مولانا ندیم احمد انصاری
انسان کی زندگی میں بعض سوالات ایسے ہوتے ہیں،جن کے جوابات انسان جانتا تو ہے،مگر مناسب ترین الفاظ میں ان کا اظہار نہیں کر پاتا۔ ’محبت‘کیا ہے؟یہ بھی ایک ایسا ہی دل چسپ سوال ہے۔دراصل محبت ایک ایسا جذبہ ہے ،جو اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے ہر انسان کے اندر رکھا ہے، لیکن ساتھ ہی اس میں کسی ایک جانب ،بہت زیادہ الجھ کر رہ جانے سے بھی منع فرمایا ہے۔ارشادِربانی ہے:(ترجمہ)لوگوںکو ان کی خواہشوں کی چیزیں یعنی عورتیں اور بیٹے اور سونے و چاندی کے بڑے بڑے ڈھیر اور نشان لگے ہوئے گھوڑے اور مویشی اور کھیتی،بڑی محبوب معلوم ہوتی ہے، مگر یہ سب دینا کی زندگی کے سامان ہیں اور اللہ ہی کے پاس اچھا ٹھکانہ ہے۔(آلِ عمران)
بات دراصل یہ ہے کہ محبت کے جذبے سے بالکلیہ محروم ہونا ،انسانی شرافت کے خلاف ہے،جیسا کہ ارشاد ِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے:قسم ہے اس ذات کی،جس کے قبضے میں میری جان ہے!تم جنت میں اس وقت تک داخل نہیں ہو سکتے ،جب تک کہ ایمان نہ لے آؤ،اور تم اس وقت تک کامل ایمان والے نہیں ہو سکتے،جب تک کہ آپس میں محبت نہ کرنے لگواور کیا میں تمھیں وہ چیز نہ بتاؤں،جس پر عمل کرکے تم آپس میں ایک دوسرے سے محبت کرنے لگو؟(وہ چیز ،جس سے تم آپس میں ایک دوسرے سے محبت کرنے لگوگے،یہ ہے کہ)ایک دوسرے کو سلام کیا کرو۔(مسلم)
اس مبارک حدیث میں باہمی محبت کے جذبے کو،اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ایمان کے کامل ہونے کی شرط قرار دیا۔اللہ سبحانہ وتعالیٰ چوں کہ رب العالمین ہے،اسی لیے انسان کے لیے محبت کی حدود اور مقام کو بھی ربِّ کائنات نے ازخود متعین فرما دیا۔جیسا کہ ارشادِ ربانی ہے:(ترجمہ)اور ایمان والوں کو تو اللہ تعالیٰ ہی سے سب سے زیادہ محبت ہوتی ہے۔(البقرہ )نیز ارشادِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے:تم میں سے کوئی کامل ایمان والا نہیں ہو سکتا،جب تک کہ میں تمھیں،تمھارے والدین،اولاد ،اور تمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہو جاؤں۔(بخاری)
معلوم ہوا مسلمان کے دل میں سب سے زیادہ محبت تو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ہی کی ہونی چاہیے اور بقیہ لوگوں سے جو محبت ہو،وہ بھی اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے مقرر کردہ حدود ہی میں ہو، اور اس میں یہ بھی خیال رہے کہ فسّاق وفجّار سے محبت نہ کی جائے،اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے :انسان قیامت میں اسی کے ساتھ ہوتا ہے،جس سے دنیا میں محبت رکھے۔(الجامع الصغیر)
اس تمہید کے بعد معاشرے میں رواج پا گئے شرم و حیا سے عاری ویلنٹائن ڈے پر غور کرتے ہیں، جسے یومِ محبت کے نام سے موسوم کیا جانے لگا ہے:
’انسائیکلوپیڈیا آف برٹینکا‘ میں ہے کہ تیسری صدی میں روم کے دو شہیدوں کا نام St.Valentineتھا،جن کی یاد میں یہ ’یومِ محبت‘ منایا جاتا ہے۔وہ دونوں،عاشقوں کی مدد کیا کرتے تھے۔ماہِ فروری کا آغاز ہوتے ہی من چلوں کے دلوں میں ارمان انگڑائیاں لینے لگتے ہیںاور شب وروز بے صبری سے 14تاریخ ہی کا انتظار رہتا ہے کہ کب یہ ’مبارک ومسعود‘ گھڑی آئے اور وہ قلبی احساسات اور اپنے ارمانوں کا اظہار اپنے محبوب کے سامنے کریں۔ ابتداء ًیہ ’دن‘ صرف یوروپ میں منایا جاتا تھا،مگر مشرق کی ’وسعتِ ظرفی‘ نے اسے ہمارے معاشرے میں بے پناہ مقبولیت عطا کی اور اب ’ویلنٹائن ڈے‘ ہمارا نوجوان طبقہ بڑے جوش وخروش سے مناتا ہے اور پھر ان کی نظرِ انتخاب دیکھیے کہ اس ’جشن‘ کواکثر اس مقام وماحول میں منایا جاتا ہے، جوعلم وفن کے ساتھ مختص ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دیگر ایام کی بہ نسبت اسکولوں وکالجوں میں، اس دن ’طلبہ‘ کی تعداد خاصی زائد نظر آتی ہے۔ اس دن لڑکے اور لڑکیاں جنسِ مخالف کے سامنے خود کو سرخ جوڑوں میں بنا سنوار کر پیش کرتے ہیں، سرخ کارڈز، پھول اور چاکلیٹس وغیرہ لیتے دیتے ہیں، اور یہ ماحول نوجونواں کے دلوں میں جذبات کوبر انگیختہ کرکے کسی خاص محبوب کی ضرورت کا احساس دلاتا ہے اور اس ماحول ہی کی سر پرستی میں بے حیاؤں کے آزادانہ تعلقات فروغ پاتے ہیں۔ اس پر طرہ یہ کہ بعض تعلیمی ادارے از خود اپنے ’طالبِ علموں‘ کے لیے ایسی تقریبات منعقد کرتے ہیں اور عشق ومحبت کے اس غیر اخلاقی اور غیر دینی اظہارِ محبت میں ان کے مقام وماحول کو سازگار بنانے میںتاحد امکان اعانت کرتے ہیں۔نوجوان طبقے کا حال یہ ہے کہ ان فواحش میں شریک نہ ہونے والوں کو عار دلائی جاتی ہے اور انھیں مردانگی کے طعنے دے کر ان قبیح رسومات میں شامل کرنے کی پیہم کوششیں کی جاتی ہیں۔
اس سب کا جواز اس کا یہ پیش کیا جاتا ہے کہ زندگی کی گو نا گو مصروفیات میں مشغول افراد اگر ایک دن اپنی محبت کا اظہار کر کے ذرا تسکین حاصل کر ہی لیں،تو اس میں کیا قباحت ہے؟ یہ امر واقعی قابلِ غور ہے کہ کیا اس طرح کسی مخصوص دن میں اظہارِ محبت سے حقیقی مقاصد حاصل ہوسکتے ہیں؟ کیا محبت جیسے خوبصورت جذبے کا اظہار بیرونی ثقافت کی تقلید اور پیروی کی صورت میں کرنا ضروری ہے؟ کیا واقعی تصنع سے پُراس اظہار کے نتیجے میں دو لوگوں میں حقیقی محبت پیدا ہوسکتی ہے؟ یا یہ صرف نفس کا دھوکہ ہے کہ اس طرح اپنے ذہن ودماغ کو محض وقتی اور عارضی تسکین دینے کی ناکام کوشش کی جاتی ہے۔ورنہ کیا وجہ ہے کہ اس ’ویلنٹائن ڈے‘ پر ایک دوسرے سے اظہارِ محبت کرنے والے دو لوگ اگلے ویلنٹائن ڈے میں نئے ساتھی کے ساتھ اپنی محبت کا اظہار کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔حقیقت یہی ہے کہ اس طرح کے ’ڈے‘ منانے سے بے حیائی کو تو فروغ دیا جاسکتا ہے،لیکن حقیقی محبت کا جذبہ ہرگز پیدا نہیں کیا جاسکتا۔ٓپ نے دیکھا ،پڑھا یا سنا ہو گا کہ کتنے ہی مقامات پر ایسے واقعات آئے دن رونما ہوتے رہتے ہیں کہ کسی لڑکے نے جب اپنی پسندیدہ لڑکی کے سامنے محبت کا اظہار کیا اور اس لڑکی نے کسی وجہ سے اس کے پیغامِ محبت کو مسترد کردیا، تو وہی لڑکا جو کچھ لمحہ پہلے تک اس لڑکی سے پیار ومحبت کی باتیں کررہا تھا، اس کا جانی دشمن ہوجاتااور اسے مہلک نقصان پہنچانے سے بھی باز نہیں آتا۔ یہ صورت اس لیے پیش آتی ہے کہ دو افراد کے درمیان محبت والفت کا تعلق ہرگز رسماً اظہارِ محبت جیسی ناپائیدار بنیاد پر قائم نہیں ہوسکتا، بلکہ یہ سچی محبت تو قربانی اور ایثار یا عطاے خداوندی کے نتیجے میں وجود پذیر ہوتی ہے، جو ایک دوسرے سے حقیقی محب ومحبوب سے حقیقی خیر خواہی کا مطالبہ کرتی ہے اور ایک دوسرے کو صبر سے برداشت کرنے اور ایک دوسرے کی خوشی میں خوش ہونے اور غم میں غمگین ہونے کا سبق دیتی ہے، جو کہ یہاں مفقود ہے۔
کسی دوسرے کے دل میں تو کیا خود اپنے دل میں بھی کسی کے لیے اس طرح محبت کا جذبہ پیدا کرنا انسان کے بس میں نہیں ہے ،یہ تو عطیۂ خداوندی ہے، جووالدین اوررشتے داروں وغیرہ سے پیدائشی طور پر انسان کی طبیعت میں ودیعت کیا جاتاہے،اورمیاں بیوی کے دلوں میں اللہ تعالیٰ کے ایک حکم اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتِ نکاح کو پورا کرنے کی برکت سے پیدا کر دیا جاتا ہے۔ارشادِ ربانی ہے:(ترجمہ)اور اسی کی نشانیوں میں سے ہے کہ اس نے تمھاری ہی جنس سے بیویاں پیدا کیں،تاکہ ان کی طرف مائل ہوکر تم آرام حاصل کرواور تم میں مودّت ورحمت پیدا کر دی۔جو لوگ غور کرتے ہیں،ان کے لیے ان باتوں میں بہت سی نشانیاں ہیں۔(الروم)اس آیت میں ارشاد فرمایا گیا’وجعل بینکم مودۃ ورحمۃ‘ یعنی اللہ تعالیٰ نے زوجین کے درمیان صرف شرعی اور قانونی تعلق قائم نہیں رکھا،بلکہ ان کے دلوں میں مودت اور رحمت پیوست کر دی۔وْدّاور مودّت کے لفظی معنی چاہنے کے ہیں،جس کا ثمرہ محبت والفت ہے۔یہاں اللہ تعالیٰ نے یہی دولفظ اختیار فرمائے،ممکن ہے کہ اس میں اشارہ اس طرف ہوکہ مودت کا تعلق جوانی کے اس زمانے سے ہے، جس میں طرفین کی خواہشات ایک دوسرے سے محبت والفت پر مجبور کرتی ہیںاور بڑھاپے میں جب یہ جذبات ختم ہو جاتے ہیں،تو باہمی رحمت وترحم طبعی ہو جاتا ہے۔(معارف القرآن)
ضرورت ہے کہ نوجوانانِ قوم اس حقیقت کو سمجھنے کی کوشش کریں اور سنجیدہ مزاج ذمّے داران حضرات بھی اس امر میں غور وفکر کرکے معاشرے کو ان خرافات سے پاک کرنے کی تدابیر اختیار کریں۔وما توفیقی الاباللہ
(مضمون نگار الفلاح اسلامک فاؤنڈیشن، انڈیا کے ڈیریکٹر ہیں)