عبدالرشید طلحہ نعمانی
نصف صدی سے دنیا کو اپنا فکری غلام بنانے والی استعماری طاقتیں انسانیت کوگھن کی طرح کھائی جارہی ہیں ، مغربی تہذیب وثقافت غیرمحسوس طورپر مشرقی اقدار و روایات کو کھوکھلا کر رہی ہے،اور پوری امت غیر محسوس طریقے سے مغرب کے دام فریب میں پھنستی جارہی ہے اور مغرب کی چمک دمک نے اسے اندھا وبے بصیرت کردیا ہے۔قتل وغارت گری پرمبنی فلمیں ،عریانی و انارکی پر مشتمل لٹریچر،فحاشی و بے حیائی کا بڑھتا رجحان، ہماری نودمیدہ نسل کے لئے میٹھا زہرثابت ہورہاہے ۔ آج ہمارا کھانا، پینا، اٹھنا ،بیٹھنا، سونا ،جاگنا،چلنا ،پھرنا اور لباس وپوشاک غرض ہرچیز انگریزی تہذیب کے رنگ میں رنگ چکی ہے۔پچھلے کچھ سالوں سے فحاشی کو فروغ دینے کے لئے جہاں انفرادی طور پر مختلف حربے استعمال کئے گئے ،وہیں اجتماعی اورعالمی سطح پر بھی کچھ دن اس کے لیے متعین کیے گئے ؛تاکہ آہستہ آہستہ عریانیت کو عام کیاجائے ،اخلاقی قدروں کو پامال کیاجائے ؛جس کے نتیجے میں افرادانسانی پر ایسا وقت آئے کہ انہیں فحش امور دیکھنے ، یا اختیار کرنے میں کوئی عارمحسو س نہ ہو۔
اس کے برعکس ”شرم وحیا “اسلام کا شعار اور انسان کا زیورہے؛جس کے ذریعہ ہر فردبشر خصوصاً مسلم قوم اپنی عزت و آبرو کی حفاظت کرتی ہے، تاریخ اس بات پر شاہد ہے کہ انسانی شعور نے ہوش میں آتے ہی سب سے پہلے شرم و حیا کے فطری تقاضوں کی تکمیل کی اور عرُیانی کے احساس سے پریشان ہوکر درخت کے پتّوں سے اپنی شرمگاہوں کو چھپایا۔جناب منیر خلیلی لکھتے ہیں کہ ”حیا،صالح فطرت کی وہ اندرونی کیفیت ہے جو انسان کو عصمت و پارسائی،شرافت و شائستگی اور معقولیت وتہذیب کاپابند بناتی ہے ۔ ذہن و فکر کی پاکیزگی اور گفتار و کردار کی عمدگی و ستھرائی کو شرم و حیا سے تعبیر کیا جاتا ہے ۔ جب انسان میں حیا کی صفت پختہ ہو جاتی ہے تو وہ جذبات و احساسات اور خیالات و افکار کے اظہار میں بے لگام نہیں ہوتا“۔
یہ بھی ایک تاریخی سچائی ہے کہ جب کبھی انسان نے شرم و حیا اور ستر و حجاب کی چادر کو تار تار کر کے عریانیت و فحاشی کا راستہ اختیار کیا تو زوال نے اس کے دروازے پر دستک دی، روم، یونان، مصر، بابل اور خودہندوپاک کی تہذیبوں کے زوال کی کہانیاں پڑھ لیں آپ کو ان کی تہہ میں عریانی و فحاشی کی وہ حیران کن لہر موجزن نظر آئے گی جو ان تہذیبوں میں سرایت کر گئی اور پھر وہ بام عروج کو دوبارہ نہ دیکھ سکیں۔
ننگے پن کے اظہار اور بے حیائی کے فروغ کے لئے نیو ایر کیا کم تھا کہ ویلن ٹائن ڈے کے عنوان سے ایک اور دن بھرپورجوش وخروش سے منایا جانے لگا، چونکہ ہندوستانی سما ج میں اس دن کو منانے کے پیچھے مغرب کی کوری تقلید کارفرماہے اور اس تقلید میں مسلم معاشرے کے بہت سے افراد بھی پیش پیش نظر آتے ہیں؛اس لیے نئی رسم مسلم معاشرہ میں بھی دبے پاوٴں داخل ہو رہی ہے -پہلے پہل محبت کا یہ بدنام دن صرف امریکہ اور یوروپ کی اخلاق واقدار سے عاری تنگ وتاریک محفلوں اور جھومتے گاتے نائٹ کلبوں میں ہی روایتی انداز سے منایا جاتا تھا؛مگر آج تو ہر جگہ مغرب اور اس کی بدبخت تہذیب کی اندھی تقلید کا بول بالا ہے ، اہل مشرق،جہاں ان کی نقالی اوررسم ورواج اپنانے کواپنا طرہ امتیاز سمجھ رہے ہیں وہیں دین و ملت کے تارپود بکھیرنے والے ان حیا باختہ غیرشرعی ایام کو شریعت کی کسوٹی پر پرکھے بغیر بلاچوں چرا ماننے ، منانے اور جشن کرنے کو روشن خیالی اور وسعت ظرفی تصور کررہے ہیں۔اس دن کو جس انداز سے منایا جاتا ہے اور جس طرح بے حیائی کا مظاہرہ کیا جاتا ہے ، اسلامی معاشرہ تو کیا کوئی بھی مہذب سوسائٹی اس کی اجازت نہیں دے سکتی-
اخلاق باختگی اور بے ہودگی کی انتہاء کو پہنچ کر سرخ لباس زیب تن کیے ، ایک دوسرے کو پھول دیتے وقت لوگ یہ بھول جاتے ہیں کہ مردو عورت کا یہ بے حجابانہ ملاپ جہاں عورت کے ماتھے سے حیاء کا زیور لوٹ کر ذلت کا داغ لگا تا ہے وہاں پر مرد کے سر سے انسانیت کا تاج اتار کر اسے شرم سے جھکا دیتا ہے اور دونوں کو انسانوں کی وادی سے نکال کر پلیدگی کے صحرا اور جنسی حیوانیت کے جنگل میں چھوڑ دیتا ہے ۔ سب سے بڑی بات تو یہ ہے کہ یہ ایک ایسا غیر اسلامی، غیر اخلاقی فعل ہے جس سے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ناراض ہوتے ہیں۔یہ غیر اسلامی روش سنجیدگی ، متانت ، عزت و وقار اور حیاء ہی نہیں انسانیت کی اولین قدروں کے بھی سراسر منافی ہے ۔ جسے کوئی بھی شریف النفس قبول نہیں کر سکتا ۔ غیروں کی تہذیب سے در آئے اس دن میں کئی عفت مآب بہنوں کی عزت کے آنچل داغ دار ہوتے ہیں ، کئی خاندانوں میں دشمنیاں جنم لیتی ہیں ، سینکڑوں ایسے واقعات ہیں کہ اس دن عزت و شرافت کے جنازے نکلتے ہیں اور غیور وباشعور خاندانوں میں ماتم کی صفیں بچھ جاتی ہیں اور ہماری نئی نسل مغربی تہذیب کے جنسی بھیڑیوں کی طرف سے ہونے والی تہذیبی یلغاراوراس کے خطرناک مقاصدکو جانتے ہوئے یوم محبت کے دلکش اور دلربا عنوان سے اس شیطانی عمل کو فروغ دے رہی ہے ۔
ویلن ٹائن ڈے کاتاریخی پس منظر:
ویلن ٹائن ڈے کیا ہے ؟یہ کس طرح رائج ہوا؟اس سلسلہ میں کوئی مستند اور حتمی تاریخ موجود نہیں۔۔۔کچھ واقعات ہیں جو اس دن کے ساتھ منسوب کیے جاتے ہیں ۔ ذیل میں ان ہی واقعات کواختصار کے ساتھ نقل کیاجاتاہے۔
انسائیکلوپیڈیا بک آف نالج کے مطابق:وینٹائن ڈے (جو چودہ فروری کو منایا جاتا ہے ) محبوبوں کے لیے خاص دن ہے بک آف نالج میں اس واقعہ کی تاریخ یوں بیان کی جاتی ہے :ویلن ٹائن ڈےکے بارے میں یقین کیا جاتا ہے کہ اس کا آغاز ایک رومی تہوار لوپر کالیا کی صورت میں ہوا۔ قدیم رومی مرد اس تہوار کے موقع پر اپنی دوست لڑکیوں کے نام اپنی قمیصوں کی آستینوں پر لگا کر چلتے تھے ۔ بعض اوقات یہ جوڑے تحائف کا تبادلہ بھی کرتے تھے ۔ بعد میں جب اس تہوار کوسینٹ ویلن ٹائن کے نام سے منایا جانے لگا تو اس کی بعض روایات کو برقرار رکھا گیا۔ اسے ہر اس فرد کے لئے اہم دن سمجھا جانے لگا جو رفیق یا رفیقہ حیات کی تلاش میں تھا۔ سترہویں صدی کی ایک پراُمید دوشیزہ سے یہ بات منسوب ہے کہ اس نے ویلن ٹائن ڈے والی شام کو سونے سے پہلے اپنے تکیہ کے ساتھ پانچ پتے ٹانکے اس کا خیال تھا کہ ایسا کرنے سے وہ خواب میں اپنے ہونے والے خاوند کو دیکھ سکے گی۔ بعد ازاں لوگوں نے تحائف کی جگہ ویلن ٹائن کارڈز کا سلسلہ شروع کردیا۔( ویلن ٹائن ڈے، از محمد عطاء اللہ صدیقی، ص ۳)
اس کے علاوہ ایک اور معروف واقعہ جو ویلن ٹائن نامی شخص کے ساتھ منسوب کیا جاتا ہے اس کے بارے میں بھی عطاء اللہ صدیقی مرحوم لکھتے ہیں:
اس کے متعلق کوئی مستند حوالہ تو موجود نہیں البتہ ایک غیر مستند خیالی داستان پائی جاتی ہے کہ تیسری صدی عیسوی میں ویلن ٹائن نام کے ایک پادری تھے جو ایک راہبہ (Nun) کی زلف گرہ گیر کے اسیر ہوئے ۔ چونکہ عیسائیت میں راہبوں اور راہبات کے لئے نکاح ممنوع تھا؛ اس لئے ایک دن ویلن ٹائن صاحب نے اپنی معشوقہ کی تشفی کے لئے اسے بتایا کہ اسے خواب میں بتایا گیا ہے کہ ۱۴/ فروری کا دن ایسا ہے اس میں اگر کوئی راہب یا راہبہ صنفی ملاپ بھی کرلیں تو اسے گناہ نہیں سمجھا جائے گا۔ راہبہ نے ان پر یقین کیا اور دونوں غلبہٴ عشق میں یہ سب کچھ کر گزرے ۔ کلیسا کی روایات کی یوں دھجیاں اُڑانے پر ان کا حشر وہی ہوا جو عموماً ہوا کرتا ہے یعنی انہیں قتل کردیا گیا۔ بعد میں کچھ منچلوں نے ویلن ٹائن صاحب کوشہید ِمحبت کے درجہ پر فائز کرتے ہوئے ان کی یادمیں دن منانا شروع کردیا۔ چرچ نے ان خرافات کی ہمیشہ مذمت کی اور اسے جنسی بے راہ روی کی تبلیغ پر مبنی قرار دیا؛ یہی وجہ ہے کہ اس سال بھی عیسائی پادریوں نے اس دن کی مذمت میں سخت بیانات دیئے ۔ بنکاک میں تو ایک عیسائی پادری نے بعض افراد کو لے کر ایک ایسی دکان کو نذرآتش کردیا جس پر ویلن ٹائن کارڈ فروخت ہو رہے تھے ۔
فحاشی ہر مذہب میں ایک قبیح فعل:
اللہ تعالی نے مرد اور عورت کے رشتے میں ایک عمومی حرمت قائم کی ہے یعنی عورت اور مرد کے آزادانہ جنسی اختلاط پر پابندی لگائی ہے ۔ اس پابندی کے دو مقاصد ہیں ۔ ایک تو یہ کہ ایک ایسی سوسائیٹی قائم ہو؛ جس کی بنیاد آزادانہ جنسی تعلق کے بجائے نکاح کے اصول پر ہو تاکہ ایک مضبوط خاندانی نظام کو فروغ دیا جاسکے ۔ اس پابندی کا دوسرا مقصد انسان کو آزمانا ہے کہ کون اپنے نفس کے منہ زور تقاضوں کو لگام دے کر خدا کی اطاعت و بندگی اختیار کرتا ہے اور کون صدائے نفس پرلبیک کہہ کراللہ کی نافرمانی کا مرتکب ہوتا ہے ۔شیطان کی دراندازی اور نفس کے ناجائزتقاضوں کے باعث اللہ تعالیٰ نے فطرت اور وحی دونوں کے ذریعے انسان کو شرم وحیا اختیار کرنے کی واضح اور بین ہدایات دی ہیں ۔ فحاشی کی ابتدا مردو عورت کے غلط روئیے اور طرز عمل سے پید ا ہوتی ہے ۔ اگر ابتدا ہی سے درست اور حیاپر مبنی رویہ اختیار کیا جائے تو بے حیائی کی روک تھام آسان ہوسکتی ہے ۔دین اسلام تو ہے ہی پاکیزہ اور صالح دین،اس لیے قرآن مجید میں جگہ جگہ فواحش سے دور رہنے کی تاکید وارد ہوئی ہے ، ارشاد باری ہے :یقینا ً جو لوگ چاہتے ہیں کہ ایمان لانے والوں کے گروہ میں فحش (و بے حیائی) پھیلے وہ دنیا اورآخرت میں درد ناک سزا کے مستحق ہیں۔ (النور) جب ویلن ٹائن بے حیائی اور فحاشی کا دن ہے توا اسے کسی صورت بھی ایک صالح معاشرہ اختیار نہیں کر سکتا۔
اسی طرح فرمان الہی ہے :۔”(اے نبی ﷺ)فرما دیجئے کہ تمام فحش باتوں کو البتہ میرے رب نے حرام کیا ہے خواہ وہ اعلانیہ ہوں خواہ پوشیدہ اور ہر گناہ کی بات کو اور ناحق کسی پر ظلم کرنے کو بھی حرام کیا ہے ۔“(الاعراف)اس آیت میں لفظ فواحشاستعمال ہوا ہے ۔جس کی جمع فاحشہ ہے ۔اوراس کا اردو میں ترجمہ بدکاری و بے حیائیسے کیا جاتا ہے ۔
احادیث مبارکہ میں بھی جگہ جگہ حیاکی تعلیم دی گئی ہے ،نبی کریم ﷺارشادفرماتے ہیں: "کہ ہر دین کا ایک خلقِ ممتاز ہوتا ہے ہمارے دین کا خلقِ ممتاز شرم کرنا ہے (جامع ترمذی)ایک اور مقام پر فرماتے ہیں: جب اللہ تعالیٰ کسی بندے کو ہلاک کرنا چاہتا ہے تو اس سے حیا چھین لیتاہے ۔ جب اس میں شرم نہیں رہتی تو وہ لوگوں کی نظروں میں حقیر ومبغوض بن جاتا ہے ، جب اس کی حالت اس نوبت کو پہنچ جاتی ہے ، تو پھر اس سے امانت کی صفت بھی چھین لی جاتی ہے ۔ جب اس میں امانت داری نہیں رہتی تو وہ خیانت در خیانت میں مبتلا ہونے لگتا ہے اس کے بعد اس سے صفت رحمت اٹھالی جاتی ہے ۔ پھر تو وہ پھٹکارا مارا مارا پھرنے لگتا ہے جب تم اس کو اس طرح مارا مارا پھرتے دیکھو تو وہ وقت قریب آجاتا ہے کہ اب اس سے رشتہ اسلام ہی چھین لیا جاتا ہے -"(ابن ماجہ)
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺنے فرمایا:”کہ اللہ تعالٰی سے ایسی حیا کرو جیسی اس سے حیا کرنی چاہیے ۔ مخاطبین نے عرض کیا الحمد اللہ! ہم اللہ سے حیا کرتے ہیں۔ آپ ﷺنے فرمایا یہ نہیں (حیا کا مفہوم اتنا محدود نہیں جتنا کہ تم سمجھ رہے ہو) بلکہ اللہ تعالٰی سے حیا کر نے کا حق یہ ہے کہ سر اور سر میں جو افکار و خیالات ہیں۔ ان سب کی نگہداشت کرو اور پیٹ کی اور جو کچھ اس میں بھرا ہے اس سب کی نگرانی کرو (یعنی برے خیالات سے دماغ کی اور حرام وناجائز غذا سے پیٹ کی حفاظت کرو)اور موت اور موت کے بعد قبر میں جو حالت ہونی ہے اس کو یاد کرو اور جو شخص آخرت کو اپنا مقصد بنائے گا وہ دنیا کی آرائش و عشرت سے دستبردار ہو جائے گا اور اس چند روزہ زندگی کے عیش کے مقابلہ میں آگے آنے والی زندگی کی کامیابی کو اپنے لیے پسند اور اختیار کرے گا پس جس نے یہ کیا سمجھو کہ اللہ تعالٰی سے حیا کر نے کا حق اس نے ادا کیا۔”(جامع ترمذی)
امام نووی شرح مسلم میں فرماتے ہیں کہ حیاء اور استحیاء دونوں حیات سے نکلے ہیں اور حیاء انسان کی قوت حیات ہے تو جس شخص کااحساس لطیف ہے اور حیات قوی ہے اسی کو حیاء ہوتی ہے ۔جنید بغدادی کہتے ہیں کہ حیاء نعمتوں کادیکھنا اور اپنے قصوروں پر نظر رکھنا ہے یعنی اللہ کے احسانات اور اپنی تقصیرات پر غور کرنا اس سے ایک حالت پیدا ہوتی ہے جس کو حیا کہتے ہیں۔ قاضی عیاض کہتے ہیں حیاء ایک عظیم صفت ہے پھر اس کو ایمان میں داخل کیا اس لئے کہ کبھی حیاء پیداہوتی ہے ریاضت اور کسب سے جیسے اخلاق حسنہ ریاضت سے حاصل ہوتے ہیں اور کبھی خلقی یعنی فطری ہوتی ہے ۔
خلاصہ کلام:
ویلن ٹائن ڈے منانا مذہبی ،اخلاقی اور معاشرتی سطح پر غلط اور ممنوع ہے ،اسلام نہ صرف برائی کا سد باب کرتا ہے ؛بلکہ برائی کی طرف جانے والے ہر راستے کی حوصلہ شکنی کرتا ہے ۔ویلن ٹائن ڈے فحاشی کا دوسرا نام ہے ،اسے معاشرے میں رواج دینا فحاشی کا دروازہ کھولنا ہے ۔مغربی معاشرے کی مثال ہمارے سامنے ہے جہاں بن بیاہی مائیں اور بغیر باپ کے بچے فروغ پا رہے ہیں نیز خاندانی ومعاشرتی نظام کا شیرازہ بکھرچکا ہے ؛اس لیے یاد رکھیں کہ ہماری آنے والی نسلوں کی عزت و حیا کی بقاء صرف اور صرف اسلام کی روشن تعلیمات میں ہے ،لہذاہمیں اپنے معاشرے سے تمام غیر اسلامی ، غیر اخلاقی اور غیر فطری رواجوں کو ختم کرنا ہوگااور ایک صالح معاشرہ کے وجود میں لانے کے لیے کوشش کرنی ہوگی۔