل ہوجاؤگے‏، حالاں كہ ابھی تمہیں اس جیسے حالات بیش نہیں آئے جیسے ان لوگوں كوپیش آئے تھے جوتم سے پہلے ہوگذرے ہیں‏،ان پر سختیاں اورتكلیفیں آئیں ‏، اورانہیں ہلاڈالا گیا ‏، یہاں تك كہ رسول اوران كے ایمان والے ساتھی بول اٹھے كہ اللہ كی مدد كب آئے گی ‏، یاد ركھو! اللہ كی مدد نزدیك ہے ’’۔

ایك اور مقام پر اسی طرح كےنازك حالات كا تذكرہ ہے جوصحابہ كوغزوہ خندق میں پیش آیا۔ارشاد ہے: ‘‘إِذْ جَاؤُوكُم مِّن فَوْقِكُمْ وَمِنْ أَسْفَلَ مِنكُمْ وَإِذْ زَاغَتْ الْأَبْصَارُ وَبَلَغَتِ الْقُلُوبُ الْحَنَاجِرَ وَتَظُنُّونَ بِاللَّهِ الظُّنُونَا . هُنَالِكَ ابْتُلِيَ الْمُؤْمِنُونَ وَزُلْزِلُوا زِلْزَالًا شَدِيدًا‏’’(الأحزاب:10و12)‘‘یادكرو جب دشمن تم پر تمہارے اوپر سے بھی چڑھ آئے تھے اورتمہارےنیچے سے بھی‏، اورجب آنكھیں پتھراگئی تھیں اوركلیجے منہ كوآرہے تھے‏، اورتم اللہ كے بارے میں طرح طرح كی باتیں سوچنے لگے تھے ‏، اس موقع پر ایمان والوں كی بڑی آزمائش ہوئی ‏، اورانہیں ایك سخت بھونچال میں ڈال كر ہلایا گیا’’۔

بندوں كوحالات میں مبتلاكرنے كے بہت سے مقاصد قرآن وحدیث میں بیان ہوئے ہیں ‏؛ مگر ایك عمومی مقصد جو قدرت كی طرف سے پیش آنے والی تمام آزمائشوں میں ہوتاہے یہ ہے كہ بندوں كے رخ كوان مصائب كے ذریعہ اللہ كی طرف موڑا جائے؛ چنانچہ سركشی پر كمربستہ بندوں كوحالات كے ذریعہ بے بس كركے اللہ كے وجود اوراس كی قدرت قاہرہ كوسمجھنے اور اس كے حضورجبین نیاز خم كرنے كی دعوت دی جاتی ہے‏، غفلت اورہواپرستی میں مدہوش لوگوں كوہوش كےناخن لینے اوربندگی كے تقاضوں كو پورا كرنے پر آمادہ كیا جا‏تاہے، اورجوپہلے سے بندگی كے تقاضوں كوپوراكررہے ہیں انہیں الحاح وزاری بڑھانےكی طرف متوجہ كیا جاتاہے‏، قرآن كریم میں اس مضمون كی بے شمار آیات ہیں ‏، بعض اوپر بھی گذرچكی ہیں‏، ایك آیت اورپیش خدمت ہے :‘‘ وَلَقَدْ أَرْسَلنَآ إِلَى أُمَمٍ مِّن قَبْلِكَ فَأَخَذْنَاهُمْ بِالْبَأْسَاءِ وَالضَّرَّاءِ لَعَلَّهُمْ يَتَضَرَّعُونَ،‏،(الأنعام:42)

‘‘تم سے پہلے ہم نے بہت سی قوموں كے پاس پیغمبر بھیجے ‏، پھر ہم نےانہیں سختیوں اورتكلیفوں میں گرفتاركیاتاكہ وہ عجز ونیاز كاشیوہ اپنائیں ’’۔

رب رحیم كی شانِ رحمت كا ہی یہ حصہ ہے كہ وہ اپنے تمام بندوں كومصائب وآلام كے ذریعہ اپنی سیدھی راہ‏، راہِ نجات كی طرف آنے كے لیے آمادہ كرتارہتاہے ‏؛ تاكہ یہ بندے دنیا میں اپنے كو درست كرلیں ‏،اورآخرت كے ہولناك عذاب سے بچ جائیں ‏؛ مگر بندے اپنی الگ الگ افتادِ طبع كی وجہ سے قدرت كی ان آگاہیوں كے بارے میں :جداجدا رخ اختیاركرتے ہیں‏، عارف شیرازی نے خوب كہا:

باراں كی درلطافت ِطبعش خلاف نیست
درباغ لالہ روید و درشورہ بوم خس

‘‘بارش كی لطافت ِطبع توایك ہی ہے ‏؛ مگر یہی بارش گلشن پربرستی ہے تولالہ و گل اگتے ہیں، اور بنجرزمین پربرستی ہے تو خس وخاشاك پیدا ہوتے ہیں۔’’

اسی مضمون كواردوشاعر نے بھی ایك دوسرے انداز سے ادا كیاہے:

عشق كی چوٹ توپڑتی ہے دلوں پر یكساں
ظرف كے فرق سے آواز بد ل جاتی ہے

بلاشبہ سعادت مند روحیں قدرت كی ان آگاہیوں پر ہوش كے ناخن لیتی ہیں‏،اورجوبدبخت ہیں ان كی حرماں نصیبی میں اورہی اضافہ ہوجاتاہے‏۔ان بدنصیبوں میں ایك گروہ ان خدا بیزارلوگوں كا ہوتاہے جو قدرت كی اِن آگاہیوں كو خدائی وارننگ سمجھنے كے بجائے بخت واتفاق كا كرشمہ قراردیتے ہیں ‏، اوركہتے ہیں زندگی میں اتارچڑھاؤ تولگاہی رہتاہے ‏، پہلے بھی ایسا ہوتارہا ہے‏، آگے بھی ایسا ہی الٹ پھیر ہوتارہےگا‏،یہ كوئی ایسی چیزنہیں جسے خدائی تنبیہ سمجھا جائے ، اس طرح یہ لوگ اپنے خلاف فرد جرم میں ایك اوراضافہ كركےآخرت كے ساتھ دنیا میں بھی اپنے كوخدائے بزرگ وبرتر كے عذاب كا مستحق بنالیتے ہیں‏، ارشاد ہے : ‘‘وَمَا أَرْسَلْنَا فِي قَرْيَةٍ مِّن نَّبِيٍّ إِلاَّ أَخَذْنَا أَهْلَهَا بِالْبَأْسَاءِ وَالضَّرَّاءِ لَعَلَّهُمْ يَضَّرَّعُونَ . ثُمَّ بَدَّلْنَا مَكَانَ السَّيِّئَةِ الْحَسَنَةَ حَتَّى عَفَواْ وَّقَالُواْ قَدْ مَسَّ آبَاءنَا الضَّرَّاء وَالسَّرَّاء فَأَخَذْنَاهُم بَغْتَةً وَهُمْ لاَ يَشْعُرُونَ’’(الأعراف:94و95)‘‘اور ہم نے جس كسی بستی میں كوئی پیغمبر بھیجا‏،اُس میں رہنے والوں كوبدحالی اورتكلیفوں میں گرفتارضروركیا‏، تاكہ وہ عاجزی اختیاركریں۔ پھرہم نے كیفیت بدلی ‏، بدحالی كی جگہ خوش حالی عطافرمائی ‏، یہاں تك كہ وہ خوب پھلے پھولے‏، اوركہنے لگے كہ دكھ سكھ توہمارے باپ دادوں كوبھی پہنچتے رہے‏ہیں‏، پھر ہم نے انہیں اچانك اس طرح پكڑ لیا كہ انہیں (پہلے سے) پتہ بھی نہیں چل سكا’’۔

بدنصیبوں كا دوسرا گروہ ان منافق صفت لوگوں كا ہوتاہے‏، جوایمان ویقین سے تہی مایہ ہوتے ہیں‏ ، نہ تووہ كتاب خداكی حقانیت كے قائل ہوتے ہیں‏، اورنہ ہی اسلام پر ان كوبھروسہ ہوتاہے‏، زمانہ میں رائج لبرل اورمادی افكارہی ان كے نزدیك سب سے مثالی اورقابل تقلید ہوتے ہیں؛ مگر چوں كہ وہ نام نہادمسلم گھرانوں میں پیدا ہوئے ‏، اسلامی نام ركھتے ہیں‏، كوئی سماج انہیں اپنے سماج میں باعزت مقام دینے كے لیے تیار نہیں‏؛لہٰذا شادی بیاہ وغیرہ كی سماجی مجبوریوں كی وجہ سے وہ نارمل حالات میں اپنے كومسلمانوں كے ساتھ ہی ركھتے‏ ہیں‏، یہ گروہ بھی خدا كی طرف سے آنے والی آگاہیوں پر ہوش كے ناخن لینے اورچونكنےكے بجائے كچھ اورہی رنگ لاتاہے‏، ان حالات میں ان كا اندرون پوری طرح بے نقاب ہوجاتاہے ‏، اسلام اوراہل اسلام پر كھلے طورپر ظنزكرنے لگتے ہیں‏، اللہ اوررسول كے وعدوں كا مذاق بناتے ہوئے ان كوفریب قراردیتے ہیں‏، اورملت كے دشمنوں كی زبان بولنے لگ جاتے ہیں‏، اللہ تعالیٰ ان كی اس مزاجی خصوصیت كو ان الفاظ میں بیان كرتاہے: ‘‘وَإِذْ يَقُولُ الْمُنَافِقُونَ وَالَّذِينَ فِي قُلُوبِهِم مَّرَضٌ مَّا وَعَدَنَا اللَّهُ وَرَسُولُهُ إِلَّا غُرُورًا‏’’(الأحزاب:12)‘‘ اوریاد كرو جب منافقین اوروہ لوگ جن كے دلوں میں روگ ہے یہ كہہ رہے تھے كہ ‘‘ اللہ اوراس كے رسول نے ہم سے (كامیابی وكامرانی كا) جووعدہ كیا ہے وہ دھوكے كے سواكچھ نہیں‏’’۔

قرآن كریم میں بے شمار آیتیں ہیں جن میں اس گروہ كی ذہنیت كے حالات تفصیل سے بیان كركے ان سے ہوشیار رہنے كوكہا گیاہے‏، آج امت ایك بڑے ہی نازك دورسے گذررہی ہے ‏، ہرآنے والادن اپنے ساتھ ایك نیاامتحان لے كر نمودار ہوتاہے ‏، ان حالات میں كیا آئے دن ایسے افراد سامنے آكر ہمیں چونكا نہیں دیتے جو كبھی ہماری ہی صف میں ہواكرتے تھے ‏، ہمارے ہی جیسے ان كے نام ہیں‏‏؛ مگر آج اس كٹھن گھڑی میں جب ان كی زبان كا بند ٹوٹتاہے تووہ گل افشانیاں ہوتی ہیں كہ كانوں كوسننے كی تاب نہیں ہوتی‏، علماء ‏، مشائخ ‏،داعیان اسلام‏ اورعام دیندار مسلمانوں كوكوستے رہنا ان كا محبوب مشغلہ ہوتاہے ‏، ملت كوكسی بھی محاذ پر ناكامی ہو‏، اس كے اسباب كچھ بھی ہوں‏؛ مگر ناكامیوں كا ٹھیكرا ہمیشہ اُنہیں غریبوں كے سر پھوڑا جاتاہے‏، جنہوں نے تمام ترمشكلوں اوردشواریوں كے باوجود اسلام كوحرزجان بنائےركھا ہے ‏، اورہمیشہ اس كے لیے سینہ سپر رہتے ہیں‏،‘‘وَإِن تُصِبْهُمْ حَسَنَةٌ يَقُولُواْ هَـذِهِ مِنْ عِندِ اللّهِ وَإِن تُصِبْهُمْ سَيِّئَةٌ يَقُولُواْ هَـذِهِ مِنْ عِندِكَ’’(النساء:78)‘‘ان منافقین كواگر كوئی بھلائی پہنچتی ہے تووہ كہتے ہیں كہ یہ اللہ كی طرف سے ہے، اوراگر كوئی برا واقعہ پیش آجاتا ہےتو(اے پیغمبر!) وہ( تم سے) كہتے ہیں كہ یہ برا واقعہ آپ كی وجہ سے ہواہے’’۔

تیسری سعادت مند جماعت ان مومن بندوں كی ہوتی ہے جوقدرت كی آگاہیوں كوسمجھتے ہیں‏۔ ہولناك ‏روح فرسا واقعات، وجودوبقا اوردین وایمان كودرپیش خطرات سے اپنی بشری كمزوری كی وجہ سے وہ مضطرب اوربے قرارتوہوتے ہیں‏؛ مگر پھر اللہ كی طرف متوجہ ہوتے ہیں‏، الحاح وزاری اورفریاد كرنے لگ جاتے ہیں‏، اپنی زندگی كا جائزہ لیتے ہیں‏،مصائب پر صابر اورقضاء الہٰی پر راضی ہوتے ہیں‏، دین پر استقامت اورپامردی كا مظاہرہ كرتے ہیں‏، چیلنجز جس قدر گمبھیرہوتے جاتے ہیں خدا كے وعدوں پر یقین اوراس كی راہ میں قربانی كا جذبہ ان میں اسی قدر بڑھتاجاتاہے‏،نتیجہ یہ ہوتا ہے كہ آزمائشوں كی بھٹی سے ان كا ایمان زرخالص بن كرنكلتاہے‏، ان پر اللہ كی رحمتیں اورخصوصی عنایتیں ہوتی ہیں‏، ان كے درجات بلند ہوتے ہیں اورگناہ مٹتے ہیں۔ یہ مضمون قرآن كریم كی متعددآیات میں موجودہے جن كے نقل كی یہاں گنجائش نہیں ؛ البتہ ایك آیت نقل كردینا مناسب معلوم ہوتا ہے ‏، ایك بہت ہی نازك گھڑی میں صحابہ نے زبردست ایمانی جذبے كا اظہار كیا‏، قرآن ان كی تعریف كرتے ہوئے كہتا ‏ ہے،‏‏:‘‘الَّذِينَ اسْتَجَابُواْ لِلّهِ وَالرَّسُولِ مِن بَعْدِ مَآ أَصَابَهُمُ الْقَرْحُ لِلَّذِينَ أَحْسَنُواْ مِنْهُمْ وَاتَّقَواْ أَجْرٌ عَظِيمٌ . ا‎لَّذِينَ قَالَ لَهُمُ النَّاسُ إِنَّ النَّاسَ قَدْ جَمَعُواْ لَكُمْ فَاخْشَوْهُمْ فَزَادَهُمْ إِيمَاناً وَقَالُواْ حَسْبُنَا اللّهُ وَنِعْمَ الْوَكِيلُ . ‎‎‎‎فَانقَلَبُواْ بِنِعْمَةٍ مِّنَ اللّهِ وَفَضْلٍ لَّمْ يَمْسَسْهُمْ سُوءٌ وَاتَّبَعُواْ رِضْوَانَ اللّهِ وَاللّهُ ذُو فَضْلٍ عَظِيمٍ‏’’(آل عمران:172‏،173)‘‘ وہ لوگ جنہوں نے زخم كھانے كے بعد بھی اللہ اوررسول كی پكار كا فرماں برداری سے جواب دیا ‏، ایسے نیك اورمتقی لوگوں كے لیے زبردست اجرہے ‏، وہ لوگ جن سے كہنے والوں نے كہاتھاكہ یہ( مكہ كے كافر)لوگ تمہارے( مقابلے )كےلیے جمع ہوگئے ہیں‏؛ لہٰذا ان سے ڈرتے رہنا ‏،تواس خبرنے ان كے ایمان میں اوراضافہ كردیا ‏، اوروہ بول اٹھے كہ ہمارے لیے اللہ كافی ہے اوروہ بہترین كارسازہے‏،نتیجہ یہ كہ یہ لوگ اللہ كی نعمت اورفضل لے كرواپس آئے كہ انہیں ذرا بھی گزند نہیں پہنچی ‏، اوروہ اللہ كی خوشنودی كے تابع رہے اوراللہ فضل عظیم كا مالك ہے ’’۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم كی زندگی میں سب سے مشكل حالات اس وقت پیش آئے‏،جب ایك ہی سال آپ كی غمگسار رفیق حیات حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا اورمہربان چچا ابوطالب چند مہینوں كے فاصلے سے یكے بعد دیگر ے اس دارفانی سے كوچ كرگئے ‏، آپ مكہ میں ابوطالب كی امان میں تھے‏‏؛ اس لیے تمام ترنفرت وعداوت كے باوجود اہل مكہ كوآپ كے جان ومال پر دست درازی كی ہمت نہ تھی، ابوطالب كے جانے كے بعد صورت حال بدل گئی‏، اب مكہ میں نہ آپ كی جان محفوظ رہی نہ مال؛ لہٰذا آپ نے سوچا كہ دعوت كے لیے كوئی نیا محفوظ میدان تلاش كیاجائے‏؛ چنانچہ اس مقصد سے آپ طائف تشریف لے گئے ‏، اورثقیف كےسرداروں كے سامنے اپنا مدعا ركھ كرامان طلب كی‏؛ مگر وہاں آپ كوانتہائی حوصلہ شكن حالات كا سامناہوا‏، آپ پر آوازے كسے گئے‏، توہین كی گئی ‏، اورپتھروں سے مارماركرآپ كوبستی سے نكال دیا گیا‏، دل چورتھا‏،بدن زخمی اورلہولہان تھا‏، طائف میں ٹھكانہ نہیں ‏، مكہ جائیں توجان محفوظ نہیں‏، دیكھیں كہ ایسے نازك وقت اوربے بسی كے حالات میں آپ نے كیاكیا؟اس میں امت كے لیے بڑا سبق ہے‏، مشكل حالات میں ہربندہ مومن كا یہی شیوہ ہوناچاہیے ‏، آپ نے اپنے رب كے حضورہاتھ اٹھادئے اوربڑی موثرفریاد كی‏،آپ نے فرمایا:

‘‘اَللَّهُمَّ إلَيكَ أَشْكُوضُعْفَ قُوَّتِي، وَقِلَّةَ حِيْلَتِي، وَهَوَانِي عَلَى النَّاسِ، يَاأَرْحَمَ الرَّاحِمِينَ، أنْتَ رَبُّ الْمُسْتَضْعَفِينَ وَأَنْتَ رَبِّي، إلَى مَنْ تَكِلُنِي؟ إلَى بَعِيدٍ يَتَجَهَّمُنِي، أوْ عَدُوٍّ مَلَّكْتَهُ أمْرِيْ؟ إنْ لَمْ يَكْنْ بِكَ عَلَيَّ غَضَبٌ فَلَاأبَالِيْ، وَلكِنَّ عَافِيَتَكَ أوْسَعُ لِي،أعُوْذُ بِنُورِ وَجْهَكَ الَّذِيْ أشْرَقَتْ لَهُ الظُّلُمَاتُ، وَصَلُحَ عَلَيْهِ أمْرُ الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ مِنْ أنْ تُنْزِلَ بِيْ غَضَبَكَ أوْيَحِلَّ عَلَيَّ سَخَطُكَ، لَكَ الْعُتْبَى حَتّى تَرضَى، وَلاَحَولَ وَلَاقُوَّةَ إلّا بِكَ’’(كذافي سيرة ابن هشام، فضائل اعمال للكاندهلوي:1/10 )
‘‘اے اللہ! تجھی سےمیں اپنی كمزوری ‏، بے كسی اورلوگوں میں ذلت ورسوائی كی شكایت كرتاہوں۔ اے سب سے زیادہ رحم كرنے والے توہی كمزوروں كا رب ہے ‏، اورتوہی میرا پروردگارہے،تومجھے كس كے حوالے كرتاہے؟ اجنبی اوربے گانہ كے؟ جومجھے دیكھ كر ترش روہوتاہے اورمنہ چڑھاتاہے‏، یاكسی دشمن كے ؟ جس كوتونے مجھ پرقابودے ركھاہے ‏، اے مولا! اگر تومجھ سے ناراض نہیں ہے، تومجھے كچھ بھی پرواہ نہیں‏، تیری حفاظت مجھے كافی ہے ‏، میں تیرے چہرے كے اس نوركے طفیل جس سے تمام اندھیریاں روشن ہوگئیں اورجس سے دنیا اورآخرت كے سارے كام درست ہوجاتے ہیں اس بات سے پناہ چاہتاہوں كہ مجھ پر تیرا غصہ ہویاتومجھ سے ناراض ہو‏،تجھے مناتارہوں گایہاں تك كہ توراضی ہوجائے ‏، تیرے سوانہ كوئی طاقت ہے نہ قوت‏،‏،

ٹوٹے ہوئے دل كی فریاد نے عرش كے ستونوں كوہلاكرركھ دیا ‏، اللہ كی شان قہاری كوجوش آگیا‏،جبریل امین فورا تشریف لائے‏، آپ كوتسلی دی ‏،اورفرمایا پہاڑوں كافرشتہ میرےساتھ ہے ‏، حكم دیں تویہ طائف كے دونوں پہاڑوں كوآپس میں ملادیں گے‏، اوروادی میں بسے ہوئے یہ ظالم پِس كرنیست نابود ہوجائیں گے‏، مگر آپ كی شان ِرحمت نے یہ گوارا نہیں فرمایا۔

جو رب كریم پہلے لوگوں كی آزمائش اوربھٹكے ہوئے بندوں كوراہ راست پر لانے كے لیے ان پرمصائب وحالات لاتا رہاہے اپنی سنت كے مطابق اس نے ہمیں بھی آج حالات میں مبتلاكیا ہے ‏،یہ حالات بڑے نازك ہیں‏، كرونا كی عالمی وباء نے بھیانك طوفان برپا كرركھاہے‏، معاشی بحران پہلے بھی كم نہ تھا اب مستقل بندش كی وجہ سے یہ بحرانی كیفیت كس قدر ہولناك ہوتی جارہی ہے اندازہ لگانا مشكل ہے، ادھر ملك كے فرقہ پرست حكمران ملت اسلامیہ كوگھیرنےاوراس كے وجود كو مٹانے كے لیے مسلسل اقدام كئے جارہے ہیں‏، اورامت مرحوم پر ظلم كے كوڑے بے تكان برسائے جارہے ہیں‏، یہ امتحان كی ایك مشكل گھڑی ہے ‏، سوال ہے كہ ہم ان آزمائشوں اورآگاہیوں كا سامنا كس طرح كررہے ہیں‏؟ كیا اس طرح جیسے خدا كے دشمن كیا كرتے ہیں ؟ كیا اس طرح جیسے منافق اوردل كے روگی كرتے ہیں‏؟ اگر ایساہے اورخدا نہ كرے كہ ایسا ہوتویہ ہماری شقاوت اورحرماں نصیبی كی انتہاہوگی، جس كا انجام بڑا بھیانك ہے‏، اللہ ہی بچائے۔ یاپھر حالات كا سامنا اس طرح كررہے ہیں جس طرح اللہ كے پیغمبراوراس كے برگزیدہ بندےكرتے رہےہیں‏، اگر ایسا ہے توزہے سعادت !! كمی كوتاہی ہے توتلافی كی جائے‏، ابھی تك غفلت رہی تواب راہ راست پرآیا جائے‏، اسی میں ہم سبھی كی دنیا وآخرت كی خیر ہے‏۔
دل آج ہركسی مسلمان كا ٹوٹاہے ‏،درپیش خطرات نے ہركسی كوانگشت بدنداں كرركھاہے‏، مجلسوں میں اورشوشل میڈیا پربیٹھ كرحالات كا ماتم كرتے رہنا اورآنسوبہانا نہ مسئلے كا حل ہے‏، اورنہ كوئی دانشمندانہ عمل‏، بات توتب ہے جب یہ آنسومالك كے حضوربہیں‏، یہ نالے اوریہ فریادیں مولائے بزرگ وبرتر سے كی جائیں ‏،اورٹوٹا ہوا آئینہ دل اسی كی خدمت میں پیش كیا جائے ‏، یقین مانیں ٹوٹا دل اسے بےحد عزیز ہے،اس كی رحمت شكستہ دلوں كے پاس ہے۔

توبچابچا كے نہ ركھ اسے ‏، ترا آئینہ ہے وہ آئینہ
جوشكستہ ہوتوعزیز ترہے نگاہ آئینہ سازمیں

حالات بلاشبہ تشویش ناك ہیں‏؛ مگر ظلم كاننگاناچ جس بے حیائی سے ہورہاہے ‏، فرعونیت جس بے شرمی سے اپنا كھیل كھیل رہی ہے‏،ملت كے جوانوں ‏،بوڑھوں‏، بچوں‏،مردوں اورعورتوں میں پچھلے دنوں بربریت كے خلاف لڑنے كا جوغیرمعمولی حوصلہ دیكھنے كوملاہے‏، اوردنیا كے مجموعی حالات جس رخ پر تیزی سےجارہے ہیں اُسے دیكھ كر ہر ذی شعوركویہ لگنے لگاہے كہ شاید ظلم كاانجام اب بہت قریب ہے ‏، اوردھرتی بربریت وجارحیت سے بھر جانے كے بعد عدل وانصاف كے نظام اورامن وآشتی كی دولت سے پھر سے معمور ہونے والی ہے ‏،ضرورت ہے كہ ہم تسبیح ودعا‏،ذكروتلاوت ‏، مناجات واستغفارمیں لگ كراللہ كی نصرت ومدد كواپنے قریب سے قریب تركرلیں۔

بہتریہ ہے كہ ہم اپنی چوبیس گھنٹے كی زندگی كا ایك ٹائم ٹیبل متعین كریں‏، دیگر ضروری اورجائزمصروفیات كے ساتھ اس میں ایك خانہ تلاوت كا ركھیں ‏،كوئی وقت ذكروتسبیح، درود استغفا‏ركاركھيں‏، احادیث میں بہت سے پاكیزہ كلمات وارد ہوئے ہیں جن كی بركت سے اللہ اپنے بندوں كوپریشانیوں سے نجات دیتاہے ‏، علماء كے بیانات ‏،ان كی اپیلوں اورتحریروں كے ذریعہ ایسے بہت سے كلمات آپ تك پہنچے ہیں ‏، ہوسكے توان پاكیزہ كلمات كا بھی اہتمام ركھیں‏، مغرب یا عشا كے بعد‏، یاتہجد كے وقت جب بھی آسان ہو‏، دعا اورمناجات كابھی كوئی وقت ضرورركھیں‏،گھر پر ہیں تواہل خانہ كوبھی ان چیزوں میں شریك كریں‏،گناہوں كے كام سے پرہیزكریں‏، خصوصاً موبائل كے غلط استعمال سے مكمل پرہیز ركھیں‏، ناچ گانے‏، بےحیائی والے پروگرام ‏، ٹك ٹاك كی گندی موویز‏، بیہودہ كامیڈیاں یہ سب چیزیں اللہ كے غصے كودعوت دینے والی ہیں‏،بالخصوص ایسے حالات میں جب كہ ہم ہر طرف سے مشكل حالات میں گھرے ہوئے ہیں‏۔

شوشل میڈیا پر جولوگ دینی ‏،دعو تی ‏، اصلاحی ‏، ملی ‏،یا اسلام واہل اسلام كی طرف سےدفاعی سرگرمیاں انجام دینے میں لگے ہیں ‏، ان كی كوشش مبارك اورقابل قدر ہے‏؛ مگر ان كوششوں میں رنگ اورجان تبھی آئے گی جب ہمارا رشتہ اپنے رب سے مضبوط ہوگا‏؛ اس لیے دلچسپیوں میں یاد خدا كا خانہ نہایت ضروری ہے‏، اوریہ بات توكسی طرح بھی مناسب نہیں كہ آپ شوشل میڈیا پر كوئی مفید كام بھی نہیں كرتے ؛ مگر پھر بھی آپ اس طرح مصروف ہوتے ہیں كہ خدا اوریاد خدا سے بالكل بے گانہ ہوجاتے ہیں‏، خدا كے واسطے ہوش میں آئیے‏، اورزندگی كے رخ كوسیدھا كیجئے۔

اگر ہم نے ایسا كیا توكوئی وجہ نہیں كہ ہمارے دن نہ بدلیں‏، كسی مصلحت خداوندی كی وجہ سے اللہ كی نصرت میں تاخیربھی ہوجائے‏، تب بھی ہم محروم نہیں رہیں گے ‏، خدا كی بندگی ہی ہمارا مقصد زندگی ہے ‏،اس مقصد میں جولمحہ بھی گذرجائے درحقیقت وہی حاصلِ زندگی ہے‏، ان شاء اللہ اس سے دنیا اورآخرت دونوں كی بھلائیاں حاصل ہوں گی ‏، اللہ تعالیٰ ہم سبھی كے لیے خیركی راہیں آسان فرمائے‏، آمین!

یہ خاموشی كہاں تك؟ لذت فریاد پیدا كر!!
زمیں پر توہو اورتیری صدا ہوآسمانوں میں

بروزدوشنبہ‏،20 اپریل 2020 ‏،مطابق 25 شعبان1441

Related Posts

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے