مولانا جمیل احمد اعظمی مبارک پوری

(۲۰۱۸ء -۱۹۳۹ء )


محمد اللہ خلیلی قاسمی

۱۱/ نومبر ۲۰۱۸ء بروز اتوار، میں گنگا ستلج ایکسپریس سے اپنے وطن فیض آباد سے واپس آرہا تھا ، ٹرین مرادآباد کے قریب پہنچی تھی کہ وہاٹس ایپ کے ذریعے اطلاع ملی کہ دارالعلوم دیوبند کے استاذ مولانا عارف جمیل صاحب کے والد محترم مولانا جمیل احمد صاحب اچانک انتقال کرگئے، خبر پڑھ کر دل پر ایک دھچکہ سا لگا اور زبان سے بے اختیار ”اِنّا لِلّٰہِ وَاِنَّااِلَیْہِ رَاجِعُوْن“ کے استرجاعی کلمات جاری ہوگئے۔
مولانا مرحوم سے میری صرف ایک ملاقات ہوئی ، جب وہ تقریباً ایک ماہ قبل دیوبند تشریف لائے تھے ، لیکن یہ ملاقات اتنی طویل اور یادگار تھی کہ آج بھی اس کے نقوش لوحِ دل پر مرتسم نظر آتے ہیں،ہوا یوں کہ میں نے دارالعلوم کے احاطہ مولسری میں گذرتے ہوئے دیکھا کہ ایک بزرگ سفید پوش کچھ پستہ قد ،سانولارنگ، پیر خمیدہ،اور پرنور وروشن چہرے کے ساتھ ایک دیواری پرچے کے مطالعہ میں غرق ہیں، مجھے گذرنا تھا میں گذر گیا، اور اپنے دفتر (شعبہٴ انٹرنیٹ و آن لائن فتوی ویب) میں جاکر اپنے کاموں میں مشغول ہوگیا ، ابھی کچھ ہی دیر گذری تھی کہ وہی بزرگ ہمارے دفتر کے اندر تشریف لے آئے اور دیکھا ہمارے دفتر کے کارکن مولانا محمدمعاویہ مبارک پوری نے بڑے تپاک اور ادب کے ساتھ مصافحہ کیا اور ساتھ ہی ساتھ مجھ سے تعارف کرواتے ہوئے کہا کہ یہ مولانا عارف جمیل صاحب کے والد محترم ہیں، میں نے بڑھ کر مصافحہ کی سعادت حاصل کی اور انہیں کرسی پر بیٹھا دیا۔
رسمی خیروخیریت کے بعد گفتگو کا سلسلہ شروع ہوا، محسوس ہوا کہ محترم بڑے سادہ مزاج ، متواضع اور ملنسار طبیعت کے ہیں، اسی وجہ سے طبعاً ان سے انسیت اور لگاؤ محسوس ہوا، بے تکلفی سے باتیں شروع ہوگئیں، پھر کیا تھا بات پر بات نکلتی گئی اور شاید ڈیڑھ دوگھنٹے تک آپ کی دلچسپ گفتگو سے محظوظ ہوتا رہا۔
فرمانے لگے کہ دارالعلوم میں دورِ طالبِ علمی میں حضرت مدنی(شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنی) کو دیکھا، لیکن ابھی موقوف علیہ میں تھا کہ حضرت کا وصال ہوگیا، اس لیے حضرت کی شاگردی کا شرف نہ حاصل کرسکا، البتہ حضرت مولانا سید فخرالدین مرادآبادی سے دورہ حدیث کی تکمیل کی۔ گویا ۱۹۵۸ء میں آپ نے فراغت حاصل کی ، حضرت مولانا ریاست علی صاحب سابق استاذ حدیث و ناظم تعلیمات دارالعلوم دیوبند اور حضرت مولانا محمد احمد فیض آبادی سابق ناظم تعلیمات دارالعلوم دیوبند آپ کے ہم درس تھے۔ فراغت کے بعد دو سال تک ’تکمیل فنون ‘ کے شعبہ میں داخل رہے۔
۱۹۶۰ء میں تکمیل تعلیم کے بعد اپنے وطن مبارک پور کے مشہور وقدیم مدرسہ احیاء العلوم میں مدرس ہوگئے، تقریباً پندرہ سال تک تدریسی خدمات انجام دیں۔ اس زمانے میں بہت سے طلبہ نے آپ سے استفادہ کیا ، ان میں بعض مشاہیر علماء میں شامل ہوئے جیسے مولانا ابو بکر غازی پوری، مولانا اعجاز احمد اعظمی، مولانا ابواللیث اعظمی ، مفتی محمد امین مبارک پوری، مولانا توفیق احمد جون پوری ، مولانا نسیم احمد بارہ بنکوی استاذ دارالعلوم دیوبند، مولانا مفتی محمد شوکت گورکھپوری وغیرہ ۔ مولانا اعجاز احمد اعظمی نے اپنی خود نوشت سوانح حیات میں آپ کی درسی خصوصیات کا خوب تذکرہ کیا ہے، دیکھئے: ص ۹۷-۹۶ اور ۱۱۸-۱۱۷۔
پھر ۱۹۷۶ء جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ میں آپ کا داخلہ ہوگیا، چناں چہ مدینہ منورہ چلے گئے اور ۱۹۷۹ء تک تعلیم مکمل کی ۔ تکمیل کے بعد سعودی عرب کی حکومت نے آپ کو مغربی افریقہ کے ایک غیر عربی ملک نائجیریا بھیج دیا، جہاں کے ساحلی شہر لاگوس(Lagos)میں آپ کا قیام رہا ، کچھ دنوں کے لیے اسی سے متصل دو دوسرے ممالک گھانا (Ghana) اور نائجر(Niger)میں بھی قیام رہا ، لیکن ناموافق حالات کی وجہ سے جلد ہی ان جگہوں کو چھوڑنا پڑا۔ نائجیریا میں آپ نے تقریباً ۲۷/سال گذارے، سعودی حکومت کے مبعوث ہونے کی حیثیت سے آپ نے وہاں مسلمان بچوں کی تعلیم وتربیت میں نمایاں اور اہم کردار ادا کیا۔
نائجیریا ایک مسلم اکثریتی ملک ہے، وہاں عیسائی بڑی اقلیت کے طور پر رہتے ہیں، ملک میں اسلامی تعلیم کا بہتر انتظام نہیں تھا، کچھ صاحب ثروت مسلمان ذاتی طور سے مکاتب یا مدارس چلاتے تھے، ”الملحقة الثقافیة“ (سعودی عرب کی ایمبیسی کے زیر اہتمام علمی وتعلیمی خدمات کا ادارہ)کے ذریعہ آپ کو ایک مدرسہ میں صدر مدرس مقرر کیے گئے ۔ فرمایا کہ دینی تعلیم کا نظام بہت کم زور تھا، وہاں کے حالات بھی اچھے نہ تھے، ملک میں غربت وافلاس کا دور دورہ تھا، لیکن پھر بھی انہوں نے ہمت نہیں ہاری ، اور سخت محنت وتندہی کے ساتھ بچوں کو پڑھانا شروع کیا۔ آپ کی محنت سے تعلیم کا ایک ماحول پیدا ہوگیا اور طلبہ کی تعداد میں خاصہ اضافہ ہوگیا، فرماتے ہیں کہ طلبہ کی تعداد میں اضافہ کے پیش نظر ایک با ر میں نے ایک اضافی مدرس رکھ لیا، چوں کہ میں صدر مدرس تھا، اسی لیے اپنے اختیار سے یہ کام کرگذرا اور اس کی تنخواہ اپنی جیب سے ادا کرنی شروع کی، مدرسے کے مالک (انہوں نے نام بھی بتلایا تھا ،مجھے یاد نہیں رہا) کو جب یہ بات معلوم ہوئی تو مولانا کے خلوص سے متأثر ہوئے اور انہیں غیرت بھی آئی، چناں چہ انہوں اس مدرس کی تنخواہ اپنے مدرسے کی طرف سے جاری کردی۔
نائجیریا میں مولانا کے متعدد شاگرد ایسے بھی ہوئے ، جنہوں نے آگے مزید اعلیٰ تعلیم حاصل کی اور نمایاں ترقی کی، ان میں کئی ایک نام لے کر مولانا نے بتایا کہ فلاں حکومت سے وظیفہ یاب ہوکر امریکہ میں تعلیم حاصل کرنے گیا اور ، اور فلاں حکومت کے منصب پر فائز ہوا وغیرہ وغیرہ، ان میں کئی ایک ایسے ہیں جو اخیر تک مولانا سے مربوط تھے اور گاہے بگاہے حضرت سے رابطہ رکھتے تھے۔ مولانا کے خلوص ، تواضع اور لگن کی وجہ سے وہاں طلبہ ان کے والدین اور عام مسلمان آپ سے بہت زیادہ مانوس ہوگئے تھے، بلکہ ان میں سے ایک نے ابھی کچھ سال قبل آپ سے ملاقات کی غرض سے انڈیا کا سفر کیا اور مبارک پور آپ کے گھر پر جاکر آپ سے ملاقات کی، مولانا نے پوری تفصیل سے اس واقعہ کا ذکر فرمایا۔
فرماتے ہیں کہ شہرمیں آپ جامع مسجد میں جمعہ کے امام تھے، سعودی سفیر نے آپ کا تبادلہ کسی اور جگہ کرنا چاہا، جب مسجد کے ذمہ داروں کو معلوم ہوا تو وہ سفیر کے پاس پہنچے اور انہیں معاملہ کے نزاکت سے آگا ہ کیا ۔دراصل نائجیریا میں دو قبیلے آباد ہیں: (۱) حوثہ(۲) یوربہ، اور دونوں میں چشمک بلکہ مخاصمت کی شکل بنی رہتی تھی ، دونوں ایک دوسرے سے نبرد آزمارہتے ہیں، مولانا کی امامت کی وجہ سے دونوں قبیلے باہم متفق ہوکر مسجد میں نماز پڑھتے تھے، ذمہ داران مسجد نے سعودی سفیر کو بتایا کہ اگر مولانا امامت نہیں کریں گے تو فتنہ برپا ہوجائے گا، چناں چہ سفیر آپ کے تبادلہ کے خیال سے باز آیا۔
اسی مسجد میں آپ نے تفسیر قرآن کا بھی سلسلہ شروع کیا تھا، آپ عربی میں بیان کرتے اور اس کا مقامی زبان میں ترجمہ کیا جاتا۔
نائجیریا میں آپ نے قرآن ، تجوید ، فقہ اور دینیات وغیرہ کی تعلیم دیتے تھے۔ فرماتے ہیں کہ ہمارے احباب تبصرہ کرتے ”جمیل نائجیریا میں کیا کرتا ہوگا، بچوں کو قرآن پڑھاتا ہوگا“ ، کہنے لگے : میں فخر سے کہتا ہوں کہ وہاں میں قرآن پڑھاتا تھا، مجھے اس پر فخر ہے۔“ او کما قال ۔
فرماتے ہیں کہ جس زمانے میں نائجیریا جاناہوا، اس زمانہ میں اس کی حالت بہت بری تھی، شہر کی سڑکیں کچی تھیں، جو بارش میں کیچڑ میں تبدیل ہوجاتی تھیں اور آنا جانا دشوار ہوجاتا تھا۔ علاوہ ازیں وہاں بیماریوں اور وباؤں کا بھی زور بندھتا تھا۔ ایک مرتبہ اسی زمانے میں آپ وہاں بچوں کے ساتھ میں مقیم تھے، اور بچے بیمار پڑگئے، کہتے ہیں کہ اسی کیچڑ میں چل کر ڈاکٹر کے پاس جانا پڑتا اور ڈاکٹر بھی اس زمانے میں خال خال تھے۔ بعد میں نائجیریا میں تیل کی دریافت ہوئی اور ملک نے ترقی کی، سڑکیں، پُل اور برج خوب بن گئے۔
افریقہ تقریباً تین عشروں پر پر محیط خدمات انجام دینے کے بعد آپ ۲۰۰۶ء میں ریٹائر ہوگئے، اور واپس آکر گھر پر ہی رہے، کئی مدرسہ والوں نے آپ سے اصرار کیا، لیکن آپ نے باضابطہ کسی مدرسے کی ملازمت نہیں اختیار نہیں کی۔ درمیان میں کچھ دنوں کے لیے جامعہ احیاء العلوم مبارک پور کی نظامت قبول کی، لیکن گھٹنوں کے مرض کی وجہ سے اسے بھی چھوڑ دیا۔
مولانا عارف جمیل صاحب آپ کے لائق وفائق صاحبزادے ہیں، جو اس وقت دارالعلوم دیوبند میں ادب عربی کے استاذ ، مجلہ ”الداعی“ کے معاون مدیر اور متعدد کتابوں کے مصنف و مترجم ہیں۔ آپ کے ایک دوسرے صاحبزادے مولانا محمد صادق صاحب قاسمی مبارک پوری ہیں،جو ۱۹۹۷ء میں راقم السطور کے ہم سبق تھے، نہایت کم گو، لیکن محنتی، شریف اور باصلاحیت تھے، اب مدرسہ نور الاسلام ولید پور مئو میں صدر مدرس ہیں۔
مولانا جمیل احمد صاحب کی صحت بہ ظاہر ایسی نہ تھی کہ کسی تشویشناک بات کا اندیشہ ہوتا، لیکن اچانک انہیں دل کا دورہ پڑا، دیوبند میں ڈی کے جین کے یہاں آئی سی یو میں بھرتی کیے گئے، لیکن دو ایک دن کی مختصر علالت کے بعد بالآخر جاں بر نہ ہوسکے اور جان جاں آفریں کے سپرد کردی، اَدْخَلَہُ اللّٰہُ الْجَنَّةَ وَاَکْرَمَ مَثْوَاہُ۔
وہ ابھی جمعہ (۹/نومبر) کوہی دیوبند آئے تھے، گویا دیوبند کی مٹی انہیں یہاں کھینچ کر لائی تھی، بالآخر ۱۲/ نومبر کو حضرت مولانا مفتی ابوالقاسم نعمانی مدظلہ مہتمم دارالعلوم دیوبند کی امامت میں احاطہٴ مولسری میں بعد نماز ظہر علماء اور طلبہ کے ایک بڑے مجمع نے آپ کی نماز جنازہ پڑھی اور مزارِ قاسمی میں آپ کے اساتذہ کے پہلو میں آپ کو سپردِ خاک کردیا گیا #
آسماں ان کی لحد پر شبنم افشانی کرے
سبزہٴ نو رستہ اس گھر کی نگہ بانی کرے

Related Posts

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے