اقبال کے فکری اور تخلیقی سر چشمے

حفظ الرحمن قاسمی

اقبال ایک بین الاقوامی شہرت یافتہ مفکر شاعر ہیں۔ ظاہر ہے کہ انھیں عظمت و بلندی کا یہ مقام حاصل کرنے کے لئے بے شمار کتابوں، نظریات و افکار اور بیشتر نامور شاعروں اور مفکروں کا بنظر غائر مطالعہ کرنا پڑا ہوگا۔ چنانچہ ان کے کلام کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ نہ صرف یہ کہ انھوں نے دنیا کے بے شمار صاحب نظر افراد؛ بلکہ مختلف فلسفیانہ اور حکیمانہ نظریات اور کتابوں سے بھی استفادہ کیا ہے۔ البتہ یہ بات ضرور ہے کہ اس استفادہ کے دوران رد و قبول کے سلسلے میں ان کے یہاں جو معیار تھاوہ قرآن و سنت تھا۔ انھوں نے عربی مقولہ ’خذ ما صفا و دع ما کدر‘ کے اصول پر شخصیات، حکیمانہ نظریات اور کتابوں سے استفادہ کے بعد اپنے فن اور فکر کی عمارت کھڑی کی ہے۔

جب ہم اقبال کے فکری اور تخلیقی سر چشموں کی چھان بین کرتے ہیں تو ہمیں ان کی شاعرانہ اور مفکرانہ دونوں حیثیتوں کو مد نظر رکھنا چاہیے اور پھراس بات کی تحقیق کرنی چاہیے کہ انھوں نے بطور شاعر اسلوب بیان ، شاعری کی فنی خصوصیات اورالفاظ وتعبیرات کے لحاظ سے کن شعرا کی پیروی کی ہے۔ ایسے شعرا کو ہم اقبال کا فنی سر چشمہ قرار دے سکتے ہیں،دوسرے ان عناصر کا پتہ لگانا ہوگا جن سے فکر اقبال کو جلا ملی اوروہ فکر، بلند خیالی ، سوز و مستی اور جذب و عشق کے عظیم شاعر بن گئے۔

اقبال کے فنی سرچشمے

اقبال نے شاعری کی دنیا میں قدم رکھا تو ہر طرف غزل کی گرم بازاری تھی اور دا غ و میر کا رنگ سخن مقبول خاص و عام تھا۔ چنانچہ اقبال بھی غزل گوئی کی طرف متوجہ ہوئے اور عام طرز سخن کو اختیار کیا۔ اس زمانہ میں داغ نے حیدر آباد میں اصلاح سخن کا دفتر قائم کر رکھا تھا، شعرا کا کلام ڈاک سے موصول ہوتا تھا اور اصلاح کے بعد واپس کر دیا جاتا تھا۔ اقبال بھی داغ کے نا دیدہ پرستار تھے، چنانچہ ان کے حلقہ تلامذہ میں شامل ہو گئے۔

مجھے بھی فخر ہے شاگردی داغ سخنداں کا

اقبال کے اس زمانہ کے کلام کے مطالعہ سے اندازہ ہوتا ہے کہ انھوں اس وقت داغ کی مکمل پیروی کی اور اپنی شاعری میں اس زمانے کی بہت سی غزلوں کو اس مجموعہ میں شامل نہیں کیا۔ ان میں سے ایک غزل کے چند اشعار یہ ہیں:

نہ آتے ہمیں اس میں تکرار کیا تھی مگر وعدہ کرتے ہوئے عار کیا تھی

تمھارے پیامی نے سب راز کھولا خطا اس میں بندے کی سرکار کیا تھی

اس کے بعد اقبال کی زندگی میں ایک زبر دست انقلاب آیا، وہ روایتی عشقیہ شاعری کو تضییع اوقات سمجھنے لگے اور فیصلہ کیا کہ اب ایسی شاعری کی جائے جس سے قوم کے مردہ جسم میں جان آ جائے۔ اس مقصد کے لئے داغ کا اسلوب بے مصرف تھا۔چنانچہ وہ غالب کی طرف متوجہ ہوئے کیونکہ وہ شاعری سے جو کام لینا چاہتے تھے اس میں غالب کا اسلوب ہی معاون ہو سکتا تھا۔ غالب کا فلسفیانہ انداز بیان اور فارسی تراکیب اقبال کے کام میں اس حد تک جلوہ گر ہوئیں کہ کسی نے انھیں غالب کا معنوی شاگرد قرار دیا، کسی نے کہا اگر غالب نہ ہوتے تو اقبال بھی نہ ہوتے، سر عبد القادر نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ اقبال کے روپ میں غالب نے دوبارہ جنم لیا ہے خود علامہ نے بانگ درا اور جاوید نامہ میں جس انداز میں خراج تحسین پیش کیا ہے وہ غالب سے ان کی عقیدت اور اثر پذیری کا بین ثبوت ہے۔ لیکن غالب اور اقبال میں ایک نمایاں فرق یہ ہے کہ غالب فلسفی نہیں البتہ حکیمانہ نظر رکھتے ہیں، جب کہ اقبال فلسفی ہیں اور ایک مربوط فلسفہ رکھتے ہیں۔

اب ان کی غزل کا انداز روایت سے ہٹ کر شاعری کو ایک نئی سمت سے روشناس کرا نے لگا۔

زمانہ آیا ہے بے حجابی کا عام دیدار یار ہوگا سکوت تھا پردو دار جس کا وہ راز اب آشکار ہوگا
نکل کے صحرا سے جس نے روما کی سلطنت کو الٹ دیا تھا سنا ہے یہ قدسیوں سے میں نے وہ شیر پھر ہوشیار ہوگا

یہ نمونہ ہے بانگ درا کی ان غزلوں کا جو اقبال کی نئی منزل کا پتہ دیتی ہیں۔ بال جبریل کو اقبال کی فکری و فنی معراج کہا جا تاہے۔ اس میں جو غزلیں ہیں وہ اردو شاعری میں ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہیں۔ بال جبریل کی غزلوں نے اردو غزل کوایک تواناصنف سخن کی حیثیت سے متعارف کرایا ہے۔ کلیم الدین احمد نے غزل کے شعر پر یہ تنقید کی تھی کہ ’غزل کا شعر! دو مصرعے! دو مصرعوں کی بساط ہی کیا؟‘ لیکن اقبال نے پہلے ہی یہ ثابت کر دیا تھاکہ کوزہ میں دریا کو سمونا بھی ممکن ہے بشرطیکہ انسان کو اس کا ہنر معلوم ہو، چنانچہ اقبال نے پیچیدہ فلسفے اور مشکل پیغام کو بھی پورے شعری آداب کے ساتھ غزل کے شعر میں پیش کیا۔

جن شعرا کے اسلوب سے اقبال کا کلام متاثر نظر آتا ہے ان میں ایک نام حافظ شیرازی کا بھی ہے۔ اقبال کو حافظ کے انداز فکرسے سخت اختلاف تھا ، لیکن وہ ان کے کمال شاعری کے مداح تھے۔ چنانچہ سب کو اعتراف ہے کہ اقبال کے اسلوب شاعری خصوصاپیام مشرق کی نظموں اور زبور عجم کی غزلوں میں وہی غنائیت و سرمستی ہے جو حافظ کی شاعری کا طرہ امتیاز ہے۔ نظیری و بیدل کی شاعری کے رنگ سے بھی وہ متاثر تھے اور اس رنگ کے اثرات ان کی شاعری میں بھی جا بجا واضح طور پر نظر آتے ہیں ۔ شاکر صدیقی کو ایک خط میں بیدل اور نظیر ی کے مطالعے کا مشورہ دیتے ہیں کہ اس سے ان کی فارسی کا ذوق خودبخود بیدار ہوگا۔ نیاز فتحپوری نے اقبال کی غزل گوئی پر بحث کرتے ہوئے لکھا ہے کہ انھوں نے زبان و تعبیرات اور خیال و اسلوب کے لحاظ سے جن شعراے فارسی سے استفادہ کیا ہے ان میں غالب، بیدل، نظیری، عرفی وغیرہ بھی شامل ہیں، لیکن آہنگ تغزل میں وہ حافظ سے بہت متاثر تھے۔

اقبال کے فکری سر چشمے

اقبال کی شاعرانہ عظمت تو مسلم ہے، لیکن ان کی فکر اس قدر بلنداور پختہ ہے کہ بعض اوقات یہ فیصلہ کرنا مشکل ہو جاتا ہے کہ اقبال بڑے مفکر ہیں یا بڑے شاعر۔ بہر کیف اقبال کی زندگی کا یہ پہلو ایک مستقل موضوع بحث ہے۔ یہاں ہمیں ان عناصر کی جستجو کرنی ہے جنھوں نے اقبال کو درد و سوز، تب و تاب اور ان کی فکر کو نئی قوت و توانائی بخشی۔

ایمان و یقین :

اقبال کی شخصیت کے عناصر ترکیبی میں سب سے پہلی چیز ان کا ’ایمان و یقین‘ ہے۔ ایمان و یقین ہی اقبال کی ساری طاقت و قوت اور حکمت و فراست کا پہلا منبع اور سر چشمہ ہے۔اقبال کا ایمان اس خشک و جامد ایمان کی طرح نہیں جو بے جان تصدیق یا محض جامد عقیدہ ہوتا ہے؛ بلکہ ان کا ایمان عقیدہ و محبت کا حسین امتزاج ہے جو ان کے قلب و وجدان، عقل و فکر اور ارادہ و تصرف، تمام چیزوں پر حاوی ہے۔ تھامس آرنلڈ نے ’مذہب اسلام ‘(The Faith of Islam) میں لکھا ہے کہ ’ان کا ایمان ہے کہ آپ ﷺ کی تعلیمات مثالی معاشرے کی بنیاد ہیں اور انہیں کے ذریعہ عالم اسلام کی نشاۃ ثانیہ ممکن ہے۔ بنی کریم ﷺکے ساتھ ان کی محبت اورشغف انتہا درجہ کا تھا۔ ان کے نزدیک اسلام ہی ایک ایسا زندہ جاوید دین ہے جس کے بغیر انسانیت فلاح و بہبود کے بام عروج تک نہیں پہونچ سکتی۔‘

مادیت اور مغربی تہذیب و تمدن کی ظاہری چمک دمک سے بھی اقبال کی آنکھیں خیرہ نہ ہو ئیں، حالانکہ انھوں نے اپنی زندگی کے طویل ایام جلوہ دانش فرنگ میں گذارے ہیں۔ اس کی وجہ ان کا مضبوط ایمان تھا اور بنی کریم ﷺسے ان کی قلبی محبت تھی،جس نے ان کو فساد قلب و نظر سے محفوظ رکھا:

خیرہ نہ کر سکی مجھے جلوہ دانش فرنگ
سرمہ ہے میر آنکھ کا خاک مدینہ و نجف

جوں جوں زندگی کے دن گذرتے گئے، اقبال کی بنی ﷺکے ساتھ والہانہ محبت بڑھتی گئی، یہاں تک کہ آخری عمر میں جب بھی نبی ﷺ یا مدینہ کا ذکر ہوتا، تو بے قرار ہو جاتے اور آنکھیں نم ہو جاتیں، یہی وہ گہری محبت تھی جو ان کی زبان سے الہامی شعروں کو جاری کر دیتی تھی، چنانچہ اللہ تعالی کو مخاطب کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

مکن رسوا حضور خواجہ مارا

حساب من زچشم او نہاں گیر
ان کا کلام اگر ایمان و محبت سے خالی ہوتا تو ایک مقفی اور موزوں کلام تو بن جا تا لیکن زندہ جاوید پیغام نہ بنتا۔

قرآن:

اقبال کی شخصیت کا دوسرا تخلیقی عنصر قرآن کریم ہے۔ اقبال کی زندگی پر اس عظیم کتاب سے زیادہ کوئی دوسری چیز اثر اندازنہیں ہوئی۔ قرآن کریم ان کے دل و دماغ پر چھایا ہو تھا، مولانا مودودی ’جوہر‘ (اقبال نمبر) میں لکھتے ہیں کہ ’اقبال جو کچھ سوچتا تھا وہ قرآن کے دماغ سے سوچتا تھا، جو کچھ دیکھتا تھا قرآن کی نظر سے دیکھتا تھا۔ حقیقت اور قرآن اس کے نزدیک شئے واحد تھے۔‘ ‘ ڈاکٹر خلیفہ عبد الحکیم کہتے ہیں کہ ’اقبال قرآن کا شاعر اور شاعر کا قرآن تھا۔‘

قرآن کے ساتھ اقبال کے اس تعلق و شغف کی کیا وجہ تھی؟ در اصل اس کی وجہ وہ واقعہ تھا جو انھوں نے خود بیان کیا کہ بچپن میں اقبال کے والد نے ان سے کہا تھا کہ قرآن اس طرح سے پڑھو گویا تم پر ابھی نازل ہو رہا ہے۔ اس کے بعد انھوں نے قرآن سمجھ کر پڑھنا شروع کر دیا۔ اپنے ایک شعر میں وہ اس کا اظہار کرتے ہیں:

ترے ضمیر پہ جب تک نہ ہو نزول کتاب
گرہ کشا ہے نہ رازی نہ صاحب کشاف

پھرتو گویا قرآن کریم ان کی زندگی پر اس طرح چھا گیا کہ وہ قرآن کے شاعر ہو گئے، خود ان کا دعوی ہے کہ ان کاکوئی شعر قرآنی تعلیمات کے خلاف نہیں۔ ’عرض حال مصنف‘ کے عنوان سے انھوں نے ایک جگہ گڑ گڑا کر حلفیہ بیان کیا ہے کہ ان کے کلام کا ایک ایک لفظ قرآن کے مطابق ہے اور اگر ایسا نہ ہو تو حشر کے دن انھیں آنحضرت ﷺ کا دیدار نصیب نہ ہو:

گر دلم آئینہ بے جوہر است ور بحرفم غیر قرآں مضمر است
روز محشر خوار و رسوا کن مرا بے نصیب از بوسہ پا کن مرا

آہ سحر گاہی:

چوتھی چیز جس نے اقبال کی شخصیت کو پروان چڑھایا اور ان کی شاعری کو نت نئے معانی، افکار کی جولانی اور قوت تاثیر عطاکی ، وہ ان کی آہ سحر گاہی تھی۔ جب سارا عالم خواب غفلت میں پڑا سوتا رہتا تو اخیر شب میں اقبال اٹھتے اوراپنے رب کے سامنے سجدہ ریز ہوکر گریہ و زاری کرتے، یہی وہ چیز تھی جو ان کی روح کو ایک نشاط، قلب کو ایک نئی روشنی اور فکر کو ایک نئی پرواز عطا کرتی تھی۔

اقبال کے نزدیک آہ سحرگاہی زندگی کا بہت عزیز سرمایہ ہے، بڑے سے بڑا عالم و زاہد اور حکیم و مفکر اس سے مستغنی نہیں:

عطار ہو رومی ہو رازی ہو غزالی ہو
کچھ ہاتھ نہیں آتا بے آہ سحر گاہی

الحاصل سحر خیزی نے اقبال کی شخصیت کی تعمیر میں اہم کردار ادا کیا ہے اور ان کا عقیدہ بھی تھا کہ اس کے بغیر کوئی بھی انسان انسانیت اور حکمت و تدبر کے اعلی منازل نہیں طے کر سکتا ، اس لئے وہ قوم کے جوانوں کے لئے اس چیز کی تمنا بھی کرتے ہیں:

جوانوں کو سوز جگر بخش دے
میرا عشق میری نظر بخش دے

مجدد الف ثانی:

شیخ احمد سرہندی مجدد الف ثانی کی شخصیت اور افکار نے اقبال کی زندگی پر بہت گہرا اثر ڈالاہے۔ اقبال کو شیخ سے بے پناہ لگاؤ اور محبت تھی۔ ڈاکٹر جاوید اقبال کے بیان کے مطابق ان کی پیدائش سے قبل علامہ شیخ کے مزار پر حاضر ہوئے اور دعا کی کہ اللہ انھیں ایک بیٹا عطا کرے۔ ان کی پیدائش کے بعد علامہ ان کو ساتھ لے کر دوبارہ مزار پر حاضر ہوئے اور قرآن کی تلاوت کی اور دعا کی۔ اس وقت ان کی آنکھوں سے اشک رواں تھے ۔ علامہ نے خود بھی شیخ کے مزار پر حاضری کے بعد اپنے قلبی احساس کو شعر میں پرویا ہے:

حاضر ہوا میں شیخ مجدد کی لحد پر وہ خاک کہ ہے زیر نظر مطلع انوار
اس خاک کے ذروں سے ہیں شرمندہ ستارے اس خاک میں پوشیدہ ہے وہ صاحب اسرار

سوال یہ ہے کہ شیخ سے اقبال کی محبت، الفت اور اثر پذیری کی وجہ کیا ہے؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ شیخ اقبال کے ’مرد مومن‘ اور ’انسان کامل‘ کا واقعی مصداق تھے، مزید یہ کہ فکری اعتبار سے بھی دونوں میں یکسانیت تھی، دونوں ہی ابن عربی کے فلسفہ وحدت الوجود کو گمراہ کن خیال کرتے تھے اور اس کی توجیہ وحدت الشہود سے کرتے تھے۔ دونوں ہی حقیقت شناسی کے لئے علم و عقل کے مقابلے میں الہام و وجدان کو ضروری خیال کرتے تھے۔ دونوں اس بات کے متمنی تھے کہ مسلم قوم پورے طور پر قرآن و شریعت پر آجائے اور اپنی عظمت رفتہ کو بحال کرنے کی سعی کرے۔ یہی وہ فکری یکسانیت تھی جس کی وجہ سے اقبال حضرت شیخ سے بے حد متاثر تھے اور اس اثر پذیری نے بھی اقبال کی شخصیت و فکر کی تعمیر میں اہم کردار ادا کیا۔

مولانا روم:

نبیﷺ کے بعد اگر کسی انسان اور اس کے افکار نے اقبال کو سب سے زیادہ متاثر کیا ہے ، تو وہ مولانارومی اور ان کی مثنوی ہے۔ اقبال کو مولانا سے اس قدر لگاؤ اور محبت ہے کہ وہ مولانا کو اپنا معنوی استاد اور رہنما سمجھتے ہیں۔ اپنے کلام میں نہ صرف یہ کہ اقبال رومی کا بارہا تذکرہ کرتے ہیں بلکہ کبھی ان کے اشعار کو انتساب کو طور پر اپنے مجموعہ کلام کے سر ورق کی زینت بناتے ہیں، کبھی ان کے اشعار کی تضمین کرتے ہیں، کبھی مصرعوں پر مصرعے لگا تے ہیں۔ اقبال کی نگاہ میں رومی کی قدر و منزلت صرف اس وجہ سے نہیں ہے کہ رومی ایک عظیم شاعر یا مفکر ہیں، بلکہ اس سے آگے بڑھکر وہ انھیں اپنا روحانی اور فکری پیشوا مانتے ہیں۔ رومی نے اقبال پر خودی کے اسرار کس طرح سے فاش کئے اور فکر اقبال کی کس طرح تعمیر کی وہ ان کے اس شعر سے ظاہر ہوتا ہے:

باز بر خوانم زفیض پیر روم دفتر سربستہ اسرار علوم
پیر رومی خاک را اکسیر کرد ازغبار م جلوہ ہا تعمیر کرد

اقبال نے کئی جگہ اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ حیات و کائنات کے رازوں سے انہیں مولانا روم نے آشنا کیا:

صحبت پیر روم سے مجھ پہ ہوا یہ راز فاش لاکھ حکیم سر بجیب ایک کلیم سر بکف

در اصل مولانا رومی اور اقبال کے تصور عشق کی ہم آہنگی نے ہی اقبال کو رومی سے اس قدر قریب کر دیا۔ مثنوی معنوی اور دیوان شمس تبریز کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ رومی کے نزدیک عشق تمام کائنات کی روح ، زندگی کا حاصل اور مبدا و منتہی ہے۔ عشق ایک تکوینی قوت ہے جو ہر ذی روح و غیر ذی روح میں جوہر ذاتی کے طور پر موجود ہ اور ذوق ارتقا و شوق نمود کا باعث ہے۔ عشق کے بارے میںیہی نظریہ اقبال کا بھی ہے:

عشق کے مضراب سے نغمہ تار حیات عشق ہے نور حیات عشق ہے نار حیات
از محبت چوں خودی محکم شود قوتش فرماں دہ عالم شود

اس کے علاوہ دونوں کے درمیان ایک فکری یکسانیت یہ بھی ہے کہ دونوں حقیقت شناسی کے سلسلے میں وجدان کو منطقی استدلال پر ترجیح دیتے ہیں۔ دونوں ترک نفس سے زیادہ تزکیہ نفس پر زور دیتے ہیں اور تکمیل خودی پر یقین رکھتے ہیں۔ دونوں توکل کو تعطل کا مرادف سمجھتے ہیں اور سعی و عمل کو زندگی کی اصل حقیقت خیال کرتے ہیں اور دونوں کے نزدیک زندگی کا مقصد اس کے بے شمار امکانات کا کھوج لگا کر انھیں عملی شکل میں تبدیل کرنا ہے۔ یہ ہے وہ فکری یکسانیت جس کی وجہ سے اقبال رومی کے گرویدہ ہو ئے، بلکہ یوں کہا جانا چاہیے کہ رومی کے افکار کی روشنی میں ہی اقبال نے اپنے فلسفہ حیات کی تشکیل کی ہے۔

خاتمہ:

اقبال نے مذکورہ شخصیات کے علاوہ اور بھی بہت سے مشرقی و مغربی مفکرین کا مطالعہ کیا ہے اور ان سے اثربھی قبول کیا ہے، البتہ مذکورہ بالاعناصر نے اقبال کی زندگی اور فکر کو سب سے زیا دہ متاثر کیا۔ خلاصہ یہ کہ داغ کی غزل گوئی، غالب کے اسلوب بیان، حافظ شیرازی کی غنائیت و سرمستی، نظیری و بیدل کی فارسی گوئی، ایمان و یقین کی قوت، قرآنی پیغام کی بلندی اور آفاقیت، سحر خیزی کی دولت و برکت، مجدد الف ثانی کی ایمانی جرات و عزیمت اور رومی کے عشق کوملا کرجب ایک خمیر تیار کیا جائے تو اس سے ایک بین الاقوامی شہرت یافتہ مفکر شاعرپیدا ہوتا ہے جس کو دنیاعلامہ اقبال کے نام سے جانتی ہے۔

Related Posts

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے