شیخ الہند کی کہانی شیخ الحدیث کی زبانی

افادات: شیخ الحدیث حضرت مولانامحمدزکریاکاندھلویؒ
جمع وترتیب: مفتی ناصرالدین مظاہری
مترجم قرآن ،اسیرمالٹا،بانی تحریک ریشمی رومال،سرخیل حریت، شیخ الہندحضرت اقدس مولانامحمودالحسن دیوبندیؒ کی ذات گرامی پوری دنیامیں نہ توتعریف کی محتاج ہے نہ ہی تعارف کی،ان کے اوصاف وکمالات،ان کی حیات وخدمات ،ان کے عزم وعزائم،ان کے شاہین صفت ارادوں کی استقامت،ان کے ہمالیائی فکرتدبراوران کی آہ سحرگاہی کے لئے دفترکے دفتردرکارہیں،چندصفحات میں ان کی خدمات کااحاطہ توناممکن البتہ ان کی خدمات کی فہرست ممکن ہے۔
تقریباًایک صدی سے صاحبان علم وقلم حضرت شیخ الہندؒ کے مختلف سوانحی نقش اورنقوش کوقلم بندکررہے ہیں،مضامین ومقالات سے اخبارات وجرائدبھرے پڑے ہیں،کتابوں اوررسالوں میں حضرت شیخ الہندکی بوقلم ہستی کے گن گائے جارہے ہیں،لیکن ان کے ستودہ عزائم کوشمارکرنااورکماحقہ لکھ پانانہایت مشکل امرہے کیونکہ انہوں نے ہندوستان کی تاریخ کے وہ باب اپنے خون سے لکھے ہیں جن کولکھنے کے لئے ہمیں سیاہی اورروشنائی کاسہارالیناپڑتاہے۔
ذیل میں حضرت شیخ الہندؒ اورمظاہرعلوم سہارنپورکے درمیان جوقرب اورقربت رہی،یہاں کے اکابرواسلاف سے انھیں جوتعلق اورربط رہا،شیخ الحدیث حضرت مولاناخلیل احمدمحدث سہارنپوریؒ سے جوروابط اورشیخ الحدیث حضرت مولانامحمدزکریامہاجرمدنیؒ پرجوعنایات اورمہربانیاں رہیں ان کااحاطہ اس مقالہ میں کچھ اس اندازسے کیاگیاہے کہ الفاظ اورمفہوم شیخ الحدیث حضرت مولانامحمدزکریامہاجرمدنیؒ کاہے البتہ کچھ حذف واضافے ،عناوین وسرخیاں،واقعات کے تسلسل کے لئے تمہیدی سطوراوربعض مناسب اضافات احقرکی طرف سے ہیں۔
ّٓ اس مضمون کامآخذحضرت شیخ الحدیثؒ کی مشہرومعروف کتاب ’’آپ بیتی‘‘کی دونوں جلدیں ہیں۔(ناصرالدین مظاہری)
تنخواہ میں اضافہ:
حضرت شیخ الہند قدس سرہٗ نے پچاس سے زیادہ کے اضافہ کوبطورمشاہرہ قبول نہیں فرمایا۔ لیکن عرصہ کے بعد اسی اشکال کی وجہ سے حضرت نو ر اللہ مرقدہٗ نے اضافہ قبول فرمالیا۔
اخبارات پرپابندی:
میری ابتدائی مدرسی کے زمانے میں مظاہر علوم کا کوئی طالب علم اخبار دیکھنا جانتا ہی نہ تھا۔ دارالعلوم کے بھی دو چار طالب علموں کے علاوہ کوئی نہ جانتا تھا کہ اخبار کیا چیز ہے۔ اس زمانے میں ہم لوگوں کے تفریحی معمولات اکابر سلسلہ کی کتب بینی تھی۔ حضرت نانوتوی، حضرت گنگوہی، حضرت شیخ الہند، حضرت سہارنپوری، حضرت تھانوی کی تصانیف گویا ہم لوگوں کے لئے اخبار تھے۔ عام طور سے مدرسین اوراوپر کے طلباء کے شوق وذوق ان اکابر کی کتابوں کا مطالعہ تھا۔ اب اس مبارک مشغلہ کی بجائے اخبارات، لغویات دوستوں کا مشغلہ رہ گیا ع ’’ببیں تفاوت رہ از کجا ست تا بہ کجا ‘‘
حزم واحتیاط:
حضرت مولانا مظفر حسین قدس سرہٗ کے نام نامی سے ابھی تک ہند و پاک کے ہزاروں آدمی واقف ہیں۔ ان کی طالب علمی کا ابتدائی دوردہلی میں گذرا۔ بازار سے کھانا خرید کر کھایا کرتے تھے لیکن صرف روٹی خرید تے تھے، سالن کبھی نہیں خریدتے تھے اوربغیر سالن خشک روٹی کھایا کرتے تھے۔ اس لئے کہ اس زمانے میں دہلی کی دکانوں میں جو سالن پکتا تھا اس میں امچور کا ڈالنا لازم تھا۔ اورفرمایا کرتے کہ آموں کے باغوں کی بیع قبل از بدؤ صلاح ہوتی ہے جو جائز نہیں ہے۔ اس لئے سالن سے کبھی روٹی نہ کھاتے تھے۔ اسی کا اثر تھا کہ کسی مشتبہ مال کو حضرت مولانا رحمۃ اللہ علیہ کا معدہ قبول نہیں کرتا تھا۔ اگر کسی جگہ غلطی سے بھی مشتبہ مال کھانے کی نوبت آجاتی تو فوراً قے ہوجاتی تھی۔ بہت سے واقعات اس سلسلہ کے حضرت مرحوم کے مشہور ومعروف ہیں۔ حضرت مرحوم کے کچھ حالات تذکرۃ الخلیل میں جو حضرت مولانا خلیل احمد صاحب قدس سرہٗ کی سوانح ہے جس میں حضرت مولانا مظفر حسین صاحب، حضرت اقدس مولاناشاہ عبدالرحیم صاحب رائے پوری، حضرت شیخ الہند مولانا محمود الحسن صاحب اورمیرے والد مولانا محمد یحییٰ صاحب، حضرت مولانا صدیق احمد صاحب انبیٹھوی خلیفہ حضرت گنگوہی قدس سرہم کے حالات بھی مختصر طور پر ذکر کئے گئے ہیں، مذکور ہیں۔ ان بزرگوں کے حالات نیز حضرت گنگوہی، حضرت نانوتوی قدس سرہما، حضرت شیخ الہند، حکیم الامت مولانا تھانوی نور اللہ مراقدہم کی سوانحیں مستقل شائع ہوچکی ہیں جن سے ان کے مجاہدات، تقویٰ وطہارت، دنیا سے بے ر غبتی ، آخرت کے اندر ہمہ تن مشغولی مفصّل موجود ہے۔ احباب کو ا ن کا مطالعہ ضرور کرنا چاہئے ۔ ان اکابر کے حالات سے سبق لینا چاہئے کہ دنیا کی زندگی چاہے جتنی بھی زیادہ ہوجائے، بہر حال ختم ہونے والی ہے۔ موت سے کسی کو چارہ نہیں ہے، اورآخرت کی زندگی دائمی ہے کبھی ختم ہونے والی نہیں۔ سمجھدار عقل مند کا کام ہے کہ دائمی زندگی کے لئے جو کچھ کرسکتا ہو کر لے۔ حضور کا ارشاد ہے کہ خدا کی قسم میں تم لوگوں پر فقر کا اندیشہ نہیں کرتا۔ مجھے اس کا اندیشہ ہے کہ دنیا تم پر پھیل جائے گی جیسا کہ تم سے پہلوں پر پھیل چکی ہے اور تم اس میں دل لگا بیٹھو گے جیسا کہ وہ لوگ لگا بیٹھے تھے اور یہ دنیا تم کو بھی ایسے ہی ہلاک کردے گی، جیسے ان لوگوں کو ہلاک کیا ہے( مشکوٰۃ بروایت شیخین) ان حضرات اکابر نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاک ارشادات کو دل میں جگہ دے رکھی تھی اوران پر عمل کرکے دکھلایا۔ ہم لوگوں کو نہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات پر عمل کی توفیق ، نہ ان اکابر جن کے ہر قول وفعل کو اپنی آنکھوں سے دیکھا، کے اتباع کی امنگ اور شوق فالیٰ اللّٰہ المشتکیٰ۔
اولٰئک اٰبائی فجئنی بمثلہم اذا جَمَعَتْنَا یا جریر المجامع
خدا یاد آئے جن کو دیکھ کر وہ نور کے پتلے
نبوّت کے یہ وارث ہیں یہی ہیں ظل رحمانی
یہی ہیں جنکے سونے کو فضیلت ہے عبادت پر
انہیں کے اتقاء پر ناز کرتی ہے مسلمانی
انہیں کی شان کو زیبا نبوت کی وراثت ہے
انہیں کا کام ہے دینی مراسم کی نگہبانی
رہیں دنیا میں اور دنیا سے بالکل بے تعلق ہوں
پھریں دریا میں اور ہر گز نہ کپڑوں کو لگے پانی
اگر خلوت میں بیٹھے ہوں تو جلوت کا مزہ آئے
اور آئیں اپنی جلوت میں تو ساکت ہو سخن دانی
حضرت شیخ الہندؒ کادرس ترمذی:
میرے والد صاحب نے مجھے منطق سلم تک پڑھا کر چھڑادی تھی۔ جس کی وجہ یہ تھی کہ میرے والد صاحب کے رفیقِ درس حضرت گنگوہی قدس سرہٗ کے زمانہ میں مولانا ماجد علی صاحبؒ مانی کلاں ضلع جونپور کے رہنے والے، منطق کے امام استاذ الاساتذہ، ان کے زمانہ میں ان کی معقول ومنطق شہرۂ آفاق تھی۔ انہوں نے میرے والد صاحب قدس سرہٗ سے وعدہ لے رکھا تھا کہ زکریا کو منطق میں پڑھاؤں گا اورمیرے والد صاحب نے وعدہ کرلیا تھا ۔ اس لیے انہوں نے سلم تک منطق پڑھا کر چھڑا دیا اوران کا ارادہ تھا کہ دینیات سے فارغ ہونے کے بعد ایک سال کے لیے مینڈھو بھیجوں گا جہاں مولانا مرحوم مدرس تھے۔ مولانا ماجد علی صاحب مناطقہ کے امام تھے، ان کی صفات مناطقہ کی صفات ہونا ہی چاہئے تھا، مرحوم کامشہور مقولہ تھا کہ ترمذی تو مولوی محمود یعنی حضرت شیخ الہندؒ کچھ پڑھا لیتے ہیں اور ابوداؤد مولوی خلیل صاحب یعنی میرے حضرت قدس سرہٗ، اسی بنا پر انھوں نے اپنے ایک خاص شاگرد مولوی فضل الرحمن ٹونکی کو جنہوں نے بارہ برس تک ان سے منطق پڑھی تھی ابوداؤد پڑھنے کے واسطے میرے حضرت کے پاس بھیجا تھا اور میرے حضرت قدس سرہٗ نے بھی ان کو تنہا بڑے اہتمام سے ابوداؤد پڑھائی، لیکن بخاری کے متعلق مولانا ماجد علی صاحب کا مقولہ تھا کہ اس میں تو کچھ کہہ سکتا ہوں تو میں ہی کہہ سکتا ہوں۔ اسی وجہ سے مولانا مرحوم میرے والد صاحب نور اللہ مرقدہٗ سے بار بار یہ اصرار کیا کرتے تھے کہ زکریا کو جلدی بھیج دو۔ میری خواہش یہ ہے کہ بخاری بھی میں ہی پڑھاؤں۔ میرے والد صاحب کہتے تھے کہ منطق کو تو میرا وعدہ ہے لیکن دینیات سے فارغ ہونے کے بعد بھیجوں گا۔ مرحوم کا یہ مقولہ میں نے خود بھی سنا جو میرے سامنے میرے والد صاحب سے کہا کہ مولوی صاحب آپ اس کا حرج کررہے ہیں۔ یہ میرے پاس آنے کے بعد یوں کہے گا کہ میں بخاری بھی تم سے ایک دفعہ دوبارہ پڑھنا چاہوں۔ میرے والد صاحب کا ہمیشہ یہ جواب ہوتا تھا کہ منطق کا تو وعدہ ہے مگر بخاری کے متعلق اگر یوں نہ کہہ دو کہ مولوی زکریا تمہاری اس میں کیا رائے ہے تو کوئی بات نہیں اور وہ اس پر کچھ خوش نہ ہوتے تھے۔
حضرت مولاناخلیل احمدؒ کاحضرت شیخ الہندؒ کے ہمراہ سفرحجاز:
شوال ۳۳ھ ؁ میں حضرت قدس سرہٗ نے حضرت شیخ الہند نوراللہ مرقدہٗ کی معیت میں حجاز کا وہ مشہور ومعروف معرکۃ الآراء سفر کیا جس میں کابل کی طرف سے آکر ہندوستان پر حملہ کا منصوبہ بنایاگیا تھا۔ اوراس کے قصے اب تو مشہور ومعروف ہوچکے ہیں۔ حضرت مدنی قدس سرہٗ کی مختلف تصانیف میں اورمولانا محمد میاں صاحب سابق ناظم جمعیۃ العلماء کی تصانیف میں مختصر ومطول آچکے ہیں اورحضرت قدس سرہٗ کی غیبت میں حضرت کے اسباق ترمذی بخاری بھی میرے والد صاحبؒ ہی کے پاس آگئے تھے، لیکن میرے ذہن میں چونکہ سارے دورہ کی کتابیں ایک سال میں پڑھنا نہیں تھا اس لیے میں نے صرف ابوداؤد میں شرکت کی اوروالد صاحب نوراللہ مرقدہٗ سے اپنی اس خواہش کا اظہارکیا تو بہت خوشی سے انھوں نے اس کی اجازت دی۔
خواب میں حضرت شیخ الہندؒ کی زیارت:
میرے والد حضرت مولانامحمدیحیٰ کاندھلوی قدس سرہٗ کا انتقال ہوگیا،ایک سال پہلے یہ جذبہ تھا کہ ترمذی، بخاری حضرت ہی سے پڑھنی ہے اورابا جان سے شروع نہ کی لیکن ا ن کے انتقال کے بعد دستور یہی ہے کہ قدر اورمحبت زندگی میں کم ہوتی ہے انتقال کے بعد بڑھ جاتی ہے، اب یہ جذبہ پیدا ہوا کہ ترمذی، بخاری پڑھ لی دوبارہ پڑھنے کی ضرورت نہیں۔ ورنہ والد صاحب کی حیات میں یہ جذبہ تھا کہ حضرت کی واپسی پر دوبارہ پڑھوں گا مگر والد صاحب کے انتقال کے بعد یہ خیال نہ یہ کہ دل سے نکل گیا بلکہ اس کا عکس دل میں جم گیا۔ حضرت قدس سرہٗ کی نینی تال سے واپسی پر ترمذی شریف جو اب تک میرے والد صاحبؒ کے انتقال کے بعد سے بند تھی حضرت کے یہاں شروع ہوئی اورحضرت نے تشریف لاتے ہی اس سیاہ کار کو اورمیرے عزیز دوست مخلص رفیق حسن احمد مرحوم کو دونوں کو یہ حکم فرمایا کہ ترمذی بخاری مجھ سے دوبارہ پڑھو، انکار کی تو کیا مجال تھی اوراس کاشائبہ بھی کسی حرکت سے ظاہرنہیں کرسکتے تھے کہ دوبارہ پڑھنے کو جی نہیں چاہ رہا۔
اسی زمانے میں اس سیاہ کار نے خواب دیکھا کہ حضرت شیخ الہند قدس سرہٗ ارشاد فرمارہے ہیں کہ مجھ سے دوبارہ بخاری پڑھ۔ حضرت شیخ الہند مالٹا تشریف لے جا چکے تھے۔ بہت سوچتا رہا کہ خواب کی تعبیر کیا ہوگی۔ حضرت قدس سرہٗ سے خواب عرض کیا۔ حضرت نے فرمایا کہ اس کی تعبیر بھی یہی ہے کہ مجھ سے بخاری دوبارہ پڑھو۔ اس وقت تو اپنی حماقت سے تعبیر سمجھ میں نہ آئی لیکن بعد میں سمجھ گیا کہ اس وقت شیخ الہند فی الحدیث کا مصداق حضرت قدس سرہٗ کے علاوہ اور کون ہوسکتا تھا۔ بہر حال تعمیل ارشاد میں شروع تو ہم دونوں نے کردیا لیکن میرا رفیق حسن احمد مرحوم اس سال فنون کی کتابیں پڑھتا تھا اور وہ بخاری شریف کے نیچے کسی مطالعہ کی کتاب کورکھتا تھا میں اس کو شدت سے انکارکرتا تھا کہ یہ تو بہت بے ادبی ہے، حدیث پا ک کی بھی ہے اوراستاد کی بھی ہے۔ ایسا ہر گز نہ کر۔ مگر اس کو میرے والد صاحب سے عشق تو ان کی زندگی میں ہی تھا اوران کے انتقال کے بعد میری طرح سے یہ جذبہ اوربھی بڑھ گیا تھا کہ اب حدیث کسی سے نہیں پڑھنی۔ میں نے اس کے بالمقابل یہ کوشش کی کہ اتنے قوی اشکالات دمادم کروں کہ حضرت قدس سرہٗ میرے تبحر علمی کو دیکھ کر یوں فرمادیں کہ تجھے دوبارہ پڑھنے کی ضرورت نہیں۔ تقریباً یہ سال میرا ایسا گزرا کہ رات دن میں دوڈھائی گھنٹہ سے زیادہ سونے کی نوبت نہیں آئی۔ اس لیے کہ مدرس ہوگیا تھا۔ دو سبق میرے دو استادوں کے یہاں سے اصول الشاشی چچاجان نور اللہ مرقدہٗ کے یہاں سے، علم الصیغہ مولانا ظفراحمد کے یہاں سے منتقل ہوکر آئے تھے اوردونوں میری بے پڑھی کتابیں تھیں ،اصول الشاشی کے مطالعہ میں کئی گھنٹے خرچ ہوتے۔ لیکن عشاء کے بعد سے رات کے تین چار بجے تک میں ترمذی، بخاری کا مطالعہ دیکھا کرتا تھا اورفتح الباری، عینی، قسطلانی سندھی کے ابواب بہت ہی بالاستیعاب اورغورسے دیکھتا اورجہاں کوئی اشکال پیش آتا اس کو نوٹ کرلیتا۔ جواب نوٹ نہ کرتا اورصبح کو حضرت قدس سرہٗ کی خدمت میں اللہ مجھے بہت ہی معاف فرماوے دما دم اعتراضات کرتا۔ مگر اللہ کا بڑا ہی احسا ن ہے اسی کا لطف وکرم ہے اللّٰہم لا احصی ثناءً علیک مجھے اس کا کبھی واہمہ نہیں ہوا کہ حضرت سے میری بات کا جواب نہیں آیا۔ جب شیطان ذرا سا وسوسہ کا شبہ بھی ڈالتا تو میں اپنے دل سے کہتا ’’بے غیرت ساری رات تو کتاب دیکھی تجھے اعتراض کرتے شرم نہیں آتی‘‘۔ دو ڈھائی ماہ اسی مناظرہ میں گزاردیئے۔ اس واقعہ کو مولانا عاشق الٰہی صاحب نور اللہ مرقدہٗ نے تذکرۃ الخلیل میں بھی کچھ اجمالاً لکھا ہے۔میرا اورحسن احمد مرحوم کا یہ معمول تھا کہ سبق کے بعد ہم دونوں حضرت کے پیچھے پیچھے دار الطلبہ سے مدرسہ قدیم(جہاں مظاہرعلوم وقف سہارنپورکاکتب خانہ اور دفاترقائم ہیں) تک آتے۔
حضرت شیخ الہندؒ کی عادت شریفہ:
میں نے سنا ہے کہ حضرت شیخ الہند قدس سرہٗ پرجب کسی ایسی جگہ جانے پراصرار ہوتا، جہاں جانے میں کوئی دینی امرمانع ہوتا، اول تو انکار فرماتے لیکن جب زیادہ اصرار ہوتا اورطبیعت کے خلاف کوئی مجبور کرتا ، تو کوئی اسہال کی گولی نوش فرمالیتے۔ مجھے ایک آدھ دفعہ اس کا سابقہ پڑا، ورنہ میرے لئے تو سفر کا تصورہی بیماری کے لئے ہمیشہ کافی سے زیادہ رہا۔اس لئے بعض مرتبہ تو مجھے شیخ الہند قدس سرہٗ کا بھی اتباع کرنا پڑا۔
میں بیمارہوں:
میری بری عادات میں سے ایک بری عادت ساری عمر بچپن سے شادیوں میں شرکت سے نفرت ہے ۔ لیکن اس کے بالمقابل جنازوں میں شرکت کی رغبت، اہمیت دونوں کے چند واقعات آپ بیتی کے لکھواؤں گا۔ شادیوں میں جانے سے مجھے ہمیشہ بچپن سے وحشت سواررہی۔ حالانکہ بچپن میں ان کا بہت ہی شوق ہوتا ہے اوربعض دفعہ تو وَنَظَرَ نَظْرَۃً فِی النُّجُوْمِ فَقَالَ اِنِّیْ سَقِیْمٌ پر مجھے عمل کرنا پڑتا تھا اور اس میں کچھ کذب یا توریہ نہیں تھا کہ امراض ظاہرہ سے زیادہ امراض باطنہ کا شکار رہا اورجوں جوں امراض باطنہ میں کمی ہوتی رہی امراض ظاہرہ اس کا بدل ہوتے رہے۔ اس لیے انی سقیم سے کوئی دور بھی خالی نہیں تھااور کبھی کبھی حضرت شیخ الہند قدس سرہٗ کے اسوہ پربھی عمل کرنا پڑا اگرچہ سیہ کار اپنے اکابر کا اتبا ع کسی جگہ بھی نہ کرسکا۔ میرے اکابرکے اس میں ہمیشہ دو نظریے رہے ایک حضرت سہارنپوری اورحضرت تھانوی نور اللہ مرقدہما کا کہ اگر سفر سے کوئی عذر مانع ہوا تو صفائی سے کہہ دیا کہ وقت نہیں ہے اورفرصت نہیں ہے اس کے بالمقابل حضرت شیخ الہند اورحضرت مدنی اور ہر دو حضرات رائے پوری نوراللہ مراقدہم کا یہ معمول رہا کہ یہ لوگ اصرار کرنے والوں کے سامنے بالکل عاجز ہوجاتے تھے۔ اور ہتھیار ڈال دیتے تھے خواہ کتنی ہی مشقت اٹھانی پڑے۔ میں نے حضرت اقدس مدنی اورحضرت رائے پوری سے علٰیحدہ علیٰحدہ دو موقعوں پر ایک ہی سوال کیا کہ جب مجبوری ہو اور معذوری ظاہر ہے تو شدت سے آپ کیوں نہیں انکار کرتے۔ دونوں اکابر نے اللہ بلند درجات عطا فرماوے بڑا قابل اتباع وعبرت جواب دیا۔ اگر چہ دونوں نے مختلف عبارتوں سے جواب ارشاد فرمایا۔ یہ فرمایا کہ اس کا ڈر لگتا ہے کہ اگر یہ مطالبہ ہو کہ ہم نے اپنے ایک بندے کو تیرے پاس بھیجا تیری کیا حقیقت تھی ہم نے ہی تو اس کو بھیجا تھا تو نے اس کو ٹھکرایا دیا تیری کیا حقیقت تھی اس کا کیا جواب دوں گا۔ حضرت شیخ الہند کے جس معمول کا اوپر ذکر کیاگیا وہ یہ تھا کہ جب کوئی مجبور کرتا اورجانے میں کوئی معذوری ہوتی تو کوئی مسہل دوا نوش فرمالیا کرتے تھے۔ اسہال کا عذر ایسا ہے کہ ہر ایک کو محسوس ہوتا ہے۔ صاف انکار کرنے سے اپنے کو مشقت میں ڈالنا ان اکابرکو آسان تھا۔
میرے والدصاحب کاحادثۂ انتقال:
۳۴ھ ؁ تک تو یہ ناکارہ اپنے والد صاحب کی حیات میں محبوس، قیدی، نظربند کہیں جاآسکتا نہیں تھا۔ ۱۰؍ ذیقعدہ ۳۴ھ ؁ میں میرے والد صاحب کا انتقال ہوا۔ اتفاق کی بات ہے جس کی صبح کو میرے حضرت مرشدی مرشد العرب والعجم حضرت سہارنپوریؒ کا جہاز بمبئی کی گودی پر لگا اسی کی صبح کو سہارنپورمیں میرے والد صاحبؒ کا انتقال ہوا ۔ ایک عجیب واقعہ اس وقت کا ہے جب عدن سے حضرت کا تار پہنچا تو مسرتوں کی لہریں دوڑرہی تھیں یہ تو اتفاق کی بات تھی کہ بمبئی جہاز سے اترتے ہی حضرت انگریزوں کی قید میں نینی تال حضرت شیخ الہند کی تحریک کی تفتیش میں لے جائے گئے اس سے پہلے بڑی ہی مسرتیں جھوم رہی تھیں۔ کوئی دہلی کوئی بمبئی کا سامان باندھ رہا تھا۔ میرے والد صاحب نور اللہ مرقدہٗ سے ایک مخلص دوست شیخ حبیب احمد صاحب مرحوم نے پوچھا حالانکہ اس وقت تک کسی بیماری کا اثر تک نہیں تھاکہ مولوی صاحب آپ بمبئی جاویں گے یا دلّی؟ تو میرے والد صاحب نے جواب دیا تھا کہ میں تو اپنی جگہ پڑا پڑا ملاقات کرلوں گا۔ وہی حال ہوا کہ حضرت کے تشریف لانے پر وہ حاجی شاہ میں لیٹے ہوئے تھے ۔
حضرت گنگوہیؒ کا حادثۂ وفات:
قطب الارشاد سید الطائفہ حضرت گنگوہی نوراللہ مرقدہٗ قدس سرہٗ اعلیٰ اللہ مراتبہ کا حادثۂ وصال ۸ ؍ یا ۹؍ جمادی الثانیہ علیٰ اختلاف رویۃ الہلال ۲۳ھ مطابق ۱۱؍اگست ۱۹۰۵ھ جمعہ کے دن چاشت کے وقت ہوا، وہ منظر اب تک آنکھوں کے سامنے ہے، جمعہ کی نماز کے بعد تدفین عمل میں آئی۔ صبح کے بعد سے اورجنازہ کے اٹھنے تک اس قدر سناٹا رہا کہ اس میں کوئی مبالغہ نہیں کہ آدمی کی آواز نہیں جانور کی آواز بھی سنائی نہیں دیتی تھی۔ لب ہر شخص کے خوب ہل رہے تھے اوراس قدر مکمل سکوت کہ قرآن پڑھنے کی آواز نہیں نکل رہی تھی۔ حفاظ بھی قرآن پڑھ رہے تھے اورناظرہ خواں بھی مسجد میں بیٹھ کر قرآن خوب کثرت سے پڑھ رہے تھے۔ مگر زبان پرایسا سکوت کہ آواز کا نام نہیں اگر کوئی شخص کسی سے بات پوچھتا بھی تھا تو ایک دو منٹ کے بعد اشارہ سے جواب ملتا، جمعہ کی نماز تو میرے والد صاحب ؒ نے جو پہلے سے حضرت قدس سرہٗ کی علالت سے امامت کررہے تھے پڑھائی بہت بھرائی ہوئی آواز میں، جنازہ کی نماز حضرت شیخ الہندؒ نے حضرت صاحبزادہ صاحب کے حکم سے پڑھائی اس لئے کہ سارے ہی اجل خلفاء موجود تھے۔ حضرت صاحبزادے سے پوچھا گیا انھوں نے کہا مولوی محمود پڑھائیں گے، میں تو بہت ہی بچہ تھا۔ چھپ چھپ کر قبرستان جارہا تھا اورجگہ جگہ سے ہٹایا جارہا تھا۔ راستے میں مخلص کہتے کہ ہٹ جاؤ۔ ہٹ جاؤ۔ قبر شریف تک پہنچ ہی نہ سکا اس لیے کہ تقریباً چاروں طرف سے ایک میل سے زائد جگہ کالوگوں نے احاطہ کررکھا تھا۔ منظر وہ خوب یاد ہے۔
مولانا ثابت علی صاحبؒ کا انتقال :
ہمارے مدرسہ کے مدرس دوم حضرت مولانا ثابت علی صاحب نوراللہ مرقدہٗ اور حضرت مولانا عبد اللطیف صاحب سابق ناظم مظاہر علوم کے حقیقی چچا ۔ ۱۲۸۳ھ ؁ یعنی جب سے مدرسہ کی ابتداء ہوئی اس وقت سے مدرسہ کے طالب علم ابتدائی فارسی سے لے کر دورہ تک مدرسہ ہی میں تعلیم پائی اوریکم محرم ۱۲۹۷ ؁ھ میں دو روپے وظیفہ طلبہ جو پہلے سے تھا وہ بدستور رہ کر دو روپے معین المدرسی کی تنخواہ مقرر ہوکر چار روپے پر تقرر ہوا اورمعین المدرسی کے ساتھ ۱۲۹۸ھ ؁ میں تکمیل حدیث اور ۱۲۹۹ ؁ھ میں صرف بیضاوی پڑھی اورترقی کرتے کرتے تدریس حدیث تک پہنچے اورچودہ دن مرض احتباس البول میں بیمار رہ کر شب جمعہ ۲۰؍ ربیع الثانی ۱۳۴۲ ؁ھ بعمر پینسٹھ سال سہارنپور ہی میں انتقال فرمایا اورحاجی شاہ کے قبرستان میں جہاں مدرسہ کے اکثر اکابر اورمیرے والدین، اہلیہ مرحومہ اوربعض لڑکیاں مدفون ہیں، وہیں حضرت مولانا دفن ہوئے مولانا مرحوم حضرت قدس سرہٗ کی روانگی پرمدرس اول ہی ہوتے مگر ۱۳۳۳ ؁ھ میں جب حضرت اقدس اورحضرت شیخ الہند ؒ معرکۃ الآراء سفر میں تشریف لے جارہے تھے تو اپنی نیابت کے لیے میرے والد صاحب قدس سرہٗ کی تحریک اوراعلیٰ حضرت شاہ عبد الرحیم صاحب کی تائید سے مولانا ثابت علی صاحب کے بھتیجے مولانا عبد اللطیف صاحب کو مدرس اول بنادیا تھا، میرے والد صاحب کی تحریک کا مطلب یہ کہ چونکہ میرے والد صاحب ۱۳۲۸ ؁ھ سے قائم مقام صدر مدرس تھے۔ اس لئے حضرت کے طویل سفر میں ان ہی کو مدرس اول ہونا چاہئے تھا مگر والد صاحب نے یہ کہہ کر کہ صدر مدرسی کے واسطے جس متانت، انتظامی صلاحیت کی ضرورت ہوتی ہے وہ مولوی عبد اللطیف میں زیاد ہ ہے، میرے حضرت نے بھی اس تجویز کو پسند کیا اوربڑے حضرت رائے پوری نے بھی۔ حضرت مولانا ثابت علی صاحب کو اس پر رنج وقلق طبعی چیز تھی مجھے خوب یاد ہے کہ مولانا مرحوم کئی دن تک الرجل وقدمہ ما الرجل بلاؤہ یہ مشہور حدیث ابوداؤد شریف میں ہے جس میں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا یہ ارشاد منقول ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ آدمی اور اس کی قدامت ومشقت یعنی خدمات کی رعایت ضروری ہے اس حدیث پاک کو زبان پر گنگنایا کرتے مگر چونکہ اصل استحقاق سب کی نگاہوں میں میرے والد صاحب کا تھا اور مولانا ثابت علی صاحب کے درجے میں دوسرے مدرس مولانا عبد الوحید صاحب سنبھلی بھی تھے اس لیے کچھ مولانا ثابت علی صاحب کی حق تلفی نمایاں نہ ہوئی لیکن اپنی علوشان، قدامت، جلالت کی وجہ سے امتحان کے روح رواں خاص طور سے وہی تھے اوربہت ہی اہتمام سے محافظین کی نگرانی کیا کرتے تھے۔
حضرت شیخ الہند کا حادثۂ وفات اور میری جنازے میں شرکت:
حضرت شیخ الہند قدس سرہٗ کا حادثۂ وصال میں نے خوداپنی آنکھوں سے دیکھا اوراللہ کی قدرت کا عجیب کرشمہ دیکھا۔ یہ سیہ کار جس کو حاضری کی بہت کم توفیق ہوتی تھی تجہیز وتکفین میں شریک اورمیرے آقا میرے سردار حضرت شیخ الاسلام مولانا مدنی جو سفر وحضر کے رفیق، مالٹا میں بھی ساتھ نہ چھوڑا ایک دن پہلے جدا ہوگئے اورتجہیز وتکفین اورتدفین میں بھی شریک نہ ہوسکے۔ بڑی عبرت کا قصہ ہے امروہہ میں شیعہ سنی مناظرہ طے ہوچکا تھا۔ کئی مہینے پہلے سے اعلان اشتہار وغیرہ شائع ہورہے تھے۔ اخبارات میں زور شور تھا۔
سہارنپور سے میرے حضرت قدس سرہٗ پہنچ گئے اورلکھنؤ سے مولانا عبد الشکور صاحب دونوں اس نوع کے مناظرہ کے امام، شہرۂ آفاق ، اہل تشیع جو اب تک بہت ہی زوروں پر تھے ان دونوں حضرات کے پہنچنے پراس کوشش میں لگ گئے کہ مناظرہ ہرگز نہ ہو اور التواء بھی سنیوں کی طرف سے ہو۔ اس لیے انہوں نے مولانا محمد علی جوہر مرحوم کو آدمی بھیج کر دہلی سے بلایا اورمرحوم نے مناظرہ کے خلاف آپس کے اتحاد پر مجامع میں اورمجالس میں ۲۴ گھنٹے تک وہ زور باندھے کہ حد نہیں۔
میں نے مرحوم کو عمر بھر میں اسی و قت دیکھا نہ اس سے پہلے دیکھا نہ بعد میں دیکھنا یاد ہے، میں نے مرحوم سے کہاکہ مجھے آپ سے ملنے کا عرصہ سے اشتیاق تھا۔ میرا خیال یہ تھا کہ وہ شاید ایک دو منٹ میرے اشتیاق پر دیں اگرچہ مجھ سے واقفیت نہیں تھی مگر وہ میرے حضرت اور مولانا عبد الشکور صاحب کے اقدام پر بہت ہی ناراض ہورہے تھے اس لیے انہوں نے سخت ناراض ہوکر یہ کہا کہ اس سے نمٹ لوں پھر ملوں گا۔ سارے دن یہ ہنگامہ رہا۔ دوسرے دن ۱۷؍ ربیع الاول ۱۳۳۹ ؁ھ کو علی الصباح میرے حضرت قدس سرہٗ نے حضرت شیخ الہند کے نام بہت مختصر پرچہ اس مضمون کا لکھوایا۔ صورت حال یہ ہے اورسنیوں کی طرف اس وقت التواء ہرگز مناسب نہیں آپ میرے نام ایک خط جلدی بھیج دیں کہ مناظرہ جاری رکھا جائے یا مناظرہ ملتوی نہ کیا جائے۔
بہت مختصر پرچہ میں لے کر امروہہ سے دہلی روانہ ہوا، جب میں اسٹیشن پر پہنچا تو دو چارآدمی ملے، مصافحہ کیا میں نے ان سے پوچھا کون؟ کیسے ؟ انھو ں نے کہا کہ حضرت شیخ الاسلام مولانا حسین احمد صاحب مدنی قدس سرہٗ جو اسی گاڑی سے کلکتہ جارہے ہیں ان کی زیارت کے واسطے آئے ہیں، میرے پاس نہ کاغذ نہ پنسل۔ ایک کاغذ ردی اسٹیشن سے ڈھونڈا اورایک کوئلہ اٹھایا اورجو مجھے اسٹیشن پر پہنچانے کے واسطے گیا تھا اس کے ہاتھ کوئلے سے حضرت قدس سرہٗ کے نام پرچہ لکھا کہ حضرت مدنی قدس سرہٗ کو وہیں اتار لیں میںیہ کہہ کر دہلی روانہ ہوگیا۔ میرے حضرت نے گاڑی پر آدمی بھیجا اورحضرت سے اترنے کو فرمایا۔ باوجود اس کے کہ حضرت کا کلکتہ کا ٹکٹ تھا اورسامان سفر تھا میرے حضرت کے حکم پر حضرت مدنی وہیں اتر گئے۔ انقیاد اکابر میں نے جتنا حضرت مدنی قدس سرہٗ میں دیکھا اتنا کم کسی دوسرے میں دیکھا۔ اپنی طبیعت کے جتنا بھی خلاف ہو مگر اپنے بڑوں کے سامنے ہتھیار ڈال دینا ان ہی کا حصہ تھا اورسارے دن مناظرہ کے متعلق زور دار تقریریں فرمائیں۔ جس میں فریقین کو نصیحت کہ یہ زمانہ آپس میں اشتعال کا نہیں ہے اس وقت میں تو غیر مسلموں سے بھی صلح کرنے کی شدید ضرورت ہے۔ چہ جائے کہ آپس میں لڑائی جھگڑا کیا جائے۔
میں حضرت قدس سرہٗ کا گرامی نامہ حضرت شیخ الہند کے نام لے کر مغرب کے قریب حضرتؒ کی قیام گاہ پر پہنچا تو حضرت شیخ الہند قدس سرہٗ پرمرض کا شدید حملہ تھا ،پیش کرنے کی نوبت نہیں آئی دوسرے دن صبح کو وصال ہوگیا اوردنیا بھر میں تار ٹیلیفون دوڑنے لگے، حضرت مدنی قدس سرہٗ کے نام کلکتہ اوراس کے قرب وجوار کے چند اسٹیشنوں پرتار دیئے گئے، جہاں تک اہل الرائے کی یہ رائے ہوئی کہ صبح کی جس گاڑی میں حضرت مدنیؒ گئے ہیں وہ اس وقت تک کہا ں پہنچے گی اس جگہ سے لے کر کلکتہ تک ہر مشہور اسٹیشن پر تار دیا گیا، میں نے کہا کہ ایک تار حضرت مدنی کو امروہہ بھی دے دو۔ سب نے مجھے بے وقوف بتلایا اوربعضوں نے یہ سمجھا کہ یہ حضرت سہارنپوری کو تار دلوانا چاہتا ہے، حضرت مدنی کے نام سے ہر شخص نے کہا آخر امروہہ کا کیا جوڑ؟ میں نے کہا احتیاطاً‘‘۔
جناب الحاج مفتی کفایت اللہ صاحب صدر جمعیۃ العلماء نور اللہ مرقدہٗ اعلی اللہ مراتبہٗ اللہ تعالیٰ ان کو بہت ہی بلند درجات عطا فرماوے باوجودیکہ میں سیاسی حیثیت سے ان کے ساتھ نہیں تھا ممکن ہے کسی جگہ مولانا مرحوم کا تذکرہ ذرا تفصیل سے آسکے لیکن مفتی صاحب مرحوم کو شفقت بہت تھی اوربہت وقعت سے میری بات قبول فرمایا کرتے تھے، بہت سے سیاسی اورمذہبی مسائل میں اپنی رائے کے خلاف میری رائے کو ان الفاظ سے شائع کیا ہے کہ بعضے مخلص اہل علم کی رائے یہ ہے گو میری رائے نہیں۔ اس قسم کی کوئی عبارت اس وقت کے وقف بل میں بھی شائع ہوئی ہے جو مفتی صاحب نے لکھا تھا، بہت سے وقائع اس قسم کے مفتی صاحب کے ساتھ پیش آئے کہ میری رائے کو انھوں نے اپنی رائے کے خلاف انتہائی تبسم اورخوشی کے لہجے میں بہت اہتمام سے قبول کیا۔
اس موقع پربھی میرے بار بار اصرار اور لوگوں کے انکارپرتیز لہجے میں فرمایا کہ جب یہ بار بار فرمارہے ہیں تو آپ کو ایک تار امروہہ دینے میں کیا مانع ہے؟ چنانچہ تار دیا گیا ۔ شاید ارجنٹ نہ دیا ہو کہ دینے والوں کی رائے کے خلاف ہو، دوسرے دن امروہہ تار پہنچا اورتیسرے دن علی الصباح حضرت مدنیؒ حضرت شیخ الہند کے مکان پرپہنچے، یہ ناکارہ اس وقت تک امروہہ روانہ نہیں ہوا تھا بلکہ جاہی رہا تھا۔ وہ منظر ہر وقت آنکھوں کے سامنے رہے گا۔ حضرت مدنیؒ انتہائی ساکت، قدم بالکل نہیں اٹھتا تھا۔ ہرقدم ایسا اٹھ رہا تھا جیسا ابھی گر پڑیں گے۔ مصافحہ بھی ایک آدھ ہی نے کیا۔ میں نے تو کیا نہیں۔ ہرشخص اپنی جگہ ساکت کھڑا تھا، مولانا مدنی، حضرت شیخ الہند قدس سرہٗ کے مردانہ مکان کے سامنے کی سہ دری میں جاکر دو زانو بیٹھ گئے اور چپ ۔ دو چار حاضرین بھی گھر میں موجود تھے وہ بھی جمع ہوکر مولانا کے پاس بیٹھ گئے اورمیں قدرت کا کرشمہ سوچتا رہا کہ جو شخص سفر وحضر میں کسی وقت بھی جدا نہ ہوا ہو وہ انتقال سے ایک دن بعد قبر پر حاضر ہوا اور جس کو حاضری کی نوبت کبھی نہ آئی ہو وہ دہلی سے لے کر تدفین تک جنازہ کے ساتھ ساتھ رہے ع
’’ عجب نقش قدرت نمودار تیرا‘‘
حضرت شیخ الہند قدس سرہٗ کی نماز جنازہ:
حضرت شیخ الہند قدس سرہٗ کی نماز جنازہ دہلی میں میرے چچا جانؒ نے پڑھائی اورحضرت کے حقیقی بھائی مولانا محمد حسن صاحب نے شرکت نہیں کی تاکہ ولی کو اعادہ کا حق رہے۔ انھوں نے دیوبند آنے کے بعد پڑھائی ۔ ان ہی عجائب قدرت میں اس سیہ کار کا حضرت رائے پوری کے جنازہ میں عدم شرکت ہے جس کا ذکر آگے آوے گا اور منشی رحمت علی صاحب جالندھری کے جنازہ میں شرکت جن کے یہاں زندگی میں کبھی جانا نہ ہوا۔ اوربھی کئی نظائر اس کے ہیں جن میں اس ناکارہ کی اپنے حضرت قدس سرہٗ کے جنازہ میں عدم شرکت کہ یہ ناکارہ چند ماہ پہلے مدینہ پاک سے مظاہر علوم کی وجہ سے واپس کردیا گیا تھا۔ جیسا کہ تفصیل سے نمبر ۴میں آرہا ہے۔ اورحضرت الحاج حافظ فخر الدین صاحب کے جنازے میں عزیز مولانا یوسف رحمۃ اللہ علیہ سہارنپور کے اجتماع کی وجہ سے شریک نہ ہوسکے حالانکہ حضرت حافظ صاحب نظام الدین کے ہمیشہ کے حاضر باشوں میں سے تھے اورحضرت مولانا عبد القادر صاحب رائے پوری پاکستان سے ہمیشہ سیدھے سہارنپور آنے والے اس مرتبہ دہلی کے راستے سے آئے اور وہاں جنازہ کے اندر ۲۵؍ شوال کی صبح کو فتحپوری میں شرکت فرمائی۔
علمی،روحانی پانچ سلسلے:
میں نے مشائخ کے پانچ دور دیکھے اورہر دور کے اکابر ومشائخ اس سیہ کار کی ناپاکی اور گندگی کو ملاحظہ کرتے ہوئے بھی اپنی شفقتوں میں اضافہ ہی فرماتے رہے۔
(سب سے پہلا دور) قطب عالم حضرت گنگوہی قدّس سرّہٗ کا ہے ( دوسرا دور) ان کے اجل خلفاء حضرت سہارنپوری، حضرت شیخ الہند، اعلیٰ حضرت رائے پوری(تیسرا دور) چچا جان اوران کے معاصرین کا( چوتھا دور) حضرت مولانا یوسف صاحب رحمۃ اللہ علیہ اور ان کے معاصرین کا(پانچواں دور)حضرت مولانا انعام الحسن صاحب زاد مجدہم کا۔
مدرسہ کی نظامت کے بھی چار دور مجھ پر گذر گئے۔(پہلادور)حضرت مولاناعنایت الہٰی سہارنپوریؒ کا( دوسرا دو ر)حضرت مولانا عبد اللطیف صاحب کا، (تیسرا دور)حضرت مولانا اسعد اللہ صاحب کا(چوتھا دور) قاری مظفر حسین صاحب کا ۔
چارہی دور خانقاہوں کے دیکھے، (سب سے پہلے) اعلیٰ حضرت قطب عالم گنگوہی قدّس سرّہٗ کی خانقاہ کا دور دیکھا ، جس کی لذت اپنے بچپن کے باوجود اب تک دل ودماغ میں ہے۔(دوسرادور) بڑے حضرت رائے پوری قدّس سرّہٗ کی خانقاہ کا دیکھا۔(تیسرادور) حضرت حکیم الامت تھانوی قدّس سرّہٗ کی خانقاہ کا دور دیکھا، (چوتھادور) حضرت رائے پوری قدّس سرّہٗ کی خانقاہ کا دور دیکھا ۔
خانقاہ امدادیہ تھانہ بھون کا پہلے والادور دیکھا تو نہیں، مگرالحاج جناب حکیم ضیاء الدین صاحب خلیفہ حضرت حافظ محمد ضامن صاحب شہید قدّس سرّہٗ نے جو تفاصیل اس خانقاہ کی لکھی ہیں، اس سے اس کا منظر سامنے آگیا، مگرافسوس کہ اب ساری خانقاہیں خاموش ہیں، اللہ تعالیٰ اپنے فضل وکرم سے کوئی سی خانقاہ کو آباد کرے تو اس کے کرم سے کچھ بعید نہیں، دونوں دو ر کے مشائخ اوراکابر نے خواہ تصوف کے ہوں یا نظامت کے ہوں، ہمیشہ ہی شفقتیں اورمحبتیں فرمائیں۔ کس کس کے حالات اورشفقتیں لکھوں، اکابر مشائخ کے چند واقعات لکھوار ہاہوں، لیکن ایک ضروری بات کے اوپر بہت ہی اہتمام سے متنبہ کرنا چاہتا ہوں، بہت ہی اہم بات ہے۔ اکابر کے وصال کے بعد یا یہ کہیے کہ ہرشیخ کے انتقال کے بعد بہت سے لوگ ان کے بعد والوں میں وہ صفات دیکھنا چاہتے ہیں ، جو شیخ نوراللہ مرقدہٗ میں تھیں، اور ظاہر بات ہے کہ ہر بعد والا پہلے سے کچھ نہ کچھ کم ہی ہوگا، اِلَّا مَاشَاءَ اللّٰہُ ، جو لوگ جانے والے بزرگ کی صفات بعد والے میں نہ دیکھ کر ان سے رجوع میں پہلو تہی کرتے ہیں، وہ حقیقت میں اپنا بڑا نقصان کرتے ہیں، میں نے اس بات کو بہت ہی غور سے حضرت قطب عالم گنگوہی قدّس سرّہٗ کے زمانے سے دیکھنا شروع کیا ہے۔ حضرت گنگوہی قدّس سرّہٗ کے اجل خلفاء کے دور میں بہت سے معاصرین کو دیکھا، جو حضرت قطب عالم سے بیعت تھے۔ اوران خلفاء کے معاصر تھے، و ہ یہ بات دیکھ کر کہ حضرت گنگوہی والی بات ان حضرات میں نہیں ہے، رجوع نہ کرسکے، اس کا مجھے بہت ہی قلق رہا۔ کیونکہ وہ میری نگاہ میں اقرب الی النسبت بلکہ صاحب نسبت بھی تھے۔ اگر وہ ان اجل خلفاء میں سے کسی کی طرف رجوع کرتے تو بہت آگے نسبت ہوتی، اسی طرح ان اجل خلفاء کے بعد تیسری پشت والوں میں بہت دیکھے، تیسری پشت والوں کو تو میں نے بہت سمجھایا بھی۔ چچا جان قدّس سرّہٗ کے بعد عزیز مولوی یوسف کے متعلق بہت سے لوگوں نے مجھ سے یہ شکایت کی کہ ’’ حضرت جی میں حضرت دہلوی والی بات نہیں، میں نے ان سے کہا کہ تم نے سچ کہا ،مگر حضرت دہلوی میں حضرت سہارنپوری والی بات ہم نے نہیں دیکھی، میں نے ان لوگوں سے بہت کثرت سے اورعزیز مولانا یوسف صاحب کے بعد ان پانچوں پشت والوں سے بہت یہ کہا، اورمیرے نزدیک یہ بہت قابل غور بات ہے کہ یہ تم نے سچ کہا کہ مولانا محمد یوسف صاحب رحمۃ اللہ علیہ میں وہ بات نہیں، جو چچا جان قدّس سرّہٗ میں تھی، مگر تم ان کے معاصرین پر نگاہ ڈالو گے تو تم ان کے بعد و الوں میں وہ بات نہیں پاؤگے، جو عزیز مولوی یوسف میں ہے، اب عزیز مولانا انعام الحسن کے دورمیں بکثرت یہ فقرے سنتا ہوں کہ حضرت مولانا یوسف صاحب والی بات نہیں، تو میں کہا کرتا ہوں کہ میرے دوستو! بعد میں یہ بات بھی نہیں ملنے کی، جو مولانا انعام الحسن صاحب میں ہے، جانے والاتو ہٹ کر نہیں آتا۔ لیکن اس توہّم سے کہ موجودین میں وہ بات نہیں،جو جانے والوں میں تھی۔ ان سے نفع حاصل نہ کرنا، اپنے کو نقصان پہنچانا ہے، میں نے اپنے والد صاحب سے اپنے بچپن میں بار بار ایک فقرہ سنااوراپنے دورمیں اس کا خوب مشاہدہ کیا، وہ یہ فرمایا کرتے تھے، کہ معلوم نہیں ایک رمضان میں کیا تغیر ہوجاتا ہے کہ دو سال کے دورے والوں میں زمین وآسمان کا فرق ہوجاتا ہے، ان کی زبان مبارک سے تو یہ لفظ بار بار سنا، اوراپنے پچاس سالہ تدریس حدیث کے دور میں خود مشاہدہ بھی کرلیا، حدیث کے پڑھانے کے ابتدائی دو ر میں بعض بعض طلبہ ایسے اچھے اشکالات کیا کرتے تھے کہ جی خوش ہوجایا کرتا تھا ، لیکن انتہاء میں بعض دفعہ تقریر کرتے ہوئے تقریر کو درمیان میں اس درجہ سے چھوڑنا پڑتا تھا کہ مخاطبین میں سے کوئی اس کو سمجھ نہیں رہا تھا، بہر حال اس وقت تو مجھے اکابر کے سلسلہ کے چند واقعات اپنی شفقتوں کے دکھلانے ہیں۔
حضرتشیخ الہندؒ :
اعلیٰ حضرت شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسن صاحب قدّس سرّہٗ نوراللہ مرقدہٗ اعلی اللہ مراتبہٗ کی خدمت میں اور اعلیٰ حضرت رائے پوری کی خدمت میں اس سیہ کار کی حاضری کی نوبت بہت ہی کم آئی، حضرت شیخ الہندکی خدمت میں تو بہت ہی کم آئی، اس لیے کہ اپنے والد صاحب قدّس سرّہٗ کی حیات میں تو یہ ناکارہ اسیر محض تھا، کہیں باہر آنا جانا تو درکنار، گنگوہ سہارنپور کے قیام میں شہر میں بھی کہیں مقامی جگہوں پرآنا جانا نہیں ہوتا تھا۔ والد صاحب کے وصال کے بعد جو ذیقعدہ ۱۳۳۴ ؁ھ میں ہوا، حضرت شیخ الہندؒ گویا اسیر مالٹا بن چکے تھے، مالٹا کے قیام کے زمانہ میں تو صرف اتنا ہی ہوتا تھا کہ حضرت مدنی قدّس سرّہٗ کے خطوط مالٹا سے اس سیہ کار کے نام کبھی کبھی آتے رہتے تھے، ان میں حضرت شیخ الہندؒ کی طرف سے ان ناکارہ کے خطوط کے جواب میں سلام دعائیں آتی رہتیں۔ ۲؍ جمادی الثانی ۱۳۳۸ھ میں شیخ الہندؒ مالٹا سے روانہ ہوئے اورراستہ میں مختلف شہروں میں قید کی حالت میں قیام کے بعد ۲۰؍ رمضان المبارک ۱۳۳۸ھ ؁ کو بمبئی جہاز سے اتر کر رہا ہوئے اور ۲۶؍ رمضان المبارک کو دیوبند پہنچے، عید سے دوسرے دن یہ ناکارہ سیدی ومرشدی حضرت اقدس سہارنپوری کے ساتھ دیوبند حاضر ہوا۔ ان دونوں اکابر کا بغل گیر ہونا بھی خوب یاد ہے اورحضر ت شیخ الہند کا نہایت مسرت کے ساتھ یہ ارشاد کہ ’’مولوی حسین احمد! مولانا کے لیے سبز چائے بناؤ‘‘ بھی خوب یاد ہے۔ حضرت شیخ الاسلام قدّس سرّہٗ نے نہایت مسرت کے لہجے میں فرمایا: حضرت ابھی لاتا ہوں، اس وقت یہ ناکارہ بھی ہمرکاب تھا اورحضرت نے بہت شفقت ومحبت سے مصافحے کے بعد یا د پڑتا ہے کہ سر پر ہاتھ بھی پھیرا تھا۔

Related Posts

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے