عبیداختر رحمانی
یہ تحریر کئی برس قبل لکھی گئی تھی، کل علم وکتاب گروپ پر ایک صاحب نے اس کی فرمائش کی تومیں نے مناسب سمجھاکہ اس کو اوپن فورم پر شیئر کردیاجائے تاکہ سبھی تک پہنچ جائے اورہرایک کیلئے قابل رسائی ہو، اگرچہ اس سے قبل یہ مضمون مختلف اردو مذہبی فورم پر موجود ہے۔
کئی برس قبل کی بات ہے جب راقم الحروف تنکیل کا تقابلی مطالعہ کررہاتھا، اس مضمون میں وہ مضمون نگاہ سے گزرا جو شیخ معلمی نے فقہ حنفی کی مقبولیت کے اسباب میں بیان کیاہے، اس کو پڑھ کر افسوس اورانتہائی حیرت ہوئی کہ ایسا شخص جو علم وفضل کے بلند مقام پر ہو، لیکن جوش تردید میں وہ کس پست سطح پر آگیاہے، یہ صرف میرا خیال نہیں ہے بلکہ جو کوئی بھی شیخ معلمی کی تصنیف تنکیل میں حنفی حنفی کی مقبولیت کے ذکر کئے گئے اسباب کو پڑھے گا، اسی نتیجے پر پہنچے گا، اس کو دیکھ کر خیال ہواکہ کیوں نہ ایک مضمون لکھاجائے ،جس میں فقہ حنفی کی مقبولیت اوراشاعت کے اسباب بیان کئے جائیں،کیونکہ کسی تحریر پر رد کرنے کا دو طریقہ ہے یاتو ہم اس کی باتوں کی تردید کرتے جائیں ،دوسرا طریقہ یہ ہے کہ ہم از خود ایک مثبت مضمون لکھیں، جس میں اس تحریر سے تعرض نہ ہو ،لیکن اسی موضوع پر ہو اورمدلل ہو،میں نے ثانی الذکر طریقہ کار اختیار کیا۔
جب اس سلسلے میں علماء اسلام کی کتابیں پڑھنی شروع کیں تو اس موضوع پر مربوط مواد کہیں دستیاب نہیں ہوا، پھر خود ہی ہمت کرکے کچھ کتابوں سے خوشہ چینی کرکے فقہ حنفی کی نشرواشاعت کا ایک مربوط خاکہ تیار کیا، اور اس طرح یہ مضمون وجود میں آیا، اب یہ مضمون کس درجہ کامیاب ہے یاناکام ہے،اس کا فیصلہ قارئین کے ذمہ ہے۔
1:امام ابوحنیفہ کااخلاص
اس میں کوئی شک نہیں کہ جس کے اندر اپنے کام کے تعلق سے اخلاص ہوتاہے۔خداکی رضامقصود ہوتی ہے خداکے بھی اس کے نام اورکام کو زندہ اورباقی رکھتاہے۔ہم میں سے کون نہیں جانتاکہ امت محمدیہ کثیرالتصانیف امت ہے۔ لیکن اس کے باوجود چند کتابوں کو جوعالمگیرمقبولیت حاصل ہوئی وہ بعدوالوں کوحاصل نہ ہوسکی۔اس کی بڑی وجہ ان کتابوں کے مصنفین کا اخلاص اورنالہ نیم شب ہے۔
عطارہورومی ہورازی ہوغزالی ہو
کچھ ہاتھ نہیں آتابے آہ سحرگاہی
ہم یہ نہیں کہتے کہ جن کے مذاہب مٹ گئے یاپھرزیادہ مقبول نہ ہوئے، ان کے موسسین کے اندراخلاص نہ تھاایسی بات سے خداکی پناہ۔ہوسکتاہے اس کی کچھ دوسری وجوہات ہوں گی۔ اللہ پاک نے دنیاکو اسباب وعلل کاکارخانہ بنایاہے۔ان کے مذہب کے مقبول نہ ہونے یامٹنے کی دوسری وجوہات ہوسکتی ہیں۔ ان کے موسسین کے اخلاص میں شبہ نہیں کیاجاسکتا۔
ہماراکہنایہ ہے کہ جولوگ فقہ حنفی ککی توسیع اورنشرواشاعت اوراکثر بلادوامصار میں قبولیت عامہ کو صرف سلطنتوں کی پشت پناہی کا ثمرہ سمجھتے ہیں وہ لوگ یقیناغلطی پر اورفاش غلطی پرہیں۔ اس قبولیت عامہ کا مرجع اورمنبع امام ابوحنیفہ کااخلاص اورخداکی رضاجوئی ہے۔
عن وکیع بن الجراح "کان واللہ ابوحنیفۃ عظیم الامانۃ ،وکان اللہ فی قبلہ، جلیلا عظیما یوثررضاہ علی کل شی ولواخذتہ السیوف فی اللہ تعالیٰ لاحتمل،فرضی اللہ عنہ رضاالابرار،فلقد کان واللہ منھم(مناقب الائمۃ الاربعۃ 60)
حدیث مین آتاہے کہ بندہ اعمال کرتارہتاہے یہاں تک اللہ کی نگاہوں میں محبوب ہوجاتاہے پھراللہ فرشتوں سے کہتے ہیں کہ میں اس بندے سے محبت کرتاہوں تم بھی اس سے محبت کرو اورپھراس بندے کی محبت سے زمین والوں کے دلوں کومعمور کردیاجاتاہے۔
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ اللَّهَ إِذَا أَحَبَّ عَبْدًا دَعَا جِبْرِيلَ فَقَالَ إِنِّي أُحِبُّ فُلَانًا فَأَحِبَّهُ قَالَ فَيُحِبُّهُ جِبْرِيلُ ثُمَّ يُنَادِي فِي السَّمَاءِ فَيَقُولُ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ فُلَانًا فَأَحِبُّوهُ فَيُحِبُّهُ أَهْلُ السَّمَاءِ قَالَ ثُمَّ يُوضَعُ لَهُ الْقَبُولُ فِي الْأَرْضِ
ترجمہ: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں رسول اللہ ﷺ نےفرمایا "اللہ تعالیٰ جب کسی بندے سے محبت کرتے ہیں تو جبریل علیہ السلام کو بلا کر فرماتے ہیں میں فلاں شخص سے محبت کرتا ہوں تو بھی اس سے محبت کر،چنانچہ جبریل علیہ السلام بھی اس سے محبت کرنے لگتے ہیں اور (ساتھ ہی) آسمان میں اعلان کرتے ہیں کہ فلاں شخص سے اللہ تعالیٰ محبت فرماتے ہیں تم بھی اس سے محبت کرو،چنانچہ آسمان والے (سب کے سب) اس سے محبت کرنے لگتے ہیں۔پھر زمین میں اس کے لیے قبولیت رکھ دی جاتی ہے۔( موطأ مالك ت عبد الباقي (2/ 953، صحيح البخاري (4/ 111، صحيح مسلم (4/ 2030)
یہ امام ابوحنیفہ کااخلاص ہی تھاکہ انہوں نے زندگی بھراپنے مخالفین سے الجھنے کی کوشش نہیں کی۔اگرکسی نے کچھ غلط سلط کہابھی تواس کو سناان سناکردیایوااس کے بارے میں خاموشی اختیار کرلی۔اورمعاملہ خداکے سپرد کردیا۔اللہ کو اپنے بندے کی اداپسند آئی کہ اس کی خاموشی کابدلہ پورے عالم میں شہرت سے دیا۔
’’جعفر بن حسن کہتے ہیں کہ میں نے امام ابوحنیفہ کو خواب میں دیکھاتوپوچھاکہ اللہ نے آپ کے ساتھ کیامعاملہ کیافرمایا۔میری مغفرت فرمادیا۔انہوں نے پوچھاعلم کی وجہ سے۔ توفرمایاکہ فتوی تومفتی کے اوپر بہت ہی سخت معاملہ ہے۔پھرانہوں نے پوچھاکہ کس وجہ سے مغفرت ہوئی توفرمایاکہ لوگوں کے میرے بارے میں ایساکہنے کی وجہ سے جومجھ میں نہیں تھی(یعنی ایسی برائیاں میری جانب منسوب کرنے کی وجہ سے جس سے میں بری تھا‘‘(مناقب الامام ابی حنیفۃ وصاحبیہ للامام الذہبی، ص52)
’’عباد تمارکہتے ہیں کہ میں نے امام ابوحنیفہ کو خواب مین دیکھاتوپوچھاکہ کیامعاملہ پیش آیا۔انہوں نے کہاکہ اپنے رب کی وسیع رحمت کا معاملہ ہوا۔میں نے پوچھاکہ علم کی وجہ سے۔ انہوں نے جواب دیاکہ ہائے افسوس علم کیلئے توسخت شرائط ہیں اوراس کی اپنی آفتیں ہیں بہت کم لوگ اس سے بچ سکتے ہیں۔پھرمیں نے پوچھاکہ توپھرکس وجہ سے رحمت کا معاملہ ہوا۔فرمایاکہ میرے بارے میں لوگوں کی ایسی ایسی باتوں کے کہنے کی وجہ سے جس سے میں بری تھا‘‘۔(المصدرالسابق)
أَخْبَرَنِي إبراهيم بن مخلد المعدل، قَالَ: حَدَّثَنَا الْقَاضِي أَبُو بكر أَحْمَد بن كامل، إملاء، قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّد بن إِسْمَاعِيل السلمي، قَالَ: حَدَّثَنَا عبد الله بن الزبير الحميدي، قال: سمعت سفيان بن عيينة، يقول: شيئان ما ظننت أنهما يجاوزان قنطرة الكوفة، وقد بلغا الآفاق: قراءة حمزة، ورأي أَبِي حنيفة.(تاریخ بغداد15/475اسنادہ صحیح)
’’سفیان بن عینیہ کہتے ہیں کہ دوچیزوں کے بارے میں میراگمان تھاکہ وہ کوفہ کی حدود سے بھی تجاوز نہیں کریں گی لیکن وہ دنیابھر میں پھیل چکی ہیں۔ایک حمزہ کی قرات دوسرے ابوحنیفہ کے اجتہادات‘‘۔
فقہ حنفی کی قبولیت عامہ کی انشاء اللہ یہی بنیادی اوراولین وجہ ہے۔
2:رضائے الہی
حقیقت یہ ہے کہ فقہ حنفی سے جس طرح اسلامی ممالک اوربلادوامصار معمور رہے وہ صرف اللہ کی مرضی اورمنشاء سے ہی تعبیر کی جاسکتی ہے۔ ورنہ کسی انسان کے بس کی بات نہیں کہ کسی کے اجتہاد کو اتناقبولیت عام بخش دے۔
ہم دنیا میں ایسے کتنے ہی واقعات سے واقف ہیں کہ بہت سارے اشخاص جونہ صرف نہایت قابل اورعالم وفاضل تھے لیکن دنیاان کے فیض سے محروم رہی اوربہت سارے افراد بھلے ہی علمی اعتبار سے کم درجہ کے ہوں ؛لیکن ان سے زیادہ فیض پہنچا۔اوراس کی وجہ صرف یہ ہوتی ہے کہ اس شخص کی کوئی ادااللہ کوپسند آجاتی ہے اوراللہ اس کے فیض کو عام کردیتے ہیں اوراس کیلئے صدقہ جاریہ بنادیتے ہیں۔
خدانخواستہ ہماراکہنایہ نہیں ہے کہ امام ابوحنیفہ علم یاعمل کے اعتبار سے کسی سے کمترتھے بلکہ وہ علم وعمل کی جس بلندی پر تھے وہ تاریخ اورکتب سوانح میں مذکور ہے۔کہنے کا مقصد یہ ہے کہ فقہ حنفی کی نشرواشاعت اورلوگوں کے قبول عام کو صرف رضائے الہی کا ثمرہ سمجھناچاہئے ۔اس کی جانب بعض علمائے نے رضائے الہی اوربعض نے ’’سرالہی‘‘ سے تعبیر کرکے اشارہ کیاہے۔چنانچہ امام ابن الاثیر لکھتے ہیں۔
ويدل على صحة نزاهته عنها، ما نشر الله تعالى له من الذِّكْر المنتشر في الآفاق، والعلم الذي طبق الأرض، والأَخْذ بمذهبه وفقهه والرجوع إلى قوله وفعله، وإن ذلك لو لم يكن لله فيه سرّ خفي، ورضى إِلهيّ، وفقه الله له لما اجتمع شطرُ الإسلامِ أو ما يقاربهُ على تقليده، والعمل برأيه ومذهبه حتى قد عُبِدَ اللهُ ودِيْنَ بفقهه، وعُمل برأيه، ومذهبه، وأُخذَ بقوله إلى يومنا هذا ما يقارب أربعمائة وخمسين سنة (جامع الاصول12/952)
ایک دوسری وجہ یہ بھی سمجھ میں آتی ہے کہ فقہ حنفی بواسطہ امام حماد،ابراہیمی نخعی، علمقہ واسود حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے اقوال پرمنتہی ہوتی ہے ۔اورصرف فقہ حنفی ہی کیوں کہئے۔ بلکہ تمام فقہاء کوفہ کافقہ وفتاویٰ میں اصل مرجع حضرت عبداللہ بن مسعود ہی ہی اوروہی دراصل فقہ کوفی کے بانی مبانی ہیں۔اورحضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے بارے میں رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کاارشاد ہے:
’’ ابن ام عبد جوتمہارے لئے پسند کریں میں بھی اس کوتمہارے لئے پسند کرتاہوں۔اورجوابن ام عبد ناپسندکریں میں بھی اس کوتمہارے لئے ناپسند کرتاہوں‘‘۔
رَضِيْتُ لأُمَّتِي مَا رَضِيَ لَهَا ابْنُ أُمِّ عَبْدٍ(مستدرک حاکم3/317)
ایک دوسری روایت میں یہ لفظ بھی آیاہے۔
قَدْ رَضِيْتُ لَكُم مَا رَضِيَ لَكُمُ ابْنُ أُمِّ عَبْدٍ(مستدرک حاکم 3/319)
ایک روایت کے الفاظ یہ ہیں:
رَضِيتُ لأُمَّتِي مَا رَضِيَ لَهُمُ ابْنُ أُمِّ عَبْدٍ ، وَكَرِهْتُ لأُمَّتِي مَا كَرِهَ لَهَا ابْنُ أُمِّ عَبْدٍ ”
(فضائل الصحابة لأحمد بن حنبل (2/ 838)
اوریہ سمجھنامشکل نہیں کہ جواللہ کے رسول کی پسند ہوگی وہ اللہ تبارک وتعالیٰ کی بھی پسندیدہ ہوگی ۔
فقہ حنفی کی قبولیت میں رضائے الہی کو دخل ہے اس کی جانب حضرت شاہ ولی اللہ نے بھی اپنے بعض رسالوں میں اشارہ کیاہے۔ وہ اپنے مکاتیب میں لکھتے ہیں:
’’ایک روز اس حدیث پر ہم نے گفتگو کی کہ ایمان اگرثریاکے پاس بھی ہوتا تو اہل فارس کے کچھ لوگ یاان میں کاایک شخص اس کوضرورحاصل کرلیتا۔فقیر (شاہ صاحب)نے کہاکہ امام ابوحنیفہ اس حکم میں داخل ہیں کیونکہ حق تعالیٰ نے علم فقہ کی اشاعت آپ ہی کے ذریعہ کرائی اوراہل اسلام کی ایک جماعت کو اس فقہ کے ذریعہ مہذب کیا۔ خصوصا اس اخیر دور میں کہ دولت دین کا سرمایہ یہی مذہب ہے۔سارے ملکوں اورشہروں میں بادشاہ حنفی ہیں۔قاضی حنفی ہیں ۔اکثر درس علوم دینے والے علماء اوراکثرعوام بھی حنفی ہیں۔ (کلمات طیبات مطبع مجتبائی ص168‘‘۔
حضرت شاہ ولی اللہ علیہ الرحمہ نے ایک دوسرے مقام پر اپنے مکاشفات ذکر کرتے ہوئے لکھاہے۔
"مذہب کا معاملہ بھی ایساہی ہوتاہے کہ کبھی ایک ملت کی حفاظت کی طرح حق تعالیٰ کی عنایت خودکسی مذہب کی حفاظت کی طرف بھی متوجہ ہوتی ہے۔ اس معنی کرکہ اس مذہب کے نگہبان وپیرو ہی اس وقت ملت کی جانب سے مدافعت کرنے والے ہوتے ہیں۔یایہ کسی علاقے میں انہی کا شعارحق وباطل کے درمیان وجہ فرق ہوتاہے۔اس صورت حال کے پیش نظرملاء اعلی یاملاء اسفل میں یہ بات کہی جاتی ہے کہ ملت دراصل یہی مذہب ہے”۔
آگے حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں کہ
’’جب یہ تمہید ذہن نشیں ہوگئی توآگے کہتاہوں۔مجھے ایسانظرآتارہاکہ مذہب حنفی میں کوئی خاص بات اوراہم راز ہے ۔میں برابر اس مخفی راز کو سمجھنے کیلئے غوروفکر کرتارہاحتی کہ مجھ پر وہ بات کھل گئی جسے بیان کرچکاہوں۔میں نے دیکھاکہ معنی دقیق کے اعتبار سے اس مذہب کو ان دنوں تمام مذاہب پر غلبہ وفوقفیت حاصل ہے۔ اگرمعنی اولیٰ کے اعتبار سے بعض دوسرے مذاہب اس پر فائق بھی ہیں۔اورمیرے سامنے یہ بات بھی آئی کہ یہی وہ راز ہے جس کابسااوقات بعض ارباب کشف کسی درجہ میں ادراک کرلیتے ہیں اورپھراس کو تمام مذاہب کے مقابلے میں ترجیح دیتے ہیں اوربعض مرتبہ یہی رازتصلب وپختگی کی بابت الہام کے طورپر اورکبھی خواب کی صورت میں اس طورپر ظاہر ہوتاہے کہ اس سے اس مذہب پر عمل کے سلسلہ میں تحریض ہوتی ہے‘‘۔
(فیوض الحرمین105،بحوالہ فقہ ولی اللہی150)
یہ حقیقت ہے کہ تاریخ کے بیشترادوار میں اسلامی مملکتوں کے سربراہ حنفی رہے ہیں اورسرحدوں کی حفاظت، دشمنان دین اسلام سے مقاتلہ،دارالاسلام کی توسیع اوراحکام شرعیہ کانفاذ انہی کے ہاتھوں میں رہالہذا حنفی مذہب کی بقاء اورحفاظت خود مرضی الہی رہی ہے۔
ایک دوسرے مقام پر حضرت شاہ صاحب نے فروعات فقہیہ میں اپنی قوم کی مخالفت کومراد حق کی مخالفت قرارددیاہے۔چنانچہ وہ لکھتے ہیں
’’ان مراد الحق فیک ان یجمع شملامن شمل الامۃ المرحومہ بک۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔وایاک ان تخالف القوم فی الفروع فانہ مناقضۃ لمراد الحق(فیوض الحرمین ص62)‘‘
’’حق تعالیٰ کی مراد تم سے یہ ہے کہ امت مرحومہ کی شیرازی بندی کی جائے اورخبردار اپنی قوم کی فروعات میں مخالفت سے بچتے رہناکیونکہ وہ حق تعالیٰ کی مراد کے خلاف ہیں۔‘‘
یہ تھوڑے سے نصوص یہ بتانے کیلئے کافی ہیں کہ رضائے الہی کےعنوان سے میں نے جوفقہ حنفی کی نشرواشاعت کا سبب بیان کیاہے ۔وہ مضبوط بنیادوں پر قائم ہے اوریہ راقم الحروف کی اختراع نہیں بلکہ دیگر سابق علماء کی تحقیق سے استمداد واستفادہ ہے۔
قابل اورباصلاحیت شاگرد
حقیقت یہ ہے کہ شخصیت کتنی بھی عظیم کیوں نہ ہو لیکن تاریخی طورپر اس کانام اورکام جاری رہنے کیلئے ایسے افراد کی ضرورت ہوتی ہے جواپنی ذات کی قربانی دے کر اپنے استاد یاتحریک کے موسس کے کام کو آگے بڑھاسکیں۔ایسے شاگردوں کاملنااورایسے افراد کا تحریک سے جڑنامحض فضل ربانی اورعطائے ایزدی ہے۔ ورنہ تاریخ کی کتنی ہی نامور ہستیاں ایسی ہیں جوباوجود علم وفضل کا پہاڑ ہونے کے محض اس لئے صرف کتابوں میں دفن ہوکر رہ گئی کہ ان کے بعد انکے کام کوآگے بڑھانے والے مخلص شاگرددستیاب نہ ہوئے ۔یاان کے شاگردان کے علمی امانت کے لائق امین نہ بن سکے۔
حضرت لیث بن سعد علم حدیث وفقہ میں ممتاز مقام کے حامل ہیں۔ مجتہد ہیں۔مصر میں ان کا مذہب بھی ایک عرصے تک رائج رہا۔ان کی فقاہت کی تعریف موافق ومخالف سبھی نے کی ہے وہ امام مالک کے ہم عصر تھے۔ ان دونوں میں بعض امور کے تعلق سے اختلاف بھی تھاجس پر دونوں میں مشہور خط وکتابت بھی ہوئی جس کو پڑھ کر آج بھی آنکھوں میں ٹھنڈک اترتی ہے اوردل کوسکون ملتاہے کہ ہمارے اسلاف اختلاف میں بھی کتنے مہذب اورشائستہ طریقہ کاراختیار کرتے تھے۔
لیث بن سعد کے بارے میں امام شافعی کہتے ہیں::
الليث أفقه من مالك إلا أن أصحابه لم يقوموا به
(طبقات الفقہاء 78،تاریخ دمشق لابن عساکر50/358،تہذیب الکمال فی اسماء الرجال24/275،سیراعلام النبلاء7/216،الوافی بالوفیات24/312،تہذیب التہذیب8/463،مغانی الاخیار فی شرح اسامی رجال معانی الآثار2/504)
یہ دیکھئے امام شافعی کااعتراف کہ لیث امام مالک سے زیادہ فقیہہ تھے۔انہوں نے امام مالک کے سامنے زانوئے تلمذتہہ کیاتھااوران کے بڑے قدرشناس تھے کہتے ہیں کہ جب علماء کا ذکر ہوتوامام مالک ستاروں کے مانند ہیں۔لیکن فقہی تقابل میں انہوں نے امام مالک پر لیث بن سعد کو ترجیح دی ۔اوراس کے ساتھ ہی ایک چھپے ہوئے سوال کاجواب بھی دے دیا۔
جب لیث بن سعد مصری زیادہ فقیہہ ہیں توپھران کو وہ شہرت وہ مقام وہ متعبین کی کثرت کیوں نصیب نہ ہوئی جوامام مالک کاخاصہ بنی تواس کا جواب امام شافعی یہ دیتے ہیں کہ
أن أصحابه لم يقوموا به
کہ ان کے شاگردان کے کام اورمشن کو لے کر کھڑے نہیں ہوئے اس وجہ سے ان کا علم اوران کی فقاہت ضائع چلی گئی اوران کانام اورکام اورکارنامہ گمنامی کی نذر ہوگیا۔
امام ابوحنیفہؓ کو اللہ نے ایسے باصلاحیت مخلص اورمحبت کرنے والے شاگردوں سے نوازاجنہوں نے اپنے استاد کے منہج کو اپنامنہج بنایااوراپنے استاد کے علمی کارنامہ کو دنیابھر میں مشتہر کیا۔انہوں نے اپنے استاد سے بجاطورپر علمی اختلاف بھی کیا،استاد کے دلائل اورنظریہ پر تنقید بھی کی لیکن اسی کے ساتھ استاد کی ذات سے چمٹے رہے۔متصل رہے۔ ان کو چھوڑانہیں ان سے جدائی اختیار نہیں کی۔
یوں توامام ابوحنیفہ کے شاگردوں کی تعداد تقریباً700تک پہنچتی ہے اورہرایک نے اپنی اپنی جگہ فقہ حنفی کی نشرواشاعت میں اپناحصہ اداکیاہے، لیکن بالخصوص حضرات صاحبین اس باب میں سب سے بازی لے گئے ہیں اورپھر امام زفر اورعبداللہ بن مبارک رضی اللہ عنہہما کی کاوشیں نہایت قابل قدر ہیں۔
امام ابویوسف علیہ الرحمہ نے جب دیکھاکہ اوزاعی نے امام ابوحنیفہ کے سیر کے مسائل پر تنقید کی ہے توانہوں نے اس کا مدلل جواب لکھاجو’’الردعلی الاوزاعی‘‘ کے نام سے مشہور ہے۔اسی طرح انہوں نے اپنے استاد کی مرویات کو ’’کتاب الآثار‘‘ کے نام سے جمع کیا۔ اسی طرح اپنے سابق استاد ابن بی لیلی اورامام ابوحنیفہ کے درمیان بعض مسائل میں اختلاف کو دلائل کے ساتھ واضح کیااوراپنارجحان بھی بتایا۔
امام محمد نے استاد کے مسلک اورمنہج پر کتابیں لکھیں۔جوظاہرالروایۃ کے نام سے مشہور ہے۔اہل عراق اوراہل مدینہ کے اختلافات پر الحجۃ علی اہل المدینہ لکھی اوراس کے علاوہ دیگر کتابیں لکھ کر استاد کے نام اورکام کوآگے بڑھایا۔
امام زفر نے اہل بصرہ کی اہل کوفہ سے عداوت کی وجہ سے امام ابوحنیفہ سے برگشتگی کو حکمت سے دورکیااوراہل بصرہ کو بھی آپ کا محب ومطیع اورفرمانبرداربنادیا۔
امام ابن عبدالبر اس سلسلے میں لکھتے ہیں:
وَلِيَ قَضَاءَ الْبَصْرَةِ فَقَالَ لَهُ أَبُو حَنِيفَةَ قَدْ عَلِمْتَ مَا بَيْنَنَا وَبَيْنَ أَهْلِ الْبَصْرَةِ مِنَ الْعَدَاوَةِ وَالْحَسَدِ وَالْمُنَافَسَةِ مَا أَظُنُّكَ تَسْلَمُ مِنْهُمْ فَلَمَّا قَدِمَ الْبَصْرَةَ قَاضِيًا اجْتَمَعَ إِلَيْهِ أَهْلُ الْعِلْمِ وَجَعَلُوا يُنَاظِرُونَهُ فِي الْفِقْهِ يَوْمًا بَعْدَ يَوْمٍ فَكَانَ إِذَا رَأَى مِنْهُمْ قَبُولا واستحسانا لما يجيئ بِهِ قالَ لَهُمْ هَذَا قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ فَكَانُوا يَقُولُونَ وَيُحْسِنُ أَبُو حَنِيفَةَ هَذَا فَيَقُولُ لَهُمْ نَعَمْ وَأَكْثَرَ مِنْ هَذَا فَلَمْ يَزَلْ بِهِمْ إِذَا رَأَى مِنْهُمْ قَبُولا لِمَا يَحْتَجُّ بِهِ عَلَيْهِم ورضى بِهِ وَتَسْلِيمًا لَهُ قَالَ لَهُمْ هَذَا قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ فَيُعْجَبُونَ مِنْ ذَلِكَ فَلَمْ تَزَلْ حَالُهُ مَعَهُمْ عَلَى هَذَا حَتَّى رَجَعَ كَثِيرٌ مِنْهُمْ عَنْ بُغْضِهِ إِلَى مَحَبَّتِهِ وَإِلَى الْقَوْلِ الْحَسَنِ فِيهِ بَعْدَ مَا كَانُوا عَلَيْهِ مِنَ الْقَوْلِ السَّيِّئِ فِيهِ(الانتقاء في فضائل الثلاثة الأئمة الفقهاء (ص: 174)
"زفربصرہ کے قاضی بنائے گئے تو انہوں نے فرمایاکہ آپ سے پوشیدہ نہیں ہے کہ اہل بصرہ اورہمارے مابین حسد وعداوت پائی جاتی ہے۔لہذا آپ کا سلامت بچ نکلنادشوار ہے۔جب بصرہ میں قاضی مقرر ہوکر آئے تو اہل علم جمع ہوروزانہ آپ سے فقہی مسائل میں مناظرہ کیاکرتے تھے۔جب ان میں قبولیت اورحسن ظن کا رجحان دیکھتے تو کہتے یہ امام ابوحنیفہ کا قول ہے۔ اہل بصرہ متعجب ہوکر پوچھتے کیاابوحنیفہؒ ایساکہہ سکتے ہیں امام زفرجواب دیتے جی ہاں اوراس سے بھی زیادہ۔اس کے بعد تومعمول ساہوگیاکہ جب بھی زفراہل بصرہ کا رجحان تسلیم وانقیاد دیکھتوکہتے کہ یہ ابوحنیفہ کاقول ہے اس سے اہل بصرہ اورمتعجب ہوتے چنانچہ امام زفر کااہل بصرہ سے یہی رویہ رہا یہاں تک کہ بغض وعداوت چھوڑ کر وہ امام صاحب کے معتقد ہوگئے ۔پہلے برابھلاکہتے تھے اب رطب اللسان رہنے لگے۔‘‘
عبدالبرکے اس بیان میں یہ بات غلط ہے کہ امام زفر بصرہ کے قاضی بناکر بھیجے گئے تھے بلکہ جب ان کو قاضی بنانے کا فرمان صادر ہواتو انہوں نے اپناگھر منہدم کردیااورروپوش ہوگئے۔بصرہ وہ اپنے بھائی کے میراث کے سلسلہ میں گئے تھے۔ اہل بصرہ کوان سے اتنی عقیدت ہوگئی کہ انہوں نے پھران کو بصرہ سے باہر جانے نہیں دیا۔علامہ کوثری لمحات النظرفی سیرۃ الامام زفر میں اس پر تفصیلی بحث کی ہے۔(دیکھئے ص25)
مغرب میں امام ابوحنیفہ کے مذہب اورمسلک کوپھیلانے والے اسد بن فرات ہیں۔اسد بن فرات نے امام مالک سے بھی تحصیل علم کیاتھااوراسی کے ساتھ امام محمد بن حسن رحمہ اللہ کے کے خرمن علم سے بھی خوشہ چینی کی تھی۔ ان کا رجحان احناف کی جانب زیادہ تھاانہوں نے مغرب میں فقہ حنفی کو پھیلایا۔(امام ابوحنیفہ مصنف ابوزہرہ ص757)
نوٹ: فقہ حنفی کوپھیلانے سے کسی کو یہ شبہ نہیں ہوناچاہئے کہ وہ لوگوں کو اس کی تلقین کرتے تھے کہ فلاں مسلک چھوڑدو اورحنفی بن جاؤجیساکہ آج کل غیرمقلدین کرتے ہیں کہ وہ مختلف حیلے بہانے سے لوگوں کوسلفی بناتے ہیں۔ بات یہ ہوتی تھی کہ لوگ مسائل پوچھنے آتے تھے وہ جواب دیتے ہیں یہ جوابات زیادہ تر فقہ حنفی سے ماخوذ ہوتے تھے اس طرح فقہ حنفی رواج پایانہ کہ باقاعدہ اوردانستہ مسلک کی نشرواشاعت کی جاتی تھی۔
مثلاعبداللہ بن المبارک کی ذات گرامی کی لے لیں انہوں نے بھی فقہ حنفی کی خدمت کی ہے اورامام ابوحنیفہ کے مسائل پر مبنی کتاب لکھی ہے۔اس سلسلے میں جب ان سے پوچھاگیاکہ آپ نے امام ابوحنیفہ کے مسائل پرکتاب لکھی ہے لیکن امام مالک کے مسائل پر کتاب نہیں لکھی توعبداللہ بن مبارک نے جواب دیاکہ میں اس کو علم نہیں سمجھتا۔
سَلَمَةَ بْنَ سُلَيْمَانَ يَقُولُ: قُلْتُ لِابْنِ الْمُبَارَكِ: وَضَعْتَ مِنْ رَأْيِ أَبِي حَنِيفَةَ وَلَمْ تَضَعْ مِنْ رَأْيِ مَالِكٍ قَالَ: لَمْ أَرَهْ عَلَمًا(جامع بیان العلم وفضلہ2/1107)
اس حوالہ سے مقصود امام مالک کی تنقیص شان نہیں ۔بلکہ یہ بتاناہے کہ فقہ حنفی کی خدمت کرنے والوں میں سے ایک عبداللہ بن المبارک ہیں۔
شیخ ابوزہرہ فقہ حنفی کی نشرواشاعت کے تحت لکھتے ہیں:
’’جب سیاسی قوت کمزور پڑگئی تو وہ علماء کی ہی جدوجہد تھی جس نے مختلف امصاروبلاد میں فقہ حنفی کو زندہ رکھا۔اس ضمن مین علماء کی کوشش ایک نہج پر قائم نہیں رہی بلکہ رفتار زمانہ کے پیش نظر کبھی اس میں قوت رونماہوئی اورکبھی کمزوری واقع ہوئی۔جن بلاد وامصار مین علماء اثرورسوخ کے حامل تھے وہاں یہ مذہب پھلاپھولااوربرگ وبار لایالیکن جہاں علماء کمزورتھے وہاں مذہب بھی کمزورپڑگیا‘‘۔(حیات حضرت امام ابوحنیفہ756)
نوٹ:بعض محدثین نے کچھ ایسے حوالے جات پیش کئے ہیں جس سے معلوم ہوتاہے کہ آخر میں عبداللہ بن المبارک امام ابوحنیفہ سے متنفر ہوگئے تھے ۔لیکن یہ باتیں چند وجوہ کی بنیاد پر قابل اعتبار نہیں ہے۔انشاء اللہ ہم وقت فرصت اس پر کلام کریں گےاوربتائیں گے کہ اس میں کیاخلل ہے ؟
تصنیفی خدمات:
اس کا تعلق اگرچہ ماقبل سے ہی ہے لیکن اس کے باوجود اس کو اس کی اہمیت کے پیش نظرالگ سے ذکرکیاگیاہے۔کسی بھی مسلک اورمذہب کو تابندہ اورزندہ رکھنے میں تصنیفی خدمات بہت اہم کرداراداکرتی ہیں۔تصنیفی خدمات سے اندازہ ہوتاہے کہ کسی مذہب کاخدوخال کیاہے۔ اس کے نقوش کیاہیں۔ اس کی بنیاد اوراصول کیاہیں ۔اگرتصنیفی خدمات نہ ہوں اوراس کے جاننے والے فناء کے گھاٹ اترجائیں توپھریہ مذہب سرے سے نیست ونابود ہوجاتاہے ۔کسی مذہب کے دوام کیلئے دونوں چیزیں ضروری ہیں یعنی اس مذہب کے جاننے والے اوراس مذہب کی تصانیف۔
اللہ نے اپنے بندوں کی ہدایت کیلئے بھی یہی نظام قائم کیاہے چنانچہ ایک جانب انبیاء اوررسولوں کو بھیجااوردوسری طرف صحائف اورکتب بھی نازل فرمائیں ۔ کتابوں میں بہت سی باتیں ایسی ہوتی ہیں کہ جب تک کوئی ان کو عملی طورپر برت کرنہ بتائے سمجھنامشکل ہوتاہے۔یہی وجہ ہے کہ محض تصنیفی خدمات یاپھر محض اس مذہب کے جانکار رہنے سے کسی مذہب کو دوام نصیب نہیں ہوتادونوں چیزوں کا ہوناضروری ہے۔
مذاہب اربعہ زندہ اورپایندہ ہیں تواس کی وجہ یہی ہے کہ ہردور میں اس مذہب کے علماء اورفقہاٗء بھی رہے ہیں اورانہوں نے تصنیفی خدمات کے ذریعہ پیش آمدہ واقعات اورحوادث میں لوگوں کی رہنمائی کا فریضہ بھی انجام دیاہے۔
محمد بن جریرالطبری،ابن حزم ظاہری کی کتابیں موجود ہیں لیکن چونکہ اس مذہب کے جاننے والے واقف کار علماء نہیں ہیں لہذا یہ مذہب فناء کے گھاٹ اترگیا۔
ابن خلدون اس تعلق سے لکھتے ہیں:
’’آج ظاہریہ کامذہب بھی مٹ مٹاگیا کیونکہ اس کے امام ختم ہوگئے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔بہت سے طلبہ جوان کے مذاہب کامطالعہ کرناچاہتے ہیں اوران کتابوں سے ان کا فقہ اورمذہب سیکھناچاہتے ہیں وہ اپناوقت ضائع کرتے یہں اوراس سے جمہور کی مخالفت اوران کے مذہب سے انکار بھی لازم آتاہے ۔ہوسکتاہے کہ وہ اس مذہب کی وجہ سے بدعتیوں مین شمار کرلئے جاءیں کیونکہ وہ اساتذہ کی چابی کے بغیرکتابوں سے علم کو نقل کررہے ہیں‘‘۔
(مقدمہ ابن خلدون ص283)
ائمہ اربعہ میں سے ائمہ ثلاثہ کی تصانیف تومشہور ہیں۔لیکن امام ابوحنیفہ کی تصانیف کے تعلق سے تاریخی نقوش اتنے دھندلے ہیں کہ کچھ کہنامشکل ہے۔ویسے ماقبل کے مورخین نے اس تعلق سے کچھ کتابوں کے نام لئے ہیں تواس بناء پر کہاجاسکتاہے کہ امام ابوحنیفہ نے کچھ کتابوں کی تصنیف ضرورکی لیکن وہ ہم تک نہیں پہنچ سکی جیساکہ دیگر علماء کے ساتھ بھی ہواہے ۔
ان کے شاگردوں نے جوکتابیں لکھیں ان مین سے کچھ ہم تک پہنچی ہیں اوربیشتر ہم تک نہیں پہنچ سکی ہیں۔
ان کے شاگردوں میں نمایاں نام امام ابویوسف کاہے۔ انہوں نے درج ذیل کتابیں لکھی ہیں۔ابن ندیم نے امام ابویوسف کی تصانیف میں مندرجہ ذیل کتب کانام لکھاہے۔
كتاب الصلاة كتاب الزك كتاب الصيام كتاب الفرائض كتاب البيوع كتاب الحدود كتاب الوكالة كتاب الوصايا كتاب الصيد والذبائح كتاب الغصب والاستبراء ولأبي يوسف املاء رواه بشر بن الوليد القاضي يحتوي على ستة وثلثين كتابا مما فرعه أبو يوسف كتاب اختلاف الأمصار كتاب الرد على مالك بن أنس كتاب رسالته في الخراج إلى الرشيد كتاب الجوامع ألفه ليحيى بن خالد يحتوي على أربعين كتابا ذكر فيه اختلاف الناس والرأي المأخوذ به.(الفہرست لابن ندیم 1/253)
اس فہرست میں ابن ندیم نے کتاب الردعلی مالک بن انس کانام لیاہے لیکن ایسالگتاہے کہ یاتوسبقت قلم سے ایساہوگیاہے صحیح نام ہوناچاہئے کتاب الرد علی سیرالاوزاعی۔
امام زفر کی کتابوں کا ابن ندیم نے کوئی تذکرہ نہیں کیاہے لیکن یہ حقیقت ہے کہ انہوں نے بھی کچھ کتابیں لکھی ہیں۔ ابن ندیم نے امام زفر کے ترجمہ مین صرف اتنالکھ کر چھوڑدیاہے کہ ولہ من الکتب ان کی چند کتابیں ہیں۔ کون کون سی ہیں یہ نہیں بتایا۔
الفہرست کے محقق نے حاشیہ میں لکھاہے کہ ان کی ایک کتاب’’ مجرد فی الفروع‘‘ کے نام سے ہے۔اس کے علاوہ جیساکہ مولانا عبدالرشید نعمانی نے ثابت کیاہے کہ ان کی ایک اورکتاب ’’کتاب الآثار ‘‘کے نام سے ہے جس کاحاکم نے بھی ذکر کیاہے۔امام زفر کاانتقال 155ہجری میں ہوگیاتھایعنی اپنے استاد امام ابوحنیفہ کے انتقال کے محض5سال بعد۔لہذاان کی زیادہ تصانیف نہ ہوناکوئی مستبعد نہیں ہے۔
امام محمد بن الحسن کی بھی بہت ساری کتابوں کا ذکر ابن ندیم نے کیاہے ،جس کا ذکر یہاں پر تحصیل حاصل ہوگا،(الفہرست لابن ندیم 1/254)حقیقت یہ ہے کہ امام محمد نے اپنی تصانیف کے ذریعہ ہی فقہ حنفی کا نام زندہ اورروشن رکھاہے اورانہی کی کتابیں فقہ حنفی کا دارومدار ہیں۔اگرکہاجائے کہ فقہ حنفی کو زندہ رکھنے میں ایک بڑاسبب اوراہم کردار امام محمد بن الحسن کی کتابوں اورتصنیفی خدمات کا ہے تو یہ غلط نہ ہوگا۔
امام حسن بن زیاد لولوئی بھی بڑے مرتبہ کے فقیہہ تھے،یحیی بن آدم جوبڑے درجہ کے مجتہد ہیں وہ کہتے ہیں کہ میں نے ان سے بڑھ کر فقیہہ نہیں دیکھا۔ان کی تصنیفی بقول امام طحاوی درج ذہیں:
قال الطحاوي وله من الكتب كتاب المجرد لأبي حنيفة روايته كتاب أدب القاضي كتاب الخصال كتاب معاني الإيمان كتاب النفقات كتاب الخراج كتاب الفرائض كتاب الوصايا.(الفہرست لابن ندیم1/255)
پھراس کے بعد امام ابویوسف،امام محمد ،امام زیاد بن حسن کے شاگردوں اورپھران کے شاگردوں نے جوتصنیفی خدمات انجام دی ہیں ۔اس کیلئے توسفینہ چاہئے اس بحربیکراں کیلئے۔اوراس کے بعد بھی حالت یہی ہوگی۔ورق تمام ہوااورمدح باقی ہے۔
مشہور مورخ ابن خلدون لکھتے ہیں:
’’ان کے(امام ابوحنیفہ) فقہ پر کثرت سے کتابیں لکھی گئیں اورشافعیوں سے مناظرہ کی مجلسیں بھی خوب گرم رہیں اوراختلافی مسائل میں انتہائی نفیس ومفید مذاکرات ہوئے اورانہوں نے گہرے وسنجیدہ نظریات پیش کئے‘‘۔(مقدمہ ابن خلدون ص625)
اصول فقہ کے باب میں ابن خلدون حنفیہ کی کاوشوں کااعتراف کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’پھر(امام شافعی کے بعد)اس پر فقہائے احناف نے کتابیں لکھیں اوران قواعد کی تحقیق کی اوران میں تفصیل سے گفتگو کی۔ اسی طرح اہل کلام نے بھی اس پر کتابیں لکھیں مگراس موضوع پر فقہاء کی کتابیں فقہ کیلئے زیادہ موزوں اورفروع کے مناسب ہیں کیونکہ وہ ہرجزئی مسئلہ میں کثرت سے امثلہ وشواہد پیش کرتے ہیں اورفقہی نکات پر مسائل اٹھاتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقہائے حنفیہ اس میں بڑے ماہر تھے ۔وہ فقہی نکات کے دریامین غوطہ لگاکر مقدوربھرمسائل فقہ سے ان قوانین کے موتی چن لیتے ہیں جیساکہ انہی کے امام میں سے ابوزید دبوسی کازمانہ آیاتوانہوں نے قیاس پر سب سے زیادہ لکھااوران بحثوں اورشرطوں کو تکمیل تک پہنچادیا جن کی قیاس مین ضرورت پڑتی ہے۔ ان کی تکمیل سے اصول فقہ کی صنعت مکمل ہوگئی اوراس کے مسائل مرتب اورقواعد تیار ہوگئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔حنفیہ بھی اس علم پر بہت سی کتابیں لکھیں ہیں۔پہلے علماء میں ابوزید دبوسی کی اورپچھلے علماء میں سیف الاسلام بزدوی کی بہترین کتاب ہے۔جو اس فن کے تمام مسائل کی جامع ہے۔ ابن ساعاتی حنفی نے کتاب الاحکام اوربزدودی کی کتاب کو ایک جگہ ترتیب سے جمع کردیااوراس کا نام البدائع رکھا۔اس کی ترتیب انتہائی بہترین ہے اوریہ بے حد نادرکتاب ہے۔اس زمانے کے علماء کے مطالعہ میں یہی رہتی ہے اوروہ اسی کے مسائل پر تبادلہ خیالات کرتے ہیں۔بہت سے علمائے عجم نے اس کی شرحیں لکھی ہیں‘‘۔(مقدمہ ابن خلدون 632)
جن کو اس تعلق سے زیادہ معلومات چاہئے وہ کشف الظنون،معجم المولفین ،المدخل الی مذھب الحنفی اوردیگر کتابوں کا مطالعہ کریں۔جس سے یہ حقیقت بخوبی کھل کر واضح ہوگی کہ علماء احناف نے تصنیف وتالیف اورپیش آمدہ مسائل میں لوگوں کی رہنمائی ہردور میں جاری رکھااوریہی وجہ ہے کہ امت کا ایک بڑاطبقہ فقہ حنفی سے وابستہ رہاہے۔
فقہ حنفی کی اپنی خصوصیات:
دنیامیں کوئی چیز کبھی بھی محض خارجی سہارے کی بناء پر زندہ نہیں رہتی ۔اورجوچیز محض خارجی تاثیر کی بناء پر زندہ رہتی ہے وہ جلد ہی درگورہوجاتی ہے۔یہ اللہ کانظام اوراللہ کی سنت ہے۔جوبھی چیز دیر تک پایندہ اورتابندہ رہتی ہے اس میں صالحیت کے ساتھ نافعیت کاہوناازحد ضروری ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے نافع اورغیرنافع کا فرق اس طرح بیان فرمایاہے۔
فَأَمَّا الزَّبَدُ فَيَذْهَبُ جُفَاءً وَأَمَّا مَا يَنْفَعُ النَّاسَ فَيَمْكُثُ فِي الْأَرْضِ (سورہ رعد)
فقہ حنفی کی ایک مزید خصوصیت یہ ہے وہ صیقل شدہ ہے۔ یعنی حکومت اورکارقضاء اس کے ہاتھ میں ہونے کی وجہ سے پیش آمدہ مسائل کاحل اس نے پیش کیاہے اورلوگوں کو جو مختلف طرح معاملات پیش آتے ہیں اس میں رہنمائی کی ہے۔ تیرہ صدیوں سے وہ تجربات کی بھٹی میں تپ تپ کر کندن ہوچکی ہے اس معاملے میں اگرکوئی دوسری فقہ اسکے ساتھ شریک ہوسکتی ہے تووہ صرف فقہ مالکی ہے۔
فقہ مالکی اورفقہ حنفی میں ایک مابہ الامتیاز فرق یہ ہے کہ فقہ مالکی کادائرہ کار صرف اندلس اوران کے اطراف ہی رہے ہیں جہاں کی تہذیب اومعاشرت ایک جیسی ہے۔جب کہ فقہ حنفی نے مختلف الاذہان اورمختلف ممالک وقبائل کو اپنے سانچے میں ڈھالاہے۔ایک جانب اگروہ عراق اوردارالسلام بغداد میں حکومت کا سرکاری مذہب ہے تواسی کے ساتھ وہ ترک اورروم میں بھی کارقضاءوافتاء انجام دے رہاہے۔ اگرایک جانب چینی مسلمان فقہ حنفی کے حلقہ بگوش ہیں تودوسری طرف ہندی مسلمان بھی اسی کے دائرہ اطاعت مین داخل ہیں۔
بلا خوف تردید یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ فقہ حنفی تجربات کی بھٹی میں تپ کر کندن بناہے، ۔اگرفقہ حنفی میں جان نہ ہوتی تو وہ تاریخ کے اتنے رگڑے نہیں سہہ سکتی تھی۔وہ اب تک زندہ ہے پایندہ ہے تویہ اسکی نافعیت اورتاریخ کی کسوٹی پر ثابت ہونے والی صداقت ہے۔
اس سلسلہ میں یہ بتادیناشائد نفع سے خالی نہ ہوگاکہ حضرت مولانا مناظراحسن گیلانی نوراللہ مرقدہ یہ کہتے تھے کہ فقہ حنفی اورمالکی تعمیری فقہ ہیں اورفقہ شافعی وحنبلی تنقیدی ہیں اوراس کی توجیہہ وہ یہ کرتے تھے۔
"لوگ جانتے ہیں کہ حنفی اورمالکی فقہ کی حیثیت اسلامی قوانین کے سلسلہ میں تعمیری فقہ کی ہے اورشافعی وحنبلی فقہ کی زیادہ تر ایک تنقیدی فقہ کی ہے۔ حنفیوں کی فقہ کومشرق اورمالکی فقہ کو مغرب میں چوں کہ عموماحکمتوں کے دستوالعمل کی حیثیت سے تقریباًہزارسال سے زیادہ مدت تک استعمال کیاگیاہے اس لئے قدرتاان دونوں مکاتب خیال کے علماء کی توجہ زیادہ تر جدید حوادث وجزئیات وتفریعات کےادھیڑبن میں مشغول رہی۔بخلاف شوافع وحنابلہ کے کہ بہ نسبت حکومت کے ان کا زیادہ ترتعلیم وتعلم،درس وتدریس اورتصنیف وتالیف سے رہا اس لئے عموماتحقیق وتنقید کا وقت ان کو زیادہ ملتارہا۔” (شاہ ولی اللہ نمبرص200)
فقہ حنفی کی ایک اورخصوصیت جواس کو دیگر فقہ سے ممتاز کرتی ہے وہ یہ ہے کہ امام ابویوسف،امام محمد اورامام زفر اگرچہ خود اپنی جگہ مجتہد مطلق تھے لیکن ان کے اقوال بھی امام ابوحنیفہ کے اقوال کے ساتھ ہی کتابوں میں ذکر کئے گئے ہیں لہذا یہ سب مل ملاکر فقہ حنفی ہوگئے ہیں۔ جس کی وجہ سے فقہ حنفی کادائرہ بہت وسیع ہوگیاہے۔شیخ ابوزہرہ اس تعلق سے لکھتے ہیں۔
’’ صرف امام ابوحنیفہ کے اصحاب وتلامذہ کے افکار وآراء ہی ان کے اقوال سے مخلوط نہیں ہوئے بلکہ آگے چل کر لوگوں نے ان میں ایسے اقوال کوبھی داخل کردیا جو امام ابوحنیفہ اوران کے اصحاب سے منقول نہ تھے۔ ان مین سے بعض اقوال کو حنفی مسلک سے وابستہ سمجھاگیااوربعض کو نہیں۔ بعض علماء نے کچھ اقوال کوراجح اوربعض کومرجوح قراردیا۔اس طرح اختلاف وترجیح میں اضافہ ہوتارہا اوریہ سب کچھ بڑےدقیق اورمحکم قواعید پر مبنی تھا۔اس طرح فقہ حنفی میں وسعت پیداہوئی اوراس کا دامن اتناوسیع ہوگیاکہ اس میں زمانہ کے لوازمات اورعام حالات کاساتھ دینے کی صلاحیت پیداہوئی‘‘۔(حیات حضرت امام ابوحنیفہ ص724)
آگے چل کر شیخ ابوزہرہ لکھتے ہیں کہ فقہ حنفی کی ترقی کا باعث تین عوامل ہوئے :
1:حنفی مذہب کے دائرہ کے مجتہد اورتخریج مسائل کرنے والے فقہاء۔
2اامام صاحب اورآپ کے اصحاب سے منقول اقوال کی کثرت
3تخریج مسائل کی سہولت اورمخرجین کے اقوال کامعتبرہونا
: داعیان دین کی کوششیں اورکاوشیں:
یہ بات تاریخی حقیقت ہے کہ سلطنت عباسیہ کے خلفاء حنفی مذہب سے ارادت اورعقیدت رکھتے تھے۔سلطنت عباسیہ کے قاضی اورچیف جسٹس وغیرہ حنفی ہواکرتے تھے۔یہ حکومتیں کفر کی سرزمین پر لشکرکشی کیاکرتی تھی۔ اسلامی تعلیمات سے متاثر ہوکر ہزاروں افراد اسلام لے آتے تھے۔ان نومسلموں کواسلامی تعلیمات سکھانے کی ذمہ داری قاضیوں کی ہواکرتی تھی ۔یہ قاضی چونکہ خود بھی حنفی ہوتے تھے لہذا ان کو مسائل فقھیہ کی تعلیم بھی فقہ حنفی کے مطابق دیاکرتے تھے۔اس طرح رفتہ رفتہ تھوڑے ہی عرصہ میں فقہ حنفی نے ایک بڑی اوروسیع جگہ پیداکرلی ۔بالخصوص نومسلمین تمام کے تمام فقہ حنفی سے ہی وابستہ ہوئے۔یہی وجہ ہے کہ ان نومسلمین قبائل میں سے آگے چل کر جنہوں نے سلطنت وحکومت کی باگ ڈورسنبھالی۔ جیسے کہ سلجوقی،مغل،آل عثمان وغیرہ ۔وہ سب کے سب بھی حنفی ہوئے۔اس کے علاوہ بھی دیگر داعیان دین جنہوں نے انفرادی طورپر دعوت دین کاعلم بلند کیاوہ زیادہ تر حنفی تھے۔
جب چنگیز خان کی قیادت میں تاتاریوں نے عالم اسلامی کوروند دیاتواس وقت عالم اسلام زوال کا شکار تھا۔ اورایسالگتاتھاکہ اس کے دن پورے ہوچکے ہیں لیکن خداکی رحمت جوش میں آئی اورفاتحین نے مفتوحین کے مذہب کوقبول کرلیا۔
چنگیز خان کی حکومت اس کے بیٹوں میں تقسیم کردی گئی تھی۔چنگیز کے بڑے بیٹے کی نسل جوجی خان مین سے برکہ خان نے اسلام قبول کیااس طرح کہ اسکو خود اسلام کی طرف رغبت ہوئی ا وراس نے مسلم تاجروں سے اس کے حوالے سے پوچھااوراسلام قبول کرلیااوراپنے چھوٹے بھائی کوبھی اسلام قبول کرنے کی دعوت دی۔
چنگیز خان کا پوتاقازان بن ارغوان امیرتوزون کی تلقین سے اوران کے ہاتھ پرمشرف بہ اسلام ہوا۔چنگیز خان کے خاندان کی تیسری شاخ جو بلادمتوسطہ پر قابض تھی اس میں سے تیمورخان نےایک مسلم داعی شیخ جمال الدین کاشغر کے ہاتھوں پر اسلام قبول کیا۔(بحوالہ تاریخ دعوت وعزیمت ص331)
حقیقت یہ ہے کہ مغل اورترک تمام کے تمام حنفی گزرے ہیں اوراس کی وجہ یہی ہے کہ انہوں نے جن کے ہاتھوں پر اسلام قبول کیاوہ سبھی کے سبھی حنفی تھے لہذا اس اثر سے انہوں نے بھی فقہیات میں حنفی مسلک کواپنایا۔
اسی طرح ہم ہندوستان مین دیکھیں کہ حضرات صوفیاء کرام کے وجود بامسعود سے ہندوستان مین اسلام کی نشرواشاعت ہوئی ۔صرف خواجہ اجمیر ی کے تعلق سے بعض مورخین نے لکھاہے کہ 90لاکھ افراد حلقہ بگوش اسلام ان کی وجہ سے ہوئے۔پھران کے خلفاء اورمریدین نے دوردراز کے مقامات پر جسطرح اسلام کو پھیلایاوہ تاریخ کاحصہ ہے۔
سیر الاولیاء کے مصنف حضرت خواجہ معین الدین چشتی اوران کے خلفاء کی کاوشوں کااعتراف کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’ملک ہندوستان اپنے آخری مشرقی کنارہ تک کفروشرک کی بستی تی ۔اہل تمرداناربکم الاعلیٰ کی صدالگارہے تھے۔اورخداکی خدائی میں دوسری ہستیوں کوشریک کرتے تھے اوراینٹ ،پتھر ،درخت،جانور،گائے وگوبرکوسجدہ کرتے تھے۔کفر کی ظلمت سے ان کے دل تاریک اورمقفل تھے۔سب دین وشریعت کے خم سے غافل،خداوپیغمبر سے بے خبرتھے۔ نہ کسی نے قبلہ کی سمت پہچانی۔نہ کسی نے اللہ اکبرکی صداسنی،آفتاب اہل یقین حضرت خواجہ معین الدین کے قدم مبارک کا یہاں پہنچناتھاکہ اس ملک کی ظلمت نوراسلام سے مبدل ہوگئی۔اوران کی کوشش وتاثیر سے جہاں شعائرشرک تھے وہاں مسجد ومحراب ومنبر نظرآنے لگے۔ جوفضاء شرک کی صداؤںسے معمورتھی وہ وہ نعرہ اللہ اکبر سے گونجنے لگی۔اس ملک میں جس کو اسلام کی دولت ملی اورقیامت تک جوبھی اس دولت سے مشرف ہوگا۔ نہ صرف وہ بلکہ اس کی اولاد دراولاد نسل درنسل سب ان کے نامہ اعمال میں ہوں گے اوراس میں قیامت تک جوبھی اضافہ ہوتارہے گا اوردائرہ اسلام وسیع ہوتارہے گا۔ قیامت تک اس کاثواب شیخ الاسلام معین الدین حسن سنجری کی روح کو پہنچتارہے گا‘‘۔ (سیر اولیاء ص47،بحوالہ تاریخ دعوت وعزیمت ص28-29)
سیر الاقطاب کے مصنف لکھتے ہیں:
’’ہندوستان میں ان کی وجہ سے اسلام کی اشاعت ہوئی اورکفر کی ظلمت یہاں سے کافور ہوئی‘‘۔(سیرالاقطاب101)
یہ صرف صوفیانہ خوش عقیدگی نہیں ہے بلکہ دیگر مورخین نے بھی اس کااعتراف کیاہے۔ابوالفضل آئین اکبری میں لکھتاہے:
’’اجمیر میں عزلت گزریں ہوئے اوراسلام کا چراغ بڑی آب وتاب سے روشن کیااوران کےانفاس قدسیہ سے جوق درجوق انسانوں نے ایمان کی دولت پائی‘‘۔(ائین اکبری،سرسید ایڈیشن ص270،بحوالہ تاریخ دعوت وعزیمت ص30)
یہ سب صوفیائے کرام چونکہ حنفی تھے لہذا نومسلم بھی فقہ حنفی سے ہی وابستہ ہوئے۔
برصغیر ہندوپاک میں کس طرح اسلام پھیلا۔اس پرپروفیسر آرنلڈ کی کتاب پریچنگ آف اسلام بہت اچھی اورمستند کتاب ہے۔اس کا مطالعہ کیاجائے۔ہم اس مختصر مضمون میں کچھ اشارے کردیتے ہین بالخصوص ہندوستان کے تعلق سے۔
کشمیر جوبرہمنوں کا گڑھ تھااس کو سید علمی ہمدانی نے اپنی دعوتی کوششوں سے اسلام کے مرکز میں تبدیل کردیااوراس طرح تبدیل کیاکہ آبادی کاتوازن ہی بالکل الٹ دیا۔جہاں کبھی برہمن اکثریت میں تھے اب وہ اقلیت میں آگئے۔سید علی ہمدانی حنفی تھے لہذا ظاہرسی بات ہے کہ ان کے اثر سے اسلام قبول کرنے والے بھی فقہ حنفی سے وابستہ ہوئے۔
خواجہ خواجگان شیخ چشتی اجمیری نے جس طرح ہندوستان میں اسلام کی نشرواشاعت کی ۔اس کے بارے میں مولانا سید ابوالحسن علی ندوی لکھتے ہیں۔
"سلسلہ چشتیہ کی بنیاد ہندوستان میں پہلے ہی دن سے اشاعت وتبلیغ اسلام پر پڑی تھی۔اوراس کے عالی مربت بانی حضرت خواجہ معین الدین چشتی کے ہاتھ پر اس کثرت سے لوگ مسلمان ہوئے کہ تاریخ کے اس اندھیرے مین اس کا اندازہ لگانابھی مشکل ہے”(تاریخ دعوت وعزیمت جلد سوم)
پنجاب کے مغربی صوبوں کے باشندوں نے خواجہ بہاء الحق ملتانی اوربابافرید پاک پٹن کی تعلیم سے اسلام قبول کیا۔یہ دونوں بزرگ تیرہویں صدی عیسوی کے قریب خاتمہ اورچودھویں صدی عیسوی کے شروع میں گزرے ہیں۔ بابافرید گنج کے بارے میں مصنف نے لکھاہے کہ انہوں نے سولہ قوموں کو تعلیم وتلقین سے مشرف بہ اسلام کیا۔(پریچنگ آف اسلام)
اس کے علاوہ تمل ناڈو کے بارے میں آتاہے کہ وہا ں نویں صدی میں ایک بزرگ مظہر نامی آکربسے تھے اوران کے ساتھ 900مریدین کی تعداد تھی۔ انہوں نے وحشیوں کو زیربھی کیااوراپنے اخلاق وکردارسے ان کو اسلام کی جانب مائل بھی کیا۔بنگال وبہار میں بھی اسلام کی شاعت صوفیاء کرام کے ہی زیر اثر ہوئی۔اوریہ بات مخفی نہیں ہے کہ صوفیاء کرام میں سے تمام کے تمام حنفی تھے لہذا ان کے وابستگان بھی فقہ حنفی سے وابستہ ہوئے۔
انڈونیشیااورملیشیاء میں حنفیوں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔جب کہ وہاں پر کوئی لشکر کشی نہیں ہوئی، وہاں تاجروں کے ذریعہ اسلام پھیلا۔گمان غالب یہ ہے کہ یہ تاجربھی حنفی ہوں گے اوران کے اثر سے اسلام قبول کرنے والوں نے فقہ حنفی کو اپنایاہوگا۔
یہ اگرچہ انتہائی مختصر جائزہ ہے لیکن اس سے اتنی بات ثابت ہورہی ہے کہ صوفیاء کرام اورداعیان دین کی فقہ حنفی کی نشرواشاعت میں اہم کرداراورحصہ ہے۔
حکومت وسلطنت کااثر
عمومی طورپر مورخین نے بھی فقہ حنفی کے شیوع اوراقطارعالم مین انتشار کاایک حکومت وسلطنت کی سرپرستی قراردیاہے۔اورامام ابویوسف کے عباسی سلطنت میں قاضی القضاۃ(چیف جسٹس)بننے کو بڑی وجہ قراردیاہے۔
ابن حزم لکھتے ہیں:
’’مذہبان انتشرا فی بدء امرھمابالریاسۃ الحنفی بالمشرق والمالکی بالاندلس(وفیات الاعیان 2/216)دومذہب ابتداء میں حکومت کی سرپرستی کی وجہ سے پھیلے مشرق مین حنفی اوراندلس میں مالکی مذہب۔‘‘
ابن خلدون لکھتے ہیں:
’’امام ابوحنیفہ کے ماننے والے آج عراقی، سندھی، چینی ،ماوراء النہر اورتمام عجمی شہروں کے مسلمان ہیں۔ کیونکہ ان کامذہب خصوصیت سے عراق اوردارالسلام کامذہب تھااورسرکاری مذہب کو ہی زیادہ مقبولیت حاصل ہوتی ہے۔‘‘
حضرت شاہ ولی اللہ علیہ الرحمہ اس ضمن میں لکھتے ہیں:
’’وَكَانَ أشهر أَصْحَابه ذكرا أَبُو يُوسُف تولى قَضَاء الْقُضَاة أَيَّام هَارُون الرشيد فَكَانَ سَببا لظُهُور مذْهبه وَالْقَضَاء بِهِ فِي أقطار الْعرَاق وخراسان وَمَا وَرَاء النَّهر‘‘(الانصاف فی اسباب الاختلاف ص39)
اس سے انکار نہیں کہ یہ بھی فقہ حنفی کے نشرواشاعت کاایک سبب ہے لیکن اسی کو مکمل سبب قراردینانہ صرف امام ابوحنیفہ اوران کے شاگردوں کے کام ،کار،کارنامہ کے ساتھ ظلم ہے؛ بلکہ ان تمام فقہائے احناف کے ساتھ ظلم ہے جنہوں نے اپنی پوری زندگی فقہ حنفی کی خدمت میں لگادی۔
دورحاضر میں یہ ایک طرفہ تماشاہے کہ کچھ لوگ حنفیوں کی کثر ت تعداد پر توفوراًان آیتوں کی تلاوت شروع کردیتے ہیں جن میں اکثریت کو گمراہ بتایاگیاہے لیکن اسی کے ساتھ پورے تن من دھن سے اپنی جماعت کی تکثیر کی بھی کوشش کرتے ہیں اورکوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کرتے۔
یہ شاید بہتوں کومعلوم نہ ہوکہ سرکاری استبداد اورظلم وجور کاستم کابھی فقہ حنفی کوہی کرناپڑاہے۔دیگرمسالک اس سے بہت حد تک بچے رہے ہیں۔
اندلس وغیرہ میں فقہ حنفی رواج پذیرتھی لیکن وہاں کے سلطان نے شاہی استبداد سے کام لے کر فقہائے احناف کو اپنی مملکت سے جلاوطن کردیا۔مقدسی احسن التقاسیم میں بعض اہل مغرب کے حوالہ سے لکھتے ہیں۔
تناظر الفريقان يوما بين يدي السلطان فقال لهم من اين كان ابو حنيفة قالوا من الكوفة فقال مالك قالوا من المدينة قال عالم دار الهجرة يكفينا فامر بإخراج أصحاب ابى حنيفة وقال لا أحبّ ان يكون في عملي مذهبان وسمعت هذه الحكاية من عدّة من مشايخ الأندلس
’’ایک مرتبہ سلطان کے سامنے دونوں فریق جمع ہوئے سلطان نے پوچھاامام ابوحنیفہ کہاں کے ہیں۔کہاگیاکوفہ کے ۔پھراس نے پوچھاامام مالک کہاں کے ہیں جواب دیاگیامدینہ کے۔ تواس نے کہاکہ ہمارے لئے صرف امام دارالہجرت کافی ہیں ۔اس کے بعد اس نے تمام فقہائے احناف کوملک سے باہر نکل جانے کاحکم دے دیااورکہنے لگامیں اپنی سلطنت مین دومذہب پسند نہیں کرتا‘‘۔(أحسن التقاسيم في معرفة الأقاليم (ص: 237)
مصر میں فقہ مالکی شافعی اورحنفی سبھی موجود تھے لیکن فاطمی حکمرانوں کے دورمیں صرف فقہ حنفی کووہاں کے حکام نے نشانہ بنایا۔اوراس کی وجہ سیاسی تھی کیونکہ فقہ حنفی سلطنت عباسیہ کاسرکاری مذہب تھااورعباسی خلفاء اورفاطمی حکمرانوں میں ہمیشہ چپقلش رہتی تھی دونوں دینی سیادت وقیادت کے دعویدار تھے۔ایک سنیوں کا نمائندہ تودوسراشیعوں کا نمونہ تھا۔اس وجہ سے فاطمی حکمرانی کے دورمیں جوطویل عرصہ تک ممتد رہا۔فقہ حنفی کونشانہ بنایاگیا۔
اسی طرح فارس یعنی موجود ایران پوراکاپورافقہ حنفی پر عمل پیرتھا۔لیکن ایک جانب وہاں صفوی خاندان کے حکمرانوں نے شیعت کی کوشش وترویج میں جم کر حصہ لیاتودوسری جانب سلطنت عثمانیہ سے چپقلش کی وجہ سےحنفیوں پر زندگی تنگ کردی اوران کو ہرطرح سے ستایاگیا۔نتیجہ یہ ہواکہ وہ شہراوربلاد وامصار جوکبھی فقہائے احناف کے گڑھ ہواکرتے تھے ویران اورسنسان ہوگئے۔اورفارس جوکبھی علمی رہنمائی میں اسلامی دنیاکا نقیب اوررہنماتھاعلمی تنزلی سے ایسادوچارہواکہ کل تک جوزمانہ کےا مام تھے وہ غیروں کے پیروکار بن گئے۔
ہم نے یہ کچھ وجوہات اس لئے بیان کی ہیں کہ تاکہ فقہ حنفی کے انتشاراورشیوع کے تعلق سے مخالفانہ پروپیگنڈہ کرنے والے اپنے نظریات پر نظرثانی کریں۔ سنجیدگی سےغورکریں اورسمجھیں کہ مورخین کے چند بیانات کوجس طرح وہ اپنی دلیل بنائے ہوئے ہیں وہ اس موضوع کے موضوعی اورغیرجانبدارنہ مطالعہ میں کہاں تک درست اورباصواب ثابت ہوتاہے۔
اللہ ہم سب کو اپنی مرضیات پر عمل کرنے کی توفیق دے۔آمین