کچھ ہاتھ نہیں آتا بے آہِ سحر گاہی

از قلم:مفتی احمد عبید اللہ یاسر قاسمی*

تہجد ایک عاشقانہ نماز

+یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ قیام اللیل (نماز تہجد) ایک عظیم روحانی عبادت ہے

+قرآن و سنت میں بکثرت اس نماز کے فضائل و مناقب وارد ہوئے ہیں، رات کی تاریکی میں دنیاوی زندگی کا ہنگامہ نہیں ہوتا، طبعًا انسان دنیاوی افکار سے آزاد رہتا ہے دلجمعی اور حضور قلب کی دولت رات کی تاریکی اور وقت سحر میں بآسانی میسیر ہوتی ہے، یہی وجہ ہے کہ عاشقان الہی اور محبانِ خدا ہمیشہ رات کے پچھلے پہر عبادت و بندگی کو انجام دیتے ہیں جس کے ذریعے ایک طرف وہ اللہ والے روح کی پاکیزگی،قلوب کی حیات حاصل کرتے ہیں، تو وہیں دوسری طرف نیک عزائم اور خلوص و للہیت کی شمعیں فروزاں کرتے ہیں؛ کیوں نہ ہو یہ وقت سحر میں انسان ریا سے پاک، خود نمائی سے دور ہوتا ہے اور اسے حضورِ قلب کمال تنہائی وہ دولت میسر آتی ہے جو عاشقِ زارِخداوندی کے بہت زیادہ روح پرور اور کمال آفریں ہوتی ہے حقیقت تو یہ ہے کہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم پر تہجد کی یہ عاشقانہ نماز فرض تھی آپ علیہ الصلوۃ و السلام کمال محبوبیت و معصومیت کے باوجود راتوں کو تہجد پڑھتے تھے سفر و حضر،صحت و بیماری، حالت امن اور حالت جنگ میں کبھی بھی نبی رحمت صلی اللہ علیہ و سلم سے تہجد کی نماز نہیں چھوٹی، اور بزرگوں نے لکھا ہے:کہ قیام اللیل کے بغیر کوئی ولی کمال ولایت کو نہیں پہونچ سکتا

نمازِ تہجد کی فضیلت قرآن مجید کی روشنی میں

قرآن مجید میں مختلف مقامات پر اللہ رب العزت نے قیام اللیل (نماز تہجد) کا تذکرہ فرمایا ہے چنانچہ حق تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے:

”وَمِنَ اللَّیلِ فَتَہَجَّدْ بِہ نَافِلَةً لَّکَ، عَسیٰ اَٴنْ یَّبْعَثَکَ رَبُّکَ مَقَاماً مَّحْمُوْداً“۔ (بنی اسرائیل:۷۹)

ترجمہ:”اور رات کے کچھ حصہ میں تہجد پڑھ لیاکرو جو آپ کے حق میں زائد چیز ہے، کیا عجب کہ آپ کا رب آپ کو ”مقام محمود“ میں جگہ دے“۔

”مقام محمود“ مقامِ شفاعتِ کبریٰ ہے، جس پر قیامت کے دن فائز ہوکر آپ صلی اللہ علیہ و سلم اپنی امت کی بخشش کرائیں گے۔(ابن کثیر واحمد)

اسی آیت کے ذیل میں علامہ شبیر احمد عثمانی صاحب رحمہ اللہ رقمطراز ہیں :مقام محمود ” شفاعت عظمیٰ کا مقام ہے۔ جب کوئی پیغمبر نہ بول سکے گا تب آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ تعالیٰ سے عرض کر کے خلقت کو تکلیف سے چھڑائیں گے۔ اس وقت ہر شخص کی زبان پر آپ کی حمد (تعریف) ہوگی اور حق تعالیٰ بھی آپ کی تعریف کرے گا۔ گویا شان محمدیت کا پورا پورا ظہور اس وقت ہوگا۔ (تفسیر عثمانی)

دوسری جگہ ارشاد ربانی ہے:

”إِنَّ الْمُتَّقِیْنَ فِیْ جَنّٰتٍ وَّعُیُوْنٍ، اٰخِذِیْنَ مَآاٰتٰہُمْ رَبُّہُمْ إِنَّہُمْ کَانُوْا قَبْلَ ذٰلِکَ مُحْسِنِیْنَ، کَانُوْا قَلِیْلاً مِّنَ اللَّیْلِ مَا یَہْجَعُوْنَ وَبِالأَسْحَارِہُمْ یَسْتَغْفِرُوْنَ“۔ (الذاریات:۱۰تا۱۸)

ترجمہ:۔”بے شک پرہیزگار بہشتوں اور چشموں میں ہوں گے اور اپنے رب کی عطا کردہ نعمتیں لے رہے ہوں گے (اس بات پر کہ) بے شک یہ لوگ اس سے پہلے (دنیا میں) نیکو کار تھے، رات کو (تہجد پڑھنے کی وجہ سے) بہت کم سوتے تھے اور اخیر شب میں استغفار کیا کرتے تھے“۔

سور ۃ سجدہ میں تو رات کے عبادت گزار بندوں کی تصویر رب تعالیٰ نے بہت دلآویز انداز سے پیش کی ہے:’’ان کے پہلو خواب گاہوں سے دور ہوتے ہیں۔ وہ اپنے رب کو خوف اور طلب کے ساتھ پکارتے ہیں اور جو ہم نے دیا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں۔ تو کوئی نہیں جانتا کہ ان کے لیے کیسی آنکھوں کی ٹھنڈک چھپاکر رکھی گئی ہے ان کے کاموں کے بدلے میں۔‘‘

(السجدہ 32: 16-17)

تقریباً 8سے زائد مقامات پر قرآن مجید میں نماز تہجد کی صراحت موجود ہے

(تفصیل کے لیے دیکھیے:تہجد گزار بندے ص:٢٢تا٣٠)

نماز تہجد کی فضیلت احادیثِ نبوی کی روشنی میں

(1)فرض نمازوں کے بعد سب سے افضل نماز

حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا:أفضلُ الصلاة بعد الفريضة: صلاةُ الليل (رواه مسلم)

ترجمہ:”فرض نماز کے بعد سب سے افضل نماز تہجد ہے“۔

(2)بارگاہِ خداوندی میں محبوب ترین عمل:

نبی علیہ السلام کا فرمان عالیشان ہے:أحبُّ الصلاةِ إلى الله: صلاةُ الليل(متفق علیہ)

ترجمہ:اللہ کے نزدیک سب سے محبوب ترین نماز رات کی نماز ہے۔

(3)گناہوں کی بخشش کا سبب:

نماز تہجد سے گناہ معاف ہوجاتے ہیں اور خطائیں دُھل جاتی ہیں؛ نبی علیہ السلام نےسیدنا معاذ رضی اللہ عنہ سے فرمایا:ألا أدلُّك على أبوابِ الخير؟ الصومُ جُنَّةٌ، والصدقةُ تُطفِئُ الخطيئَةَ كما يُطفِئُ الماءُ النارَ، وصلاةُ الرجلِ في جوفِ الليل أي: تُطفِئُ أيضًا الخطيئةً كما يُطفِئُ الماءُ النار (الترمذي)

ترجمہ: کیا میں آپ کو خیر کے دروازے نہ بتاؤں؟ روزہ ڈھال ہے، اور صدقہ خطاؤں کو بجھادیتا ہے جسطرح پانی آگ کو بجھا دیتا ہے، اور رات کے وقت آدمی کی نماز۔یعنی نماز بھی خطاؤں کو بجھادیتی ہے۔

(4)نماز تہجد فتنوں سے حفاظت کا ذریعہ

نماز تہجد اللہ کے حکم سے فتنوں سے بچاؤ کا ذریعہ ہے قرب قیامت کے فتنوں میں یہ رات کی نماز ایمان کی حفاظت کا ذریعہ ہے، حدیث پاک میں وارد ہے: قالت أمُّ سلمة- رضي الله عنها-:استيقظَ رسولُ الله-صلى الله عليه وسلم-ليلةً فزِعًا يقول: سُبحان الله! ماذا أنزلَ الله من الخزائِن؟ وماذا أُنزِلَ من الفتن؟ من يُوقِظُ صواحِبَ الحُجُرات؟ يُريدُ أزواجَه لكي يُصلِّين رُبَّ كاسِيةٍ في الدُّنيا عارِيَةٍ في الآخرة(البخاري)

ترجمہ: ام سلمہ رضی اللہ عنھا فرماتی ہیں: اللہ کے رسول ﷺ ڈرتے ہوئے اٹھے اور یہ کہہ رہے تھے: سبحان اللہ! اللہ نے کیا خزانے نازل کئے ہیں؟ اور کتنے ہی فتنے بھی نازل ہوئے ہیں؟ ان حجرے والوں کو کون اٹھائے گا؟ یعنی ازواج مطہرات کو کون اٹھائے گا تاکہ وہ تہجد پڑھ لیں۔’’اس دنیا میں بہت سے لوگ جولباس میں ملبوس ہیں آخرت میں بے لباس ہوں گے‘‘۔

(5)جنت میں داخلہ کی ضمانت

حضرت عبد اللہ بن سلام جو تورات کے زبردست عالم تھے، مدینہ منورہ میں حضور اقدس صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور چہرہٴ انور دیکھ کر یقین ہوگیا کہ آپ اللہ کے سچے رسول ہیں، آپ جھوٹے نہیں ہوسکتے، وہ کہتے ہیں کہ میں نے سب سے پہلا کلام جو آپ علیہ السلام کی زبان مبارک سے سنا، وہ یہ تھا:

”یا ایہا الناس! افشوا السلام واطعموا الطعام وصلوا الارحام وصلوا باللیل والناس نیام، تدخلوا الجنة بسلام“۔ (ترمذی)

ترجمہ:۔” اے لوگو! سلام کو پھیلاؤ، لوگوں کو کھانا کھلاؤ، رشتہ داریوں کو جوڑو اور رات میں تہجد کی نماز پڑھو، جبکہ لوگ سورہے ہوں، تم جنت میں سلامتی کے ساتھ داخل ہو جاؤ گے“۔

(6)جنت میں اعلی مقام کی گارنٹی

آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا: <إن في الجنةِ غُرفًا تُرَى ظهورُها من بُطونِها، وبُطونُها من ظهورِها>فقامَ أعرابيٌّ فقال: لمن هي يا رسول الله؟ قال: «لمن أطابَ الكلامَ، وأطعمَ الطعامَ، وأدامَ الصيامَ، وصلَّى بالليل والناسُ نِيام» (رواه أحمد.)

”جنت میں ایک محل ہے جس کا اندرونی حصہ باہر سے اور باہر کا حصہ اندر سے نظر آتا ہوگا، ایک اعرابی نے پوچھا: یہ کس کو ملے گا اے اللہ کے رسول!؟ فرمایا:اس کو جو شیریں کلام ہو،لوگوں کو کھانا کھلاتا ہو اور نماز تہجد میں کھڑے ہوئے رات گذارتا ہو، جبکہ لوگ سورہے ہوں“۔

(7)تہجد گزار کے لئے پیارے نبیﷺ کی دعا

اور نبی علیہ السلام نے اس شخص کے لئے رحمت کی دعا کی ہے جو اپنے گھروالوں کو تہجد کے لئے اٹھاتا ہے۔

فرمانِ رسول ﷺ ہے:رحِمَ الله رجلاً قامَ من الليل فصلَّى وأيقظَ امرأته (رواه أبو داؤد)

ترجمہ: اللہ اس آدمی پر رحم کرے جو خود بھی رات کو اٹھ کر نماز پڑھتا ہے اور اپنی بیوی کو بھی اٹھاتا ہے۔

(8)قبولیت دعا اور انعام خداوندی

مسند احمد کی روایت میں وارد ہے کہ:”اللہ تعالیٰ فرشتوں سے پوچھے گا: میرے بندے کو اس کام (تہجد پڑھنے) پر کس چیز نے آمادہ کیا؟ فرشتے عرض کریں گے: اے رب! آپ کے پاس کی چیز (جنت ونعمت) کی امید نے اور آپ کے پاس کی چیز (دوزخ وعذاب)کے خوف نے۔ اللہ تعالیٰ فرمائیں گے: تحقیق میں نے ان کو وہ چیز عطا کردی، جس کی امید کی تھی اور اس چیز سے محفوظ کردیا، جس سے وہ ڈرتے تھے“۔ (مسنداحمد)

اس کے علاوہ صحابہ کرام، تابعین عظام، تبع تابعین، ائمہ دین سلف صالحین کے ہزارہا اقوال اور واقعات قیام اللیل (نماز تہجد) کی فضیلت میں وارد ہیں ابتدائے اسلام میں قیام اللیل کا جس قدر اہتمام کیا جاتا تھا اسی کی نورانیت اور عظمت سے سارا عالم جگمگاتا تھا لیکن آج شومئ قسمت کہیے یا ہماری اعمالِ بدکی سزا کہ ہم اس نعمت سے محروم ہوکر اس شعر کے مصداق بن چکے ہیں

تیری محفل بھی گئی چاہنے والے بھی گئے

شب کی آہیں بھی گئیں صبح کے نالے بھی گئے

ہم سے کب پیار ہے ہاں! نیند تمہیں پیاری ہے

اج المیہ یہ ہوگیا ہے کہ ہر کوئی اس اہم عبادت سے غافل ہے کیا خاص کیا عام، کیا عالم کیا جاہل، کیا بڑا کیا چھوٹا سب میں یہ عبادت مفقود ہوتی جارہی ہے

کس قدر تم پر گراں صبح کی بیداری ہے

ہم سے کب پیار ہے؟ ہاں نیند تمہیں پیاری ہے

جبکہ یہ ایک عاشقانہ اور والہانہ عبادت ہے قرب خداوندی اور محبت رسول کا زینہ ہے خود حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز تہجد مسلسل پابندی فرمائی اور تہجد گزار بندے کے لیے چار نمایاں خصوصیات بیان فرمائیں:’’قیامِ لیل کے پابند ہوجاؤ؛کیوں کہ:

(1)یہ تم سے پہلے کے صالحین کا شیوہ رہا ہے

(2)یہ رب سے قریب ہونے کا ذریعہ ہے

(3)یہ گناہوں کی معافی کا سبب ہے

(4)اور یہ گناہوں سے باز رہنے کی تدبیر ہے‘‘۔

محترم قارئین!!

دست بستہ درخواست ہے کہ آج امت مسلمہ کسمپرسی کی حالت میں ہے، امت کراہ رہی ہے، پوری دنیا اسلام اور مسلمانوں کو نیست و نابود کردینا چاہتی ہے،او

رہ وبائیں بیماریاں ملکوں کی تاریخ میں تباہی کا ریکارڈ توڑ رہی ہیں اور انہی وباؤں کے تحت آج ہر انسان اپنے اپنے گھروں میں محصور ہوکر رہ گیا ہے اور ماہ رمضان المبارک کا مقدس مہینہ سر پر کھڑا ہے

اللہ تعالیٰ نے ہمیں صحت ، تندرستی اور عافیت سے نوازا ہے، اور ماہ رمضان میں ہم سحری کے لئے اٹھتے ہیں،تو حفاظ اور علماء سے بالخصوص اور دیگر اصحاب سے بالعموم درخواست کرتا ہوں کہ وضو کرکے دورکعت، چار رکعت، چھ رکعت یا آٹھ رکعت جس قدر طاقت اور فرصت ہو، دل کی رغبت ہو، پڑھ لیا کریں، تہجد کا ثواب مل جائے گا، خصوصاً رمضان المبارک میں زیادہ خیال رکھا کریں، تہجد کے لئے کوئی خاص سورتیں مقرر نہیں ہیں ، جس جگہ سے یاد ہو اور دل چاہے پڑھ لیا کریں،اور اللہ کے حضور دعا فرمائیں

یاد رکھیں!! دنیا کا وقت بہت کم ہے، اور یہاں کچھ عرصہ گزارنا ہے، اور رات کی نماز، تلاوت، دعا، تسبیح اور استغفار کے ذریعہ مسلمان اپنی آخرت بہتر طریقے سے آباد کرسکتا ہے، اور ان عظیم اعمال صالحہ کو ہی اپنے رب سے ملاقات کے لئے ذخیرہ کرسکتا ہے، اور عقلمند وہی ہے جو رات کے آخری حصہ کو اپنے دین و دنیا کی اصلاح کے لئے غنیمت جانتا ہے۔

اللہ پاک سے دعا ہے کہ رمضان المبارک کے صحیح استقبال کی توفیق عطا فرمائے اور دعائے نیم شبی کی اہمیت اور اسکی رغبت ہمارے دلوں میں پیدا فرمائے اور اس پر عمل کی توفیق عطا فرمائے

Related Posts

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے